پاکستان میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کیلئے دھاندلی کی ابتدا کس نے کی؟ ایسے نام کا انکشاف جسے جان کر آپ کو یقین نہیں آئے گا

22  مارچ‬‮  2018

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ایک موقر قومی روزنامے میں چھپنے والے اپنے کالم میں سینئر صحافی و کالم نگار ہارون رشید نے لکھاکہ جہاں جوہڑ ہو گا‘ مینڈک اور کچھوے بھی ہوں گے۔ جہاں جنگل ہو گا، وہاں کیا جانور نہ ہوں گے؟ درندے نہ ہوں گے؟راؤ انوار پہ اب کہانیاں لکھی جائیں گی۔ ایک سے ایک سنسنی خیز‘ ایک سے ایک انکشاف انگیز۔ اس سوال سے کم ہی بحث ہو گی کہ وہ کیسا معاشرہ ہے‘ جس میں عزیر بلوچ‘ راؤ انوار اور چوہدری اسلم ایسے کردار جنم لیتے اور فروغ پاتے ہیں۔

پانچ برس ہوتے ہیں۔ کراچی کے ایک ممتاز فوجی افسر نے‘ جو بعد ازاں ایک بہت بڑے عہدے پہ پہنچا‘ ناچیز سے بیان کیا کہ الیکشن 2013ء میں چوہدری اسلم دندناتا پھر رہا تھا۔ ایم کیو ایم کے ڈبے ووٹوں سے بھر رہا تھا۔ گرفتاری کی دھمکی پر قرار آیا۔کامران شاہد کے پروگرام میں عرض کرنے کی جسارت کی کہ ایم کیو ایم کبھی لوگوں کو دھمکایا کرتی تھی۔ اس پر ایک لیڈر بھڑکے۔ اخبار نویسوں کو حقیر مخلوق قرار دیا اور معافی کا مطالبہ کیا۔ معافی؟ عرض کیا‘ کس چیز کی معافی؟ اخبار نویس حقیر ہوتے ہیں نہ برتر۔ کردار ایک شخصی چیز ہے۔ گلی کی نکڑ پر جوتیاں گانٹھنے والا موچی‘ ایک عظیم مصنف‘ ایک شہرہ آفاق شاعر‘ ایک وزیر اعظم اور سپہ سالار سے زیادہ معزز ہو سکتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں‘ جہاں شریعت‘ حب الوطنی اور جمہوریت‘ ہر چیز بازار میں بکتی ہو‘ اگر راؤ نہیں تو کیا فضیل بن عیاضؒ پیدا ہوں گے۔ جو معاشرہ‘ آصف علی زرداریوں اور ڈاکٹر عاصموں کو گوارا کرتا ہے۔ جو عامر لیاقتوں اور طلال چوہدریوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے‘ اس کی راہگزر میں کیا پھول مہکیں؟1968ء کے ہنگامہ خیز ایام میں یہ ناچیز ریاست اور صحافت کی ابجد سے آشنا ہوا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور نواب زادہ نصراللہ خاں سمیت ہمارے معزز اور محترم لیڈروں نے بتایا کہ فوجی حکمران سے نجات پا لی جائے تو ملک ادبار سے بھی نجات پا لے گا۔ تمام تر خامیوں کے باوجود‘ فیلڈ مارشل عزتِ نفس کے حامل تھے۔

”ایوب کتا‘ ہائے ہائے‘‘ کے نعرے سن کر‘ وہ پسپا ہو گئے تو کون بروئے کار آیا؟ جنرل آغا محمد یحییٰ خان‘ ایک نفسیاتی مریض۔ مگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا کارنامہ کیا اس نے تنہا انجام دیا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو ان کی پشت پر نہ کھڑے تھے۔ کیا ببانگِ دہل آنجناب نے اعلان نہ کیا تھا کہ مشرقی پاکستان جانے والے ارکان اسمبلی کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ احمد رضا قصوری نے ان سے اختلاف کیا اور ایک دن ان کے والد قتل کر دیئے گئے۔ تنہا بھٹو ہی کیا‘ مغربی پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو کس نے روکا تھا کہ وہ 300 کے ایوان میں 161 نشستیں حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار سونپنے کے مطالبے پر ڈٹ جائیں۔

عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے اختلاف پر وہ شاد تھیں‘ حتیٰ کہ ملک دولخت ہو گیا‘ حتیٰ کہ ہولناک عوامی دباؤ میں خود فوجی افسروں نے یحییٰ خان کو اٹھا پھینکا اور بھٹو سریر آرائے سلطنت ہوئے۔ فخرِ ایشیا‘ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو‘ سکندر مرزا کے نام‘ جن کا خط ریکارڈ پر ہے کہ عہدِ آئندہ کا مورخ انہیں قائد اعظم سے برتر مقام دے گا۔ بھٹو نے بلوچستان پر یلغار کی‘ حریفوں پر گولیاں برسائیں‘ جیلوں میں ڈالا اور جی بھر کے ان کی تذلیل کی۔ بینک‘ انشورنس کمپنیاں کیا‘ آٹا پیسنے اور چاول صاف کرنے کے کارخانے تک قومیائے‘ حتیٰ کہ اس کا یوم حساب آ پہنچا۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی وحشت میں ڈٹ کر اس نے دھاندلی کی۔

اس کے بعد آج تک‘ ایک بار بھی قابل اعتبار الیکشن نہ ہو سکے۔ 2018ء میں بھی ہرگز ہرگز‘ اس کی کوئی امید نہیں۔ جتنا جس کا بس چلے گا دھاندلی فرمائے گا۔پلڈاٹ کا سروے کہتا ہے کہ 62 فیصد سندھی‘ سول کی بجائے فوجی حکومت چاہتے ہیں۔ زرداری خاندان کے اقتدار سے خلق خدا کی بیزاری آخری درجے میں داخل ہو چکی۔ دو ماہ قبل ایک چھوٹے سے قصبے میں اپوزیشن پارٹیوں کے اجتماع میں سامعین کی تعداد 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور میں عمران خان کے تاریخی جلسہ عام سے زیادہ تھی۔ تجزیہ نگار اس کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ سندھ میں زرداری کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ بالکل ٹھیک، پیپلز پارٹی کے مخالفین کا مقابلہ‘ ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ پولیس اور انتظامیہ سے ہو گا۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…