اورنگ زیب ثانی

1  جولائی  2017

ڈاکٹر خالد رانجھا ملک کے نامور قانون دان ہیں‘ وہ وفاقی وزیر قانون رہے اور آخری اطلاعات تک وہ مسلم لیگ ق سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پچھلے دنوں نگران وزیراعظم اور چیئرمین سینٹ محمد میاں سومرو کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ سنایا تھا‘ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا ’’میں نے زندگی میں اتنا شائستہ‘ مہذب‘ منکسرالمزاج اور عاجز سیاستدان نہیں دیکھا‘

میں چند سینیٹرز کے ہمراہ سومرو صاحب کے ساتھ عمرے کی ادائیگی کیلئے حجاز مقدس گیا تھا‘ خانہ کعبہ میں داخل ہونے سے پہلے سومرو صاحب نے جیب سے بڑا شاپنگ بیگ نکالااور ساتھیوں سے فرمایا‘آپ تمام لوگ اپنے اپنے جوتے اس بیگ میں ڈال دیں‘ ہم سب لوگوں نے سمجھا سومرو صاحب جوتے شاپنگ بیگ میں ڈال کر کسی ستون کے پیچھے رکھ دیں گے یا جوتوں کے کسی ریک میں فٹ کر دیں گے چنانچہ ہم نے اپنے اپنے جوتے ان کے شاپنگ بیگ میں ڈال دئیے‘ اس کے بعد سومروصاحب نے یہ بیگ اٹھایا اور طواف میں شامل ہو گئے‘‘۔ ڈاکٹر خالد رانجھا کے بقول یہ وہ لمحہ تھا جس نے تمام سینیٹرز کے ماتھے بھگو دئیے‘ تمام لوگ شرمندگی کے شدید احساس میں ڈوب گئے اور اسی احساس کے ساتھ ان تمام سینیٹرز نے طواف مکمل کیا‘ طواف کے بعد بھی سینیٹرز نے سومروصاحب سے جوتوں کا بیگ واپس لینے کی کوشش کی لیکن انہوں نے پورے عمرے کے دوران یہ بیگ اٹھائے رکھا‘ ڈاکٹر خالد رانجھا کا فرمانا تھا ’’یہ میری زندگی کا حیران کن واقعہ تھا اور میں نے آج تک ان سے بڑا درویش سیاستدان اور فقیرمنش حکمران نہیں دیکھا‘‘ ڈاکٹر صاحب جب یہ واقعہ سنا رہے تھے تو اس وقت وہاں چار لوگ موجود تھے اوران چاروں میں ایک میں بھی تھا‘ میں نے خود کو متاثر ہونے سے بچانے کی پوری کوشش کی لیکن میری کوشش کامیاب نہ ہوئی اور میں سومرو صاحب کی ذات سے پوری طرح متاثر ہو گیا۔

مجھے یہ واقعہ حقیقی لگا کیونکہ میں خود محمد میاں سومرو کی عاجزی اور انکساری کا عینی شاہد تھا‘ وہ 2001ء میں سندھ کے گورنر تھے اور مجھے کسی صاحب کے ساتھ گورنر ہاؤس جانے کا اتفاق ہوا تھا‘ وہ صاحب سومرو صاحب کے دوست تھے‘ ہم ان کے آفس کے قریب پہنچے تو سومروصاحب نے دفتر سے باہر آ کر ہمارے لئے دروازہ کھولا اور جب تک ہم لوگ اندر داخل نہ ہوگئے وہ دروازہ پکڑ کر کھڑے رہے‘ میرے سر میں درد ہو رہاتھا‘

میں نے گورنر ہاؤس کے بٹلر سے سردرد کی گولی مانگی توسومروصاحب یک دم پریشان ہو گئے‘ وہ اٹھے‘ اپنے بیڈ روم میں گئے‘ میرے لئے سردرد کی گولی لائے اور گلاس میں پانی بھر کر مجھے گولی کھلائی اور اس کے بعد ہم جتنی دیر وہاں بیٹھے رہے‘ وہ مجھ سے میری خیریت پوچھتے رہے۔ یہ میری ان کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔محمد میاں سومرو جتنی دیرسندھ میں گورنر رہے انہوں نے گورنر ہاؤس میں قیام نہیں کیا‘ وہ سارا دن گورنر ہاؤس میں کام کرتے تھے اور شام کو اپنے ذاتی گھر چلے جاتے تھے۔

