مالی سال2017-18کا بجٹ،کیا مہنگا ہوگا اور کیا سستا؟تنخواہیں ،پنشن اور الاؤنسز کا کیا ہوگا؟مکمل تفصیلات اس خبرمیں

27  مئی‬‮  2017

اسلام آباد (آئی این پی )مالی سال2017-18کا 4ہزار 7سو78ارب(47کھرب اور78ارب ) حجم کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیاگیا جس کے تحت ایڈہاک الاؤنس کو ضم کرکے سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں 10 فیصداضافے،محنت کش کی کم سے کم اجرت ایک ہزارروپے اضافے کے ساتھ 14ہزار سے بڑھا کر 15ہزار روپے کرنے ،دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی کامیابیوں کا اعتراف کرتے ہوئے

فوجی افسروں اور جوانوں کے لئے 10فیصد سپیشل الاؤنس اورچھوٹے کسانوں کو کم شرح سو د پر قرضوں کی فراہمی، امونیا کھاد کی قیمت میں کمی کا اعلان کیاگیا ہے جبکہ بجٹ کے تحت لگائے گئے نئے ٹیکس اور ڈیوٹیوں میں اضافے کے نتیجے میں سیمنٹ ،سریا،در آمدی کپڑے ، سگریٹ ، پان ، چھالیہ ، چاکلیٹ، کاسٹمیٹکس ، الیکٹرانکس ،دوائیں مہنگے ہوگئیں جبکہ چھوٹی گاڑیاں ، سمارٹ موبائل فون ، فون کال ، مرغی ، شترمرغ ، ٹیکسٹائل ، امونیا کھاد ، زرعی مشینری ، بے بی ڈائپرز ہائبریڈ کا ر ،لبریکٹینگ آئل او ر ٹیوب ویل کے لئے بجلی سستی ہوگئی ، 85ہزارروپے سے زائد ماہانہ تنخواہ لینے والوں کو ایڈوانس ٹیکس دیناہوگا ، 1 تا 5 گریڈ کے سرکاری ملازمین ہاؤس رینٹ الاؤنس کٹوتی سے مستثنیٰ ہونگے ، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب وزیر اعظم اور و زیر خزانہ مسلسل پانچواں بجٹ پیش کر رہے ہیں۔ یہ چیز مضبوط جمہوریت کی عکاسی کرتی ہیں جس پر پوری قوم فخر کر سکتی ہے،انشاء اللہ آئندہ سال لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کا سال ہو گا۔ نوشتہ دیوار آج بھی واضح ہے صرف پیغام تبدیل ہوا ہے۔ آج معتبر عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان 2030ء تک دنیاکی 20 بڑی اقتصادی طاقتوں میں شامل ہو جائے گا۔جمعہ کو قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ برائے 2017-18 پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحا ق ڈا ر نے کہاکہ میں آج

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا مسلسل پانچواں بجٹ پیش کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب وزیر اعظم اور و زیر خزانہ مسلسل پانچواں بجٹ پیش کر رہے ہیں۔ یہ چیز مضبوط جمہوریت کی عکاسی کرتی ہیں جس پر پوری قوم فخر کر سکتی ہے۔ میں بڑی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھ ناچیز کو ی ہمواقع دیا۔ اگلے مالی سال کے بجٹ کی تفصیلات بتانے سے پہلے میں مختصر طور پر پچھلے چار سال میں طے کئے گئے فاصلے کا احوال بتانا چاہتا ہوں اگر میں کہوں کہ جون 2013ء میں پاکستان اپنی مالی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ کرنے کے قریب تھا تو یہ ایک حقیقت تھی۔ ہمارے فاریکس ریزرو دو ہفتے کی درآمدات کے برابر اور تاریخ کی کم ترین سطح پر تھے۔ بڑی ادائیگاں واجب الادا تھیں اور کمرشل بنک تو کیا دیگر بنک بھی پاکستان کے ساتھ کام کرنے سے گریزاں تھے۔ اس سال ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں اضافے کی شرح 3.38 فیصد تھی جبکہ اخراجات بہت زیادہ تھے۔

نتیجے میںFiscal Deficit ‘ 8 فیصد سے تجاوز کر چکا تھا۔ توانائی کا بحران حد سے زیادہ تھا۔ شہروں میں 12 سے 14 گھنٹے اور دیہات میں 16 سے 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی تھی۔ نوشتہ دیوار اس بات سے بالکل واضح تھا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان معیشت کو مائیکرواکنامک اعتبار سے ناہموار قرار دیا جا چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان تیز تر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس سال ہمارے جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح 5.3 فیصد ہے جو کہ پچھلے سال میں ترقی کی بلند ترین شرح ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر مناسب سطح پر ہیں جو کہ چار ماہ کی برآمدات کے لئے کافی ہیں۔ گزشتہ 4 سال کے دوران ٹیکس وصولیوں میں 81 فیصد اضافہ ہوا ہے جو اوسطاً 20 فیصد اضافہ ہے۔ 2013ء سے اب تک پرائیویٹ سیکٹر کو قرضے کی فراہمی میں پانچ گنا سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً 4.2 بہتر ہو گا۔ اس سال مشینری کی درامد میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ گیس کی فراہمی بہتر ہوئی ہے اور صنعت کیلئے لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے جبکہ تجارتی اور گھریلو صارفین کیلئے لوڈ شیڈنگ میں واضح کمی ہوئی ہے۔ انشاء اللہ آئندہ سال لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کا سال ہو گا۔ نوشتہ دیوار آج بھی واضح ہے صرف پیغام تبدیل ہوا ہے۔

آج معتبر عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان 2030ء تک دنیاکی 20 بڑی اقتصادی طاقتوں میں شامل ہو جائے گا۔ پوری قوم اس متاثر کن تبدیلی کے کریڈٹ کی مستحق ہے اور میں اس ٹرن ار اؤنڈ پر اللہ کا شکر گادا کرتا ہوں جس کی مدد کے بغیر4 سال کے قلیل عرصہ میں یہ ناممکن تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس معزز ایوان ‘ وزیر اعظم اور پوری قوم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ ایک طویل عرصہ کے بعد اس سال حکومت پاکستان نے پہلی مرتبہ صرف قومی ترقی کیلئے قرضے لئے ہیں۔ پہلے ہم نہ صرف ترقیاتی ضروریات بلکہ غیر ترقیاتی اخراجات کیلئے بھی قرضے لیتے تھے۔ یہ قرضے ہمیں معاشی تنزلی کی طرف لے جا رہے تھے جہاں ہمیں روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لئے بھی ادھار لینا پڑتا تھا۔ اور ان قرضوں پر منافع کی ادائیگی میں بجٹ کا خطیر حصہ خرچ کرنا پڑتا تھا۔ یہ تبدیلی اچھے مالیاتی نظام ‘ محاصل ‘ بڑھانے پر مستقل توجہ دینے اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرنے سے حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ معمولی کامیابی نہیں کسی بھی حکومت یا ادارے کے لئے ترقیاتی مقاصد کے لئے قرض لینے میں کوئی عار نہیں کیونکہ اس کے سماجی اور معاشی فوائد اس پر دئیے جانے والے شرح سود سے زیادہ ہوتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ پاستان کے عوام اور ملک کے بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری سے تیز تر پائیدار اور اجتماعی ترقی حاصل ہو گی۔ انہوں نے کہاکہ میں اس ایوان کو اس بات سے بھی آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کے جنرل الیکشن 2013ء کے منشور کے مطابق پاکستان نے ستمبر 2016ء تک اصلاحاتی پروگرام کامیابی سے مکمل کرلیا ہے۔ اس دوران ملک میں انتہائی اور مشکل ریفارمز کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے۔ اس پروگرام کی تکمیل سے بین الاقوامی برادری کا ہمارے معاشی ایجنڈے پر اعتماد مضبوط ہوا ۔ حکومت نے ملک کی خود انحصاری کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ جس کا اعتراف عالمی برادری بھی کر رہی ہے اور جس کی عکاسی دنیاکی بڑی ریٹنگ ایجنسیز کی جانب سے پاکستان کی ریٹنگ بہتر کرنے سے بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب میں اس معزز ایوان کے سامنے پاکستانی معیشت کی چار سالہ کارکردگی کا جائزہ پیش کرتا ہوں ۔ اس سال جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 5.28 فیصد رہی جو کہ پچھلے دس برسوں کی بلند ترین شرح ہے۔ چار سال پہلے معاشی ترقی کی شرح 3.68 فیصد تھی۔ رواں سال عالمی معیشت میں 3.5 فیصد کی شرح سے اضافہ کی توقع ہے۔ اس تناسب سے تقابلی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی معاشی کارکردگی دنی اکے اکثر ممالک کی کارکردگی سے بہتر رہی ہے۔

معاشی ترقی کی بلند ترین شرح کے سبب پاکستان میں ہر لحاظ سے بہتری آئی ہے۔ پہلی دفعہ پاکستان کی معیشت کا حجم 300 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا زرعی شعبہ اب بہتری کی راہ پر گامزن ہے ۔ حالیہ سال اس کی کارکردگی متاثر کن رہی ہے۔ گزشتہ سال زرعی پیداوار میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا تھا اس کے مقابلے میں رواں سال ہونے والا 3.46 فیصد کا اضافہ حوصلہ افزا ہے۔ تمام بڑی فصلوں بشمول گندم کپاس ‘ گنا اور مکئی کی پیداوار میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ جمود کا شکار زرعی شعبہ میں یہ بہتری ستمبر 2015ء میں وزیر اعظم کے اعلان کردہ کسان پیکج اور اس ایوان کے منظور کردہ بجٹ 2016-17ء میں شامل غیر معمولی اقدامات کی بناء پر ہوئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ انڈسٹریل سیکٹر میں 5.02 فی صد اضافہ ہوا ہے اور کاروبار میں روزگار کے نئے مواقع میسر آ رہے ہیں۔ سروسز سیکٹر میں 5.98 فیصد ترقی ہوئی ہے جس میں ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن ‘ بنکنگ اور ہاؤسنگ وغیرہ کے شعبہ جات شامل ہیں۔ پچھلے چار سالوں میں فی کس آمدن 1.334 ڈالر سے بڑھ کر 1.629 ڈالر ہوئی ہے یعنی 22 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ 20080-13ء کے دوران افراط زر اوسطاً 12 فیصد سالانہ رہی جبکہ رواں سال یہ شرح 4.3 فیصد متوقع ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے معیشت کے استحکام کے لئے ڈسپلن پر سختی سے عمل کیا جس کے نتیجے میں خسارہ مالی سال 2012-13ء میں 8.3 فیصد سے کم ہو کر رواں سال میں 4.2 فیصد رہ گیا ہے۔ ہم نے یہ کامیابی محصولات کی وصولی میں اضافے سے کی جس کی بنیاد انتظامی امور میں بہتری اور کئی دھائیوں دسے جاری رعایتی ایس آر او ایس کے خاتمے پر تھی۔

