میاں نواز شریف کے لیے مشورہ

25  جولائی  2021

لندن کے شمالی زون میں 20 جولائی کی رات ساڑھے آٹھ بجے ایک اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا‘ عابد شیرعلی اور سلیمان شہباز اپنی فیملی کے ساتھ ترکش ریستوران (Gokyuzu) میں کھانا کھانے گئے‘ یہ لندن میں عید کی رات تھی‘ ریستوران میں ایک اور پاکستانی فیملی بھی بیٹھی تھی‘ دوسری فیملی کی بزرگ خاتون نے جاتے جاتے عابد شیرعلی کو مخاطب کیا اور انہیں برا بھلا کہنے لگیں‘

عابد شیرعلی بلڈ پریشر کے مریض ہیں‘ یہ کھڑے ہوئے اوردوسری فیملی کو گالیاں دینا شروع کردیں‘ جواب میں وہ خاندان بھی میدان گالی میں کود پڑا اور یوں تماشا لگ گیا‘ فریقین ساتھ ساتھ ویڈیوز بھی بناتے رہے اور پوری دنیا کو اپنا شاہکار بھی دکھاتے رہے۔یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ تھا‘ خواتین کے سامنے ننگی گالیاں اور یہ گالیاں بعدازاں وائرل ہونا شریف فیملی کی کیا عزت رہ گئی؟ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ‘ شریف فیملی کے ساتھ لندن میں آئے روز اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں‘ میاں نواز شریف کی رہائش گاہ کے سامنے ہجوم بھی جمع رہتا ہے اور یہ ایسے ایسے واہیات نعرے لگاتا ہے جنہیں سننا اور برداشت کرنا آسان کام نہیں‘ خاندان کے لوگ شاپنگ کے لیے نکلتے ہیں‘ ہائیڈ پارک میں چہل قدمی کے لیے آتے ہیں‘ کسی ریستوران یا ہوٹل میں کھانا کھانے جاتے ہیں‘ ائیرپورٹ پر پہنچتے ہیں‘ ہسپتال جاتے ہیں یا پھر بچوں کو سکول یا پلے گرائونڈ میں چھوڑنے جاتے ہیں تو کوئی نہ کوئی پاکستانی اپنا موبائل فون آن کرتا ہے اور پھر انہیں مخاطب کر کے ان کے ساتھ بدتمیزی شروع کر دیتا ہے‘ میاں نواز شریف‘ اسحاق ڈار‘ میاں شہباز شریف اور حسن اور حسین نواز بھی اس بے عزتی سے محفوظ نہیں رہتے‘ یہ درجنوں مرتبہ لوگوں کے موبائلوں کی زد میں آئے اور ان کی بے بسی پوری دنیا نے دیکھی‘ عابد شیر علی بھی متعدد مرتبہ نشانہ بن چکے ہیں‘ لوگ شریف فیملی کو ہسپتالوں میں بھی نہیں چھوڑتے‘ بیگم کلثوم نواز آخری سانسیں لے رہی تھیں اور لوگ ان کے ہسپتال میں گھس کر ان کی ویڈیو بنانے کی کوشش کر رہے تھے‘ میاں نواز شریف کے پوتے اور نواسے ہجوم سے بھڑ گئے اور بات تھانے تک پہنچ گئی‘ یہ نواسے کا پولو میچ دیکھنے گئے اور لوگوں نے تماشا لگا لیا‘ اسحاق ڈار مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں تو لوگ ان کی ویڈیو بنانے لگتے ہیں‘ یہ رک کر ان سے آرگومنٹ کی کوشش کرتے ہیں تو اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ تماشا بھی پوری دنیا نے دیکھا‘ والدین انسان کا اثاثہ ہوتے ہیں‘ دنیا کے ہر بیٹے کی خواہش ہوتی ہے وہ اپنے والدین کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارے لیکن آپ میاں نواز شریف کی بدقسمتی دیکھیں‘ ان کے والد 2004ء میں فوت ہوئے تو انہیں غیروں نے لحد میں اتارا‘ والدہ کا22نومبر 2020ء کو انتقال ہوا‘ ان کی میت کارگو کے ذریعے لاہور آئی اور میاں نواز شریف ان کے جنازے کو کندھا نہ دے سکے اور محترمہ کلثوم نواز کے جنازے میں ان کے بیٹے شریک نہ ہو سکے‘ کیا یہ بدنصیبی نہیں؟

