پاکستان میں حالات 1970ء سے بھی زیادہ خراب ہو گئے، کیا ہونیوالا ہے؟ چوہدری نثار نے خطرناک دعویٰ کر دیا

30  اکتوبر‬‮  2017

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ وزیراعظم کو ٹیکنو کریٹ حکومت کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی، تفصیلات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ٹیکنوکریٹ حکومت کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی، انہوں نے کہا کہ انتخابات ملتوی نہیں ہونے چاہئیں ورنہ بہت نقصان ہو گا،

چوہدری نثار نے کہا کہ پاناما کے معاملے پر تقریر نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، اس کے علاوہ سپریم کورٹ کو کمیشن کے لیے خط بھی نہیں لکھا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کے حالات 1970ء سے زیادہ مشکل دیکھ رہا ہوں، اُس وقت تو صرف ایک ملک سے خطرہ تھا لیکن اب بہت سارے ملکوں سے پاکستان کو خطرہ ہے، کچھ خطرات تو سامنے ہیں مگر کچھ چھپے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے کوئی اقدامات بھی نہیں کیے جا رہے، چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ سب معمول کے کام کرنے میں مصروف ہیں، امریکہ کے صدر ٹرمپ کی پالیسی پر پہلی دفعہ ایک متحد نقطہ نظر دیا جس پر امریکہ کو اپنی پالیسی بدلنا پڑی، اس متحدہ محاذ پر تمام ادارے، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں اور عوام متحد رہے اور اسی اتفاق کی وجہ سیامریکہ کو اپنی پالیسی بدلنا پڑی۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ حساس اداروں کی طرف سے جو بھی بریفنگ ہوتی ہے وہ انتہائی حساس ہوتی ہے، اس قسم کی بریفنگ میں خطرات کے حوالے سے بہت سی باتیں کی جاتی ہیں، انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)کی قیادت گومگو اور ذاتیات سے باہر نکلے اور مجموعی پارٹی کے مسائل پر سوچا جائے، اگر ہم نے انفرادی سوچ رکھی تو سب کو نقصان ہو گا،

انہوں نے کہا کہ ہمیں پارٹی کے لارجر انٹرسٹ کو دیکھنا ہو گا، میں آخری شخص ہوں گا جو کہے گا کہ الیکشن ملتوی ہوں، انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے اپنے ایشوز کے بارے میں کہا کہ میرے جو بھی ایشو ہیں میں پارٹی میٹنگز میں بیان کیے، ہماری جماعت میں ایک مفاہمتی گروپ ہے اور ایک مزاحمتی گروپ، پارٹی کے اندر اختلاف رائے ضرور ہے مگر تقسیم کوئی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) سیاسی جماعت ہے اور اگر ن لیگ میں اختلاف رائے ہے تو یہ جمہوری نظام کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ہم خود گئے، میں نے منع کیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ کمیشن بنانا اور امیونٹی چھوڑنا کس کا مشورہ تھا؟ اب جو نقصان ہونا تھا ہو چکا ہمیں اب ٹھنڈے مزاج کے ساتھ چلنا چاہیے اور عدالت کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہیے۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…