یہ بھارت کا مسئلہ نہیں۔۔ بھارت سن لے کہ ۔۔۔وزیر اعظم نواز شریف نے واضح پیغام دے دیا

3  اگست‬‮  2016

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ اگر کسی ملک کی قومی شنا خت ، علاقائی اور عالمی شناخت سے ہم آہنگ نہیں ہے تو اسے بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا سامنا کر نا پڑھ سکتا ہے، باہمی تنازعات کا پر امن اور مذاکراتی حل وقت کی اہم ضرورت ہے، ہم کسی تصادم کے متحمل نہیں ہوسکتے، دنیا بھر میں امن کے متلاشی ہیں لیکن وقار، عزت اور برابری کی بنیاد پر اور دوستانہ تعلقات کی کاوشوں کو کسی بھی طور ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے،باہمی مفاد ، ایک دوسرے کی خود مختاری اور سا لمیت کے احترام اور عدم مداخلت پر یقین رکھتے ہیں، پاکستان کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے سائے سے نکال کر استحکام اور روشن خیالی کی فضا میں لانا ہے، نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب پاکستانی قوم، پاکستانی ریاست اور پاکستانی حکومت کے عزم اور یکسوئی کا اظہار ہے،اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اہلِ کشمیر کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے، دنیا کو باور کرانا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں،دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہے، پاکستان اپنی زمین کو کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔ اہم ممالک میں تعینات پاکستانی سفیروں کی کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کے موقع پرانہوں نے کہا کہ آج کا پاکستان 2013 کے پاکستان سے کہیں زیادہ پر امن ،خوشحال اور مستحکم ہے۔وزیراعظم نے گذشتہ دو دنوں کے دوران سفیروں کی کانفرنس میں مرتب کی گئی سفارشات کی روشنی میں اپنے ویڑن کو واضح کیا۔
پاکستانی سفیروں سے مخاطب ہوتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آج دنیا کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کرنا کہیں آسان ہے۔ آپ پورے اطمینان کے ساتھ پاکستان کا تصور دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں اور عالمی برادری کو ایسے مستقبل کی طرف متوجہ کرسکتے ہیں جسے میں معاشی خوشحالی بھی ہے اور سرمایہ کا یقینی تحفظ بھی۔ وزیراعظم نے کہاکہ اگر کسی ملک کی قومی شنا خت ، علاقائی اور عالمی شناخت سے ہم آہنگ نہیں ہے تو اسے بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا سامنا کر نا پڑھ سکتا ہے لہذا ہمیں اپنی اقدار کے ساتھ عالمی تہذیبی اقدار کا بھی خیال رکھنا ہے اور اس کے ساتھ اپنے مفادات کو عالمی اور عالمی مفادات سے بھی ہم آہنگ بنانا ہے۔علاقائی تناظر میں وزیراعظم محمد نواز شریف نے خطے میں پائیدار امن اور ترقی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ باہمی تنازعات کا پر امن اور مذاکراتی حل وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم کسی تصادم کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہم اگر کسی تصادم میں الجھے گے تو ہماری وہ پیش قدمی رک جائے گی جو اقتصادی اور سماجی میدان میں جاری ہے۔ ہم دنیا بھر میں امن کے متلاشی ہیں لیکن وقار، عزت اور برابری کی بنیاد پر اور دوستانہ تعلقات کی کاوشوں کو کسی بھی طور ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہم باہمی مفاد ، ایک دوسرے کی خود مختاری اور سا لمیت کے احترام اور عدم مداخلت پر یقین رکھتے ہیں۔وزیراعظم نے سفیروں سے کہا کہ آج پاکستان کو بیک وقت کئی محاذوں پر پر سرگرم ہونا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے سائے سے نکال کر استحکام اور روشن خیالی کی فضا میں لانا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب پاکستانی قوم، پاکستانی ریاست اور پاکستانی حکومت کے عزم اور یکسوئی کا اظہار ہے۔پاکستان دہشت گردی سے کم و بیش نجات پا چکا ہے۔
اب انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی تشکیل دی جارہی ہے تاکہ دہشت گردی جڑ سے ختم کردی جائے۔ ہشت گردی کے مراکز کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اِس کے لیے پاک فوج، پولیس ، رینجرز ،سلامتی کے اداروں اور عوام نے جو قربانیاں دی ہیں پوری دنیا ان کی معترف ہے۔چین ہمارا قابلِ بھروسہ دوست ملک ہے۔ یہ دوستی ہر دور میں اور ہر آزمائش میں مزید پختہ ہوئی ہے۔ہمیں خوشی ہے کہ یہ دوستی ایک کثیر الجہتی شراکت داری میں تبدیل ہوچکی ہے۔سی پی ای سی کے منصوبوں پر ہم چینی حکومت اور عوام کے تہہ دل سے مشکور ہیں۔ ہم پاک چین دوستی کو مزید بلندیوں تک لے جانے کے لیے پر عزم ہیں۔سی پی ای سی کی حیثیت ایک گیم چینجرکی ہے۔