مہربانی کریں

25  مئی‬‮  2017

زہرہ نواز کے والد آرمی میں سپاہی تھے‘وہ کراچی میں تعینات تھے‘ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے کراچی میں گھر بنا لیا‘زہرہ کا ایک بڑا بھائی اور ایک چھوٹی بہن تھی‘ اللہ نے تینوں کو ذہانت اور قابلیت سے نواز رکھاتھا‘حالات معمول پر چل رہے تھے کہ محمد نواز کے مزاج میں تبدیلیاں آنے لگیں‘ انہوں نے ایک دن گاؤں واپس جانے کا اعلان کردیا‘بیوی نے بچوں کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا لیکن بے فائدہ‘خوشحال گھرانے میں لڑائی جھگڑے معمول بن گئے‘

بات مار کٹائی تک پہنچ گئی‘زہرہ نے ان دنوں ایف ایس سی پارٹ ون کے امتحانات دینے تھے لیکن اس کے والد نے اسے کمرے میں بند کردیا‘بھائی نے مداخلت کرکے بہن کے پیپردلوائے جس پر باپ بیٹے کا بھی دشمن ہوگیا۔بالآخر باپ گھر بیچ کر آبائی گاؤں چلا گیا‘ وہاں اس نے دوسری شادی کرلی اور زہرہ کی والدہ کو طلاق دے دی‘ والدہ بچوں کو لے کرلاہور آگئی‘ اس نے ایک کمرہ کرائے پر لیا‘ بھائی نے ایف اے کے بعد تعلیم چھوڑ دی اور نوکری شروع کردی‘ خود زہرہ نے ٹیوشن پڑھانا شروع کردی لیکن وہ کوشش کے باوجود اتنی رقم جمع نہ کر سکی کہ ایف ایس سی پارٹ ٹو میں داخلہ لے سکتی‘سال اول میں اس نے بہت اچھے نمبرحاصل کیے تھے‘ وہ صبح چھ بجے سے رات نو بجے تک مختلف کلاسز کے بچوں کو پڑھاتی تھی‘ایک سال ضائع ہونے کے بعداس نے سیکنڈ ائیر میں داخلہ لیا‘معاشی دباؤ اور ٹیوشن پڑھانے کی وجہ سے اس کے سیکنڈ ائیر میں خاطر خواہ نمبر نہ آ سکے جس کی وجہ سے اسے میڈیکل کالج میں داخلہ نہ مل سکا۔اس نے دوبارہ امتحان دینے کا فیصلہ کیا اور یوں اس کامزید ایک سال ضائع ہوگیا‘ اگلے سال اس نے دوبارہ انٹری ٹیسٹ دیا اور اس کا نام آرمی میڈیکل کالج میں ویٹنگ لسٹ میں آگیا‘زہرہ کو آرمی میڈیکل کالج سے ایڈمیشن کال آئی تو فیملی کے پاس راولپنڈی جانے کیلئے اخراجات بھی نہیں تھے‘

ڈاکٹر شاہدصدیقی(موجودہ وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی) کی بیگم کے زہرہ کی والد ہ سے بہنوں جیسے تعلقات تھے‘ انہوں نے زہرہ کے ابتدائی اخراجات اورفیس ادا کر دی‘آرمی میڈیکل کالج میں کلاسز جاری تھیں لیکن زہرہ کو اس بات کی فکر رہتی تھی کہ آئندہ کے تعلیمی اخراجات کیسے پورے ہوں گے‘اس نے کئی فلاحی اداروں اور مخیر حضرات سے رابطہ کیا لیکن کہیں سے مثبت جواب نہ ملا‘ اس نے آخر میں کاروان علم فاؤنڈیشن سے رابطہ کیا اور اسے اسکالرشپ ملنا شروع ہوگیا‘

زہرہ نے ڈینٹل ڈاکٹر کی تعلیم مکمل کی اوریہ آج نہ صرف اپنے خاندان کو سپورٹ کررہی ہے بلکہ یہ سپیشلائزیشن کے اخراجات بھی خود ادا کررہی ہے۔دوسری کہانی محمد افضل اور ان کی بیگم کشور سلطانہ کی ہے‘ یہ دونوں گوجرانوالہ کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں‘ان دونوں نے عزم و ہمت کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملتی‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں سب سے پہلے اولاد نرینہ دی‘ بیٹے کا نام عمیر افضل رکھا گیا‘عمیر پیدائشی نابینا تھا‘ اس کے بعد ان کے ہاں بیٹی عمارہ افضل پیدا ہوئی‘