اس کے علاوہ حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی کمی کی گئی۔ ایف بی آر کے محاصل مالی سال 2012-13ء میں ایف بی آر نے 1.946 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا گیا جبکہ اس سال ٹیکس کا ٹارگٹ 3.521 ارب روپے ہے۔ اس طرح گزشتہ چار سالوں میں 81 فیصد اضافہ ہوا جو کہ اوسط 20 فیصد سالانہ ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب جو کہ مالی سال 2012-13ء میں 10.1 فیصد تھا رواں سال 13.2 فیصد متوقع ہے۔ اسٹیٹ بنک کا پالیسی ریٹ جون 2013ء کے 9.5 فیصد کے مقابلے میں پچھلے 45 سال کی کم ترین شرح 5.75 فیصد پر ہے۔ اس طرح ایکسپورٹ ری فنانس کی سہولت کا ریٹ جون 2013ء کے 9.5 فیصد کے مقابلے میں جولائی 2016ء سے 3فیصد کیاجا چکا ہے۔ اس طرح لانگ ٹرم فائنانسنگ سہولت کا ریٹ بدھی جو کہ جون 2013ء میں 11.4 فیصد تھا کم کر کے مجموعی صنعت کے لئے 6 فیصد اور ٹیکسٹائل کے لئے 5 فیصد کی اجا چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں نجی شعبے کو قرض کی فراہمی مین تیزی آئی ہے۔ پالیسی ریٹ کم ہونے کی وجہ سے مئی 2017ء تک نجی شعبے کے قرضے کا حجم 507 ارب روپے ہے جبکہ 2012-13ء میں یہ قرضے 93 ارب روپے تھے اس کے نتیجے میں ملک میں کاروبار کو فروغ ملا ہے۔ چار سال قبل قرض کا حجم 336 ارب روپے تھا جو مالی سال 2016ء کے اختتام پر 600 ارب روپے پر پہنچا اور رواں مالی سال کیلئے 700 ارب روپے کا ہدعف ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس سال جولائی سے اپریل کے دوران درآمدات 37.8 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی ہیں جن میں گزشتہ سال کی اس مدت کے مقابلے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ درآمدات میں یہ غیر معمولی اضافہ مشینری کی درآمد میں تقریباً 40 فیصد سے زائد اضافے ‘ صنعتی خام مال ‘ پٹرولیم مصنوعات کی بین الاقوامی قیمت میں اضافے اور اس کے علاوہ توانائی اور انفراسٹرکچر سے متعلق سی پی ای سی منصوبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کے نتیجے میں ہوا۔ مستقبل قریب میں یہ سب پاکستانی معیشت کی بہتری ک اعندیہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران برآمدات میں گزشتہ سال کے 7.8 فیصد کے مقابلے میں مجموعی طور پر 1.28 فیصد کی معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ بہتری حکومت کی طرف سے جنوری 2017ء میں ایکسپورٹرز کو بروقت 1809 ارب روپے کا جامع پیکج دینے اور ان کی کاوشوں کے نتیجے میں ممکن ہوئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ 30 جون 2013ء کا ڈالر کا انٹر بنک ریٹ 99.66 روپے تھا۔ یہ ریٹ چند ماہ میں بڑھ کر 111 روپے کے قریب پہنچ گیا تاہم اچھے معاشی انتظام اور فاریکس ریزرو کے ذخائر میں اضافے کے بعد واپس 99 روپے پر آ گیا لیکن اگست سے دسمبر 2014ء میں سیاسی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے یہ ریٹ دوبارہ 104.80 روپے کے قریب چلا گیا اور اس وقت سے ابھی تک یہ ریٹ اسی سطح پر مستحکم ہے۔

انہوں نے کہاکہ گزشتہ چار سال کے دوران بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں نے بیش بہا ترسیلات بھیجی ہیں جو کہ 13.9 ارب ڈالر سے بڑھ کر 19.9 ارب ڈالرز پرپہنچ گئیں۔ یہ 40 فیصد اضافہ حکومت کی سکیم کی بحالی اور ماضی کے بقایا جات کی ادائیگی کے ذریعے ممکن ہوا ۔ موجودہ مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں 15.6 ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان بھیجی گئیں۔ خلیجی ممالک کی مشکل سیاسی ‘ اقتصادی صورتحال کے باوجود رمضان اور عید کی وجہ سے اخری 2 ماہ میں ترسیلات میں اضافہ متوقع ہے۔ میں بیرون ملک مقیم محنت کرنے والے پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے عزیز و اقارب کو پاکستان میں رقم بھیجنے کیلئے بینکنگ ذرائع کا استعمال کیا اور ان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی صرف اور صرف بینکنگ ذرائع سے اپنی رقوم بھیج کر پاکستان کی معیشت میں اضافہ کریں۔ انہوں نے کہاکہ 10 سال سے زیادہ عرصہ سے زیر التواء مسائل کے حل کے لئے تین سٹاک ایکسچینج کا انضمام جنوری 2016ء میں مکمل کر لیا گیا تب سے پاکستان سٹاک ایکسچینج بہتری کی طرف گامزن ہے اور مارکیٹ سے ترقی کر کے یکم جون 2017ء کو ایمرجنگ مارکیٹ بن جائے گی۔

بلومبرگ نے 2016ء میں اسے ایشیاء کی بہترین اور پوری دنیا میں پانچواں بہترین مارکیٹ قرار دیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انڈیکس 11 مئی 2013ء کے 19,916 پوائنٹس کے مقابلے میں آج 52,000 پوائنٹس سے بڑھ چکا ہے۔ اس عرصہ کے دوران مارکیٹ کیپٹلائزیشن51 ارب ڈالر سے بڑھ کر 97 ارب ڈالر ہو گئی ہے جو کہ 90 فیصد اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن اس سال مارچ تک 5,855نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں جبکہ 4 سال پہلے پورے مالی سال میں صرف 3,960 کمپنیاں رجسٹرڈ کی گئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی معیشت کو اس کی حقیقی شرح نمو حاصل کرنے کیلئے مناسب قانونی اور ریگولیٹری فضاء کا مہیا ہونا لازمی ہے۔ ایک موثر قانونی ڈھانچے کی عدم موجودگی سے گورننس اور سروس ڈیلوری میں انے والی رکاوٹوں کا احسا س کرتے ہوئے ہم نے اپنے دور حک ومت میں 24 قوانین بنائے یا تبدیل کئے ۔ علاوہ ازیں ایک ترقی پذیر معیشت کیلئے درکار قانونی ڈھانچہ مزید بہتر بنانے کے لئے مزید 10 قوانین پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی ہفتے پارلیمنٹ نے کمپنیز بل 2017ء پاس کیا ہے جس پر میں دونوں ایوانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اس قانون نے 33 سالہ پرانے کمپنیز آرڈیننس 1984 کو تبدیل کیا ہے۔ یہ بڑی اصلاحات میں سے ایک ہے جو تمام کمپنی قوانین کو ی کجا کر کے پاکستان میں کارپورٹائزیشن کو عالمی معیار کے عین مطابق ڈھالنے میں مدد دے گا یہ قانون کاروبار شروع کرنے ‘ کاروبار مراحل میں آسانی پیدا کرنے اور سرمایہ کاری محفوظ بنانے میں مددگار ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کمپنیوں کے لئے کاروباری آسانیاں پید اکرنے کے لئے اصلاحات کی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں عالمی بنک کی کاروباری آسانی کی درجہ بندی میں پاکستان کی رینکنگ میں چار درجہ بہتری آئی ہے۔ ورلڈ بنک کی 2016ء میں شائع ہونے والی رپورٹ جو کہ 2015ء کی کارکردگی پر مبنی ہے میں بزنس انڈیکس 148 سے بہتر ہوکر 144 پر آ گیا ہے۔ پوری دنیا میں نمایاں اصلاحات کرنے والے 10 ممالک میں پاکستان کو شامل کیا گیا ہے۔ 2016ء میں اصلاحات کی بدولت اکتوبر 2017ء میں کاروباری آسانی کی شائع ہونے والی رپورٹ میں پاکستان کی درجہ بندی میں مزید بہتری متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکو مینٹیشن آف اکانومی کی حوصلہ افزائی کے لئے پہلی بار 40,000 روپے مالیت کے رجسٹرڈ بانڈ کا اجراء کیا گیا ہے۔ مالی سال 2017-18ء میں مختلف مالیت کے دیگر رجسٹرڈ بانڈ بھی متعارف کرائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کامیابیاں گزشتہ 4 سالوں کے د ورا ن حکومت کے بروقت لیکن مشکل فیصلوں کا نتیجہ ہیں ہم اصلاحات کا سفر جاری رکھنے کیلئے پر عزم ہیں اب میں رواں سال کے دوران حکومت کی طرف سے کی گئی کچھ اصلاحات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ حال ہی میں ہم نے اوپن گورنمنٹ پارٹنر شپ کے لیٹر آف انٹنٹ پر دستخط کئے ہیں ۔ 70 سے زائد ممالک کی عالمی شراکت داری کا معاہدہ ہے کوئی بھی ملک جو اس کی رکنیت کا ارادہ رکھتا ہو ایک خاص معیار پر پورا اترنے کے بعد رکنیت حاصل کر سکتا ہے۔ اور ہمیں اس معیار کی 16 میں سے 15 شرائط پر پورا اترنے پر 7 دسمبر 2016ء کو او جی پی میں شمولیت کیلئے مدعو کیا گیاجو کہ ہماری حکومت کی شفافیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی بجٹ تقریر کے دوران میں نے کہا تھا کہ ہم او ای سی ڈی پر دستخط کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اقدام ٹیکس چوری کے خلاف ہمارے عزم پر مبنی تھا۔ جنوری 2014ء میں وفاقی کابینہ سے اس کنونشن میں شمولیت کی منظوری کے بعد ہم نے اس سفر کا آغاز کیا۔ اس کنونشن کی کوآرڈینیشن باڈی نے پاکستانی قوانین کا جائزہ لیا۔ ان کی سفارشات کی روشنی میں ہم نے فائنانس بل 2015ء اور 2016ء کے ذریعے اس پارلیمنٹ نے انکم ٹیکس قوانین میں تبدیلیاں کیں جس کے بعد پاکستان کو جولائی 2016ء میں اس کنونشن میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی اور 14 ستمر 2016ء کو پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے میں نے اس کنونشن میں پاکستان کی شمولیت کی دستاویز پر دستخط کئے جس کے نتیجے میں آنے والے سالوں میں ہم ٹیکس کے معاملات میں بین الاقوامی سطح پر کافی زیادہ تفصیلات حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔ اس سے ہماری ٹیکس گورننس میں بہتری آئے گی اور ٹیکس چوری کا موثر سد باب ہو سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سوئزر لینڈ کے ساتھ ڈبل ٹیکسیشن سے بچاؤ کا نظر ثانی شدہ معاہدہ بھی کیا ہے۔ سوئزر لینڈ کے ساتھ پچھلا معاہدہ 2005ء میں کیا گیاتھا جس پر 2008ء میں عملدرآمد شروع ہوا ۔ تاہم یہ معاہدہ تبادلہ معلومات کے عالمی معیار کے مطابق نہ تھا۔ لہذا اگست 2013ء میں حکومت نے اس معاہدے پر نظر ثٰانی کے بعد معلومات کے تبادلے کے آرٹیکل می ں مطلوبہ تبدیلیاں تجویز کیں ۔ پاکستان اور سوئزر لینڈ کے باہمی مذاکرات کے بعد یہ معاہدہ 21 مارچ 2017ء کو طے پا گیا ہے

