ویتنام نے ایسا کیا ،کیا کہ وہاں کروناوائرس سے ایک بھی موت نہ ہوئی ؟لوگوں نے بیماری کو خود پر کیسے حاوی ہونے سے روکا ، پابندیاں ختم سکول و کالجز دوبارہ کھولنے کی اجازت ۔۔ ویتنام کا وہ طریقہ کار جو دوسرے ممالک کیلئے ایک ماڈل کے طور ابھر کر سامنے آگیا

2  مئی‬‮  2020

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )کووڈ۔19 کا انفیکشن پوری دنیا میں پھیل رہا ہے لیکن ایک ایسا ملک ہے جہاں اس کی جھلک بہت کم نظر آتی ہے۔یہ ملک ویتنام ہے اور جو اس ملک چین سے متصل ہے جہاں سے یہ وبا شروع ہوئی۔ ویتنام کی آبادی بھی قریب نو کروڑ سے زیادہ ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق 23 اپریل تک اس ملک میں کووڈ 19 کے انفیکشن کے صرف 270 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

صرف یہی نہیں کووڈ-19 سے ویتنام میں ایک بھی شخص کی موت نہیں ہوئی ہے۔جب وائرس کا پھیلاؤ شروع ہوا تو ویتنام نے اپنے عوام کو آگاہ کیا اور اس وبا سے لڑنے کے لیے جنگی پیمانے پر تیاریاں کین لیکن اب یہاں سے پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں اور سکولوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ویتنام نے ایسا کیا کیا جسے دوسرے ممالک بھی ایک ماڈل کے طور پر اپناسکتے ہیں۔جنوری کے آخری دنوں میں ویتنام میں کورونا انفیکشن کا پہلا کیس سامنے آیا تھا۔اس کے بعد فوری فیصلہ کرتے ہوئے ویتنام نے چین کے ساتھ اپنی سرحد کو مکمل طور پر بند کردیا۔اس کے علاوہ تمام بڑے ہوائی اڈوں پر دوسرے ممالک سے آنے والے ہر شہری کی تھرمل سکریننگ کے ذریعے جانچ انتظام کیا گیا تھا۔حکومت کو احساس ہو گیا تھا کورونا انفیکشن ان لوگوں میں نظر آ رہا ہے جو بیرون سے وہاں پہنچ رہے ہیں۔ اور پھر حکومت نے بیرون ملک سے آنے والے ہر فرد کو 14 دن کے لیے قرنطینہ میں رکھنے کا حکم دیا۔حکومت نے لوگوں کو قرنطینہ رکھنے کے لیے ہوٹلوں کا بل ادا کیا۔ مارچ کے اخیر میں ویت نام نے تمام غیر ملکیوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔ویتنامی نژاد غیر ملکی شہریوں اور ویتنامی شہریوں کے کنبہ کے افراد کے داخلے پر بھی پابندی عائد کردی۔کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کو تنہائی میں رکھنے کے بعد ان لوگوں کے رابطے میں آنے والے لوگوں کا پتہ چلایا اور ان تمام لوگوں کا کورونا ٹیسٹ کرایا گیا۔صرف یہی نہیں بلکہ ویتنام اپنے ملک میں ہی کم لاگت کی ٹیسٹنگ کٹس تیار کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ویتنام کے پاس لوگوں کی وسیع پمیانے پر کورونا جانچ کے لیے

جنوبی کوریا یا جرمنی جتنے وسائل نہیں ہیں۔وسائل کی کمی کی وجہ سے ویتنام کی حکومت نے کم خرچ والا طریقہ اختیار کیا اور انفیکشن کی جانچ کے معاملے میں جارحانہ انداز میں لوگوں کو تلاش کیا گیا اور متاثرہ افراد کو تنہائی میں رکھنے کے انتظامات کیے گئے۔ویتنام کی حکومت نے کورونا وائرس کے خلاف لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے ملک گیر پمانے پر مہم چلائی۔اس مہم میں لوگوں کو چھوٹے ویڈیوز

اور پوسٹروں کے ذریعے کورونا وائرس سے بچاؤ کے طریقوں سے آگاہ کیا گیا۔امریکی جنگ میں ویت نام کی حکمت علی کی یاد دہانی کراتے ہوئے وزیر اعظم گوین یوان فوک نے عوام سے اپیل کی کہ وہ طویل عرصے تک وبائی بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں۔نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی ، کینبری میں پروفیسر ایمریٹس کارل تھیار کا کہنا ہے کہ ‘ویتنام کا معاشرہ بیدار ہے۔ وہاں ایک پارٹی نظام موجود ہے۔

پولیس سسٹم، فوج اور پارٹی اس فیصلے پر عملدرآمد کرتی ہے جو اعلی سطح پر لیا جاتا ہے۔ حکومت کی اعلی قیادت اس طرح کے چیلنجوں کے دوران اچھے فیصلے بھی کرتی ہیں۔بی بی سی ویتنامی سروس کے ایڈیٹر جیانگ گوین کے مطابق اس حکمت عملی کے کامیاب ہونے کے بعد بھی اس کی اپنی خامیاں ہیں۔اس کے تحت لوگوں کو اپنے پڑوسیوں پر نگاہ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ

خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ زبردستی قرنطینہ بھیجے جانے کے خوف سے بہت سارے متاثرہ افراد ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں۔ویتنام نے جن طریقوں کو اختیار کیا اس سے ویتنام کی معیشت بھی متاثر ہوئی ہے۔ بہت سے کاروبار بند ہوگئے امریکہ، یورپی یونین اور مشرقی ایشیا کے پریمیم روٹس پر پروازوں کی منسوخی کے باعث سرکاری ملکیت والی ویتنام ایئرلائنز کو کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

ویتنام کورونا سے متاثرہ مریضوں کو قرنطینہ میں رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ تاہم بہت ساری جگہوں پر شہریوں کی آزادی پر بھی اس نے قدغن لگائی ہے۔موثر مقامی انتظامیہ اور مضبوط سکیورٹی نظام کی وجہ سے ویتنام بعض معاملات میں پورے ضلع کو قرنطینہ میں رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔لیکن یورپی ممالک طرح ویتنام نے لاک ڈاؤن نافذ نہیں کیا۔ اب ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی سمیت ایک درجن بڑے شہروں میں

لاک ڈاؤن کے لیے جو انتظامات کیے گئے تھے انھیں اب ہٹایا جا رہا ہے۔لیکن اب بھی تین اضلاع یا شہر مکمل طور پر لاک ڈاؤن میں ہیں اور ان تینوں مقامات پر تقریبا ساڑھے چار لاکھ افراد رہ رہے ہیں۔مقامی فوج اس علاقے کی حفاظت کر رہی ہے اور یہاں سے کوئی باہر نہیں نکل سکتا ہے۔گوین بتاتے ہیہ کہ ‘کورونا وائرس کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے سیاسی عزم کے علاوہ منظم نظام حکومت اور فرمانبردار عوام کا ہونا کافی ہے۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…