میاں نواز شریف کے پاس اس وقت دو آپشن ہیں‘ یہ لندن میں بیٹھ کر چپ چاپ یہ ذلت برداشت کرتے رہیں اور ان کا خاندان جب بھی باہر نکلے اپنا منہ چھپا کر نکلے اور اگر کسی کافی شاپ سے کافی بھی لے تو پہلے دائیں بائیں یہ دیکھ لے وہاں کوئی پاکستانی تو موجود نہیں‘ اگر ہو تو کافی کی خواہش دل میں چھپا کر خاموشی سے آگے نکل جائے‘ ان کے بچے سکول نہ جا سکیں‘ فیملی شاپنگ نہ کر سکے‘

ریستوران میں کھانا نہ کھا سکیں‘ علاج کے لیے کسی کلینک‘ کسی ہسپتال نہ جا سکیں اور یہ مسجد میں نماز بھی نہ پڑھ سکیں اور اس دوران اگر خدانخواستہ ان کے کسی عزیز رشتے دار کا پاکستان میں انتقال ہو جائے تو عابدشیر علی کی مرحومہ بیگم کی طرح انہیں دوسرے دفن کریں اورخاندان لندن میں بیٹھ کر صرف دعا کر سکے اور اگر خدانخواستہ خاندان کے کسی فرد کا لندن میں انتقال ہو جائے

تو وہاں سے صرف اس کی میت پاکستان واپس آئے اور بیگم کلثوم نواز کی طرح اس عزیز کے بچے بھی تدفین کے وقت پانچ ہزار کلومیٹر دور بیٹھے رہ جائیں اور دوسرا آپشن یہ ہے میاں صاحب اپنے پورے خاندان کے ساتھ پاکستان آئیں اور مردوں کی طرح عدالتوں اور جیلوں کا سامنا کریں‘ میرا مشورہ ہے میاں صاحب آپ کو یہ کرنا چاہیے‘ ملک آپ کا ہے‘ آپ کے اس میں لاکھوں چاہنے والے ہیں‘

آپ کو جیل میں بھی وہ سہولتیں حاصل تھیں جو لوگوں کو اپنے گھروں میں بھی نہیں ملتیں‘ آپ جیل سے ہسپتال بھی جاتے تھے تو پورے پروٹوکول کے ساتھ جاتے تھے اور کسی شخص کو آپ کے گھر یا دفتر کے سامنے نعرے لگانے یا آپ کے خاندان کے ساتھ کسی ریستوران میں بدتمیزی کی جرات نہیں ہوتی تھی لہٰذا آپ اگر عزت کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو پھر آپ سب کو ساتھ لے کر واپس آ جائیں

اور خاندان کا جو فرد آپ کے ساتھ نہ آئے آپ اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عاق کر دیں‘آپ ملک میں کھڑے ہو کر حالات کا مقابلہ کریں‘ آپ آخر ’’بھگوڑے یا کرپٹ‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ لندن میں کتنی دیر بیٹھ لیں گے‘ آپ آخر اپنی اور اپنے خاندان کی مزید کتنی بے عزتی کرانا چاہتے ہیں‘ آپ آخر مزید کتنی گالیاں کھائیں گے؟ دنیا میں پیسے‘ شہرت اور طاقت کو عزت کا باعث بننا چاہیے‘

وہ طاقت جس کے ساتھ بے عزتی ہو‘ وہ شہرت جس کے بعد آپ کسی ریستوران‘ ائیرپورٹ یا پارک نہ جا سکیں اور وہ پیسہ جسے آپ کو چھپانے اور بچانے کے لیے دوسری حکومتوں کی منتیں کرنی پڑیں اس دولت‘ اس طاقت اور اس شہرت کا کوئی فائدہ نہیں‘ کیا آپ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے بھگوڑا یا کرپٹ بن کرزندہ رہنا چاہتے ہیں‘ آپ چاہتے ہیں دنیا جب بھی آپ کا نام لے تو وہ سوہارتو‘ فرڈیننڈ مارکوس‘ ثانی اباچا اور زین العابدین بن علی جیسے کرپٹ لیڈروں کے ساتھ لے‘ کیا آپ یہ چاہتے ہیں؟۔

پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی مثال بھی موجود ہے اور جنرل یحییٰ خان اور جنرل پرویز مشرف کی بھی‘ ذوالفقار علی بھٹو جلاوطن ہونے کی بجائے پھانسی چڑھ گئے‘ بھٹو کے اس فیصلے نے آج تک انہیں اور پیپلز پارٹی دونوں کو مرنے نہیں دیا‘ بھٹو آج بھی زندہ ہے‘ اسے کوئی عدالت‘ کوئی آمر مار سکا اور نہ وقت اس کا نشان مٹا سکا‘اگر وہ بھی کمپرومائز کر لیتا اور شاہ فیصل‘ کرنل قذافی یا شاہ حسین کے پاس چلا جاتا تو وہ بھی باقی زندگی بزدلوں کی طرح گھر میں بیٹھا رہتا

