اقتدار کی ”کرسی“ اب کس کی ہے؟ ن لیگ نے خود 2013ء کے الیکشنوں میں 145 ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیئے تھے جوالیکشن سے پہلے مسلم لیگ ق سے ن لیگ میں آئے تھے‘ لوٹے جب آپ کیلئے حلال تھے تو یہ آج پی ٹی آئی کیلئے کیسے ناجائز ہو گئے؟جاوید چودھری کاتجزیہ‎

11  جون‬‮  2018

پارٹیاں بدلنے والے لوگ جنہیں عرف عام میں لوٹا کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کسی صاحب سے کسی نے پوچھا ‘ تمہیں پارٹی بدلتے ہوئے شرم نہیں آتی، اس نے ہنس کر جواب دیا میری پارٹی کرسی ہے‘ میں نے کبھی اپنی کرسی نہیں بدلی‘ یہ پارٹیاں ہیں جو اپنی کرسیاں بدلتی رہتی ہیں‘ سیاست ہو یا سپورٹس ان کا ایک ہی گول ہوتا ہے اور وہ گول ہوتا ہے جیت ‘ پارٹیاں۔ اس گول کیلئے الیکٹیبلز سے لے کر عوام کو بے قوف بنانے تک سارے دھندے کر گزرتی ہیں ‘ آج پاکستان تحریک انصاف پر اعتراض کیا جاتا ہے۔

اس نے پنجاب سے قومی اسمبلی کیلئے 113 ٹکٹ جاری کئے‘ ان میں سے اکثریت ایسے امیدواروں کی ہے جو اپریل سے جون کے درمیان تین ماہ میں پارٹی میں شامل ہوئے‘ دس ایسے امیدوار بھی ہیں جو مئی میں پارٹی میں شامل ہوئے جبکہ سردار غلام عباس پانچ دن پہلے پارٹی میں داخل ہوئے اور انہیں اس نور حیات کلیار کی جگہ ٹکٹ مل گیا جو پارٹی کے نظریاتی کارکن بھی ہیں اور جنہوں نے 2013ء میں میاں نواز شریف کے مقابلے میں 45 ہزار ووٹ بھی لئے تھے‘ پارٹی نے ٹکٹ دیتے وقت شہریار آفریدی‘ علی محمد خان اور شوکت یوسف زئی جیسے ڈائی ہارٹ ورکروں کو بھی مسترد کر دیا‘ شہریار آفریدی اور شوکت یوسفزئی کو بعد ازاں کارکنوں کے شدید احتجاج پر ٹکٹ دے دیے گئے لیکن علی محمد خان جیسا پڑھا لکھا‘ سلجھا ہوا اور پانچ برسوں میں عمران خان کا سب سے بڑا دفاع علی محمد خان آج بھی ٹکٹ سے محروم ہے اور یہ نظریات کی توہین ہے وغیرہ وغیرہ‘ یہ اعتراضات درست ہو سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے یہ اعتراضات کر کون رہا ہے‘ یہ اعتراضات وہ پاکستان مسلم لیگ ن کر رہی ہے جس نے خود 2013ء کے الیکشنوں میں 145 ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیے تھے جو الیکشن سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ق سے ن لیگ میں آئے تھے‘ لوٹے جب آپ کیلئے حلال تھے تو یہ آج پی ٹی آئی کیلئے کیسے ناجائز ہو گئے‘ ان کامیاب لوگوں کی پارٹی کرسی ہے‘ آپ کے پاس تھی تو یہ آپ کے پاس تھے‘

یہ اب عمران خان کی طرف جاتی ہوئی نظر آ رہی ہے تو یہ عمران خان کے ساتھ ہیں اور اگر یہ کرسی کل افتخار محمد چودھری کے دروازے کی طرف کھسک گئی تو یہ وہاں چلے جائیں گے تو پھر ایشو کیا ہے‘آپ برا کیوں منا رہے ہیں‘ ملک میں جب جیت سب کچھ ہے تو آپ بھی یہ اصول مان لیں‘کم از کم نظریات کا ماتم کرنا بند کریں‘ ن لیگ کو آج اپنی ہی پالیسی پسند کیوں نہیں آ رہی‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا جبکہ میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے آج احتساب عدالت سے اپنا وکالت نامہ واپس لے لیا،کیا یہ واقعی نواز شریف کی طرف سے کیس کو ڈیلے کرنے کی کوشش ہے‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…