سیکھنے والی باتیں

15  جولائی  2016

کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ کا تیسرابڑا شہر ہے‘ یہ شہر جنوبی جزیرے میں واقع ہے‘ شہر کے مضافات میں درجن بھر پرائیویٹ شکار گاہیں ہیں‘ یہ شکار گاہیں ایکڑوں تک پھیلی ہیں اور یہ نجی ملکیت ہیں‘ شکار گاہوں کی اندر فائیو سٹار ہوٹلز ہیں‘ لکڑی کے ہٹس ہیں‘ چھوٹی چھوٹی جھیلیں ہیں‘ گھنے جنگل ہیں‘ پہاڑیاں ہیں‘ غار ہیں اور مصنوعی آبشاریں ہیں‘ مالکان ان شکار گاہوں میں پرندے‘ ہرن اور بارہ سنگھے پالتے ہیں‘ یہ جانور قدرتی ماحول میں پروان چڑھتے ہیں‘ یہ جب جوان ہو جاتے ہیں تو مالکان دنیا بھر کے شکاریوں کو شکار کی دعوت دیتے ہیں‘ شکاری آتے ہیں‘ رائفلیں لیتے ہیں ‘ جنگل میں اتر تے ہیں‘ شکار کرتے ہیں اور یہ انتظامیہ کے حوالے کر دیتے ہیں‘ انتظامیہ شکار کا گوشت‘ سینگ‘ ہڈیاں اور جلد پیک کر کے ان کے گھروں میں بھجوا دیتی ہے‘ شکاریوں کو یہ شکار بیس سے تیس لاکھ روپے میں پڑتا ہے‘ یہ ایک پیکج ڈیل ہوتی ہے جس میں شکاری کی رہائش‘ شکار گاہ کے اندر سواری اور ایک جانور کا شکار شامل ہوتا ہے‘ شکار گاہ کے مالکان اس پیکج کے بیس سے تیس ہزار ڈالر وصول کرتے ہیں‘ شکار گاہوں میں ہیلی کاپٹر اور وائر لیس کی سہولتیں بھی موجود ہوتی ہیں‘ جانور اگر گولی لگنے کے بعد کسی کھائی میں گر جائے تو اسے ہیلی کاپٹر کے ذریعے نکالا جاتا ہے‘ شکاری اور انتظامیہ کے درمیان وائرلیس کے ذریعے رابطہ رہتا ہے جبکہ جنگل میں جانے اور باہر آنے کےلئے گھوڑے اور شکاری گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں‘ دنیا بھر سے ہر سال دس سے بیس ہزار شکاری نیوزی لینڈ آتے ہیں‘ حکومت‘ پرائیویٹ کمپنیاں اور شکار گاہوں کے مالکان ان سے کروڑوں روپے کماتے ہیں‘ پاکستان سے بھی شکاری شکار کےلئے وہاں جاتے ہیں‘ ہم شکار کا یہ ماڈل پاکستان میں بھی متعارف کرا سکتے ہیں‘ پاکستان میں شکار کے سینکڑوں علاقے موجود ہیں‘ حکومت پرائیویٹ کمپنیاں بنوائے‘ کمپنیوں کو شکار گاہیں الاٹ کر ے‘ یہ کمپنیاں اپنے اپنے علاقے میں ہوٹلز بنائیں‘ جانوروں کی پرورش کریں‘ شکار کے موسم میں شکاریوں کو دعوت دیں اور حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر پیسہ کمائے‘ ہم نے یہ سیکٹر کیوں کھلا چھوڑ رکھا ہے؟ ملک میں شکار پر پابندی ہے لیکن شکار اس کے باوجود ہو تا ہے‘ حکومت ”وائلڈ لائف“ کی حفاظت کے چکر میں ہر سال کروڑوں روپے ضائع کر دیتی ہے‘ ہم شکار کے نیوزی لینڈ ماڈل کے ذریعے یہ سرمایہ بھی بچا سکتے ہیں اور جانوروں کو بھی‘ ہم کھیل کو کھیل کی شکل بھی دے سکتے ہیں لہٰذا حکومت کو اس سیکٹر پر توجہ دینی چاہیے۔
نیوزی لینڈ کے ہر قصبے کی مقامی مصنوعات ہیں‘ یہ لوگ دیہات میں انگور اگاتے ہیں‘ یہ پنیر‘ شہد ‘ سبزیاں اور پھل بھی پیدا کرتے ہیں‘ ملک کے ہر گاﺅں میں دیسی جیم‘ مکھن‘ اچار‘ چٹنیاں‘ مربعے اور جوس بنائے جاتے ہیں‘ نیوزی لینڈ کی اون دنیا کی مہنگی ترین اون ہے‘ وجہ ماحول ہے‘ اون کو گرد وغبار خراب کرتا ہے‘ نیوزی لینڈ میں گردو غبار نہیں‘ یہ ملک پاپولیشن فری ہے چنانچہ یہ لوگ ہر سال دنیا میں چار پانچ ارب ڈالر کی اون بیچتے ہیں‘ ہم بھی بڑی آسانی سے اس فیلڈ میں آ سکتے ہیں‘ ہم پہاڑی علاقوں کے لوگوں کو بھیڑیں پالنے کی ٹریننگ دیں‘ انہیں اون کو صاف رکھنے‘ اون