دستیاب جنس

31  مارچ‬‮  2017

جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب بھجوانے اور اسلامی فوج کا سربراہ بنانے کا فیصلہ 2016ءمیں ہو گیا تھا‘ یہ فیصلہ میاں نواز شریف اور سعودی حکومت نے مل کر کیا تھا‘ سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز 10 جنوری 2016ءکو پہلی بار پاکستان آئے‘ یہ چند گھنٹے پاکستان رہے‘جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی‘ اسلامی فوج کا آئیڈیا ڈسکس کیا اور واپس چلے گئے‘

شہزادہ محمد بن سلمان کے اس دورے کے آٹھ دن بعد میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف سعودی عرب اور ایران کے دورے پر گئے‘ یہ دورہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کےلئے بھی تھا اور ایران کو اسلامی فوج کا حصہ بنانے کی لابنگ کےلئے بھی لیکن بدقسمتی سے یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی‘ایران نے سوچنے کےلئے وقت مانگ لیا‘ شہزادہ محمد بن سلمان دوسری بار 28 اگست 2016ءکو اسلام آباد آئے‘ یہ پہلے وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ملے اور اس کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی‘ سعودی وزیر دفاع نے وزیراعظم سے ملاقات کے دوران خواہش ظاہر کی ”ہم جنرل راحیل شریف کو مسلم ممالک کی مشترکہ افواج کا کمانڈر انچیف بنانا چاہتے ہیں“ وزیراعظم نے خوشی کا اظہار کیا اور جواب دیا ”یہ ہمارے لئے اعزاز کی بات ہو گی“ شہزادہ محمد وزیراعظم کی منظوری کے بعد جنرل راحیل شریف سے ملاقات کےلئے روانہ ہو گئے‘ وزیراعظم نے اس دوران آرمی چیف کوسعودی عرب کی خواہش اور اپنے جواب سے مطلع کر دیا‘ وزیراعظم نے آرمی چیف سے یہ بھی کہا ”آپ انکار نہ کیجئے‘ ہم انہیں دوسری بار ناراض نہیں کر سکتے“ جنرل راحیل شریف نے ”او کے سر“ کہا اور یوں یہ معاملہ سیٹل ہو گیا۔

میں آگے بڑھنے سے قبل اس ”دوسری بار“ کی وضاحت کرتا چلوں‘ سعودی عرب نے فروری 2015ءمیں یمن کے حوثی باغیوں کو طاقت سے کچلنے کا فیصلہ کیا‘ سعودی فوج میں حملے کی استطاعت نہیں تھی چنانچہ شاہ نے پاکستان سے مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا‘ شاہ سلمان نے 4 مارچ 2015 ءکو میاں نواز شریف کو دورے کی دعوت دی‘ وزیراعظم ریاض چلے گئے‘ شاہ نے اس دورے کے دوران وزیراعظم سے ایک بریگیڈ فوج مانگ لی‘

میاں نواز شریف سعودی شاہ کو انکار نہ کر سکے‘ یہ شاہ سے فوج بھجوانے کا وعدہ کر آئے‘ وزیراعظم نے پاکستان آنے کے بعد آرمی چیف کو اپنے وعدے سے مطلع کر دیا‘ جنرل راحیل شریف نے بھی کمٹمنٹ دے دی لیکن عین وقت پر پاک فوج کے انیلسس ڈیپارٹمنٹ نے عرب ممالک میں موجود پاکستانی سفارت خانوں سے معلومات جمع کیں‘ تجزیہ کیا اور اس فیصلے کو خطرناک قرار دے دیا‘ فوج کے دو اعلیٰ افسروں نے آرمی چیف کو پریذنٹیشن دی‘

جنرل راحیل شریف کو بتایا گیا‘ سعودی عرب کو فوج بھجوانا غلطی ہو گی‘ ہمیں عربوں کی داخلی سیاست میں نہیں پڑنا چاہیے‘ جنرل راحیل شریف یہ پریذنٹیشن دیکھ کر پریشان ہو گئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا ”میں وزیراعظم کو کمٹمنٹ دے چکا ہوں“ جنرل راحیل کے ساتھیوں نے اس کمٹمنٹ کو خطرناک قرار دے دیا‘ آرمی چیف یہ پریذنٹیشن لے کر وزیراعظم کے پاس چلے گئے اور وزیراعظم کو تمام خطرات سے آگاہ کر دیا ‘ وزیراعظم بھی پریشان ہو گئے‘ انہوں نے آرمی چیف سے پوچھا

”ہم شاہ سلمان سے وعدہ کر چکے ہیں‘ ہم اب اس وعدے سے کیسے بیک آﺅٹ کریں گے“ جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم کو سیاسی حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا‘ وزیراعظم نے آرمی چیف سے اتفاق کیا اور یوں حکومت یہ معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں لے گئی‘پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف دونوں نے اس مشکل وقت میں حکومت کا ساتھ دیا اور یوں پارلیمنٹ نے 10 اپریل 2015ءکو 12 نکاتی قرارداد پاس کر دی‘ قرارداد میں حکومت کو پابند کر دیا گیا‘