یہ ترمیم شدہ معاہدہ ریٹیفکیکشن کے مرحلے میں ہے جس کے بعد یہ قابل عمل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات کی بدولت نہ صرف پوری دنیا میں پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اقوام عالم کو پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان ہر سطح پر گڈ گورننس ٹرانسپرنسی اور احتساب میں یقین رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی معاشی کارکردگی کے جن اعداد و شمار کا میں نے ا بھی ذکر کی اہے ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پچھلے 4 سال میں مائیکرو اکنامک سٹیبلٹی حاصل کرنے کے بعد ہماری حکومت کا فوکس وزیر اعظم نواز شریف کے ویژن پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چار سال کے دوران کی جانے والی فارمز میں سے میں نے چند کا ذکر کیاہے۔ اگلے مای سال میں اب تک کے جو حاصل کردہ اہداف ہیں ان کو فوک سکرنا اور ان پر مزید عمل کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ میں اب اس سلسلے میں اگلے سال کے چند اہم اہداف کا ذکر کروں گا۔ جی ڈی پی کی شرح میں 6 فیصد اضافہ ‘ انوسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی ریشو 17 فیصد ‘ 1.001 ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی اخرجات ‘ 6 فیصد سے کم افراط زر ‘ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 4.1 فیصد اوری دگر شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن اہداف کا میں نے ابھی ذکر کیاہے ان کے حصول کے لئے ہم نے ایک بجٹ سٹریٹجی تشکیل دی ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

ایف بی آر کے محاصل میں 14 فیصد جب کہ وفاقی اخراجات میں 11 فیصد تک اضافہ۔ وفاقی حکومت کی غیر محصولات وصولیاں 7 فیصد بڑھانا۔ کرنٹ ایکسپڈیچر کو قابو میں رکھتے ہوئے ہم ترقیاتی بجٹ میں مزید اضافہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ اگلے مالی سال کے لئے وفاقی ترقیاتی پروگرام 1.001ء ارب روپے تجویز کیا گیاہے۔ یہ رقم موجودہ مالی سال کے نظر ثانی شدہ 715 ارب روپے کے تخمینے سے 40 فیصد زیادہ ہے اور اگر اس میں صوبائی تخمینہ شامل کریں تو 2017-18ء کا ترقیاتی بجٹ 2,100 ارب روپے سے تجاوز کریگا۔ اس کے ساتھ ساتھ کرنٹ ایکسپڈیچر میں اضافہ افراط زر کی شرح سے کم رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ زراعت ‘ مالی شعبے ‘ برامدات‘ ٹیکسٹائل اور روزگار کے لئے نئے اقدامات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد معاشی سرگرمیوں میں مزید اضافہ کرنا ‘ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا اور عوام کی آمدن میں بہتری لانا ہے۔ ان اقدامات کی تفصیل میں تھوڑی دیر میں پیش کروں گا۔ زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے جات کو مزید فروغ دینے کیلئے ٹیکس مراعات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت اور کیبنٹ کمیٹی برائے توانائی کے ذریعے ان کی ذاتی نگرانی میں 2018ء کے موسم گرما میں موجودہ 5 سالہ مدت کے اختتام تک تقریباً 10 ہزار میگا واٹ بجلی کا اضافہ ‘ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی۔ انشاء اللہ اس سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ ایئرپورٹ ‘ ہسپتال اور پانی صاف کرنے کے پلانٹ سمیت گوادر کی ترقی کے لئے سرمایہ کاری کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ تقریباً 55 لاکھ ایسے خاندان جن کے پاس ذریعہ معاش نہیں ہے ان کے لئے سالانہ19,338 روپے فی خاندان بذریعہ خاتون خانہ مالی معاونت جاری رکھی جائے گی۔ بچوں کو مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ حکومت 300 یونٹ ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے کم آمدن صارفین کے بجلی کے بلوں کی ادائیگی سبسڈی کی صورت میں جاری رکھے گی۔ بلوچستان کے کسانوں کے لئے زرعی ٹیوب ویلوں کے بجلی کے استعمال پر وفاقی حکومت سبسڈی جاری رکھے گی۔ جبکہ پورے ملک میں زرعی ٹیوب ویل کے لئے 5.35 روپے فی یونٹ آف پیک ریٹ آئندہ مالی سال میں بھی جاری رہے گا اس کا مقصد آئندہ کیلئے مالی سال کے بجٹ میں 118ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں ہم ملک کے عوام کی خدمت کیلئے پر عزم ہیں۔ یہ قوم ایک اچھے اور روشن مستقبل کی مستحق ہے اس سلسلے میں اس بجٹ میں اب میں خصوصی تجاویز پیش کر رہا ہوں۔ غربت سے باہر آنے کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کاروبار شروع کرنے کے لئے خصوصی گرانٹ کے تحت 2002 میں غربت کا سروے کیاگیا تھا جس کے مطابق پاکستان کی 34.7 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی جو کہ کم ہو کر 2015ء میں 9.3 فیصد ہو گئی تاہم پاکستان نے ورلڈ بنک کے فارمولے پر بھی غربت ناپنے کے نئے طریقہ کار کو اپنایا ہے۔

اس طرح کار کے مطابق 2002ء میں غربت کی شرح 64 فیصد سے زیادہ تھی جو کہ 2014ء میں کم ہو کر 29.5 فیصد رہ گئی ہے۔ جہاں حکومت معاشرے کے کم آمدن طبقات کو معاشرتی تحفظ فراہم کر رہی ہے وہیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والوں کے نئے ہنر سیکھنے اور اپنا کاروبار شرو ع کرنے کی حوصلہ افزائی کروا رہی ہے آئندہ سال بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والے ایسے خاندانوں کو تربیت اور 50 ہزار روپے مالی معاونت فراہم کی جائے گی جو اپنا زاتی کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی ترسیلی نظام سے دوری سے بسنے والے چھوٹے شہروں کے مکینوں کو بجلی کی فراہمی کے لئے حکومت ورلڈ بنک کے تعاون سے شمسی توانائی سے چلنے والے آف گرڈنظام متعارف کروائے گی۔ اس اقدام میں بلوچستان پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ زراعت ہمارے ملک کے لوگون اور معیشت کیلئے انتہائی اہم ہے ۔ دیہی معیشت میں زراعت کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے 2015ء میں 341 ارب روپے پر مبنی ایک جامع کسان پیکج کا اعلان کیا جس کے تحت چاول اور کپاس پیدا کرنے والے کسانوں کے لئے بلاواسطہ امداد ‘ زرعی مشینری کی درامد پر ٹیکس میں 45 فیصد سے 9 فیصد تک کمی ‘ کول چین مشینری پر سیلز ٹیکس میں 17 فیصد سے 7 فیصد تک کمی ‘ زرعی اجناس کے تاجروں کے لئے 3 سال تک ٹیکس میں چھوٹ ‘ شمسی ٹیوب ویل استعمال کرنے والے کسانون کے لئے بلا سود قرضوں کی فراہمی ‘ جراثیم کش ادویات اور بیج پر سیلز ٹیکس میں کمی زرعی قرضوں پر سود میں کمی ‘ فصلوں کا کم لاگت بیمہ اور زرعی قرضوں کے حجم میں اضافہ جیسے اقدامات شامل ہیںً

انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے میں مزید بہتری کے لئے حکومت نے 2016-17ء کے بجٹ کے ذریعے کئی نئے اقدامات کئے جن میں لائیو سٹاک انشورنس سکیم ‘ ڈیرہ مصنوعات ‘ لائیو سٹاک اور پولٹری پر کسٹم ڈیوٹی میں رعایت ‘ جراثیم کش ادویات پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ ‘ کول چین مشینری پر کسٹم ڈیوٹی کا خاتمہ ا ور کھاد کی قیمت میں کمی قابل ذکر ہے۔ نتیجتاً یوریا کھاد 1800 روپے فی بوری سے کم ہو کر 1400 روپے اور ڈی اے پی 4200 روپے سے کم ہو کر 2500 روپے ہو گئی ہے۔ کھاد کی قیمتوں میں یہ کمی ٹیکسوں میں چھوٹ اور کیش سبسڈی کے ذریعے ممکن ہوئی۔ ان اقدامات کے بہتر نتائج کا اندازہ کھاد کی کھپت اور زرعی پیداوار میں اضافہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں کچھ نئے اقدامات تجویز کئے جا رہے ہیں۔ اس وقت قرضوں پر شرح سود 14 فیصد سے 15 فیصد تک ہے مجھے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ یکم جولائی 2017ء سے زرعی ترقیاتی بنک اور نیشنل بنک آف پاکستان نئی سکیم کے تحت 12.5 ایکر اراضی رکھنے والے کسانوں کو 9.9 فیصد سالانہ کی کم شرح پر زرعی قرضے دیں گے۔ سکیم کی دیگر خصوصیات کچھ یوں ہیں۔ 50 ہزار روپے فی کسان تک قرضہ فراہم کیاجائے گا۔ 20 لاکھ قرضے زرعی ترقیاتی بنک اور نیشنل بنک اور دیگر بنک مہیاکریں گے۔ اسٹیٹ بک آف پاکستان اس نئی سکیم پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ پیداواری لاگت کے استعمال میں چھوٹے کسانوں کو زرعی قرضوں کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ کسانوں کی سہولت کیلئے سال 2017-18ء میں قرضوں کا حجم پچھلے سال کے 700 ارب روپے سے بڑھا کر 1.001 ارب روپے کر دیا گیا ہے جوکہ قرضوں کے ح جم میں 43 فیصد اضافہ ہے ۔ میں معزز اراکین پارلیمنٹ کی اس بات پر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ زرعی قرضوں کا حجم وفاقی ترقیاتی بجٹ 2017-18ء جو کہ 1001 بلین روپے ہے یہ اس کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کی مزید آسانی کیلئے حکومت نے این ایف ایم ایل کے پاس دستیاب درامد شدہ یوریا کو 1000 روپے فی بوری کی رعایتی قیمت پر فروخت کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ ڈی اے پی پر دی جانے والی سبسڈی کی فراہمی میں آسانی کی خاطر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ڈی اے پی فکس سیلز ٹیکس لاگو کیاجائے گا جس کے نتیجے میں جی ایس ٹی 400 روپے سے کم ہو کر 100 روپے فی بوری کیا جا رہا ہے۔ اس مد میں کل رعایتی تخمینہ 13.8 ارب روپے بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مالی سال 2017-18ء میں ٹیکس میں کمی اور سبسڈی کے ذریعے یوریاکی زیادہ سے زیادہ فی بوری قیمت 1400 روپے پر برقرا ر رکھی جائے گی۔ اس میں کل رعایت کا تخمینہ 11.6 روپے بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں میں ردوبدل کے ذریعے قیمت میں بھی اپنی موجودہ سطح پر برقرار رکھی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ کسانوں کیلئے قرضوں کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کیلئے اسٹیٹ بنک ایسے اقدامات کر رہا ہے جن کے ذریعے بینکنگ سسٹم کو لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم سے ہم آہنگ کیا جائے گا تاکہ جائیداد گروی رکھنے کی سہولیات مہیا کی جا سکیں ۔