وہ بھی پیدائشی نابینا تھی‘غریب میاں بیوی دوسری اولاد بھی نابینا ہونے پر آبدیدہ ہو گئے لیکن لبوں پر شکوہ نہ لا ئے‘اس کے بعد اللہ تعالی نے انہیں دوسرے بیٹے زبیر سے نوازہ لیکن زبیر کو بھی قدرت نے بینائی سے محروم رکھا‘ہر والدین کی طرح محمد افضل اورکشور سلطانہ کی خواہش بھی تندرست اولاد کی تھی لیکن قدرت کو یہ منظور نہیں تھا‘اس کے بعد ان کے ہاں آنسہ افضل کی پیدائش ہوئی‘ یہ بچی ریڑھ کی ہڈی کے ٹیڑھے پن کے ساتھ دنیا میں آئی‘محمد افضل اور اس کی بیوی کے پاس دو آپشن تھے‘

یہ اپنے بچوں کو فقیر بنا دیتے یا پھر انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیتے‘ میاں بیوی دوسرے آپشن پر چلے گئے‘ انہوں نے معذور بچوں کو علم سے آراستہ کرنے کا فیصلہ کیا‘محمد افضل محنت مزدوری کرکے گھر کا چولہا چلاتا رہاجبکہ کشور سلطانہ نے خود کو چار معذور بچوں کی پرورش اور تعلیم کے لیے وقف کردیا‘زندگی کی گاڑی آگے بڑھتی گئی‘جب عمیر افضل نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تو میاں بیوی نے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے لاہور شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا‘

محمد افضل نے لاہور میں کریانے کی دکان کھول لی‘دکان کی آمدن سے بمشکل گھر کا چولہا جلتا تھا‘بچوں کی تعلیم‘آمدورفت اور علاج معالجے کے لیے سخت مالی مشکلات نے حوصلے آزمانا شروع کر دیئے‘ ایک دن کشور سلطانہ نے نماز کے بعد بھیگی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی‘اسی شام انہیں ایک جاننے والے کی معرفت کاروان علم فاؤنڈیشن کے بارے میں علم ہوا‘ کشورسلطانہ درخواست لے کر کاروان علم فاؤنڈیشن کے دفتر پہنچی‘ فاؤنڈیشن نے چاروں بچوں کی ذمہ داری اٹھا لی‘

کاروان علم فاؤنڈیشن کے تعاون سے عمیر افضل نے گریجوایشن‘ عمارہ افضل نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے ایم فل‘آنسہ افضل نے کنیئرڈ کالج سے بی اے آنرز اور زبیرافضل نے گریجوایشن تک تعلیم حاصل کی‘آج یہ چاروں بچے معذور ہونے کے باوجود معاشرے کے فعال شہری ہیں۔کاروان علم فاؤنڈیشن پندرہ سال سے طلبہ کو وظائف جاری کررہی ہے‘ فاؤنڈیشن کا دائرہ کار پورے پاکستان تک پھیل چکاہے‘ آج پاکستان کی کوئی یونیورسٹی‘میڈیکل کالج‘انجینئرنگ یونیورسٹی یا کالج ایسا نہیں جہاں فاؤنڈیشن کے تعاون سے طلبہ تعلیم حاصل نہ کررہے ہوں‘

کاروان علم فاؤنڈیشن نے وظائف جاری کرنے کے حوالے سے بہت سے قابل ستائش اقدامات کئے‘ ادارے کے دروازے ضرورت مند طلبہ کے لیے سارا سال کھلے رہتے ہیں‘طلبہ کو تعلیم کے دوران جس مرحلے پر بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے‘ کاروان علم فاؤنڈیشن ان کی مدد کرتی ہے‘ کاروان علم فاؤنڈیشن نے وظائف کا سلسلہ اتنا باوقار بنارکھا ہے کہ کسی مرحلے پر طالب علموں کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی‘ ہر طالب علم کی درخواست کا انفرادی جائزہ لیا جاتا ہے اور ہر طالب علم کی تعلیمی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وظائف جاری کیے جاتے ہیں‘

