’’پاکستان طالبان کو بھارت کیخلاف استعمال کر رہا ہے‘‘ امریکہ کے ایک بار پھر سنگین الزامات، طالبان سے مذاکرات کیلئے پاکستان کو اتنی بڑی آفر کر دی کہ سب حیران رہ گئے

7  دسمبر‬‮  2018

واشنگٹن (نیوز ڈیسک)امریکی سینٹرل کمانڈ سینٹ کام کے آئندہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل کینتھ میک کینزی نے کہا ہے کہ وہ افغان معاملے میں پاکستان کو ترجیحی شراکت دار بنائیں گے۔جنرل کینتھ میک کینزی نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک جواب میں لکھا کہ اس وقت پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پرآنے کی حوصلہ افزائی کے لے مکمل اثرو رسوخ

استعمال نہیں کر رہا۔انہوں نے کہا کہ ہم مسلسل یہ دیکھ رہے ہیں کہ طالبان کو مستحکم افغانستان کے بجائے بھارت کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔جنرل میکنزی نے اعتراف کیا کہ پاکستان کا قومی مفاد سیاسی طور پر مستحکم افغانستان سمیت خطے میں مستقبل کے کسی بھی سیاسی حل میں ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کی کمانڈ کے تحت امریکی سینٹ کام افغانستان میں تنازع کے سفارتی حل کے لیے کوششوں کی حمایت جاری رکھے گاجس میں یہ یقینی ہوکہ مستقبل میں کسی بھی معاہدے میں اسلام آباد کا حق تسلیم کیا جائے۔امریکی جنرل نے کہا کہ جنوبی ایشیاء میں استحکام امریکہ اور پاکستان دونوں کیلئے سب سے زیادہ اہم باہمی اسٹریٹجک دلچسپی ہے اور ہم پاکستانی قیادت کے ساتھ اس سلسلے میں ضرور رابطے میں رہیں گے کہ اس باہمی مفاد کو کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔جنرل مکینزی نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں طویل مدتی استحکام میں ایک اہم بنادی عنصرتھا اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا۔دوسری جانب امریکی اخبار وواشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے امریکا کی جنگ لڑتے ہوئے بہت زیادہ نقصان اٹھایا تاہم اب پاکستان امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر باقاعدہ تعلقات چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکا سے ایسے تعلقات کبھی نہیں چاہیں گے جس میں پیسے دے کر جنگ لڑنے

یا پاکستان کے ساتھ خریدی گئی بندوق جیسا برتا ئو کیا جائے، ہم خود کو دوبارہ اس پوزیشن میں نہیں ڈالیں گے، اس سے انسانی جانوں کا ضیاع، ہمارے قبائلی علاقوں کی تباہی اور ہمارا وقار مجروح ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امریکا کے ساتھ باقاعدہ تعلقات چاہتے ہیں، چین کے ساتھ ہمارے یکطرفہ تعلقات نہیں، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات بھی ہیں اور ہم اسی طرح کے تعلقات امریکا

سے بھی چاہتے ہیں۔وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ آپ امریکا کے بہت مخالف ہیں جس کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا اگر آپ امریکا کی پالیسیوں سےاتفاق نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ امریکا کے خلاف ہیں، یہ سامراجی سوچ ہے کہ آپ میرے ساتھ ہیں یا میرے خلاف۔ عمران خان نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہوں کا الزام لگایا تھا،

جب حکومت میں آیا تو سیکورٹی فورسز سے مکمل بریفنگ لی اور وقتا فوقتا امریکا سے کہا کہ بتائیں پاکستان میں پناہ گاہیں کہاں ہیں تاکہ اسے چیک کریں، پاکستان میں طالبان کی کوئی پناہ گاہیں نہیں ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ ٹوئٹ اور اس پر جواب سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ٹوئٹر پر ٹرمپ کو جواب دینے کا مقصد ریکارڈ درست کرنا تھا، جواب میں

لکھا تھا کہ امریکی صدر کو تاریخی حقائق پتہ ہونا چاہیے۔وزیراعظم نے واضح کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ہرزہ سرائی کا سوشل میڈیا پر جواب ٹوئٹر جنگ نہیں تھی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لکھے گئے خط کے سوال پر وزیراعظم نے کہا افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے جس کے لیے ہم بھرپور تعاون کریں گے، یہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ

افغانستان کا 40 فیصد حصہ افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔امریکی حکام کہتے ہیں پاکستان طالبان رہنما ئو ں کو پناہ دیتا ہے، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہاوہ ان الزامات کو نہیں سمجھ سکے، ایسا ملک جس کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملوں سے کوئی تعلق نہیں، کوئی پاکستانی اس میں ملوث نہیں، القاعدہ افغانستان میں ہے، اس کے باوجود پاکستان کو کہا گیا امریکی جنگ کا حصہ بنیں۔

وزیراعظم نے کہا پاکستان میں مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے امریکی جنگ کی مخالفت کی، اگر ہم اس جنگ میں نہ پڑتے تو خود کو تباہی سے بچا سکتے تھے،امریکا کا اتحادی بننے کے بعد پاکستان نے 80 ہزار جانوں کو نذرانہ پیش کیا، تقریبا 150 بلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، نہ ہی سرمایہ کار اور نہ ٹیمیں یہاں آرہی ہیں اور پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک بھی قرار دیا گیا۔امریکی فوج کی

افغانستان سے واپسی اور مسئلہ کے حل کیلئے کسی نتیجے پر پہنچنے سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا وہ گزشتہ کئی سالوں سے کہہ رہے ہیں کہافغانستان کے مسئلے کا فوجی حل نہیں اور یہ بات کہنے پر انہیں طالبان خان بھی کہا گیا، اگر آپ امریکا کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے تو آپ امریکا مخالف بن جاتے ہیں۔ لیکن اب میں خوش ہوں کہ ہر کسی نے تسلیم کیا کہ افغان مسئلے کا سیاسی حل ہے،

ہم نہیں چاہیں گے کہ امریکا افغانستان سے جلد بازی میں نکلے جس طرح اس نے 1989 میں کیا تھا۔وزیراعظم نے کہا 1989 میںجب سویت یونین افغانستان سے نکلا تو امریکا نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا، امریکا افغانستان میں پہلے حالات ٹھیک کرے پھر تعمیر نو کے لیے بھی اس کی ضرورت ہوگی۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں 27 لاکھ افغان مہاجرین اب بھی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، پاک افغان سرحد کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے جہاں سے دہشت گردوں کی آمدو رفت مشکل ہے۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…