خواجہ اظہارالحسن کے آنسو

22  ستمبر‬‮  2016

یہ 1973ءکی بات ہے‘ شام میں خرم خان پنی پاکستان کے سفیر تھے‘ پنی خاندان ڈھاکہ میں وسیع زمین اور جائیداد کا مالک تھا‘ یہ لوگ اس زمانے میں لاکھوں روپے زکوٰة دیتے تھے‘ خرم خان اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تھے‘ قیام پاکستان کے بعد مقابلے کا امتحان دیا‘ فارن سروس جوائن کی اور ترقی کرتے ہوئے سفیر بن گئے‘ خرم خان کی اہلیہ سلطانہ فضلی کراچی کے مشہور مہاجر خاندان سے تعلق رکھتی تھی‘ یہ بھی پڑھی لکھی اور مہذب خاتون تھی‘ ملک میں 1971ءتک بیورو کریسی میں بے شمار بنگالی افسر موجود تھے‘ یہ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز تھے لیکن جب مشرقی پاکستان الگ ہوا تو یہ افسر چپ چاپ ڈھاکہ چلے گئے‘ نقل مکانی کرنے والے ان لوگوں میں سفیر تک شامل تھے لیکن افراتفری اور پاکستان سے نفرت کے اس دور میں بھی بے شمار بنگالی افسروں نے پاکستان کو بنگلہ دیش پر فوقیت دی‘ خرم خان پنی بھی ان لوگوں میں شامل تھے‘ یہ بدستور پاکستان کا حصہ رہے لیکن پھر 1973ءآ گیا‘ وزارت خارجہ کو کسی مخبر نے اطلاع دی خرم خان پنی سفارت چھوڑ کر ڈھاکہ بھاگ رہے ہیں‘ جنرل کے ایم رضا اس وقت وزارت خارجہ میں سیکرٹری ایڈمنسٹریشن تھے‘ یہ اطلاع کو سچ سمجھ بیٹھے چنانچہ انہوں نے لبنان میں موجود پاکستانی سفیر ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی کو فوری طور پر دمشق جانے اور سفارت خانہ قبضے میں لینے کا حکم دے دیا‘ ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی اسی دن دمشق پہنچ گئے‘ خرم خان پنی کے خلاف تحقیقات کیں‘ پتہ چلا‘ دفتر خارجہ کی تمام اطلاعات غلط ہیں‘ عملے نے گواہی دی خرم خان پنی کی بیگم سلطانہ فضلی سفیر سے اکثر کہتی ہیں ”آپ کی ڈھاکہ میں لاکھوں روپے کی جائیداد ہے لیکن ہم یہاں فقیروں جیسی زندگی گزار رہے ہیں‘ ہمارے پاس روپے ہیں اور نہ ہی جائیداد‘ ہم ڈھاکہ کیوں نہیں چلے جاتے؟“ لیکن خرم خان پنی جواب میں ہمیشہ کہتے ہیں ”ہم نے غلامی سے نکلنے کےلئے پاکستان بنایا تھا‘ میں صرف جائیداد کےلئے دوبارہ ہندوﺅں کی غلامی میں نہیں جا سکتا“ یہ حقائق جان کر ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی کو پسینہ آ گیا‘ وہ بیروت واپس گئے اور فارن آفس کو تار کے ذریعے اطلاع دے دی ”شام میں پاکستانی سفیر آج بھی پاکستانی ہیں‘ یہ بنگلہ دیش شفٹ نہیں ہو رہے ‘ تمام الزامات غلط ہیں“ لیکن وزارت خاجہ کو یقین نہ آیا‘ وزارت نے خرم خان پنی کا کیس صدر ذوالفقار علی بھٹو کو بھجوا دیا‘ بھٹو صاحب نے سفیر کو اسلام آباد طلب کر لیا‘ خود انٹرویو کیا‘ مطمئن ہو گئے لیکن اس کے باوجود سفیر کو شام سے صومالیہ ٹرانسفر کر دیاگیا‘ یہ سفارت خرم خان کی سنیارٹی سے میچ نہیں کرتی تھی چنانچہ وہ مستعفی ہو ئے‘ لندن شفٹ ہوئے‘ ٹیچر بھرتی ہوئے اور باقی زندگی معمولی نوکری میں گزار دی‘ پنی صاحب کی کروڑوں روپے کی جائیداد ڈھاکہ میں قبضہ مافیا کے ہتھے چڑھ گئی لیکن خرم خان نے بنگلہ دیش میں قدم نہ رکھا‘ وہ کنگال زندگی گزارتے رہے مگر مرنے تک پاکستانی رہے۔
یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے‘ ہم اگر تحقیق کریں تو ہمیں پاکستان کی تاریخ میں خرم خان پنی جیسے ہزاروں لوگ ملیں گے‘ یہ لوگ پاکستانی تھے‘ یہ پوری زندگی پاکستانی ہونے کا تاوان بھگتتے رہے مگر پاکستان کی اشرافیہ نے انہیں پاکستانی تسلیم نہ کیا لیکن یہ اس کے باوجود آخری سانس تک پاکستانی رہے‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں ہم نے جس دن غیر جانبداری سے اپنی غلطیوںپر تحقیق کی‘ ہم یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے بنگالیوں نے ہمیں نہیں بلکہ ہم نے بنگالیوں کو چھوڑا تھا‘ ہم یہ بھی ماننے پر مجبور ہو جائیں گے آل انڈیا مسلم لیگ سندھیوں‘ پنجابیوں‘ پشتونوں اور بلوچوں نے نہیں بنائی تھی اس کی بنیاد بنگالیوں نے 30 دسمبر1906ءکو ڈھاکہ میں رکھی تھی‘ پاکستان کی قرار داد بھی 23 مارچ 1940ءکو کسی لاہوری‘ پشاوری‘ کوئٹوی یا لاڑکانوی نے پیش نہیں کی تھی‘ یہ اعزاز بھی بنگال کے ایک شیر مولوی فضل الحق کو نصیب ہوا تھا‘ ہم یہ بھی ماننے پر مجبور ہو جائیں گے بنگالی ہم سے زیادہ پڑھے لکھے‘ ہم سے زیادہ مہذب اور ہم سے زیادہ وطن پرست تھے اور یہ ہمارے جاگیردارانہ‘ منافقانہ اور نفرت میں بھیگے ہوئے رویئے تھے جنہوں نے بنگالیوں کو ہم سے الگ کیا‘ ہم یہ بھی ماننے پر مجبور ہو جائیں گے بنگالی ہم سے الگ ہونے کے بعد اپنا ملک ہم سے بہتر چلا رہے ہیں‘ ان کی اکانومی‘ ان کی ٹریڈ‘ ان کی ہیلتھ سروسز اور ان کی تعلیم کا معیار ہم سے بہت بہتر ہے اور ہم یہ ماننے پر بھی مجبور ہو جائیں گے ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا‘ ہم آج بھی 1971ءکے ان لمحات میں زندہ ہیں جن میں ہم اپنے ہم وطنوں کو غدار قرار دیتے تھے‘ ہم ان پر ٹینک چڑھا دیتے تھے اور ہمارے لیڈر جلسہ عام میں ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان کرتے تھے‘ ہم 45 سال بعد بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں ہمیں ہماری انا‘ ہماری ضد نے1971ءمیں گاڑھ دیا تھا‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ آج ریاست کا ایم کیو ایم کے ساتھ رویہ دیکھ لیجئے۔
میں دل سے سمجھتا ہوں پاکستان کے تمام ”سنز آف دی سائل“ 70 سال بعد بھی پاکستانی نہیں ہیں‘ یہ آج بھی سندھی‘ پنجابی‘ بلوچی اور پشتون ہیں‘ میں یہ بھی سمجھتا ہوں ہم میں سے کسی نے پاکستان کےلئے کوئی قربانی نہیں دی تھی‘ ہم سب پاکستان کے ”بینی فیشری“ ہیں‘ پاکستان کےلئے اگر کسی نے قربانی دی تو وہ 1947ءکے مہاجر تھے‘ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پاکستان کےلئے تحریک بھی چلائی‘ جنہوں نے انگریزوں اور ہندوﺅں کو مسلمانوں کا الگ وطن تسلیم کرنے پر مجبور بھی کیا‘ جنہوں نے پاکستان کےلئے اپنے گھر بار‘ زمین جائیداد‘ کھیت کھلیان اور اپنے آباﺅ اجداد کی قبریں چھوڑیں اور جنہوں نے اپنے بچے‘ اپنی بچیاں اور اپنے جوان بیٹے بھی قربان کئے‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں پاکستان میں اگر کسی کو پاکستانی کہلانے کا حق ہے تو وہ صرف مہاجر ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جو 70 سال بعد بھی صرف پاکستانی ہیں‘ یہ سندھی‘ پنجابی‘ پٹھان اور بلوچی نہیں بنے لیکن ہم سنز آف سائل کا ان کے ساتھ کیا رویہ ہے؟ ہم نے کبھی سوچا؟ میں نے کل سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے سینئر ارکان کو روتے دیکھا‘ یہ لوگ اپنے قائد الطاف حسین کو ”ڈس اون“ بھی کر رہے تھے اور یہ اس کے خلاف سندھ اسمبلی میں آرٹیکل چھ کی قرارداد بھی پیش کر رہے تھے لیکن ہم اس کے باوجود ان پر یقین کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ یہ درست ہے ایم کیو ایم کی صفوں میں ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خور اور دہشت گرد موجود تھے‘ یہ لوگ کراچی کو تباہی کے دھانے تک بھی لے کر آئے لیکن کیا یہ سچ نہیں ہماری ریاست‘ ہماری سیاسی جماعتیں ماضی میں ان کی سہولت کار تھیں! کیا یہ غلط ہے ایم کیو ایم جنرل ضیاءالحق نے بنوائی تھی‘ کیا یہ غلط ہے جنرل ضیاءالحق کے رفقاءکار نے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو واش آﺅٹ کرنے کےلئے پرامن مہاجروں کو اسلحہ پکڑا یا تھا‘ کیا یہ غلط ہے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن 27 سال حکومتیں بنانے کےلئے نائین زیرو کا طواف کرتی رہیں اور کیا یہ غلط ہے جنرل پرویز مشرف ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو اپنا نظریاتی اور سیاسی بازو سمجھتے تھے‘ ہمیں یہ ماننا ہو گا ایم کیو ایم دہشت گرد تھی تو اسے اس راستے پر لگانے‘ اس کی غلطیوں پر خاموش رہنے اور اسے ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کےلئے سہولتیں فراہم کرنے والے بھی دہشت گرد تھے‘ ہمیں ماننا ہو گا اگر 12مئی 2007ءسانحہ تھا تو اس سانحے کا ایک مجرم وسیم اختر جیل میں ہے اور دوسرا مجرم جنرل پرویز مشرف حکومت کی رضامندی سے ملک سے باہر ہے اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا یہ لوگ جب تک ٹارگٹ کلرز تھے یہ ہماری ریاست اور ہماری سیاسی جماعتوں کےلئے قابل قبول تھے اور فوجی آمر ہوں یا ملک کی بڑی سیاسی جماعتیںیہ ماضی میں ان کی سہولت کار رہیں اور ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا آج جب یہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں‘ یہ اپنے قائد‘ اپنی رابطہ کمیٹی اور اپنے ماضی کو ڈس اون کر رہے ہیں اور یہ الطاف حسین کے خلاف اسمبلیوں میں قراردادیں پاس کرا رہے ہیں تو بھی ہم ان کی نیتوں پر شک کر رہے ہیں‘ ہم ان کا مذاق اڑا رہے ہیںاور یہ غلطی ہمیں دوبارہ ماضی کی طرف لے جا رہی ہے‘ اس ماضی کی طرف جس کے آخر میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تھا۔
مجھے خطرہ ہے ہم نے اگر اپنی پالیسی تبدیل نہ کی‘ ہم نے اگر راﺅ انوار جیسے لوگوں کے ہاتھ نہ روکے تو شاید وہ وقت جلد آ جائے جب کراچی کے تمام مہاجر ایک آواز ہو کر بول پڑیں ”الطاف حسین ٹھیک کہتا تھا“ کیا ہم یہ چاہتے ہیں‘ ہم اگر یہ چاہتے ہیں تو پھرہمیں ایم کیو ایم کو اسی طرح رگڑا لگاتے رہنا چاہیے لیکن ہم اگر کراچی میں امن چاہتے ہیں تو پھر ہمیں فاروق ستار کو ایک موقع دینا ہو گا‘ ہمیں خواجہ اظہار الحسن کے آنسو پونچھنا ہوں گے‘ ہمیں ان لوگوں کو سینے سے لگانا ہوگااور ہمیں انہیں پاکستانی تسلیم کرنا ہو گا‘ ہم نے بنگالیوں سے نفرت کر کے نتیجہ دیکھ لیاتھا‘ ہمیں اب وہ غلطی کراچی میں نہیں دہرانی چاہیے‘ کیوں؟ کیونکہ دو جب بھی دو میں جمع ہوتے ہیں رزلٹ چار ہی نکلتا ہے‘ پانچ نہیں ۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…