فاؤنڈیشن درخواست گزار طلبہ کو سالانہ فیس‘سمیسٹر فیس‘کرایہ ہاسٹل‘ماہوار خرچ‘ طعام‘کتب اور کرایہ آمدورفت تک ادا کرتی ہے‘کاروان علم فاؤنڈیشن زیر کفالت طلبہ کی بیوہ ماؤں اور ضعیف والدین کو گھریلو اخراجات کے لیے بھی وظائف دیتی ہے تاکہ طلبہ مکمل اطمینان اور یکسوئی سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں‘کاروان علم فاؤنڈیشن جب کسی کو وظیفہ جاری کرتی ہے تو یہ اس کی سرپرست بن جاتی ہے‘یہ پورا سال طالب علم کی کارکردگی کا جائزہ لیتی رہتی ہے‘

یہ ہر ضرورت کے لیے مدد فراہم کرنے لیے دستیاب رہتی ہے‘ کاروان علم فاؤنڈیشن غریب طبقہ کے لوگوں کو ضروریات کے لیے زکوٰۃ اور عطیات کی رقم فراہم کرنے کی بجائے اس رقم سے ان کے بچوں کو علم و ہنر سے آراستہ کرتی ہے تاکہ یہ مستقل طور پر خاندان کا سہارا بن سکیں‘کاروان علم فاؤنڈیشن یتیم اور خصوصی طلبہ کو ترجیہی بنیادوں پر وظائف جاری کرتی ہے۔یہ ادارہ اب تک5524 طلبہ کو ساڑھے بارہ کروڑ روپے کے وظائف دے چکا ہے‘

وظائف حاصل کرنے والے طلباء میں 937یتیم طلبہ اور 333خصوصی طلبہ(نابینا‘پولیوزدہ اور حادثات کی وجہ سے معذور) شامل ہیں‘مالی اعانت حاصل کرنے والوں میں ایم بی بی ایس (ڈاکٹر)کے1314‘بی ڈی ایس(ڈاکٹر آف ڈینٹل سرجری)کے51‘فزیوتھراپی(ڈاکٹر آف فزیوتھراپسٹ) کے45‘ڈی وی ایم (ڈاکٹر آف ویٹرنری سائنسز)کے121‘ڈی فارمیسی (ڈاکٹر آف فارمیسی)کے99‘ایم ایس سی کے135،ایم اے کے133‘ایم کام کے40‘ ایم بی اے کے58‘ ایم پی اے کے 05‘ایم فل کے19‘ بی ایس سی انجینئرنگ کے1398‘بی کام آنرز کے159‘ بی ایس آنرز کے701‘بی بی اے کے 61‘اے سی سی اے کے 18‘سی اے کے 04‘بی ایس ایڈ‘بی ایڈ کے 41‘ ایل ایل بی کے14‘بی اے آنرز کے45‘ بی اے کے73‘ سی ایس ایس کا 01‘ بی ٹیک کے 23‘ ڈپلومہ ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کے161‘ ایف ایس سی کے510‘ایف اے کے90‘آئی کام کے52‘ڈی کام کے05‘آئی سی ایس کے17میٹرک اور انڈر میٹرک کے 131 طلباو طالبات شامل ہیں۔

میری آپ سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر اپنی زکوٰۃ‘صدقہ اور فطرہ کاروان علم فاؤنڈیشن کو عطیہ کریں‘ آپ کی یہ عنایت بے شمار گھروں میں علم کے چراغ جلا دے گی‘ آپ اپنے عطیات میزان بنک کے اکاؤنٹ نمبر0240-0100882859 میں جمع کروا سکتے ہیں۔آپ67کشمیر بلاک‘علامہ اقبال ٹاؤن لاہورکے پتے اور ای میل[email protected] پرفاؤنڈیشن سے رابطہ بھی کر سکتے ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے موبائل نمبر0321-8461122پر رابطہ کیا جاسکتاہے۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…