پاکستان یمن سعودی عرب بحران میں پارٹی نہیں بنے گاتاہم خدانخواستہ اگر کبھی حرمین شریفین کی سلامتی پر حرف آیا یا کسی دوسرے ملک نے سعودی عرب پر حملہ کیا تو پاکستان حرمین شریفین کی حفاظت کےلئے سعودی عر ب کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوگا‘ حکومت نے سعودی عرب کو پارلیمنٹ کی اس قرارداد سے مطلع کر دیا‘ سعودی حکومت کے پاس پاکستانی حکومت کی مجبوری تسلیم کر نے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا لیکن شاہ اس ”وعدہ خلافی“ پر خوش نہیں تھے لہٰذا وزیراعظم اور آرمی چیف کو پوزیشن کلیئر کرنے کےلئے23اپریل 2015ءکو سعودی عرب جانا پڑا‘

شاہ نے دونوں کا استقبال کیا لیکن ان میں زیادہ گرمجوشی نہیں تھی‘ وزیراعظم نے 28 اگست کو آرمی چیف کو ماضی کی اس ”وعدہ خلافی“ کا حوالہ دیا تھا۔ ہم اب شہزادہ محمد بن سلمان اور آرمی چیف کی28 اگست کی ملاقات کی طرف واپس آتے ہیں‘ سعودی وزیر دفاع نے جنرل راحیل شریف کے سامنے بھی اپنی خواہش کا اظہار کیا‘ آرمی چیف نے بھی اس پیشکش کو اعزار قرار دے دیا لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے سامنے تین شرائط رکھ دیں‘ یہ شرائط یہ تھیں‘ ایک‘ ایران کو بھی اس اتحاد میں شامل کیا جائے ‘

دو‘ میں کسی کے ماتحت نہیں ہوں گا اور تین‘ مجھے اسلامی ممالک کے درمیان تنازعات کی صورت میں ثالثی کا اختیار حاصل ہو گا‘ شہزادہ محمد نے یہ شرائط سن کر جواب دیا”ہم یہ شرائط ڈسکس کریں گے“ شہزادہ ملاقات کے بعد سعودی عرب واپس چلا گیا‘ جنرل راحیل شریف 30 نومبر 2016ءکو ریٹائر ہوگئے اور یہ دو جنوری 2017ءکو شاہ سلمان کی دعوت پر سعودی عرب گئے‘ سعودی حکومت نے انہیں سربراہ مملکت کے برابر پروٹوکول دیا‘ یہ وہاں حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے بھی ملے‘ سعودی عرب اور پاکستان میں اس دوران خبر پھیل گئی” جنرل راحیل شریف کو 39 مسلم ممالک کی مشترکہ فوج کا سربراہ بنا دیا گیا ہے“

یہ خبر سابق آرمی چیف کے سابق میڈیا منیجروں نے پھیلائی تھی‘ یہ خبر سوشل میڈیا سے ٹیلی ویژن چینلز پرآئی اور یہ وہاں سے اخبارات تک پہنچ گئی لیکن یہ اس کے باوجود غیر تصدیق شدہ رہی یہاں تک کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے6جنوری کو سید طلعت حسین کے پروگرام میں اس خبر کی تصدیق کر دی‘ ان کے الفاظ تھے‘ یہ فیصلہ حکومت کو اعتماد میں لینے کے بعد کیا گیا ‘ وزیردفاع کی طرف سے تصدیق کے بعد نیا پنڈورا باکس کھل گیا اور فوج کے سابق جرنیلوں نے جنرل راحیل شریف کے فیصلے کی سرعام مذمت شروع کر دی‘

اینکرز نے بھی وفاقی وزراءسے یہ پوچھنا شروع کر دیا ”جنرل راحیل شریف نے یہ فیصلہ کس سے پوچھ کر کیا‘ این او سی کس نے جاری کیا اور حکومت نے انہیں یہ اجازت کیسے دے دی“وغیرہ وغیرہ‘ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کا کہنا تھا یہ دو بلاکس کی لڑائی ہے‘ ایک طرف ایرانی بلاک ہے‘ اسے روس کی حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف سعودی بلاک ہے جس کے پیچھے امریکا کھڑا ہے‘ یہ دو مسلکوں کی لڑائی بھی ہے‘ ہمیں اس لڑائی میں کسی ایک بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہیے‘

9 جنوری کو چیئرمین سینٹ رضا ربانی بھی میدان میں کود پڑے‘ انہوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف سے ایوان میں وضاحت مانگ لی‘ حکومت یہ پریشر برداشت نہ کر سکی‘ یہ پسپا ہوگئی اور اس نے اپنا موقف بدل لیا لیکن موقف کی تبدیلی کے باوجود حقائق اپنی جگہ قائم رہے اور حقائق یہ تھے سعودی عرب اسلامی فوج بناناچاہتا ہے اور جنرل راحیل شریف کو اس کا پہلا چیف دیکھنا چاہتا ہے اور میاں نواز شریف کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔

