قومی اسمبلی میں سابق اور موجودہ ججز کے پلاٹوں کی تفصیلات منگوانے کا مطالبہ، ججز کی تنخواہوں اور پلاٹس کی تفصیلات بھی مانگ لی گئیں

3  مئی‬‮  2023

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزراء اور اراکین قومی اسمبلی اور قائد حزب اختلاف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا قومی اسمبلی اجلاس کا ریکارڈ مانگنا سنجیدہ معاملہ ہے،ہاؤس کا ریکارڈ ایوان سے پوچھے بغیر نہیں دیا جاسکتا، معاملہ ایوان کے سامنے رکھا جائے، ایوان کی کمیٹی بنائے اور بحث کرکے بتایا جائے کہ اسمبلی اجلاس کا ریکارڈ کیوں مانگا گیا ہے؟،

قرارداد کے ذریعے پورے ہاؤس کی کمیٹی بنائی جائے،پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کی غیر اخلاقی مداخلت روکی جائے،عدلیہ ہماری حدود میں نہ آئے، ہمیں بھی ان کی حدود میں نہیں جانا چاہیے،جسٹس منیر سے موجودہ عدلیہ تک آئین میں مداخلت کا معاملہ حل کیا جائے، آمروں نے جب جب آئین مسخ کیا عدلیہ نے اس پر انگوٹھے لگائے، سپریم کورٹ میں اکاون ہزار، ہائیکورٹس میں 4 لاکھ کیسز زیرالتوا ہیں، یہ ماتم کرنے کا مقام ہے جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے واضح کیا ہے کہ ایوان کی بالادستی پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، اللہ کی حاکمیت کے بعد تمام اختیارات کے مالک منتخب نمائندے ہیں۔

بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جس میں وفاقی وزیر میاں ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بروقت شروع ہونا چاہیے تاکہ ہم بھی بروقت اپنے گھروں میں جائیں، اس لئے ضروری ہے کہ آپ اپنی عدالت بروقت لگائیں۔ اس کے جواب میں سپیکر نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ارکان بروقت ایوان میں آئیں گے اور اجلاس بروقت شروع ہوگا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رکن قومی اسمبلی چوہدری محمد برجیس طاہر نے کہا کہ اجلاس بروقت شروع ہونا چاہیے، ہم ایوان میں بروقت آ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ چند روز قبل میں نے تجویز دی تھی کہ سپیکر عدلیہ کو خط لکھیں جس میں یہ کہا جائے کہ اگر توہین عدالت ہوتی ہے تو توہین پارلیمنٹ بھی ہوتی ہے، سپیکر کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے خط لکھا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب بھی سپریم کورٹ کی طرف سے پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ مانگا گیا جو انہیں نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی آن لائن جا رہی ہے، پوری دنیا میں کہیں بھی یہ کارروائی دیکھی اور سنی جا سکتی ہے، یہ ایوان سپریم ہے، اب بھی ریکارڈ نہ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عدالتوں کیلئے بڑی جدوجہد کی، 2008میں یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیراعظم پہلے دن ایوان میں کہا کہ میں ججوں کو بحال کرتا ہوں،

اس وقت ججوں کو جنرل پرویز مشرف نے گھروں میں نظربند کر رکھا تھا، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت انہیں بحال کیا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی تاریخ بلاشک و شبہ ہے، اس ایوان کے ارکان کا استحقاق بنتا ہے کہ یہ ریکارڈ کسی کو نہ دیا جائے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ سے ریکارڈ منگوایا گیا ہے، اپوزیشن کی طرف سے یہ درخواست کروں گا کہ کسی صورت یہ ریکارڈ فراہم نہ کیا جائے، ہم سب آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانچ پانچ کروڑ روپے میں صوبائی اسمبلیوں کی ٹکٹیں فروخت ہو رہی ہیں، عمران خان آج بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا، اسے پھر کل تک ریلیف مل گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنی زندگی میں پہلا الیکشن دیکھ رہا ہوں جس میں یہ لوگ پیسے لے کر ٹکٹیں دلوا رہے ہیں۔ غوث بخش مہر نے کہا کہ ہم عدالت، ججوں، آئین اور پارلیمنٹ کے خلاف نہیں ہیں۔ سپیکر نے کہا کہ عدالت کے خلاف کوئی بھی نہیں ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رکن اسمبلی اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 1997 میں سجاد علی شاہ نے ایوان کا ریکارڈ مانگا تھا، سپیکر ہم سے پوچھے بغیر یہ ریکارڈ نہیں دے سکتے، اس وقت کے سپیکر الٰہی بخش سومرو نے ہم سے پوچھے بغیر ریکارڈ دے دیا تھا، یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایوان کا حذف شدہ ریکارڈ بھی انہیں فراہم کیا جائے۔ انہوں نے سپیکر سے کہا کہ ریکارڈ کا معاملہ ہمارے سامنے رکھا جائے، پھر ہم فیصلہ کریں گے،