خو د کار ریکارڈز کے ذریعے کسانوں کو بنکوں سے قرض لینے میں سہولت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پلانٹ بریڈرز رائٹس رجسٹری کا قیام زیر عمل ہے جس سے کسانوں کو اعلیٰ معیار کا نیا بیج دستیا ب ہو گا جس کا مقصد ملک میں فصلوں کی پیداوار بڑھانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آف بریک آور میں زرعی ٹیوب ویلوں کو 5.35 روپے فی یونٹ کی قیمت پر سستی بجلی کی فراہمی جاری رکھے گی۔ اس سہولت پر مالی سال 2017-18ء میں 27 ارب روپے کا خرچ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پروڈکشن انڈکس یونٹ کی قدر 4 ہزار سے بڑھا کر 5 ہزار رپوے کی جا رہی ہے اس سے کسانوں کو بنکوں سے زیادہ سے زیادہ قرضے ملین گے۔ زرعی شعبے کے ٹیکسوں پر امداد اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ کمبائنڈ ہارویسٹر کی نئی اور پانچ سال تک استعمال شدہ مشینری پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔درامد شدہ سورج مکھی او رکینولا کے ہائیبرڈ بیج پر جی ایس ٹی کو بھی ختم کر دیا گیا ہے اسی طرح پولٹری پر درامد کی جانے والی مشینری پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کر دی گئی ہے۔ ٹیکسٹائل شعبے کے حوالے سے وفاقی وز یر نے کہا کہ لانگ ٹرم فنانسنگ فیلسٹی پر شرح سود کو 11.4 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دیاجائے گا۔ ٹیکسٹائل مشینری کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دیدی گئی ہے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کے لئے بجلی کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔

حکومت نے گزشتہ 5 بڑے ا یکسپورٹ اورینٹڈ سیکٹرز ٹیکسٹائل ‘ چمڑا ‘ کھیلوں کا سامان ‘ آلات جراحی اور قالین بافی کو زیرو ریٹڈ ٹیکس میں شامل کیا تھا ۔ یہ سہولت اب ائندہ بھی جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی تجارت میں مندی اور اجناس کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے پاکستان کو برآمدات میں مشکلات پیش آئیں اس حوالے سے حکومت نے کئی اقدامات کئے ہیں ۔ خام کھالوں پر کسٹم ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے۔ منڈیوں سے دوری کے باعث چاول درآمد کرنے والوں کی مشکلات کے خاتمہ کیلئے سٹیٹ بنک جلد ایک سکیم جاری کرے گا۔ ہاؤسنگ کے شعبے کے لئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور ہر سال گھر بنانے کیلئے 10 لاکھ روپے تک کے قرضے دئیے جائیں گے اور اس کیلئے 6 ارب روپے مختص کر دئیے گئے ہیں۔ ایس ایم ایز قرضوں کے اجراء میں بھی اضافہ کرایا جا رہاہے اور 3.5 ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حو الے سے بھی کئی اقعدامات کئے گئے ہیں نئی آئی ٹیز کمپنیز کو 3 سال تک ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی۔ اسلام آباد ‘ فاٹا اور گلگت میں آئی ٹی سروسز پر سیلز ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا۔ موبائل کالز پر ود ہولڈنگ کالز کو 14 فیصد سے کم کر کے12.5 فیصد جبکہ ا یکسائز ڈیوٹی کو 18.5 فیصد سے کم کر کے 17 فیصد کیا جا رہا ہے اسی شرح سے موبائل کالز پر سیلز ٹیکس میں کمی کی جائے گی۔ جدید سمارٹ فونز کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے کسٹم ڈیوٹی کو 1000 روپے سے کم کر کے 650 روپے اور موبائل کمپنیوں کے سامان پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے۔ ترقیاتی اخراجات2013ء کے مقابلے میں 3 گنا بڑھ چکے ہیں۔

وفاقی حکومت کا ترقیاتی پروگرام 1001 ارب روپے بڑھانے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہاکہ1539 ارب روپے(715 ارب روپے وفاقی اور 824 ارب روپے صوبائی ) سے بڑھا کر 2113 ارب روپے کیا جا رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ حکومتی شعبے نے اپنے ترقیاتی اخراجات میں 37 فیصد اضافہ کیا ہے ۔ اس سے معیشت میں لاکھوں لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے ۔ ترقیاتی اخراجات میں اضافے سے نجی شعبے میں بھی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ہماری حکومت نے اس روایت کو یکسر بدل دیا ہے ۔ آج وفاقی ترقیاتی بجٹ کا بیشتر حصہ انفراسٹرکچر اور توانائی کے کے لئے مختص کیا جاتا ہے ۔ یہ ہماری معاشی پالیسی میں بڑی تبدیلی ہے اور یہ تبدیلی ہمارے مستقبل کی معاشی ترقی کے اہداف کی بنیاد ہے ۔ انفراسٹرکچر کے لئے کل پی ایس ڈی پی کا 37 فیصد مختص کیا گیا ہے ۔اولین ترجیح ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبہ کو دی گئی ہے جس کے لئے 411 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اس میں قومی شاہراہوں کے لئے 320 ارب روپے ، ریلو ے کے لئے 43 ارب روپے اور دیگر منصوبوں اور ایوی ایشن کی اسکیموں کے لئے 44 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 19 سال کے وقفے کے بعد مردم شماری کا عمل جاری ہے لیکن عمر کے لحاظ سے آبادی کے تناسب میں کوئی بڑی تبدیلی متوقع نہیڈں ہماری آبادی کا بیشتہ حصہ 20 سال سے کم عمر نوجوانوں پر ہی مشتمل رہے گا ۔ اس لئے ہمارے ترقیاتی پروگرام کی توجہ انسانی اور سماجی سرمائے کی ترقی، تعلیم ، صحت ، خواتین کو با اختیار بنانے ، غربت کے خاتمے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور عدم مساوات ختم کرنے پر مرکوز ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اب میں وفاقی حکومت کے ترقیاتی بجٹ کے چند اہم پروگرامز پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کی کمی تیز تر ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ، حکومت لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے انتھک کام کر رہی ہے ، 2018 تک انشاء اللہ 10000 میگا واٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی اس کے علاوہ 2018 کے بعد مکمل ہونے والے 1500 میگا واٹ کے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کا فنانشنل کلوز ہو چکا ہے ۔ اس ضمن میں حکومت توانائی کے شبعے کی ترقی کے لئے 401 ارب روپے تجویز کر رہی ہے ۔ اس میں واپڈا کی 317 ارب روپے کی سرمایہ کاری شامل ہے ۔ اس کے علاوہ ایک نیا پروگرام انرجی فار آل متعارف کروایا جا رہا ہے ۔ جس کے لئے ابتدائی طور پر 12.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ جن بنیادی منصوبوں میں حکومت سرمایہ کاری کرے گی وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔ ایل این جی سے بجلی بنانے کے دو منصوبوں بلوکی اور حویلی بہادر شاہ کے لئے 76.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ دونوں منصوبوں سے 2400 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی ۔ دونوں منصوبوں کی مکمل تکمیل 2017-18 میں ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کے لئے 54 ارب رپے مختص کیے گئے ہیں ۔ پہلے مرحلے میں اس منصوبے کے تحت 2160 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی ۔ دیامر بھاشا ڈیم (لاٹ ون) کی تعمیر کے لئے 21 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ اس ڈیم سے 4500 میگا واٹ بجلی کی پیداوار متوقع ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیلم ، جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لئے 19.6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ اس پروجیکٹ سے 969 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی ۔

اس منصوبے کی تکمیل بھی 2017-18 میں ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ تربیلا ہائیڈرو پاور کی چوتھی توسیع کے لئے 16.4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس سے 1410 میگا واٹ اضافی بجلی پیدا ہو گی ۔ جامشورو میں 1200 میگا واٹ پیداواری صلاحیت کے حامل 2 ایٹمی توانائی منصوبوں اور 600 میگا واٹ کے چشمہ سول ایٹمی پاور پلانٹ پر کام جاری رہے گا ۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی پیداوار اور مانگ میں فرق ہمارے چیلنج کا صرف ایک پہلو ہے ۔ ماضی میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں کوئی اہم سرمایہ کاری نہیں کی گئی ۔ نتیجتا اگر ہم بجلی کی پیداوار کو بڑھا بھی لیں تو صارفین تک بجلی پہنچانے کے قابل نہیں ہوں گے ۔ اس سال سے ہم صورتحال کی بہتری کے لئے ہنگامی اقدامات کر رہے ہیں ۔ منیاری لاہور ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ گرڈ سٹیشنوں اور ترسیلی نظام میں بھرپور سرمایہ کاری کی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے شعبے میں سرمایہ کاری نہکی گئی تو پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اس لئے حکومت ترجیحی بنیادوں پر ڈیم بنانے اور نہروں اور واٹر کورسز کو تعمیر اور بہتر کرنے پر توجہ دے رہی ہے ۔ اوپر بیان کیے گئے بڑے منصوبوں کے علاوہ پانی کے شعبے میں حکومت 38 ارب روپے مختص کر رہی ہے ۔ اس مقرر کردہ بجٹ میں زیادہ تر آر بی او ڈی ون ، آر بی او ڈی ٹو اور کچھی کینال پر خرچ ہو گا ۔ مشترکہ طور پر ان تینوں منصوبوں پر 17.7 ارب روپے لاگت آئے گی ۔ ان کے علاوہ صوبوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے بلوچستان ، خیبر پختونخوا اور پنجاب اور سندھ میں پانی کے کئی منصوبے جاری رہیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہسے پورے خطے کو آپس میں ملانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اس قدرتی طور پر حاصل حیثیت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور اسے معاشی ترقی میں بدلنے کے لئے پچھلے چار سال میں ہماری حکومت کی توجہ مواصلاتی نظام میں سرمایہ کاری پر رہی ہے اس مقصد کے لئے پچھلے سال کے 188 ارب روپے کے مقابلے میں اس سال 320 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ یاد رہے کہ چار سال پہلے یہ سرمایہ کاری صرف 51 ارب روپے تک محدود تھی ۔ اس شعبے کے بڑے منصوبہ جات مندرجہ ذیل ہیں ۔ لاہور عبدالحکیم سیشن میں 230 کلومیٹر لمبی شاہراہ کے لئے 48 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ ملتان سے سکھر 387 کلو میٹر لمبی شاہراہ کے لئے 35 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ سکھر حیدر آباد سیکشن کے لئے 2.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ یہ منصوبہ نجی شعبے کی شراکت سے زیر تعمیر ہے ۔ کراچی حیدر آباد موٹروے پر تیزی سے کام جاری ہے ۔ اور اس کے ایک حصے کا افتتاح کر دیا گیا ہے ۔ ہکلہ سے یارک ڈیرہ اسماعیل خان موٹروے کے لئے 38 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ فیصل آباد سے خانیوال ایکسپریس وے جس کی لمبائی 184کلومیٹر ہے کے لئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ برہان حویلیاں ایکسپریس وے کے لئے 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔

تھاکوٹ سے حویلیاں کے لئے 26 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ ڈیرہ اسماعیل خان مغل کوٹ اور ژوب شاہراہ کی بحالی کے لئے 2.7 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ بلوچستان میں خضدار اور پنجگور کے علاقے میں ہوشاب، بسیمہ ، سوراب شاہراہ اور گوادر تربیت ہوشاب سیکشن کے لئے 2.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے مسافروں اور سامان کی سستی تیز رفتار اور آرام دہ ترسیل کا ذریعہ ہے ۔ لہذا اس کی ترقی ہماری حکومت کی اہم ترجیح ہے ۔ گزشتہ چار سالوں کے دوران ریلوے میں متاثر کن تبدیلی لائی جا چکی ہے۔ ہر سال آمدنی بڑھ رہی ہے ۔ مسافروں اور سامان کی نقل و حمل کے لئے نت نئی خدمات کا اجراء کیا جا رہا ہے اور نئے انجن اور بوگیاں شامل کی جا رہی ہیں ۔ حکومت اس قومی اثاثے کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے پرعزم ہے ۔ اگلے مالی سال میں 42.9 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ۔ اگلے سال کے بجٹ میں مندرجہ ذیل منصوبے ہماری ترجیحات میں شامل ہوں گے ۔ 75 نئے انجنوں کی خریداری کے لئے 15.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ 830 بوگیوں کی تیاری اور 250 مسافر کوچز کے لئے 4.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ پشاور تا کراچی ریلوے لائن جو تکنیکی طور پر ایم ایل ون کے نام سے مشہور ہے پاکستان کے انفراسٹرکچر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کی بہتری اور اپ گریڈیشن کے لئے چین کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے ہیں ۔

یہ ایک عظیم منصوبہ ہے جو کہ پاکستان میں ریلویز کو جدید خطوط پراستوار کرے گا ۔ ایم ایل ون لائن کی بحالی اور اپ گریڈیشن کے ابتدائی ڈیزائن کے لئے اگلے مالی سال میں 4.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وژن 2025 میں ہیومن ڈویلپمنٹ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ حکومت اس میں سرمایہ کاری کو جاری رکھے گی ۔ اس کے لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں پچھلے سال کے 21.5 ارب روپے کے مقابلے میں 35.7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ ترقیاتی پروگرام کے علاوہ ایچ ای سی کو جاری اخراجات کی مد میں 60.2 ارب روپے دیئے گئے ہیں ۔ صحت کے شعبے میں وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کا بجٹ 25 ارب سے بڑھا کر 49 ارب روپے کر دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ جاری سال کے مقابلے میں سرمایہ کاری کو دو گنا کر دیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق 80 ارب روپے کی لاگت سے ہسپتالوں کے لئے ایک نیا پروگرام شروع کیا جا رہا ہے ۔ پہلے سال میں اس مد میں 8 ارب روپے رکھے گئے ہیں اس کے علاوہ وزیر اعظم کے نیشنل ہیلتھ پروگرام کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو رہا ہے جس کے لئے 10 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں ۔

علاوہ ازیں شعبہ صحت کے متعدد پروگراموں بشمول ای پی آئی ، فیملی پلاننگ ، پرائمری ہیلتھ کیئر اور پاپولیشن ویلفیئر پروگرامز میں سرمایہ کاری کا حکم پچھلے سال کے مقابل میں بڑھایا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دو تہائی بیماریاں پینے کے خراب پانی کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ پینے کا صاف پانی صحت عامہ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے ، اس ضمن میں ایک سپیشل پروگرام کلین ڈراکنگ واٹر فار آل شروع ہو رہا ہے جس کے لئے اگلے سال میں 12.5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ۔ مزید برآں وزیر اعظم کے ایس ڈی جی پروگرام کے لئے 30 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جو سوشل اینڈیکیٹر میں بہتری لانے میں معاون ثابت ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ گوادر کی ترقی کو پاک چین اقتصادی راہداری میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ سڑکوں کا جال بچھانے اور ائیر پورٹ کی کشادگی اور جدت اور پورے علاقے کی ترقی کے لئے ایک جامع منصوبے پر کام ہو رہا ہے ۔ اس ضمن میں 2017-18 میں 31 منصوبے شامل کیے گئے ہیں اس میں نئے ائیر پورٹ کا قیام 200 بستر کا ہسپتال ، 300 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ اور کھارے پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ شامل ہے ۔ نہوں نے کہا کہ 2017-18 میں سی پی ای سی میں شامل منصوبے اپنے نفاذ کے تیسرے سال میں داخل ہو جائیں گے ۔ اگلے مالی سال کے دوران سی پی ای سی اور اس سے منسلک منصوبوں کے لئے 180 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ خصوصی علاقہ جات کی تیزرفتار ترقی کے لئے 62 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے ترقیاتی فنڈز مالی سال 2016-17 کے 25.75 ارب روپے سے بڑھا کر مالی سال 2017-18 میں 43.64 ارب روپے کیے جانے کی تجویز ہے جو کہ 69 فیصد کا تاریخی اصافہ ہے ۔ اس کے علاوہ 26.9 ارب روپے فاٹا کی ترقی کے لئے مختص کیے جا رہے ہیں ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ستمبر 2013 میں وزیر اعظم کی ہدایت پر حکومت نے کراچی کی رونقیں بحال کرنے کے لئے آپریشن کا آغاز کیا ۔ اس کے انتہائی مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں اور روشنیوں کے شہر کراچی میں دوبارہ سے ثقافتی اور تجارتی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا ہے ۔ کراچی سے پاکستان کا بزنس کیپیٹل بن کر ابھرا ہے اور ہر شعبے میں نئی سرمایہ کاری ہو رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کی عالمی جنگ میں صف اول کی ریاست کا کردار ادا کر رہا ہے ۔ جون 2014 میں حکومت نے شمالی وزیر ستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف بڑی کارروائی کا فیصلہ کیا اور پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا ۔ قوم کو فخر ہے کہ پاکستان کی بہادر افواج نے چھپ کر وار کرنے والے بزدل دشمن کو شکست فاش دی ۔ کوئی مارا گیا کوئی پکڑا گیا اور کوئی بھاگ گیا ۔ یہ فتح ہمارے بہادر فوجیوں کی محنت کا نتیجہ ہے ۔

آج پوری دنیا کو دہشت گردی کا سامنا ہے ۔ مگر کسی فوج نے دہشت گردوں کے خلاف اتنی جامع فتح حاصل نہیں کی جتنی پاک فوج کو حاصل ہوئی ہے ۔ ہمارے جوانوں نے مشکل حالات میں اپنے پیاروں سے دور وقت گزارا ، شہادت حاصل کی ، معذور ہوء مگر ہمت نہیں حاری اور بالآخر ہمیں کامیابی نصیب ہوئی ۔ وزیر ستان اور دیگر قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کردیا گیا ہے ۔ اب وہ کبھی کبھار سرحد پار سے آ نکلتے ہیں مگر منہ کی کھاتے ہیں ۔ ہمارے بہادر جوانوں اور غیور افسروں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قوم کے بہادر سپوتوں کی بے پناہ قربانیوں کی Recognition کے طور پر میں وزیر اعظم کی جانب سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ افواج پاکستان کے تمام افسروں اور جوانوں کو تنخواہ کا 10 فیصد ضرب عضب اسپیشل الاؤنس دیا جائے گا ۔ یہ الاؤنس تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے جو اعلان کیا جائے گا اس کے علاوہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب جیسے بڑے قومی اقدام کے لئے وسیع مالی وسائل درکار ہوتے ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف یہ ایک قومی یریضہ ہے ۔ جس کے لئے وسائل فراہم کرنا پوری قوم پر لازم ہے ۔ اس سلسلے میں حکومت پچھلے تین سال سے 90 سے 100 ارب روپے سالانہ بالواسطہ یا بلاواسطہ خرچ کر رہی ہے ۔ بلا واسطہ فوجی کارروائی کے اخراجات کے حوالے سے اور بالواسطہ ٹی ڈی پیز کی کفالت ، واپسی ، آبادی کاری اور علاقہ کے ترقیاتی اخراجات کی مد میں اس ضمن میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے یہ تجویز دی تھی کہ گراس ڈاوزیبل پول کا 3 فیصد حصہ اس قومی فریضہ کے لئے مختص کیا جائے ۔ یہ معاملہ ابھی سی سی آئی اور این ایف سی میں زیر بحث ہے ۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ اس طرح کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کے لئے گراس ڈاوزیبل پول سے 3 فیصد رقم مختص کیے جانے پر بھی صوبوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے ۔

