نوازشریف کی طرح یہ آزادی مجھے بھی دی جائے،پارٹی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دینے کے بعد مشرف کھل کر بول پڑے

23  جون‬‮  2018

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سابق صدر جنرل ریٹائرڈسید پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ سیاست سے کنارہ کش نہیں ہوئے،پارٹی چیئررمین شپ سے استعفیٰ قانونی مشاورت کے بعد کیا ہے ٗپارٹی چیئرمین کے طور پر ڈاکٹر محمد امجد اور سیکرٹری جنرل کے طور پر مہرین ملک آدم موزوں ترین ہیں،پارٹی کارکنان انہیں سپورٹ کریں، میں انہیں سپورٹ کروں گا۔وطن واپس آ کر انتخابات میں حصہ لینے کا پورا ارادہ تھا مگر راہ میں حائل رکاوٹیں دور نہ ہوسکیں۔

پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد اس وقت وطن واپس نہ آنے کا فیصلہ کیا ٗاے پی ایم ایل کے امیدواران الیکشن میں جائیں انہیں بھر پور سپورٹ کروں گا ٗآنے والے وقت میں اچھے مواقع آئیں گے جن کے مطابق فیصلے کریں گے۔ہفتہ کو اپنے جاری کئے گئے ویڈیو پیغام میں سید پرویز مشرف نے کہا کہ میرے پارٹی چیئرمین شپ سے استعفیٰ کے بعد میری طرف سے سیاست چھوڑ دینے کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں اس لئے میں ذاتی طور پرقوم کو ان امور سے متعلق وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وطن واپس آکر ان کا انتخابات میں حصہ لینے اور عدالتوں کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنے کا ارادہ تھا مگر اس ارادے کی تکمیل کی راہ میں کچھ رکاوٹیں تھیں جن کا دور ہونا ضروری تھا۔انہوں نے کہا کہ سب سے پہلی بات یہ تھی کہ مجھے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔ خواجہ آصف کی نااہلی کے احکامات ہائی کورٹ نے جاری کئے تھے، میرے بارے میں فیصلہ بھی ہائی کورٹ نے جاری کیا تھا۔جس طرح سپریم کورٹ نے خواجہ آصف کے معاملے میں ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کیا ہے اسی طرح میرے ساتھ بھی ہونا چاہئیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔دوسری بات یہ تھی کہ میرا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ میں نہ ڈالا جائے۔ میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا۔

وہ لنڈن سمیت کہیں بھی جا سکتے ہیں ٗملک بھر میں جلسوں سے خطاب بھی کرتے ہیں تو مجھے بھی یہ آزادی دی جائے۔تیسری بات یہ تھی کہ وطن آنے پر مجھے گرفتار نہ کیا جائے۔سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مجھے عدالت میں پیش ہونے تک گرفتار نہیں کیا جائے گا،اس کے بعد کیا ہوگایہ بات مبہم تھی۔انہوں نے کہاکہ یہ چیزیں میرے ارادے کی راہ میں رکاوٹ تھیں۔وطن واپس آکر اگر میں نقل و حرکت ہی نہ کرسکوں تو اپنی جماعت کے لئے کیا کرسکوں گا۔

چنانچہ پارٹی راہنماؤں سے مشاور کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ وقت واپسی کے لئے موزوں نہیں ہے کیوں اس طرح مجھے پریشانی اور پارٹی کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔چنانچہ ان فیصلوں سے لوگوں نے سمجھا کہ شاید میں نے سیاست چھوڑ دی ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے،ہم مناسب وقت پر معاملات آگے بڑھائیں گے۔پارٹی چیئرمین شپ سے مستعفی ہونے کا فیصلہ قانونی مشاورت کی روشنی میں کیا۔میں نے مناسب سمجھا کہ عدالتی فیصلے پر عہدے سے ہٹائے جانے سے بہتر ہے کہ میں از خود چئیرمین شپ سے مستعفی ہوجاؤں۔

اب پارٹی چیئرمین کے لئے ڈاکٹر محمد امجد اور سیکرٹری جنرل کے لئے مہرین ملک آدم موزوں ترین ہیں ٗتمام پارٹی اراکین ان کی حمایت کریں اور آپس کے چھوٹے موٹے اختلافات بھلا کر متحد ہوجائیں۔اس کے بغیر ہم جوحاصل کرسکتے ہیں وہ نہیں کرسکیں گے۔پارٹی کے تمام لوگ ڈاکٹر محمد امجد اور مہرین آدم کی بھرپورحمایت کریں۔میں آپ کی بھرپور حمایت کروں گا ٗآنے والے وقت میں بہت سے مواقع ملیں گے جن کے مطابق فیصلے کریں گے اور میں دوبارہ پارٹی کا چیئرمین بنوں گا۔آل پاکستان مسلم لیگ کے تمام امیدواران اسی جوش و جذبے سے انتخابات میں حصہ لیں۔اچھے سے اچھا کام کریں۔میری مدد اور ہمدردی آپ کے ساتھ ہے۔

موضوعات:



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…