اس ایوان کی کمیٹی بنائی جائے، اس میں انہیں بلا کر پوچھا جائے کہ کیوں انہوں نے ریکارڈ مانگا ہے، یہ ایوان کی بالادستی کا معاملہ ہے، اس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جو آئین ہم نے بنایا ہے اس کے تحت ہی سپریم کورٹ کام کرتی ہے، یہ ایوان سپریم کورٹ کا خالق ہے۔وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہاکہ دو ادارے آمنے سامنے آ چکے ہیں، پورے ایوان کی کمیٹی بنائی جائے، آئین و قانون کی جو تشریح وہ کر رہے ہیں یا ہم جو آئین کی تشریح کر رہے ہیں اس میں کہیں نہ کہیں فرق ہے، میری استدعا ہے کہ اس ایوان میں ایک قرارداد پیش کی جائے جس میں کہا جائے کہ یہ ایوان سپریم کورٹ کا خالق ہے اور جن جن ججوں نے ماضی میں آئین کی خلاف ورزیاں کی ہیں وہ زندہ ہیں یا وفات پا چکے ہیں پورے ایوان کی کمیٹی بنا کر اس کی تحقیقات کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم عدالت کے خلاف نہیں ہیں مگر ہم اس بات کے خلاف ہیں کہ ہم ان کی اور وہ ہماری آئینی حدود میں مداخلت کریں، جب بھی ملک میں آئین کی خلاف ورزی ہوئی اس پر ججوں نے مہر تصدیق ثبت کی۔ انہوں نے کہا کہ اعلی عدلیہ میں ایک لاکھ 80 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں، صرف سپریم کورٹ میں 51 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں، اعلی عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری مقدمات کی سماعت اور انصاف کی فراہمی ہے، ضمانتوں کے ہزاروں مقدمات ہیں جو زیر التوا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں 4 لاکھ مقدمات زیر سماعت ہیں، لوگ پھانسی لگ جاتے ہیں بعد میں انہیں بے گناہ ثابت کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے قرارداد ڈرافٹ کی ہے اسے وزارت قانون کو بھیج کر رائے لی جائے، ہم یہاں کوئی غیر آئینی کام نہیں کریں گے۔

وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر نے کہا کہ آئین بنانا صرف اور صرف اس ایوان کا استحقاق ہے، کوئی بھی آئین میں ایک لفظ کا بھی اضافہ کرتا ہے تو وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے، عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ سمیت سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سیاسی مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے کرنے کی تجویز دی کیونکہ سیاستدانوں کے پاس ان مسائل کے حل کیلئے لچک موجود ہوتی ہے، ہم نے حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو اعتماد میں لے کر مذاکراتی عمل شروع کیا، ایک جماعت نے مذاکراتی عمل کا حصہ بننے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ انہیں پی ٹی آئی پر اعتماد نہیں ہے، پارلیمنٹ ہاؤس میں پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے، مختلف امور پر کافی پیش رفت ہوئی مگر بنیادی ایجنڈا انتخابات تھا،

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ایک ہی دن انتخابات کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے، ہمارا خیال یہ تھا کہ جب سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی مدت پوری نہیں ہوئی انہیں کیوں ختم کیا جائے، ان کا کیا قصور ہے، یہ دکھایا جا رہا ہے کہ ایک پارٹی نے تو بہت لچک دکھائی ہے اور دوسری طرف سے سختی برتی گئی ہے، یہ تاثر درست نہیں ہے، پی ٹی آئی نے جو رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے وہ کم از کم حقائق پر مبنی ہونی چاہئے۔اجلا س کے دور انبلوچستان سے رکن قومی اسمبلی خالد مگسی نے کہا کہ بلوچستان والے 70 سالوں سے سختیاں برداشت کر رہے ہیں، ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے، یہ جو کمیٹی بنائی ہے اس میں ہمیں نظر انداز کیا گیا ہے۔

سپیکر نے کہا کہ اس ایوان کی بالادستی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، اللہ کی حاکمیت کے بعد تمام اختیارات کے مالک منتخب نمائندے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے رولنگ دی کہ ایوان کی بالادستی پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، اللہ کی حاکمیت کے بعد تمام اختیارات کے مالک منتخب نمائندے ہیں۔ خالد مگسی کی طرف سے اٹھائے گئے نکتہ پر سپیکر قومی اسمبلی نے اپنی رولنگ دی۔ ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے پبلک اکانٹس کمیٹی (پی اے سی)کے چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ ہم نے ججز کی تنخواہوں اور پلاٹس کی تفصیلات بھی مانگ لی ہیں۔نور عالم خان نے کہا کہ ہم ججز کے خلاف نہیں ہیں، جہاں آئین کے خلاف کام ہوگا تو بات کریں گے۔

