’’بھارت بھی پاکستان اور چین کے لازوال منصوبے سی پیک میں شامل ہو جائے‘‘ ہندوستان کو یہ مشورہ کس نے دیا؟

30  دسمبر‬‮  2016

نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت کے موقر اخبار’دی ہندو‘ نے بھارت کو سی پیک منصوبے میں شامل ہونے کا مشورہ دے دیا۔ بھارت کبھی متحمل نہیں ہو سکتا کہ ’ون بیلٹ ون روڈ‘ منصوبے اور دیگرچینی منصوبوں پر صرف تنقید اور مخالفت کا وطیرہ اختیار کرے۔سی پیک کسی بھی طرح پاکستانی منصوبہ نہیں، یہ منصوبہ صرف پاکستان سے گزرتا ہے یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو64ممالک کو جوڑتا ہے۔
بھارتی اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ پاکستان اور چین کی طرف سے سی پیک میں شامل ہونے کے لئے بھارت کے ساتھ دیگر ہمسایہ ممالک کو بھی دعوت دی گئی ہے۔ایران پہلے ہی گوادر کو چاہ بہار کی سسٹر پورٹ قرار دے چکا ہے۔ ترکمانستان اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں نے بھی اس میں شامل ہونے میں دلچسپی کا اظہار کردیا ہے، ان کے لئے سی پیک چین کے شہرکاشغر تک پاکستانی راستے کے ذریعے سامان پہنچانے کا مرکزی راستہ ثابت ہوگا۔
شمال کی طرف پاکستان سے دہشت گردی کے خلاف مسائل کے باوجود، افغانستان ایران تک جانے والے چینی منصوبوں میں شامل ہوگا۔رواں ہفتے افغانستان پر، روسی چینی اور پاکستانی حکام کے درمیان اجلاس اور طالبان کے ساتھ روسی مصروفیت اس بات کی واضح نشاندہی ہے کہ صرف ہائی ویز یا سرنگیں کی ہی منصوبہ بندی نہیں کی جارہی بلکہ خطے میں بہت کچھ تبدیل ہو نے جا رہا ہے۔
اداریے کے مطابق ایک سینئر پاکستانی جنرل کی طرف سے بھارت کو پاکستان کے ساتھ دشمنی ختم کرنے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے میں شامل ہونے کی تجویز کو چینی وزارت خارجہ نے جذبہ خیر سگالی‘ کی پیشکش قرار دیا اور بھارت سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس پر سنجیدگی سے غور کرے۔ بظاہر یہ تجویز عجیب لگتی ہے۔
اس وقت بھارت کی پاکستان کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہے،اخبار نے تسلیم کیا کہ چین کے ساتھ پاکستان کے اس مشترکا منصوبے کی بھارت نے’اعلی ترین سطح ‘ پر مخالفت کی یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں بھی روڑے اٹکائے۔چین کے ساتھ بھارت کے اس وقت سے تعلقات کافی خراب ہیں جب اپریل 2015میں چینی صدرژی جن پنگ نے اس منصوبے کے اعلان کے لئے دورہ پاکستان کیا۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ نئی دہلی نے اس منصوبے کی اہمیت کو کم کرنے کی بہت کوشش کی، وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے سامنے اس منصوبے پر اعتراض اٹھانے اور بیجنگ کو قائل کرنے کے لئے دورہ چین کیا۔ تاہم، نہ صرف کوریڈور پر تیزی سے کام شروع ہوا اور اس نے عملی شکل اختیار کرلی بلکہ چین اور پاکستان مزید قریب ہو گئے۔
پاکستان نے سی پیک پر کام کرنے والے چینی حکام کی حفاظت کیلئے قابل قدر وسائل کی سرمایہ کاری کی۔ چین نے بھی پاکستان کے مفادات کو شامل کرکے وسطی ایشیا تک ایک بیلٹ ایک سڑک کے منصوبے کی از سرنو منصوبہ بندی کی۔ پاکستان پر دہشت گروپوں کی حمایت کے بھارتی الزامات کے سامنے چین نے پاکستان کا ہی دفاع کیااور بھارت کی نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کی درخواست پر اعتراض اٹھا دیا۔
ان تمام پس منظر میں پاکستانی جنرل کی تجویز کو صرف ایک بیان ہی سمجھا جا سکتا ہے جب کہ بھارت پر پاکستان مخالف سرگرمیوں اور بلوچستان میں حالات خراب کرنے کے الزامات ہوں۔اخبار کے مطابق بھارت کے پاس سی پیک منصوبے میں شامل ہونے کی ذرا سی بھی کوئی گنجائش ہے، بھارت کے پاس پیچھے ہٹنے کی جگہ تو ہے اور یوں پاکستان اور چین کوترقی کرتا دیکھے۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…