یہ اس ایشو کا پس منظر تھا‘ ہم اب چند مزید حقائق کی طرف آتے ہیں‘ یہ حقیقت ہے 39 مسلم ممالک کے اتحاد کی ہیت اور مقاصد تاحال طے نہیں ہوئے‘ اتحاد میں شامل ممالک کی میٹنگ بھی نہیں ہوئی اور اتحاد کے ٹی او آرز بھی طے نہیں ہوئے‘ حکومت کا دعویٰ تھا پہلے یہ تمام مراحل طے ہوں گے پھر مسلم ممالک کے وزراءدفاع کی باڈی بنے گی‘ اتحاد کی ساری پاورز اس باڈی کومنتقل ہوں گی اور پھر یہ باڈی مشترکہ فوج کے پہلے سپہ سالار کا تعین کرے گی ‘ یہ ممکن ہے جنرل راحیل شریف اتحاد کے پہلے چیف ہوں لیکن یہ فیصلہ مشترکہ ہوگا‘

مسلم وزراءدفاع کی باڈی فیصلے سے پہلے باقاعدہ معاہدہ تیار کرے گی‘ یہ معاہدہ پاکستان کو بھجوایا جائے گا‘ حکومت اس معاہدے کی منظوری دے گی اور پھر پاک فوج جنرل راحیل شریف کی تعیناتی کےلئے این او سی جاری کرے گی اور اگر فوج کی موجودہ قیادت جنرل راحیل شریف کو این او سی نہیں دیتی یا حکومت معاہدہ منظوری نہیں کرتی تو جنرل راحیل شریف سعودی عرب نہیں جا سکیں گے وغیرہ وغیرہ۔ہمیں یہاں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا وزیراعظم میاں نوازشریف جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب بھجوانا چاہتے ہیں‘ یہ محمد بن سلمان سے وعدہ بھی کر چکے ہیں لیکن یہ جنوری میں فوج‘ میڈیا اور اپوزیشن کی مذمت کے بعد محتاط ہو گئے‘

انہوں نے یہ ایشو فوج اور پارلیمنٹ پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا‘ سعودی عرب نے دو ماہ کے دوران پاک فوج کے نئے سپہ سالار جنرل قمر باجوہ کے ساتھ بھی تعلقات بڑھا لئے‘ یہ 17 دسمبر2016ءکوتین روزہ دورے پر سعودی عرب گئے‘ شاہ سلمان کے ساتھ ملاقات ہوئی اور فوج جنرل راحیل شریف کو این او سی دینے کےلئے تیار ہو گئی‘ وزیردفاع خواجہ محمد آصف بھی عمرے کےلئے گئے‘ یہ بھی عمرے کے دوران سعودی زعماءسے ملے اور یوں معاملات طے پا گئے تاہم پارلیمنٹ کی اجازت ابھی باقی ہے‘ حکومت کو پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سے مخالفت کا خطرہ ہے لیکن یہ خطرات اب ٹلتے نظر آ رہے ہیں‘

پاکستان تحریک انصاف جنرل راحیل شریف کےلئے نرم گوشتہ رکھتی ہے‘ یہ سابق آرمی چیف کے خلاف احتجاج نہیں کرے گی‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور فوج کے درمیان موجود خلیج بھی کم ہو چکی ہے‘ آصف علی زرداری کی پاکستان میں موجودگی‘ شرجیل میمن کی واپسی اور ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت یہ تینوں نئے ”میثاق جمہوریت“ کا ثبوت ہیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ اور آپریشن ردالفساد کو تسلیم کر لینا بھی نئی نئی محبت کی دلیل ہے

چنانچہ یہ بھی جنرل راحیل شریف کی نئی پوزیشن کو تسلیم کر لے گی تاہم مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کی طرف سے اعتراض ہو گا لیکن حکومت ان دونوں کو بھی منا لے گی چنانچہ یہ ایشو پارلیمنٹ میں ڈسکس ہو گا لیکن یہ زیادہ گرم نہیں ہو سکے گا اور یوں جنرل راحیل شریف اسلامی فوج کے سپہ سالار بن جائیں گے اور جنرل عاصم باجوہ ان کے ایڈوائزر بن کر ساتھ چلے جائیں گے۔

یہ فیصلہ اچھا ہے یا برا ہم اس بحث میں نہیں پڑتے لیکن یہ طے ہے اگر ایران‘ عراق اور شام نے اس تقرری کو تسلیم کر لیا تو یہ فیصلہ پاکستان کےلئے اچھا ثابت ہوگا ورنہ دوسری صورت میں ہمارے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا‘ ہمارا رہا سہا بھرم بھی ختم ہو جائے گا‘ ہم کرائے کی ریاست ثابت ہو جائیں گے‘ ہمیں امریکا استعمال کر لے یا سعودی عرب ہم دستیاب جنس ثابت ہو جائیں گے۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…