نقیب محسود یا نسیم اللہ کا قتل! حقیقت کیا ہے؟ چونکا دینے والے انکشافات، ایس ایس پی راؤ انوار مبینہ ثبوت سامنے لے آئے، اہم سیاستدانوں پر سنگین الزامات عائد

19  جنوری‬‮  2018

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نقیب اللہ سے جو شناختی کارڈ برآمد ہوا ہے اس میں اس کا نام نسیم اللہ ہے اور یہ حب میں مقیم تھا جہاں یہ ٹی ٹی پی نیٹ ورک چلا رہا تھا، اس سے پہلے یہ لوگ ڈیرہ اسماعیل میں کام کرتے رہے، اب یہ کچھ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ کراچی میں تھا یہ یہاں پولیس کے ان کاؤنٹر میں مارا گیا ہے، راؤ انوار نے کہا کہ نقیب کے پاس نسیم اللہ کے

نام سے جعلی شناختی کارڈ تھا، اس کے بے تحاشا جرائم ہیں، ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے کہا کہ میرے علاقے میں کافی سارے جرائم پیشہ افراد کی مختلف سیاسی جماعتیں پشت پناہی کر رہی ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے لیے کسی شخص کو استعمال کرتی ہیں، انہوں نے کہا کہ یہاں مختلف جرائم پیشہ افراد بہت سی سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے ہیں۔ جب راؤ انوار سے سوال کیا گیا کہ آپ کیا کہتے ہیں کہ اس کا بھی کسی سیاسی جماعت سے تعلق تھا جس پر راؤ انوار نے کہا کہ اگر یہ خود نہیں تو اس کا کوئی عزیز ہو گا، یہ یہاں ایک فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا اور اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا رہی ہیں، نقیب اللہ سہراب گوٹھ میں ساٹھ ستر لاکھ سے کاروبار کرنا چاہ رہا تھا، ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے کہا کہ ایک فیکٹری ملازم کیسے ساٹھ ستر لاکھ سے کام شروع کر سکتا ہے وہ یہ رقم کہاں سے لا سکتا ہے، راؤ انوار نے کہا کہ یہ مختلف اوقات میں کراچی آتا رہا ہے دوبارہ چلا جاتا تھا جس طرح یہ ڈیرہ اسماعیل خان میں آتا جاتا رہتا تھا، ایک انٹیلی جنس اطلاع پر چھاپہ مارا گیا جس میں یہ مارا گیا، راؤ انوار نے کہا کہ اس کا ایک بہنوئی یہاں کراچی میں رہتا ہے، سوشل میڈیا پر نقیب اللہ کے متعلق جو خبریں چلائی جا رہی ہیں وہ بے بنیاد ہیں، یہ کمپین سب سے پہلے کسی بلوچ نے چلائی ہے، کوئٹہ میں ٹی ٹی پی اور طالبان کس قدر مضبوط ہو گئے ہیں آپ جانتے ہیں، کراچی میں ان لوگوں کے خلاف آپریشن کیا گیا ہے

جس پر یہ بلوچستان چلے گئے ہیں، اسی وجہ سے کراچی بالکل محفوظ ہے یہاں اغوا کی کوئی واردات نہیں ہو رہی ہے۔ یہاں پر تاجروں کو اغوا کیا جاتا تھا اس وقت یہ تمام وارداتیں تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ ان سے سوال کیا گیا کہ بلاول بھٹو نے نوٹس لیتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ سے اس واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے کیونکہ لوگ اسے مشکوک جعلی مقابلہ کہہ رہے ہیں، جس پر ایس ایس پی ملیر نے کہا کہ اگر انہوں نے سوشل میڈیا پر دیکھ کر نوٹس لیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں میرے پاس 101 فیصد ثبوت موجود ہیں، یہ جن لوگوں کے ساتھ مارا گیا وہ سارے جرائم پیشہ افراد تھے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…