بھارتی 1962 کی شکست سے نکل نہیں سکے، اب کیا ہونیوالاہے؟چینی میڈیانے تشویشناک دعویٰ کردیا

21  جولائی  2017

بیجنگ (آئی این پی ) ہندو قوم پرستی بھارت کو جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے ، اگر مذہبی قوم پرستی انتہا پسندی میں تبدیل ہو گئی تو مودی حکومت کچھ نہیں کر سکے گی بالکل اسی طرح جس طرح وہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف پر تشدد واقعات کو روکنے میں ناکام ہوئی۔ چینی سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ بھارت چین کو اپنا حریف اور دشمن تصور کرتا ہے اور وہاں یہ تصور پھیلایا جا رہا ہے کہ چین چاروں طرف سے گھیر رہا ہے۔

‘بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں بھارت کو شامل ہونے کی دعوت دینے کے باوجود بھارت اس بات پر بضد ہے کہ یہ پروجیکٹ اسے محصور کرنے کی چین کی عسکری حکمت عملی کا حصہ ہے۔’اخبار نے لکھا ہے کہ ’بہت سیبھارتی 1962 کی جنگ میں شکست سے نکل نہیں سکے ہیں۔ یہ شکست ان کے لیے ایک مسلسل درد بن گئی ہے جو انھیں چین کے خلاف متحد کرتی ہے۔ چین سے انتقام لینے کے جذبات ایک عرصے سے فروغ پا رہے تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے انتخاب کے بعد ملک میں قوم پرستی کی لہر کو مزید ہوا ملی ہے۔ وہ بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی کا فائدہ اٹھا کر اقتدار میں آئے۔ اس سے بھارت میں قدامت پسندی کے تصورات کا اثر بڑھ گیا ہے۔‘ وزیر اعظم نریندر مودی کے انتخاب کے بعد ملک میں قوم پرستی کے لہر کو اور ہوا ملی ہے، وہ بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی کا فائدہ اٹھا کر اقتدار میں آئے۔اخبار کے مطابق ‘اب حکومت پر زور پڑ رہا ہے کہ وہ اپنے خارجی تعلقات بالخصوص چین اور پاکستان جیسے ملکوں کے ضمن میں سخت گیر رویہ اختیار کرے۔ چین کی سرحد پر موجودہ تنازع دراصل ہندو قوم پرستوں کی ایما پر ہی شروع کیا گیا ہے۔‘اخبار نے لکھا ہے کہ بھارت نے اپنی چین پالیسی کو بڑھتی ہوئی قوم پرستی کے ہاتھوں اغوا ہونے سے روکنے کے لیے دانشمندی کا استعمال نہیں کیا۔ ‘اس سے خود بھارت کے مفاد خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ بھارت اگر محتاط نہیں رہا تو ہندو قوم پرستی دونوں ملکوں کو جنگ میں دھکیل دے گی۔’اس دوران بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے چین کے اس مطالبے کو مستر کر دیا ہے کہ بھارت کے فوجی ڈوکلام کے متنازع خطے سے واپس جائیں۔

ایک بیان میں سشما سوراج نے کہا کہ ‘بھارت کے فوجی وہاں سے پیچھے ہٹ جائیں گے بشرطیکہ چین کے فوجی بھی وہاں سے واپس جائیں۔’انھوں نے کہا کہ ڈوکلام کے اس خطے کے بارے میں ایک سمجھوتہ ہوا تھا جس کے مطابق کسی طرح کی تبدیلی بھارت چین اور بھوٹان تینوں ملکوں کے اتفاق رائے سے ہی ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ بھارت چین سے بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار ہیں لیکن وہ ڈوکلام سے یکطرفہ طور پر اپنی فوج کو پیچھے نہیں ہٹائیں گے۔

اس دوران بھوٹان کے متنازع خطے ڈوکلام میں بھارتی فوجیوں کے داخل ہونے کے ایک مہینے بعد بھی چین اور انڈیا کے درمیان تعطل برقرار ہے۔ دونوں ملکوں کے فوجی ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ڈوکلام خطے کو چین اپنی زمین کہتا ہے جبکہ بھوٹان کا کہنا ہے یہ زمین اس کی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ اس کی فوج بھوٹان کی درخواست پر اس کی زمین کا تحفظ کرنے کے لیے ڈوکلام میں داخل ہوئی ہے۔ چینبھارت پر زور دے رہا ہے کو وہ اپنے فوجیوں کو اپنی سرحدوں میں واپس بلائے۔دونوں ملکوں میں کشیدگی کافی بڑھ گئی ہے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…