این ای سی کی گزشتہ میٹنگ میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور کے پی کے نے فاٹا کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ مطالبہ یہ کہہ کر دہرایا کہ وہ بھی پاکستان کا حصہ ہیں اور ان کا بھی ڈاوزیبل پول پر حق ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ گراس ڈاوزیبل پول میں سے 3+3 فیصد کی آلوکیشن کے بارے میں فیصلے کی تاخیر کی وجہ سے این ایف سی ایوارڈ کو حتمی شکل دینے میں تاخیر ہو رہی ہے ۔ میں اپنے ہم منصب پارلیمنٹرینز سے درخواست کروں گا کہ وہ صوبائی حکومتوں سے اس منصفانہ اور مناسب آلوکیشن کے حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کریں ۔ انہوں نے کہا کہ مجموعی مالی محصولات کا تخمینہ 5310 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولی 4013 روپے ہے ۔ یاد رہے کہ نظر ثانی شدہ ہدف 3521 ارب روپے تھا ۔ کل آمدنی میں 12.1 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے جب کہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں 14 فیصد اضافہ متوقع ہے ۔ کل آمدنی میں سے صوبائی حکومتوں کا حصہ 2384 ارب روپے بنتا ہے جو کہ 2016-17 کے نظر ثانی شدہ ہدف 2121ارب روپے کے مقابلے میں 12.4 فیصد زیادہ ہے ۔ یہ وسائل صوبائی حکومتیں انسانی ترقی اور لوگوں کی سیکیورٹی کے لئے خرچ کر یں گی ۔ صوبائی حکومتوں کا حصہ نکالنے کے بعد وفاقی حکومت کی بقیہ آمدنی 2017-18 میں 2926 ارب روپے متوقع ہے جو کہ 2016-17 میں 2616 ارب روپے ہے ۔ 2017-18 میں کل اخراجات کا تخمینہ 4753 ارب روپے ہے جو کہ 2016-17 کے نظر ثانی شدہ اخراجات 4256 ارب روپے سے 11.7 فیصد زیادہ ہے ۔ کل اخراجات میں سب سے زیادہ اضافہ ترقیاتی بجٹ میں کیا گیا ہے ۔ دفاعی بجٹ کی مد میں نظر ثانی شدہ تخمینہ جات کے مطابق پچھلے سال کے 841 ارب روپے کی نسبت اس سال 920 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے ۔

جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ پی ایس ڈی پی بجٹ رواں مالی سال کے نظر ثانی شدہ تخمینے 715 روپے کی نسبت 40 فیصد اضافے کے ساتھ 1001 ارب روپے رکھا گیا ہے ۔ اوپر دیئے گئے آمدنی اور اخراجات کے تخمینوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اس سال بجٹ خسارہ کم ہو کر جی ڈی پی کے 4.1 فیصد تک آیا ہے ۔ گزشتہ سال کے نظر ثانی شدہ خسارے کا تخمینہ 4.2 فیصد ہے ۔انہوں نے کہا کہ جناب اسپیکر! اب میں اپنی بجٹ تقریر کا دوسرا حصہ پیش کروں گا جو ٹیکس تجاویز پر مشتمل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار سالوں میں حکومت نے دوررس انتظامی اصلاحات کا آغاز کیا تاکہ ایک منصفانہ اور فعال ٹیکس نظام وضع کیا جا سکے ایک وسط مدتی جامع حکمت عملی کے تحت ہم ٹیکس اور شرح نمو کے مابین 15 فیصد کا قابل قدر تناسب حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ امتیازی رعایتوں اور ایگزیمپشن کا خاتمے کے لئے ایف بی آر نے ایک تاریخی عمل کا آغاز کیا جس کے تحت گزشتہ تین برسوں میں تین سو ارب روپے کی امتیازی رعایتیں اور ایگزیمپشن واپس لی گئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اسی سمت میں آگے بڑھتے ہوئے مالی سال 2017-18 میں جن رہنما اصولوں پر ٹیکس اقدامات تجویز کئے ہیں ان میں اس حکومت کی گزشتہ برسوں کے کامیاب تفریقی ٹیکس جس میں ٹیکس ادائیگی کی حوصلہ افزائی اور عدم ادائیگی پر جرمانے ، ملکی صنعت کا تحفظ ، تفریقات کا خاتمہ ، منصبی اختیارات میں کمی ، کاروبار میں آسانی ، شرخ نمو اور روزگار میں اضافے کی ترغیبات اور براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ شامل ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی پالیسی کے تحت کمپنیاں بنانے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کے لئے ہم نے 2013 سے جب اس ٹیکس کی انتہائی شرح 35 فیصد تھی اس میں ہر سال ایک فیصد کی کمی کا آغاز کیا تھا ۔ ہمارے اس عزم کے تحت یہ شرح اگلے سال یعنی ٹیکس سال 2018 میں 30 فیصد ہو گی ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سفارشات کے مطابق اور اسلامک فنانسنگ کی حوصلہ افزائی کے لئے ہم اسلامی بینکنگ کی مختلف اقسام مشارکہ ، اجارہ اور مرابحہ پر ٹیکسوں کی وہی شرح تجویز کرتے ہیں جو روایتی بینکنگ میں رائج ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس نظام کی کمپلینس کرنے والے ٹیکس گزاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں درج ذیل کمی تجویز کی جا رہی ہے ۔ 850CC تک کی گاڑیوں پر یہ شرح 10000 روپے سے کم کر کے 7500 روپے ، 1000CC-851 تک کی گاڑیوں پر یہ شرح 20000 روپے سے کم کرکے 15000 روپے ، 1001-1300CC والی گاڑیوں میں شرح 30000 روپے سے 25000 روپے ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کے لئے ود ہولڈنگ ٹیکسوں کی شرح میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ بے روزگار نوجوانوں کو سہولت دینے کے لئے تجویز کیا جاتا کہ وزیر اعظم کی یوتھ لون اسیکم کے تحت خریدی گئی گاڑیوں کو ود ہولڈنگ ٹکیس سے چھوٹ دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ کم آمدنی والے طبقے جن کے لئے تعلیمی اخراجات ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں انہیں رعایت دینے کے لئے 2016-17 کے بجٹ میں ان افراد کو جن کی سالانہ آمدنی دس لاکھ روپے سے کم تھی انہیں فی بجے کے تعلیمی اخراجات پر 60000 ہزار روپے کی حد تک ٹیکس میں پانچ فیصد کی رعایت دی گئی تھی ۔

اس سال تجویز کیا جاتا ہے کہ سالانہ آمدنی کی اس حد کو 15 لاکھ تک بڑھا دیا جائے ۔ اس اقدام سے متوسط آمدنی والا طبقہ بھی مستفید ہو سکے گا ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت وہ ٹیکس گزار جن کی آمدنی پانچ لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ہے وہ سال گزشتہ کے ادا شدہ ٹیکس کے حساب سے چار اقساط میں ایڈوانس ٹیکس ادا کر سکتے ہیں ۔ آمدنی کی یہ حد2010 میں مقرر کی گئی تھی لہذا تجویز کیا جاتا ہے کہ آمدنی کی اس حد کو پانچ لاکھ روپے سے بڑھا کر دس لاکھ روپے کر دیا جائے تاکہ چھوٹے ٹیکس گزاروں کو سہولت مل سکے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ صنعتوں کو فروغ دینے کے لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ انکم ٹیکس ایگزیمشن سرٹیفکیٹ کے تحت درآمد کئے جانے والے خام مال کی حد جو پچھلے برس کی درآمد شدہ مقدار کا 110 فیصد ہے اسے بڑھا کر 125 فیصد کر دیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ 2016-17 کے بجٹ میں دو ساز صنعتوں کے فروخت کے اخراجات کی حد فروخت کے حجم کے پانچ فیصد تک مقرر کی گئی تھی جس کی وجہ سے اف صنعت کے فروغ میں مشکلات کا سامنا تھا ۔ لہذا تجویز ہے کہ اگلے سال یہ حد بڑھا کر 10 فیصد کر دی جائے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کے تقسیم کنندگان کے منافع کی شرح کم ہے لہذا دفعہ 113 کے تحت ان پر ٹیکسوں کی کم ترین شرخ 0.2 مقرر کی گئی ہے ۔ تاہم ان تقسیم گنندگان کو مال کی فراہمی پر عمومی شرح سے ودہولڈنگ ٹیکس لیا جاتا ہے جو کہ گزشتہ سال 4 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد اور عام کمنپیوں کے لئے 4.5 سے کم کرکے 3.5 فیصد کیا گیا تھا ۔

یہ شرح اب بھی تقسیم کنندگان کے لئے زیادہ تصور کی جاتی ہے چنانچہ تجویز ہے کہ اس شرح کو 3.5 سے مزید کم کرکے 2.5 کیا جائے ۔ تاہم گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کے لئے اس شرحوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وڈ ہولڈنگ ایجنٹ کے مطالبے پر تجویز کیا جاتا ہے کہ انہیں ود ہولڈنگ ٹیکس اسٹیٹمنٹ میں غلطیوں کے لئے 60 دن میں نظرثانی کی اجازت دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ قوانین کے مطابق ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرنے کی صورت میں پرویژنل اسسمنٹ آرڈر کے اجراء کے 45 دن کے اندر ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے جب کہ انہیں اپیل کا حق بھی نہیں ہے ۔ عوام کے مطالبے اور ان کی جائز شکایات کے ازالے کے لئے موجودہ طریقہ کار کے خاتمے کی تجویز ہے گوشوارے داخل نہ کرنے کی صورت میں پرویژنل اسسمنٹ آرڈر کے بجائے قابل اپیل آرڈر جاری کیا جا سکے گا ۔ انہوں نے کہا کہ سال 2016-17 میں ان کمپنیوں کو قابل ادائیگی ٹیکس پر دو سال تک 20 فیصد کی چھوٹ دی جاتی تھی ۔ ایس ای سی پی نے اس اقدام کی تعریف کی اور سفارش کی کہ اسے کامیاب بنانے کے لئے مزید تین سال تک لاگو کیا جائے ۔ لہذا تجویز ہے کہ جو کمپنیاں اسٹاک ایکسچینج میں شامل ہو جائیں انہیں پہلے دو سال 20 فیصد جب کہ آخری تین سال میں 10 فیصد کی چھوٹ دی جائے ۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس کے حجم میں اضافے اور قوانین کی پاسدار کی ترغیت دینے کیلئے پچھلے سال گواشورے داخل نہ کرنے والوں کے لائف انشورنس پریمیم پر 1فیصد ایڈجسٹ ایبل ود ہولڈنگ ٹیکس متعارف کرایا گیا جہاں یہ پریمیم دو لاکھ روپے یا اس سے زائد تھا ۔ انشورنس سیکٹر کے مطالبے پر تجویز کیا جاتا ہے کہ پریمیم کی یہ حد بڑھا کر تین لاکھ روپے کردی جائے تاہم گواشورے داخل کرنے والوں کیلئے اس ٹیکس سے استثنیٰ جاری رہے گا ۔ انہوں نے کہا کہ گلاب دیوی ہسپتال ، پاکستان پاورٹی ایلویشن فنڈ اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس نان پرافٹ خیراتی اور سماجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ لہذا تجویز ہے کہ انہیں انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے دوسرے شیڈول کی شق 66میں شامل کر کے ان کی آمدنی کو استثنیٰ دیا جائے ۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ اب میں انکم ٹیکس کے قوانین میں محاصل سے متعلقہ اقدامات کا ذکر کروں گا ۔ تجویز ہے کہDividendپر ٹیکس کی یکساں شرح کو 12.5فیصد سے بڑھا کر 15فیصد کیا جائے ۔ اسی طرح Matual Fundکے Dividenfdپر کم شرحوں کے حساب سے ٹیکسوں کی وصولی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ۔ فی الوقت منافع سے حاصل شدہ آمدنی پر مرحلہ وار شرح کے حساب سے ٹیکس عائد ہے جو کہ 25سے50ملین روپے تک اور 50 ملین روپے سے زائد آمدنی پر بالترتیب 10فیصد،12.5وار15فیصد ہے ۔ اس آمدنی کی موجودہ حدوں کو بالترتیب 5ملین روپے،5سے25ملین روپے اور 25ملین سے زائد کرنے کی تجویز ہے ۔ اس اقدام سے ٹیکس کا نفاذ زیادہ مرحلہ وار برابری کی بنیاد پر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ فی الوقت سیکیورٹیز پر تین درجوں کے اعتبار سے کیپیٹل گین ٹیکس نافذ ہے ۔