سومرو صاحب نے سندھ کے تمام سیکرٹریوں کو اپنے بیڈ روم کا ٹیلی فون نمبر دے رکھا تھا او وہ رات تین بجے بھی ان لوگوں کا فون سنتے تھے‘ وہ 2002ء کی پارلیمنٹ تشکیل پانے کے بعدکراچی سے اسلام آباد شفٹ ہوئے تو بھی ان سے ایک آدھ ملاقات ہوئی اور ان تمام ملاقاتوں میں بھی ان کی عاجزی‘ انکساری‘ خداخوفی اور درویشی نمایاں رہی اور میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ مجھے ان کے بعض دوستوں نے بھی ان کی زندگی کے بارے میں محیر الحقول واقعات سنائے تھے‘

یہ تمام لوگ ڈاکٹر خالد رانجھا کی طرح سومروصاحب کی پیرپرستی اور درگاہوں سے خصوصی شغف کے معترف تھے اور ان سب کا فرمانا تھا ’’ہم نے زندگی میں اتنا سادا اور مہربان شخص نہیں دیکھا‘‘ یہ تمام لوگ ان کی اتنی تعریف کرتے تھے کہ میں ان سے ذرا سی ’’جیلسی ‘‘ محسوس کرنے لگا اور حسد میں آ کراکثر اوقات ان کی روحانیت سے انکار بھی کر دیتالیکن پھر24فروری کا دن آگیا اور میں اس درویش وزیراعظم اور منکسرالمزاج چیئرمین سینٹ کی روحانیت کا پوری طرح قائل ہو گیا اور میں نے فیصلہ کر لیا اگر میں نے زندگی میں کبھی کسی زندہ پیر کے ہاتھوں پر بیعت کی تو وہ محمد میاں سومرو ہی ہوں گے۔

میں نے یہ بھی فیصلہ کر لیا‘ میں اس ملک کے 16کروڑ لوگوں سے بھی درخواست کروں گا وہ بھی فوراً اپنے اپنے منہ عرق گلاب سے دھو لیں اور انہیں جب بھی موقع ملے وہ اپنے ہونٹ سومرو صاحب کے دست روحانیت پر رکھ دیں اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں سیدھی کر لیں۔ وہ کیا واقعہ تھا جس نے مجھے ان کے انتہائی احترام پر مجبور کر دیا‘ میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو اس واقعے میں شریک کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔محمدمیاں سومرو چیئرمین سینٹ ہیں اور وہ 15نومبر 2007ء کو شوکت عزیز حکومت کے خاتمے کے بعد نگران وزیراعظم بنائے گئے تھے‘

ان کی وزارت عظمیٰ کی مدت نئے الیکشنز اور نئی حکومت کے قیام تک ہے۔ 26دسمبر 2007ء کو محمد میاں سومرو کے اصلی دفتر سینٹ سیکرٹریٹ کے ایک ایڈیشنل سیکرٹری نثار محمد نے وزیراعظم سیکرٹریٹ کو ایک سمری بھجوائی‘ اس سمری میں وزیراعظم سے درخواست کی گئی وزیراعظم اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سینٹ کے تمام سابق اور آئندہ ریٹائر ہونے والے چیئرمینوں کی مراعات میں اضافہ کر دیں۔ اس سمری میں ریٹائر چیئرمین سینٹ کے لئے دس مراعات مانگی گئیں‘

ان مراعات میں چیئرمین سینٹ اور ان کے تمام اہل خانہ کیلئے ملک اور بیرون ملک تاحیات طبی سہولیات کی مفت فراہمی‘ تاحیات پرائیویٹ سیکرٹری‘ سیکورٹی گارڈز‘ ڈرائیور اور خانساماں کی سہولت‘ تاحیات سرکاری گیسٹ ہاؤسز میں مفت رہائش‘ سفارتی پاسپورٹ اور فری ٹیلی فون‘ تین ممنوعہ اور چھ غیر ممنوعہ بور ہتھیاروں کے لائسنس‘ ملک کے تمام ائر پورٹس سے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت‘ پروٹوکول کوریج اور ائر پورٹ سیکورٹی فورس کے خصوصی اجازت نامے شامل ہیں۔

یہ تمام سہولیات نہ صرف چیئرمین سینٹ کو ریٹائرمنٹ کے بعد آخری سانس تک ملتی رہیں گی بلکہ ان کی اہلیہ اور بچے بھی ان سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں گے‘ اگر خدانخواستہ دو سو سال کی عمر میں چیئرمین سینٹ انتقال فرما گئے تو ان کے انتقال کے بعد بھی یہ سہولتیں ان کے اہل خانہ کو حاصل رہیں گی۔ یہ سمری 26 دسمبر2007ء کو چیئرمین آفس سے وزیراعظم ہاؤس گئی تھی اور محمد میاں سومرو نے نگران وزیراعظم کی حیثیت سے اس سمری پر دستخط فرما دئیے تھے اور یوں انہیں یہ تمام سہولیات حاصل ہو گئیں۔