یا پھر ریستورانوں میں گالیاں کھاتا کھاتا مر جاتا‘ بے نظیر بھٹو بھی یہ جانتی تھی وہ پاکستان میں زندہ نہیں رہ سکے گی لیکن وہ اس کے باجود واپس آئی‘ کراچی میں اس پر خود کش حملہ ہوا‘180 لوگ شہید ہوگئے لیکن وہ اس کے باوجود واپس نہیں گئی اور آخر میں خودکش حملے کا شکار ہو گئی‘ کیوں؟ کیوں کہ وہ بھی جلاوطنی اور بزدلی کی زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی‘ یہ بھی مرکر امر ہو گئی جب کہ اس کے مقابلے میں یحییٰ خان اور جنرل مشرف نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا‘ جنرل یحییٰ خان بالکونی میں

بیٹھے بیٹھے مر گیا اور جنرل مشرف نے عدالتوں سے فرار ہو کر دوبئی اور لندن میں پناہ لے لی اور زندہ لاش بن گئے‘ یہ بھی اگر ملک میں رہ کر حالات اور مقدمات کا سامنا کرتے‘ لیڈروں کی طرح عدالتیں اور جیلیں برداشت کر لیتے تو آج شاید ان کا پروفائل مختلف ہوتا‘ یہ آج عمران خان کی جگہ بیٹھے ہوتے لہٰذا میرا نواز شریف کو مشورہ ہے یہ واپس آئیں اور ملک کے اندر بھٹو بن جائیں

یا بے نظیر بھٹو لوگ ہیرو کی طرح ان کی تصویریں دیواروں پر لگائیں گے‘ یہ اپنی پارٹی کے ہر ورکر کی آنکھ میں بھی زندہ رہیں گے لیکن یہ اگر لندن میں چھپ کر بیٹھے رہے تو یقین کریں یہ وہاں اور ان کی پارٹی یہاں ختم ہو جائے گی‘ موت کا ذائقہ دنیا کے ہر شخص کو چکھنا پڑتا ہے‘ وہ لندن میں ہو‘ جدہ میں یا پھر پاکستان میں‘ موت آ کر رہتی ہے لیکن عزت کے ساتھ زندگی کا ذائقہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا ‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عزت بھی دی ‘ اقتدار بھی اور دولت بھی‘ آپ اسے لندن میں کیوں برباد کر رہے ہیں‘

آپ اور آپ کا خاندان کیوں روز سڑکوں پر بے عزت ہو رہا ہے؟ صرف اس رقم اور اس زندگی کے لیے جس کے بارے میں دنیا کا کوئی شخص کوئی پیشن گوئی نہیں کر سکتا‘ دنیا کی کوئی طاقت قبر کی رات اور آخری سانس کو نہیں ٹال سکتی اور جب آخری سانس کا وقت آئے گا تو پھر آپ لندن ہوں یا پھر لاہور آپ کو کوئی نہیں بچا سکے گا اور اگر اللہ کو آپ کی زندگی منظور ہے تو پھر اگر آپ کو پھانسی پر بھی لٹکا دیا جائے تو بھی آپ زندہ رہیں گے اور یہ بھی یاد رکھیں آپ جس دن دنیا سے رخصت ہو جائیں گے

اس دن آپ کی ساری دولت برطانیہ ضبط کر لے گا‘ آپ کے خاندان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا چناں چہ میاں صاحب عزت کے ساتھ زندگی گزاریں‘ آبرو کے ساتھ زندہ رہیں‘آپ جو زندگی گزار رہے ہیں وہ زندگی کوئی زندگی نہیں‘کوٹ لکھپت اس سے ہزار درجے بہتر ہے ‘ آج آپ اپنے فلیٹ کی کھڑکی سے چور چور اور ڈاکو ڈاکو کے

نعرے سن رہے ہیں اور آپ اپنی خواتین کے ساتھ سڑک پر نہیں نکل سکتے‘ میاں صاحب اس دولت اور اس زندگی کا کیا فائدہ جو آپ کو عزت نہ دے سکے؟ جس کے ہوتے ہوئے آپ کو اپنا منہ چھپانا پڑے جائے‘ملک میں تاریخ آپ کا انتظار کر رہی ہے‘ اسے مایوس نہ کریں اور اپنے اور اپنے خاندان کو فخر اور عزت سے محروم نہ کریں‘ یہ ذلت ہے‘ یہ آپ کے شایان شان نہیں!ٖ۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…