تجویز کی جاتی ہے کہ کیپیٹل گین ٹیکس کو یکساں شرح سے نافذ کیا جائے اور فائلر کیلئے یہ شرح15فیصد جبکہ نان فائلرز کیلئے 20کرنے کی تجویز ہے ۔ اس طرح طویل مدت تک سیکیورٹیز کو روکے رکھنے کی حوصلہ شکنی ہوگی اور اسٹاک ایکس چینج میں خریدوفروخت کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔ اس وقت ان صنعت کاروں کو جو اپنی 90فیصد فروخت سیلز ٹیکس میں رجسٹر افراد کو کرتے ہیں اپنے قابل ادائیگی ٹیکس میں تین فیصد کا ٹیکس کریڈٹ حاصل ہے چونکہ اس اقدام سے سیلزٹیکس میں رجسٹریشن کے فروغ کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکے بلکہ اس ٹیکس کو ایک کٹوتی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے لہذا تجویز کیا جات اہے کہ اس ٹیکس کریڈیٹ کو ختم کردیا جائے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ 2015-16 کے بجٹ میں متمول طبقے بشمول افرا، ایسوسی ایشنز اورکمپنیزکی آمدنی جو کہ 500 ملین روپے یا زائد تھی ، پر بالترتیب 4فیصد برائے بینکنگ کمپنیز اور تین فیصد تمام پر سپر ٹیکس نافذ تھا ۔ یہ ٹیکس 2016-17میں مزید ایک سال کیلئے بڑھا دیا گیا چونکہ وہ اسباب جن کی بنا پر یہ ٹیکس نافذ کیا گیا بدستور موجود ہیں لہذا تجویز ہے کہ اگلے سال بھی اس سپر ٹیکس کو جاری رکھا جائے ۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ چھوٹے شیئر ہولڈرز کو اپنی سرمایہ کاری پر منافع ملے اور ان کے مفادات کا بھی تحفظ ہو۔ چنانچہ 2015-16کے بجٹ میں انکم ٹیکس 2001میں ترمیم کی گئی جس کے تحت اگر پبلک کمپنی نے منافع کے حصول کے بعد سرمایہ کاروں مین چھ ماہ تک منافع تقسیم نہ کیا یا منافع تقسیم کرنے کے بعد بھی سال کے آخر تک کمپنی کے زیزروز اس کے پیڈ اپ کیپیٹل کے 100فیصد سے زائد ہوں تو اس اضافی اماؤنٹ پر 10فیصد کے حساب سے ٹیکس نافذ کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ فی الوقت غیر منقسم ریزورز پر ٹیکس میں چھوٹ حاصل ہے بشرطیکہ بعد ازٹیکس منافع کا40فیصد یا پیڈ اپ کیپیٹل کا 50فیصد جو بھی کم ہو ، Dividendکے طور پر تقیسم کیا جائے ۔ ایس ای سی پی کی نشاندہی کے مطابق پیڈ اپ کیپیٹل کے 50فیصد کی شرط نے اس قانون کی افادیت کو کم دیا ہے اور اس کے مطلوبہ مقاصد بھی حاصل نہیں ہوسکے ۔ لہذا ایس ای سی پی کی سفارشات پر پیڈ اپ کیپیٹل کی یہ شرط ختم کرنے کی تجویز ہے ۔ مزید برآں یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ اگر منافع تقسیم نہیں کیا جاتا تو اس کمپنی کے ریزروز کے بجائے اس کے سالانہ منافع پر10فیصد کی شرح سے ٹیکس نافذ کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ کمپنیوں کو ترغیب دینے کیلئے حکومت نے کمپنیوں پر ٹیکس کی شرح کو مرحلہ وار کم کیا ہے تاکہ کمپنیاں اپنا اصل منافع ظاہر کریں تاہم یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اس اقدام سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور کمپنیاں اور دوسرے کاروبار ابھی تک صرف کم سے کم ٹیکس ہی جمع کروا رہے ہیں لہذا تجویز کیا جاتا ہے کہ کم سے کم ٹیکس کی اس شرح کو 1فیصد سے بڑھا کر1.25فیصد کردیا جائے ۔

اس اقدام سے قانون کی پاسداری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی کیونکہ ان کی شرح 31سے کم ہوکر 30فیصد ہو جائے گی اور ایسے ادارے جو اصل منافع ظاہر نہیں کرتے ان کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔ وزیر خزانہ نے کہ اکہ غیر قانونی اور نان ڈیوٹی پیڈ سیگریٹ کی پیداوار اور فروخت کے خطرناک حد تک پھیلاؤ نے ایک طرف فروخت سے حاصل شدہ رقم کر کم کردیا ہے تو دوسری جانب صحت کے مسائل کو بھی جنم دیا ہے کیونکہ ان ریگولیٹڈ پیداوار کا معیار میں معیار کا خیال نہیں رکھا جاتا۔حکومت نے اس ضمن میں کئی اقدامات کئے ہیں تاکہ غیر قانونی پیداوار اور تقسیم کو روکا جا سکے ۔ تمباکو کی فروخت کو دستاویزی نظام کے دائرہ کار میں لانے کیلئے اور تمام متعلقہ افراد اور ان کی پیداوار سے متعلق معلومات کے حصول کیلئے تجویز کیا جاتا ہے کہ کستان ٹوبیکو بورڈ یا اس کے ٹھیکدار Tobacco cessکی وصولی کے وقت 5فیصد کی شرح ودہولڈنگ ٹیکس وصول کریں ۔ انہوں نے کہا کہ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپر ی سفارش پر فکسڈ ٹیکس فی یونٹ کے حساب سے جو فائنل ٹیکس پچھلے بجٹ میں عائد کیا گیا تھا اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہو سکے لہذا اسے واپس لینے کی تجویز ہے ۔ فی الوقت الیکٹرانک اشیاء کے ڈیلر ، ڈسٹریبیوٹرز اور ہول سیلرز ، اشیاء کی فروخت پر پرچون فروشوں سے 5فیصد کی شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کرتے ہیں الیکٹرانک ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے مطالبے پر یہ شرح 1فیصد تک بڑھانے کی تجویز ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ٹیکس گزاروں کے مطالبے پر نان فائلرز کیلئے زیادہ شرح ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کرنے کی پالیسی متعارف کرائی تھی تاکہ ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور ٹیکس نہ دینے والوں ے خلاف تادیبی کاروائی کی جاسکے ۔ اس پالیسی کے حوصلہ افزاء نتائج برآمدا ہوئے اور گزشتہ تین برسوں میں گوشوارے داخل کرنے والوں کی تعداد750,000سے بڑھ کر 1,225,000ہوگئی ہے ۔ اس پالیسی کو جاری رکھنے اور مزید بہتر بنانے کی غرض سے نان فائلرز ر ، ٹھیکوں ، فروخت اور خدمات ، غیر مقیم افرعاد کو ادائیگی ، کرایے سے آمدنی ، پرائز پانڈ اور لاٹری کے انعامات ، کمیشن، نیلامی ، سی این جی اسٹیشن کے گیس بل کی وصولی ، صنعت کاروں اور درآمدکنندگان کی ڈسٹری بیوٹرز ، ڈیلرز اور ہول سیلرز کو فروخت پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرحوں کو مزید بڑھانے کی تجویز ہے تاہم فائلر کیلئے موجودہ شرحیں بغیر کسی اضافے کے برقرار رہیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ فی الوقت اگر نان پرافٹ ادارے اپنی آمدن کا 75فیصد سے زائد خیراتی اور سماجی سرگرمیوں میں خرچ نہیں کرتے تو ان کا این پی او کا مرتبہ ختم ہو جاتا ہے اور ان کی کل آمدن پر 30فیصد کی شرح سے ٹیکس نافذ ہے ۔ اس مشکل کو ختم کرنے کیلئے تجویز کیا جتا ہے کہ اگر یہ ادارے اپنی آمدن کا75فیصد سے زائد ایسی سرگرمیوں پر صرف نہ کرسکیں تو ایسی غیر استعمال شدہ رقم پر 10فیصد کی شرح سے ٹیکس نافذ کیا جائے اور ان کا این پی او کا مرتبہ بحال رہے ۔ مزید یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ ایسے اداروں کے انتظامی اخراجات پر 15فیصد کی حدمقرر کی جائے ۔

انہوں نے کہا کہ اب میں ان ریلیف اقدامات کا ذکر کروں گا جو کہ ہم نے سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز قوانین کے حوالے سے موجودہ بجٹ میں تجویز کئے ہیں ۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ لبریکیشن آئل پر عائد 2فیصد اضافی ٹیکس کے خاتمہ کی تجویز ہے ۔ کم توانائی پر چلنے والی موٹر گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے درآمد کے وقت ان پر عائد سیلز ٹیکس کم شرح کو ن گاڑیوں کی مقامی سطح پر فراہمی پر بھی مہیا کرنے کی تجویز ہے ۔ ٹیکس گزاروں کو درپیش مشکلات کا ازالہ کرنے کیلئے تجویز ہے کہ اگر ٹیکس گزار سیلز ٹیکس کی ریکوری کے حوالے سے اصل رقم کا 25فیصد پیشگی جمع کرادیں تو انہیں کمشنر ایپل کے فیصلے تک مطلوبہ رقم کی ریکوری پر خود بخود سٹے مل جائے ۔ یہ سہولت فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے حوالے سے بھی دی جائے گی ۔ مخصوص premixesپر عائد ٹیکس میں چھوٹ دینے کی تجویز ہے تاکہ Stuntingکے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جا سکے اس حوالے سے چھٹے شیڈوکل میں پہلے سے موجود عمومی چھوٹ کا دائرہ کا ر مزید بڑھانے کی تجویز ہے ۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ کاروبار کو مزید آسان بنانے کیلئے تجویز ہے کہ رجسٹرڈ افراد کی جانب سے دیگر رجسٹرڈ افراد کو اشیاء کی فراہمی پر عائد سیلز ٹیکس ودہولڈنگ ختم کر دی جائے تاہم سرکاری اداروں کو فراہم کردہ اشیاء پر عائد سیلز ٹیکس ودہولڈنگ برقرار رہے گی ۔ پولٹری کے کاروبار میں استعمال ہونے والی سات مختلف قسم کی مشینریوں پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17فیصد سے کم کر کے 7فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔ اس اقدام سے اس سیکٹر میں سرمایہ کاری اور پیداوار میں اضافہ ہوگا ۔