یہ صرف معاشی خوشحالی کا منصوبہ نہیں، بلکہ اس کے ذریعے ہم خطے میں باہمی تعلقات کا ایک نیا ویڑن متعارف کرا رہے ہیں۔یہ اقتصادی مفادات کے اشتراک کا منصوبہ ہے۔ اِس میں ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کے لیے بھی امکانات کی ایک پوری دنیا ہے۔ ہم اس منصوبے کوخطے میں نئے تعلقات کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں تاکہ جنوبی ایشیا کو اس تاریخی رکاوٹ سے نکال سکیں جس کے باعث، ہمارے وسائل ایک ایسے تصادم کی نذر ہو رہے ہیں جس میں کسی کا مفاد نہیں۔ سی پی ای سی ایک مستحکم انفراسٹرکچر کی تشکیل کا منصوبہ ہے جو نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مزید متوجہ کرسکے گا بلکہ علاقائی ترقی اور خوشحالی کا بھی ضامن ہوگا۔آج آپ نے اِس روشن پاکستان کا تعارف دنیا کے سامنے رکھنا ہے۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ دنیا کو اس پاکستان سے متعارف کرائیں جس کا شمار ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ہورہا ہے جو ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستحکم و محفوظ ہے۔ جہاں انسانی حقوق کا احترام پایا جاتا ہے۔
جہاں اقلیتیں پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ہیں۔ جہاں ایک ایسا مضبوط اقتصادی اور قانونی انفراسٹرکچر موجودہے جو سرمایے کو نہ صرف تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ اس کو نشوونما بھی دیتا ہے۔ آج پاکستان میں سرمایہ کاری کے وسیع امکانات موجود ہیں، جن میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ آپ کا خصوصی مشن ہونا چاہیے۔یہ آپ کی اقتصادی سفارت کاری کا امتحان ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اہلِ کشمیر کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ آج کشمیر میں آزادی کی نئی لہر ہے۔ بھارت سے آزادی کی تمنا،کشمیریوں کی تیسری نسل کے لہومیں جس شدت کے ساتھ دوڑ رہی ہے، اس کا مظاہرہ دنیا 8جولائی کے بعد اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیریوں کی نئی نوجوان نسل آزدی کی تڑپ میں قربانیوں کی لازوال داستیں رقم کررہی ہے۔ان کی آنکھیں گولیوں سے چھلنی ہیں لیکن آزادی کی روشنی ان کی رہنمائی کررہی ہے۔ آپ نے دنیا کو باور کرانا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں‘ یہ صورف بھارت کا مسئلہ نہیں، بھارت کو اسے حل کرنا ہوگا۔ بھارت نے اسے متنازعہ مانا ہے۔اقوامِ متحدہ نے اسے پاکستان اور بھارت کے ما بین ایک تنازعہ قرار دیا ہے جس میں کشمیری بھی ایک بنیادی فریق ہیں۔کشمیر انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ بھی ہے۔ آج دنیا میں انسانی حقوق کو کسی ملک کا داخلی مسئلہ نہیں سمجھا جاتا۔
یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ان دو بنیادوں پر آپ نے کشمیر کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔پاکستان دہشت گردی کا ہدف رہا ہے۔ دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہے۔ آپ نے اس مقدمے کو دنیا کے سامنے شواہد اور استدلال کے ساتھ پیش کرنا ہے۔ آپ نے دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستانی عوام ،پاکستانی حکومت اورپاکستانی سیکیورٹی کے ادارے دہشت گردی کی اس جنگ میں یکسو ہیں اور ایک بے مثال عزم کے ساتھ اس جنگ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے والے ہیں۔آپ نے دنیا کوپاکستانی قوم کی بے مثال قربانیوں سے آگاہ کرنا ہے۔افغانستان میں امن ،پاکستان کے امن کے لیے ضروری ہے۔اس کے لیے ہم نے چار فریقی مذاکراتی عمل کو آگے بڑھایا اورآئندہ بھی ہم افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ہر کوشش کے ساتھ ہیں۔یہ بات اقوام عالم کو معلوم ہونی چاہیے کہ پاکستان اپنی زمین کو کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا اور یہ پاکستان کا واضح ریاستی موقف ہے۔آخر میں وزیراعظم نے سفیروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا سفیر ہونا ایک اعزاز سے کم نہیں۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ آپ دنیا کے سامنے ایک عظیم ملک اور ایک عظیم قوم کی نمائندگی کریں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کی محنت سے پاکستان کا حقیقی تعارف دنیا کے سامنے آئے گا۔ ایک سفیر کی کامیابی یہی ہے کہ جس ملک میں وہ تعینات ہے،وہاں سبز پاسپورٹ عزت اور وقار کی علامت بن جائے۔ مجھے آپ کی صلاحیتوں اور حب الوطنی پرپورا اعتماد ہے۔سیاست اور سفارت کاری دونوں اگر مشن نہ بنیں تونتیجہ خیز نہیں ہوتے۔مجھے یقین ہے کہ آپ سفارت کاری کو ایک مشن سمجھتے ہیں اور انشااللہ ہم سب کی کوششوں سے دنیا روشن ،محفوظ اور مستحکم پاکستان سے متعارف ہوگی۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…