نگران وزیراعظم نے اپنے اس حکم کو میرٹ اورغیر جانبداری کی شکل دینے کیلئے سینٹ کے تمام سابق چیئرمینوں کو بھی ان سہولیات میں شامل کر لیا لیکن بدقسمتی سے اس وقت جناب وسیم سجاد کے سوا کوئی چیئرمین سینٹ حیات نہیں لہٰذا صرف وسیم سجاد ہی ان سے فائدہ اٹھا سکیں گے چنانچہ وسیم سجاد کو محمد میاں سومرو کا مشکور ہونا چاہئے۔ میرے کچھ دوست نگران وزیراعظم کے اس حکم کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دے رہے ہیں‘ ان ناسمجھ لوگوں کا خیال ہے ایک نگران وزیراعظم اپنے دستخطوں سے اپنی ہی مراعات میں کیسے اضافہ کر سکتا ہے؟۔

میرے یہ دوست ناسمجھ اور بے وقوف ہیں‘ یہ لوگ ہماری پاک سرزمین کی روایات سے واقف نہیں ہیں‘ ہم تو بہت دلچسپ لوگ ہیں‘ 28 نومبر 2007ء تک صدر پرویز مشرف یونیفارم میں تھے‘ صدر نے 2004ء میں اپنے ہی ایک حکم کے ذریعے خود کو بطور چیف آف آرمی سٹاف ایکسٹینشن دے دی تھی‘ اس ایکسٹینشن کے بعد صورتحال بہت دلچسپ تھی‘ جناب پرویز مشرف صدر کی حیثیت سے وزیراعظم اور وزیر دفاع کے باس تھے لیکن چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت میں وزیر دفاع اور وزیراعظم کے ماتحت تھے‘

وہ صدر کی حیثیت میں افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر تھے اوراس حیثیت میں چیف آف آرمی سٹاف کے باس تھے اورچیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت میں خود اپنے ہی ماتحت تھے چنانچہ وہ ایک فائل پر دستخط کرتے تھے اور یہ فائل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں پکڑا دیتے‘ خود ہی مہربانی فرماتے تھے اور خود ہی اپناشکریہ ادا کرتے تھے اور ایک ہاتھ کی اس سخاوت کی دوسرے ہاتھ تک کو خبر نہ ہوتی تھی۔ ہمارے درویش چیئرمین سینٹ اور حالیہ نگران وزیراعظم صدر صاحب کی پراڈکٹ ہیں چنانچہ انہوں نے اس حکم کے ذریعے حق نمک ادا کر دیا ‘

انہوں نے ایک جیب سے پرس نکال کر دوسری جیب میں ڈال دیا ہے اورمجھے یقین ہے جب اس کی اطلاع صدر صاحب کو ملی ہو گی تو انہیں نگران وزیراعظم کی اطاعت اور فرمانبرداری پر رشک آیا ہوگا۔میں نے جب یہ خبر پڑھی تو مجھے بے اختیار ہندوستان کے درویش ترین امیر المومنین اورنگزیب عالمگیر یادآ گئے‘ انہوں نے 52برس تک ہندوستان پر حکومت کی تھی اور اس حکومت کے دوران ظل الٰہی کے صرف دو مشغلے تھے‘ اپنے بھائیوں کو قتل کرنا اور اس کے بعدجتنا وقت بچ جائے اس میں ٹوپیاں سینا۔

برصغیر کے نامور مزاح نگار اور کالم نگار ابن انشاء نے مرحوم بادشاہ کی اس خوبی پربڑا خوبصورت فقرہ تحریر کیا تھا‘ انہوں نے کہا تھا ’’اورنگزیب عالمگیر نے کوئی نماز چھوڑی تھی اور نہ ہی کوئی بھائی‘‘ ہمارے درویش نگران وزیراعظم اور چیئرمین سینٹ نے آج اورنگزیب عالمگیر کی یاد تازہ کر دی اور میرا دل چاہتا ہے پوری قوم اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر درخواست کرے ’’یا پروردگار ہمارے سومروصاحب کی نگرانی کو مستقل کردے تا کہ ان کے اس قسم کے درویشانہ احکامات کاسلسلہ جاری رہے اور ہم انہیں اورنگزیب ثانی کا لقب دے سکیں‘‘۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…