صوبوں کی جانب سے بعض خدمات پر input adjustmentکے بغیر سیلز ٹیکس کی کم شرحوں کا نفاذ کیا گیا ہے ۔ توازن اور سہولت کی غرض سے سیلز ٹیکس کی ان کم شرحوں کو اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کی حدود میں بھی لاگو کرنے کی تجویز ہے۔ تعلیمی اداروں میں ملٹی میڈیا پراجیکٹس کے استعمال کر فروغ دینے کیلئے تجویز کیا جاتا ہے کہ ان پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17فیصد سے کم کر کے 10فیصد کردیا جائے ۔ ملٹی میڈیا پراجیکٹس پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح پہلے ہی تین فیصد ہے ۔ سیمنٹ سیکٹر میں قابل ذکر ترقی ہورہی ہے اس لئے ضروری ہے کہ یہ سیکٹر حکومت مالی وسائل میں اضافے کیلئے اپنا کردار ادا کرے ۔ا س سلسلے میں سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں ایک روپیہ فی کلوگرام سے 1.25روپے فی کلو گرام کے اضافے کی تجویز ہے ۔ توقع ہے کہ اس اقدام سے سیمنٹ کی قیمتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور انڈسٹری اس معمولی اضافے کو باآسانی برداشت کر پائے ۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال کے بجٹ میں پانچ بڑے برآمدی سیکٹرز کو زیروریٹ کیا گیا تھا ان سیکٹرز کی ریٹیل سیل پر 5فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا گیا تھا ۔ اب ان سیکٹرز کے ریٹیلرز سے مشاورت کے بعد اس شرح کو 6فیصد تک بڑھانے کی تجویز ہے ۔ اس وقت کپڑے کی کمرشل درآمد پر سیلز ٹیکس صفر فیصد ہے جس کو بڑھا کر 6فیصد کرنے کی تجویز ہے تاکہ کپڑے کے مقامی صنعتکاروں کو صحت مند مسابقت کی فضاء میسر ہو سکے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سیکٹر سے ڈیوٹی کی وصولی بڑھانے اور سیگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کیلئے سیگریٹ کے دو موجودہ درجات پر ڈیوٹی کی شرح بڑھانے کی تجویز ہے ۔ مزید برآں اس سیکٹر ی Documentationاور اسمگلنگ اور غیر معیاری سیگرینوں کی روک تھام کیلئے ایک نیا درجہ متعارف کرانے کی تجویز ہے ۔ اسٹیل سیکٹر پر عائد سیلز ٹیکس کی شرح کو retionalizeکر نے کیلئے بجلی پر 9روپے فی یونٹ کی موجودہ شرح کو بڑھا کر 10.5روپے کیا جا رہا ہے اور اسی لحاظ سے شپ بریکنگ اور متعلقہ صنعتوں یہ اضافہ متعارف کیا جائے گا ۔ اس شعبے میں کاروبار کو آسان بنانے کے لئے اسٹیل کی صنعت کے مسائل کو مشاورت سے حل کیا جائے گا کہ عرف عام میں ایچ ایس سسٹم کے نام سے جانا جاتا ہے ،

ایک اہم کنونشن ہے جس کی بدولت عالمی سرحدوں کے مابین اشیاء کی خریدوفروخت بغیر کسی مشکل کے ہو رہی ہے ۔ ہر پانچ سال بعد ڈبلیو سی او اس کنونشن کا جائزہ لیتا ہے اور تجدید کرتا ہے کہ ۔ ڈبلیو سی او نے ایچ ایس ورژن کا یکم جنوری 2017سے نفاذ کردیا ہے ۔ پاکستان ایچ ایس کنونش کا حصہ ہونے کے ناطے اس نئے ورژن کو نئے مالی سال یعنی کم جولائی 2017سے اختیار کرنے کا پابند ہے ۔ ایچ ایس 2017کی ترامیم سے دنیا بھر میں خریدوفروخت ہونے والی 15فیصد کے لگ بھگ اشیاء پر اثر پڑے گا ایچ ایس 2017میں ہونے والی زیادہ تر تبدیلیاں ماحولیاتی اور سماجی امور سے متعلق ہیں ۔ اس کے علاوہ نئے ورژن میں اشییاء کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے تاکہ ان کی تیاری کے مراحل اور ٹیکنالوجی میں ہونے ولای ترقی کا احاطہ کیا جاسکے ۔ نئے ورژن کے نفاذ سے نہ صرف ایک قانونی تقاضہ پورا ہوگا بلکہ اس عمل سے امپورٹڈ اور دیگر تمام افراد کو مدد ملے گی جن کا کاروبار اور شراکتیں عالمی سطح پر پھیلی ہوئی ہیں ۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ پولٹری فارم سیکٹر نہ صرف ملک کے درمیانی آمدنی والے طبقے کو سستا چکن فراہم کررہا ہے بلکہ یہ شعبہ ملک صنعت میں اہم کردارادا کررہا ہے ۔ اس شعبے کو مزید ریلیف دینے کیلیئے تجویز ہے کہ چین کے grand parentاورparent stockکی امپورٹ پر عائد 5فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کردیا جائے اور کسٹمز ڈیوٹی کو11فیصد سے کم کر کے 3فیصد کردیا جائے ۔ اس کے علاوہ تجویز ہے کہ hatching eggsپر عائد کسٹم ڈیوٹی کو 11فیصد سے کم کر تین فیصد کردیا جائے ۔ اس عمل سے اس کاروبار کے inputsکی لاگت کو کم کرنے اور اس شعبے کو مزید ترقی اور فروغ دینے میں مدد ملے گی ۔ حکومت ملک میں مشینی فارمنگ کے فروغ کیلئے کاوشیں کر رہی ہے تاکہ پیداوار میں ااضافہ ہو سکے اور ملکی معیشت میں اس شعبے کا کردار مزید مستحکم بنایا جا سکے ۔

نئی کمبائنڈ harvestersپر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ ہے تاہم پرانی اور استعمال شدہ harvestersپر تین فیصد ڈیوٹی لاگو ہے ۔ زرعی شعبے کو مزید ریلیف دینے اور وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی سفارش پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ کا دائرہ نئی اور پانچ سال تک پرانی اور استعمال شدہ harvestersتک بڑھانے کی تجویز ہے تاکہ ان کی ملک میں درآمد کم سے کم لاگت پر ممکن ہو سکے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں شتر مرغ فارمنگ شروع ہو چکی ہے جس کی بدولت نہ صرف خوراک میں پروٹین کے جزو کو بڑھانے میں مدد ملے گی بلکہ ملک سے گوشت کی برآمد میں بھی اضافہ ہوگا ۔ ملک یں شتر مرغ فارمنگ کی حوصلہ افزائی کیلئے شتر مرغوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ کی تجویز ہے ۔ ہیلتھ سیکٹر ہمیشہ سے حکومت کی ترجیح رہا ہے مریضوں کو معیاری اور سستا علاج مہیا کرنے کیلئے کئی اقدامات پہلے سے ہی اٹھائے جا چکے ہیں پچھلے سالوں کی طرح اس سال بھی اس شعبے کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات کی تجویز ہے ۔ (a)فارما، بائیو ٹیکنالوجی اور لائف سائنسز میں استعمال کو فروغ دینے کے لئے pre-fabricated clean roomsکی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی 20فیصد سے کم کر کے تین فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔ (b) fabric-(non woven)فارماسیوٹیکل سیکٹر میں surgical grown , bandageاور زخموں کی مرہم پٹی کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ اس کپڑے پر16فیصد ڈیوٹی عائد ہے جسے کم کر کے پانچ فیصد کیا جارہا ہے ۔

الیکٹرک سیگریٹ پر ڈیوٹی تین فیصد سے بڑھا کر 20فیصد کی جائے گی ۔ پان اور چھالیا کے استعمال کی حوصلہ شکنی کیلئے اس پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح 10فیصد سے بڑھا کر 25فیصد جبکہ پان کی امپورٹ پر 200روپے فی کلو گرام ڈیوٹی عائد کی جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ آٹو پارٹس پنکھوں اور برتن سازی کی صنعت سمیت جن صنعتوں میں خام مال استعمال ہوتا ہے انہیں ریلیف دینے کے لئیے ڈیوٹی کی شرح 10سے کم کر کے 5فیصد کی جا رہی ہے ۔ شیر خوار بچوں کی صحت کیلئے بے پی ڈائپرز پر کسٹم ڈیوٹی 16سے کم کر کے 11فیصد کی جا رہی ہے ۔ ٹیلی کمیونکیشن سیکٹر میں مزید مراعات دینے کیلئیے ڈیوٹی کی شرح 11فیصد اور16فیصد سے لاگو کسٹم ڈیوٹیاں ختم کر دی گئی ہیں ۔ لکڑی کے شعبے کے استحکام کیلئیے وینرز شیٹز پر عائد 16فیصد کسٹم ڈیوٹی کم کر کے 11فیصد ۔ hybrid گاڑیوں پر ٹیکسوں کی کمی کی جا ری ہے ۔ گاڑیوں کی امپورٹ پر ٹیکسوں کی شرح 25فیصد برقرار رکھی جائے گی ۔

الیکٹرک گاڑیوں پر عائد ڈیوٹی پر ریلیف دینے کے لئے تین مہینوں کے اندر پیکج کا اعلان کیا جائے گا ۔ سی پیک منصوبوں کی ضروریات کے مدنظر اس میں 11اجزاء شامل کرنے کی تجویز ہے ۔ بیت المال کا بجٹ 50فیصد اضافے کے بعد 6ارب روپے کردیا گیا ۔ بیواؤں کیلئے قرض کی ادائیگی کی حد ساڑھے تین لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ کردی گئی ہے ۔ پینشن ، بیواؤں اور بزرگوں کے لئے اے ٹی ایم ، موبائل اور انٹرنیٹ بیکنگ کا آغاز کیا جائے گا ۔ سمندر پار پاکستانیوں کیلئے ایک ارب ڈالر کا non convert ableبانڈ جاری کیا جائے گا۔ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کیلئے سی ڈی اے ایک علیحدہ سیکٹر کا اعلان کرے گا۔ سیلز ٹیکس کے تمام زیر التوا ریفنڈز جو منظور ہو چکے ہیں دومراحل میں ادا کئے جائیں گے ۔ سرکاری ملازمین اور پنشنرزکیلئے ریلیف اقدامات کا اعلان کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ کم سے کم اجرت 14سے بڑھا کر 15ہزار کر رہے ہیں

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…