نور عالم خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا دس سال کا آڈٹ نہیں ہوا، ہم نے سپریم کورٹ کے پرنسپل اکانٹنگ آفیسر کو بلا لیا ہے، سابق چیف جسٹس نے مہمند ڈیم کے فنڈز کی تفصیلات نہیں بتائیں، ہم نے مہمند ڈیم کی تفصیلات بھی مانگ لی ہیں۔چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں کسی کی تذلیل نہیں کرنا چاہتے، آئین اگر کوئی بنا سکتا ہے تو وہ یہ ایوان ہے۔نور عالم خان نے کہا کہ 16 مئی کو سپریم کورٹ سے تفصیلات طلب کی ہیں۔پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رہنما وفاقی وزیر جاوید لطیف نے چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان سے سابق اور موجودہ ججز کے پلاٹوں کی تفصیلات منگوانے کا مطالبہ کردیا۔

جاوید لطیف نے کہا کہ پارلیمان کے سامنے کبھی بندوق اور کبھی ہتھوڑے والا ادارہ ہوتا ہے، یہ پارلیمان کو ڈرا دھمکا کر سمجھوتے پر مجبور کرتے ہیں۔جاوید لطیف نے کہا کہ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سابق اور موجودہ ججز کے پلاٹوں کی تفصیل منگوائیں، خصوصی کمیٹی میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو بھی بلایا جائے۔انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے تو ایک ادارے نے سمجھا یہ اتحاد ہمارے خلاف ہے، پھر ایک شخص کو لانچ کیا گیا، آج اس ادارے نے اعتراف کیا کہ یہ ملک کیلئے ٹھیک نہیں تھا، آج جو ہو رہا ہے وہ دوسرا ادارہ ہے جو سہولت کاری کیلئے بے تاب ہے، وہ ادارہ جو کبھی پیچھے اور آگے کھڑا ہوتا تھا وہ سامنے کھڑا ہے، سیاستدانوں کو تو ہمیشہ بلی چڑھایا جاتا رہا۔

جاوید لطیف نے کہا کہ جب بنی گالہ کو ریگولرائز کیا گیا اس وقت ثاقب نثار کا پلاٹ موجود تھا، اس وقت موجودہ لوگوں میں سے بھی ایک کا پلاٹ موجود ہے، نور عالم خان سے کہتا ہوں پلاٹوں کی تفصیل منگوائیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ آج پہلی دفعہ یہ پارلیمان آئین اور قانون کی تحفظ کیلئے کھڑی ہے، آج الیکشن کمیشن نے اپنی آزادی کیلئے آواز اٹھائی، الیکشن کمیشن کے پیچھے پارلیمان کھڑی نہیں ہوتی تو حال جسٹس وقار سیٹھ جیسا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پارلیمان 2017 میں کھڑا ہوتا، شاہد خاقان دوسرے روز کھڑے ہوجاتے تو تاریخ میں امر ہوجاتے، آپ آئین تشکیل دیتے ہیں، قانون بناتے ہیں مگر اس پر کوئی عمل نہیں ہوتا، صورتحال یہی رہی تو پھر یونہی آئین پامال ہوتا رہے گا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہاکہ ایک ایسا شخص جس کو صدر پاکستان کہتے ہیں،یہ شخص عمران خان کے ملازم کے طور پر کام کرتا ہے،بجائے اس کے مواخذے کے کہ اس کو نکالا جائے،اس نے جو کام اسمبلی کے ساتھ کیا ہے،اس نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد ختم کرتا ہوں،اس شخص نے اس اسمبلی کو تحلیل کیا۔ انہوں نے کہاکہ اگر صدر پاکستان کو شکریہ ادا کرنا آئینی ضرورت ہے تو اس کو ختم ہونا چاہیے،اس پہ دوبارہ غور کریں کہ صدر کا تشکر کرنا ہے یا اس پر؟،اب وقت آگیا ہے کہ تصحیح ہونی چاہیے،تمام اداروں کی تصحیح کرنی ہے،سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ اور ایگزیکٹیو کی زمہ داری سنبھالی ہے،اس اظہار تشکر پر خدارا آپ غور کریں۔ اس موقع پر اسپیکر نے رانا تنویر حسین سے کہاکہ آپ نے جو لفظ استعمال کیا ہے اس میں حذف کرتا ہوں۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…