سات ہزار سوال

19  مئی‬‮  2016

یہ در ست ہے ذوالفقار علی بھٹو نے جنوری1972ءمیں ملک کے تمام بڑے تجارتی‘ صنعتی اور کاروباری ادارے قومیا لئے تھے‘ ملک کے 13 بڑے بینک بھی اس پالیسی کی زد میں آئے‘ اتفاق گروپ اس وقت پنجاب کا دوسرا بڑا صنعتی ادارہ تھا‘ یہ ادارہ سات بھائیوں کی ملکیت تھا‘ میاں محمد شریف گروپ کے سربراہ تھے‘ یہ ساتوں بھائی بھٹو صاحب کے ایک حکم سے ایک رات میں سڑک پر آ گئے‘ یہ حقیقت سو فیصد درست ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ میاں شریف اور ان کے چھ بھائیوں کے گھروں سے صرف اسی ہزار روپے جمع ہوئے‘ میاں شریف کے پاس اس وقت چنگڑ محلے (اردو بازار) میں برف کا ایک کارخانہ تھا‘ یہ کارخانہ مدت سے بند پڑا تھا‘ میاں شریف اگلے دن اپنے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر اس بند کارخانے میں چلے گئے‘ کارخانہ کھولا‘ ٹوٹی ہوئی میز اور کرسیاں سیدھی کیں‘ اپنے ہاتھ سے گرد جھاڑی اور یہ نئے سرے سے کام میں جت گئے‘ یہ حقیقت بھی سو فیصد درست ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ لاہور مال روڈ پر گرینڈ لیز بینک ہوتا تھا‘ میاں محمد شریف بینک منیجر سے ملے اور قرضے کی درخواست دے دی‘ میاں صاحب کے پاس گروی رکھنے کےلئے کوئی پراپرٹی نہیں تھی‘ ان کا کوئی گارنٹر بھی نہیں تھا‘ یہ اس وقت حکومت کے عتاب کا شکار بھی تھے اور ”کیا یہ دوبارہ قدموں پر کھڑے ہو سکیں گے“ دنیا کا کوئی شخص یہ بھی نہیں جانتا تھا مگر بینک منیجر نے اس کے باوجود ذاتی ضمانت پر میاں شریف کو قرضہ دے دیا‘ میاں صاحب نے اس قرضے سے نئے صنعتی یونٹ لگائے اور یہ آہستہ آہستہ ایک بار پھر قدموں پر کھڑے ہو گئے‘ یہ حقیقت بھی سو فیصد درست ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ میاں نواز شریف نے 16 مئی 2016ءکو قومی اسمبلی کے فلور پر انکشاف کیا ”میرے والد 1972ءمیں دوبئی گئے اور دوبئی میں 10 لاکھ مربع فٹ رقبے پر محیط گلف سٹیل مل لگائی“ میاں نواز شریف نے مل کے افتتاح کی چند تصویریں بھی ایوان میں پیش کیں‘ ان تصویروں میں میاں شریف‘ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان کے ساتھ کھڑے ہیں‘ میاں نواز شریف نے مزید انکشاف کیا ”ہم نے یہ مل 1980ءمیں 33.37 ملین درہم میں فروخت کر دی‘ یہ 9 ملین ڈالر بنتے ہیں‘ ہمیں جب جنرل پرویز مشرف نے 2000ءمیں جلاوطن کیا تو ہم نے سعودی عرب میں نئی سٹیل مل لگا لی‘ جدہ کی سٹیل مل میں گلف سٹیل مل کا سرمایہ خرچ ہوا‘ ہم نے 2005ءمیں سعودی عرب کی سٹیل مل فروخت کر دی‘ یہ سرمایہ لندن شفٹ کیا اور وہاں فلیٹس خرید لئے“۔
یہ حقیقت بھی سو فیصد درست ہو سکتی ہے لیکن یہاں چند سوال پیدا ہوتے ہیں اور یہ سوال جوں جوں آگے بڑھتے ہیں ان کی تعدادمیں اضافہ ہوتا جاتا ہے‘ وہ سوال کیا ہیں ‘ ہم ان میں سے چند سوال یہاں پیش کرتے ہیں‘ مثلاً میاں شریف کے پاس 1972ءمیں 80 ہزار روپے تھے‘ یہ سات بھائیوں کا کل سرمایہ تھا‘ یہ لوگ پاکستان میں انڈسٹری لگانے کےلئے گرینڈ لیز بینک سے قرض لینے پر مجبور تھے چنانچہ پھر ان کے پاس دوبئی میں 10 لاکھ مربع فٹ وسیع مل لگانے کےلئے سرمایہ کہاں سے آ گیا؟ کیا یہ سرمایہ پاکستان سے دوبئی شفٹ کیا گیا تھا؟ اگر ہاں تو سرمایہ کی منتقلی کےلئے کون سا ذریعہ استعمال کیا گیا‘ کیا یہ سرمایہ بینک کے ذریعے دوبئی گیا؟ اگر ہاں تو کیا یہ حقیقت نہیں ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ءمیں بینکوں کے ذریعے سرمایہ باہر منتقل کرنے پر بھی پابندی لگا دی تھی‘ یہ پابندی 1991ءتک جاری رہی اور میاں نواز شریف نے پہلی بار وزیراعظم بننے کے بعد یہ پابندی اٹھائی‘ پاکستانی سرمایہ کار‘ صنعت کار اور تاجر اس دوران 20 سال تک سٹیٹ بینک کی خصوصی اجازت کے ذریعے مشینری‘ خام مال اور اجناس کےلئے ”فارن ایکسچینج“ باہر بھجواتے رہے چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہے اگر یہ مل میاں برادران نے پاکستانی سرمائے سے لگائی تھی تو یہ سرمایہ دوبئی کیسے گیا تھا؟ کیا ہنڈی کا ذریعہ استعمال کیا گیا‘ اگر ہاں تو کیا یہ قدم غیر قانونی نہیں تھا؟ دوسرا آپ کے پاس 1972ءمیں کل 80 ہزار روپے تھے‘ کیا کوئی شخص اس رقم سے پاکستان اور دوبئی دو جگہوں پر اتنی بڑی انڈسٹریل ایمپائر کھڑی کر سکتا ہے؟ ہم اگر چند لمحوں کےلئے میاں صاحب کا استدلال مان لیں‘ ہم یہ تسلیم کر لیں یہ مل لگی‘ یہ 8 سال چلی اور یہ 1980ءمیں 9 ملین ڈالر میں فروخت بھی ہو گئی‘ اب سوال پیدا ہوتا ہے‘ یہ نو ملین ڈالر کہاں گئے؟ کیا یہ پاکستان لائے گئے‘ اگر ہاں تو اس کےلئے کون سا چینل استعمال کیا گیا؟ کیا یہ بینک کے ذریعے آئے‘ اگر ہاں تو اس کا ریکارڈ کہاں ہے اور میاں برادران نے پوری زندگی یہ 9 ملین ڈالر اپنی بیلنس شیٹس میں ظاہر کیوں نہیں کئے؟ ہم فرض کر لیتے ہیں یہ 9 ملین ڈالر دوبئی کے بینکوں میں پڑے رہے‘ اب سوال پیدا ہوتا ہے‘ آپ نے یہ رقم 36 سال چھپائے رکھی‘ کیوں؟ کیا یہ غیر قانونی نہیں؟۔
ہم یہ بھی چھوڑ دیتے ہیں اور ہم حسین نواز کے سات مارچ 2016ءکے انٹرویو کی طرف آتے ہیں‘ حسین نواز نے میرے ساتھ انٹرویو میں دعویٰ کیا‘ ہم نے 2000ءمیں سعودی بینک اور چند ہمدرد دوستوں سے قرضہ لے کر حدیبیہ میں سٹیل مل لگائی‘ حسین نواز نے اس انٹرویو میں گلف سٹیل مل اور ان 9 ملین ڈالر کا ذکر نہیں کیا تھا‘ کیوں؟ ہم چند لمحوں کےلئے میاں نواز شریف اور میاں حسین نواز کے خیالات کو کنفیوژن سمجھ لیتے ہیں اور ہم انہیں ”گریس مارکس“ دے دیتے ہیں لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے‘ یہ نو ملین ڈالر کس چینل کے ذریعے سعودی عرب لائے گئے تھے‘ شریف فیملی جدہ میں جلاوطن تھی‘ ان کے پاس پاسپورٹ تک نہیں تھے اور کیا یہ حقیقت نہیں دنیا کا کوئی جلاوطن شخص کسی بینک کے ذریعے اتنی بڑی رقم دوسرے ملک میں شفٹ نہیں کر سکتا‘ یہ اتنی بڑی رقم بینک سے نکال بھی نہیں سکتا چنانچہ پھر یہ رقم کیسے نکالی گئی‘ یہ کیسے سعودی عرب لائی گئی؟ ہم چند لمحوں کےلئے یہ بھی مان لیتے ہیں یہ رقم دوبئی کے کسی بینک میں پڑی تھی اور شریف فیملی یہ رقم بینک سے نکال کر جدہ لے گئی‘اب سوال یہ ہے یہ رقم بینک سے کس نے نکلوائی؟ کیونکہ شریف فیملی کا کوئی فرد 2005ءسے قبل سعودی عرب سے باہر نہیں گیا‘یہ سعودی عرب میں ”اوپن جیل“ کے قیدی تھے‘ یہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے تھے‘ حسن نواز فیملی کے پہلے فرد تھے جنہیں علاج کےلئے نومبر2005ءمیں لندن جانے کی اجازت دی گئی اور شریف فیملی کی مل اس وقت تک نہ صرف مکمل ہو چکی تھی بلکہ یہ پروڈکشن کے نقطہ انتہا کو بھی چھو رہی تھی چنانچہ پھر یہ پیسہ جدہ کیسے پہنچا؟ میاں حسین نواز نے 7 مارچ کے انٹرویو میں دعویٰ کیا‘ گلف سٹیل 2000ءتک ختم ہو چکی تھی‘ مالک مشینری کو سکریپ میں بیچ رہا تھا‘ میں دوبئی گیا‘ میں نے وہ مشینری بہت ارزاں قیمت میں خریدی‘ جدہ لایا‘ اسے ری کنڈیشن کیا اور دوبارہ مل لگا لی‘ یہاں بھی دو سوال پیدا ہوتے ہیں‘ گلف سٹیل مل 1972ءمیں لگی‘ مشینری کو 2000ءمیں 28 برس ہو چکے تھے‘ کیا کوئی مشینری 28 برس بعد دوبارہ کام کے قابل رہتی ہے؟ اور وہ بھی اتنی کہ نئی مل لاکھوں ڈالر سالانہ کما کر دے اور آخر میں 17 ملین ڈالر میں فروخت بھی ہو جائے‘ کیا یہ ممکن ہے؟ اگر ہاں تو کیا یہ بات پرانے مالک کے علم میں نہیں تھی؟ اس بے وقوف نے اتنی کار آمد مشینری سکریپ کے بھاﺅ کیوں بیچ دی؟ دوسرا حسین نواز شریف 2006ءتک سعودی عرب میں مقیم رہے‘ یہ سعودی عرب سے باہر نہیں گئے‘ ان کے پاس سفری دستاویز تک نہیں تھیں‘ یہ پھر مشینری خریدنے کےلئے دوبئی کیسے اور کب گئے؟ یہ تمام سوال جواب مانگتے ہیں اور مجھے یقین ہے جس دن میاں نواز شریف ان میں سے کسی ایک سوال کے جواب کی غلطی کر بیٹھےں گے‘ یہ چند سوال سات ہزار سوال ہو جائیں گے اور میاں صاحب سوالوں کی اس دلدل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے۔
ہم اب آتے ہیں جوڈیشل کمیشن کے ”ٹی او آرز“ کی طرف۔ یہ ٹی او آرز بن جائیں گے‘ کمیشن بھی تشکیل پا جائے گا اور کارروائی بھی ہو گی لیکن یہ کمیشن کسی ملزم کو سزا نہیں دے پائے گا‘ کیوں؟ کیونکہ ملک میں آف شور کمپنیوں کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں‘ آپ ملک کے کسی شہری کے پانچ سال سے زائد مدت کے ٹیکس معاملات بھی نہیں کھول سکتے چنانچہ آپ کو قانون بدلنا ہو گا اور آپ اگر قانون بدل دیتے ہیں تو پھر ملک میں ہزاروں نئے پنڈورا باکس کھل جائیں گے اور اگر یہ پنڈورا باکس کھل گئے تو انہیں بند کون کرے گا؟ لہٰذا میرا مشورہ ہے آپ وہ کریں جو اس وقت دنیا کر رہی ہے‘ دنیا کے کسی ملک میں پانامہ لیکس پر تفتیش نہیں ہو رہی‘ دنیا اس وقت آف شور کمپنیوں کے خلاف قانون سازی کر رہی ہے‘ آپ بھی نئی آئینی دفعات کے ذریعے آف شور کمپنیوں کو غیر قانونی قرار دے دیں یا پھر انہیں قانونی کور دے دیں‘ آپ یہ قانون بنا دیں ملک کا ہر بالغ شہری غیر ممالک میں موجود کمپنیاں ڈکلیئر کرے گا اور جو اس قانون کی خلاف ورزی کر ے گا اس کے غیر ملکی اکاﺅنٹس اور جائیداد ضبط کر لی جائے گی‘ آپ اسی طرح نئی ٹیکس امیونٹی سکیم بھی شروع کرسکتے ہیں‘ یہ سکیم صرف آف شور کمپنیوں کے مالکان اور پانامہ لیکس میں شامل لوگوں کےلئے ہو‘ یہ سکیم ملک کا سرمایہ اور وقت دونوں بچا لے گی ورنہ دوسری صورت میں 7 سوال پہلے 70 ہوں گے‘ پھر 700 اور آخر میں 7000 ہو جائیں گے اور یہ سات ہزار سوال گرد اڑانے کے سوا کسی کام نہیں آئیں گے‘ آپ یقین کریں آج شریف فیملی سوالوں کی زد میں ہے‘ آج ان کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں‘ کل یہ سوال عمران خان‘ بلاول بھٹو‘ چودھری شجاعت حسین اور سراج الحق سے بھی پوچھے جائیں گے اور یہ بھی شریف فیملی کی طرح لاجواب ہو جائیں گے‘سوالوں کی اس جنگ میں قوم کو کیا ملے گا؟ خاک‘ راکھ اور ڈپریشن! آپ قوم پر ترس کھائیں‘ مسئلہ حل کریں‘ مسئلے کی نسل کشی نہ کریں‘ سات سوالوں کو سات ہزار نہ بنائیں کیونکہ یہ سات ہزار سوال قوم کو سات سو سال پیچھے لے جائیں گے۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…