کی کٹائی‘ اون کو جمع کرنے اور اچھی بھیڑوں کی پہچان بتائیں‘ نیوزی لینڈ سے بھیڑیں درآمد کریں اور اون جمع کرنے کا سسٹم بنائیں‘ مجھے یقین ہے ہمارے شمالی علاقہ جات کے لوگ دس سال میں خوش حال ہو جائیں گے‘ نیوزی لینڈ کا شہد دنیا کا بہترین اور مہنگا شہد سمجھا جاتا ہے‘ مانوکاشہدپوری دنیا میں مشہور ہے‘مختلف کمپنیاں یہ شہد دیہات سے جمع کرتی ہیں‘ صاف کرتی ہیں‘ پیک کرتی ہیں اور دنیا بھر میں فروخت کر دیتی ہیں‘ مانوکاشہد کا درمیانے سائز کا ڈبہ دس دس ہزار روپے میں بکتا ہے‘ ہم بھی شہد کا ایک نیشنل برانڈ بنا سکتے ہیں‘ شہد کی اچھی مکھی درآمد کریں‘ مکھی کی نسل بڑھائیں‘ یہ مکھی شمالی علاقہ جات کے لوگوں کے حوالے کریں‘ یہ لوگ شہد پیدا کریں‘ کولیکشن کا انتظام کیا جائے اور پیکنگ کو معیاری رکھا جائے تو یہ برانڈ بھی کامیاب ہو جائے گا‘ نیوزی لینڈ نے چمڑے‘ پتھروں‘ انگور اور سیاحت میں بھی کمال کر دیا‘ یہ چمڑا رنگنے میں دنیا میں بہت آگے ہیں‘ اٹلی کے تمام برانڈز اون‘ وولن کپڑا اور چمڑا نیوزی لینڈ سے خریدتے ہیں‘ یہ پتھروں کو تراشنے خراشنے کے ماہر بھی ہیں اور پورے ملک میں انگور بھی ہوتے ہیں‘ یہ لوگ انگور کی درجنوں مصنوعات تیار کرتے ہیں‘ نیوزی لینڈ نے سیاحت میں بھی کمال کر دیا‘ پورا ملک سڑکوں سے منسلک ہے‘ کیپ رینگا اور مل فورڈ ساﺅنڈ ملک کے دو کنارے ہیں‘ ملک کے دونوں حصوں کے آخر تک بجلی‘ پانی اور سڑک تینوں موجود ہیں‘ ہوٹل انڈسٹری بھی کمال ہے‘ ملک کے ہر قصبے‘ ہر گاﺅں میں لوگوں نے چھوٹے چھوٹے ہوٹل بنا رکھے ہیں‘ یہ لکڑی کے ہوٹل ہیں اور کمال ہیں‘ ہماری حکومت بھی سیاحت پر توجہ دے سکتی ہے‘ مری شہر میں اس عید پر ایک لاکھ گاڑیاں داخل ہوئیں‘ سوات‘ ناران‘ کاغان اور شوگران میں بھی یہی صورتحال تھی‘ لوگ گاڑیوں میں سوتے رہے‘ حکومت اگر تھوڑی سی توجہ دے‘ یہ ملک کے تمام سیاحتی مقامات کے گرد ونواح کو ”سپاٹ ڈکلیئر“ کر دے‘ یہ وہاں تک سڑک پہنچائے‘ مقامی آبادی کو چھوٹے چھوٹے ہوٹل بنانے کی ترغیب دے‘ پارکنگ ایریاز بنائے اور ریستورانوں کےلئے جگہ مختص کر دے تو سیاحت ملک کی سب سے بڑی انڈسٹری بن سکتی ہے‘ یہ بیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے‘ لوگ اب گھروں سے باہر نکلنا چاہتے ہیں چنانچہ حکومت قومی سطح پر سیاحتی پالیسی بنا ئے اور اس پر عمل شروع کرے‘ مجھے یقین ہے لوگوں کی معاشی حالت بھی بدل جائے گی اور قوم کی نفسیات پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ دونوں بڑے ملک ہیں‘ آسٹریلیا77 لاکھ مربع کلو میٹر لمبا پورا براعظم ہے‘ نیوزی لینڈ کا رقبہ تین لاکھ مربع کلو میٹر ہے‘ نیوزی لینڈ کی آبادی 45 لاکھ اور آسٹریلیا میں دو کروڑ 43 لاکھ لوگ رہتے ہیں‘ آسٹریلیا کے اندر ہزار ہزار کلو میٹر تک آبادی کا نام و نشان نہیں‘ آسٹریلیا آج بھی آباد کاری کے عمل سے گزر رہا ہے‘ یہ ہر سال دنیا سے لاکھوں لوگ درآمد کرتا ہے لیکن یہ تمام درآمد شدہ لوگ ”سکلڈ“ ہوتے ہیں‘ آپ کے پاس اگر ہنر ہے یا آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں تو پھر آپ کےلئے آسٹریلیا کے دروازے کھلے ہیں‘ آسٹریلیا کو لاکھوں ہنر مند لوگوں کی ضرورت ہے‘ پاکستان کے زیادہ تر نوجوان ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں‘ یہ اس کےلئے جان تک جوکھوں میں ڈال دیتے ہیں‘ ہمارے نوجوان یورپ اور امریکا کے بجائے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی طرف کیوں نہیں دیکھتے؟ ہمارے نوجوان ٹیکنیکل ٹریننگ لیں‘ یہ سر ٹیفکیٹ حاصل کریں‘ اپلائی کریں اور جہاز پر بیٹھ کر آسٹریلیا چلے جائیں‘ ہم ایسا کیوں نہیں کرتے؟ حکومت کو اس آپشن پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے‘ آسٹریلیا میں ہر کام کےلئے سر ٹیفکیٹ اور ڈپلومے کی ضرورت ہوتی ہے‘ ملک میں پلمبرنگ‘ الیکٹریشن‘ پینٹر‘ کار پینٹر‘ مکینکس‘ اینٹیں لگانے‘ سریے کا کام کرنے حتیٰ کہ گھاس کاٹنے کےلئے بھی سر ٹیفکیٹ اور لائسنس ضروری ہے‘ آپ لائسنس کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے ‘ آسٹریلیا میں لائسنس کے سٹینڈرڈ بہت ہائی ہیں‘ حکومت نے اس کےلئے (TAFE) کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے‘ یہ ادارہ ٹیکنیکل لوگوں کے معیار کا خیال رکھتا ہے‘ ملک بھر میں ہزاروں ادارے ہیں‘ یہ ادارے ٹریننگ دیتے ہیں‘ ملک میں کوئی شخص ٹریننگ کے بغیر کام کو ہاتھ نہیں لگا سکتا‘ ہماری حکومت (TAFE) کے ساتھ مل کر پاکستان میں آسٹریلین معیار کے ٹیکنیکل ادارے بنا سکتی ہے‘ یہ ادارے ٹریننگ دیں‘ TAFE پاکستانی نوجوانوں کا امتحان لے اور یہ نوجوان بعد ازاں باعزت طریقے سے آسٹریلیا چلے جائیں‘ ہم اس طرح ہر سال 50 ہزار پاکستانی نوجوان آسٹریلیا بھجوا سکتے ہیں‘ وزیراعظم صاحب اور ہمارے دوست ذوالفقار چیمہ کسی دن وقت نکال کر TAFE اور آسٹریلین ماڈل کا مطالعہ کر لیں‘ مجھے یقین ہے ملک میں چھوٹا سا معاشی انقلاب آ جائے گا‘ ہماری حکومت کے پاس اگر وقت نہیں ہے تو یہ کام پرائیویٹ سیکٹر بھی کر سکتا ہے‘ ملک کی دس بڑی کنسٹرکشن کمپنیاں مل کر کنسورشیم بنائیں‘یہ کنسورشیم آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ معاہدے کرے‘ ان کے سلیبس اور ٹریننگ ماڈل لے اور پاکستانی نوجوانوں کو ٹریننگ دینا شروع کر دے‘ یہ نوجوان ٹریننگ کے بعد آسٹریلیا چلے جائیں تو سو بسم اللہ ورنہ دوسری صورت میں یہ ملک کے اندر کا کلچر بدل دیں گے۔
ہم بیس کروڑ لوگوں کا ملک ہیں لیکن جب ہم ملک میں اچھا پلمبر‘ اچھا الیکٹریشن‘ اچھا مکینک اور اچھا پینٹر تلاش کرتے ہیں تو ہمیں دور دور تک کوئی بندہ بشر نظر نہیں آتا‘ کیوں؟ ہماری حکومت کو بھی ملک میں آسٹریلیا کی طرح ٹریڈز کےلئے سر ٹیفکیٹ اور لائسنس لازمی قرار دے دینا چاہیے‘ لوگ کورس کریں‘ سر ٹیفکیٹ اور لائسنس لیں اور اس کے بعد کام کو ہاتھ لگائیں‘ آپ ستم ملاحظہ کیجئے ہمارے ملک میں ایوان صدر‘ وزیراعظم ہاﺅس اور آرمی چیف ہاﺅس میں بھی پانی‘ بجلی اور انٹر نیٹ کی وائرنگ ان پڑھ مستریوں کے ہاتھوں سے انجام پاتی ہے‘ ہم پچاس پچاس لاکھ کی گاڑیاں غیر تربیت یافتہ چھوٹوں کے حوالے کر دیتے ہیں اور یہ وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے آپ ملک کے کسی ایوان‘ کسی گھر میں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں ”سیم“ بھی نظر آئے گی اور آپ وہاں ٹونٹی سے ٹپکتا ہوا پانی بھی دیکھیں گے‘ ہم لوگوں کو ٹرینڈ کیوں نہیں کرتے‘ ہم سسٹم کیوں نہیں بناتے‘ ہم ترقی یافتہ قوموں سے کیوں نہیں سیکھتے‘ میں آپ کو فجی کی مثال دیتا ہوں (جاری ہے)۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…