ذہنی بیماریاں،سروے رپورٹ میں بڑی وجوہات سامنے آگئیں

3  دسمبر‬‮  2017

کراچی(این این آئی)سماجی و معاشرتی رابطوں میں کمزوری اور صلاحیت کا نہ ہونا ذہنی عارضوں کی وجہ بن سکتا ہے اور یہ کمی جسمانی صحت کی خرابی کی بھی اہم وجہ بن سکتی ہے۔ سماجی و معاشرتی رابطوں میں کمزوری اور صلاحیت کا نہ ہونا ڈپریشن، یاسیت اور دیگر ذہنی عارضوں کی وجہ بھی بن سکتا ہے ۔ ہیلتھ کمیونی

کیشن نامی تحقیقی مجلے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس ضمن میں 775 افراد پر مشتمل گروپ کا ایک سروے کیا گیا ہے جس میں 18 سے 91 برس تک کے لوگ شامل تھے۔ ان تمام رضاکاروں سے آن لائن سوالات کیے گئے تھے جن میں ان کے ذہنی تناؤ، تنہائی، سماجی روابط اور معاشرے میں رہنے کی مہارت کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی صحت کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔ اس سروے میں سماجی روابط کی بہتری اور خرابی سے مراد یہ ہے کہ بعض لوگ دوسرے لوگوں سے بہت اچھی طرح بات چیت اور میل ملاپ رکھتے ہیں جبکہ کچھ افراد اس میں ناکام رہتے ہیں اور دوسروں سے اپنے خیالات کا بہتر طور پر تبادلہ نہیں کرسکتے۔ اب ثابت ہوا ہے کہ یہ کمی خود خرابی صحت کی وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ سروے میں چار اہم سماجی عوامل کو شامل کیا گیا : اول دوسروں کو جذباتی مدد فراہم کرنا، دوم خود کو کھولنا تاکہ وہ دوسروں سے اپنی ذاتی معلومات کا تبادلہ کرسکیں، سوم دوسروں کی نامناسب بات پر اصولی موقف اختیار کرنا، اور چہارم تعلقات قائم کرنا جس میں دوسروں کے سامنے خود کو متعارف کرانا اور روابط بڑھانا جیسی بنیادی اور اہم باتیں ہوتی ہیں۔ اس سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اکیلا پن ایک خطرناک رجحان ہے جو جسمانی و نفسیاتی، دونوں طرح سے بہت مضر ہوتا ہے۔ اس کا جسم کو وہی نقصان ہوتا ہے جو تمباکو نوشی، موٹاپے اور ورزش نہ کرنے سے ہوتا ہے۔ اگر ہمارے گھر کی چابی

کھو جائے تو اس کی تشویش غیر معمولی ہوتی ہے لیکن چابی ملتے ہی یہ پریشانی غائب ہوجاتی ہے۔ معاشرے سے کٹے ہوئے اکیلے افراد کو ہمہ وقت اسی تناو کا سامنا ہوتا ہے اور وہ اس سے فرار نہیں ہوپاتے۔آخرکار یہ مزاج انہیں ہر طرح سے نقصان پہنچاتا ہے۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ معاشرے میں گھلنے ملنے سے یہ کیفیت بہت تیزی سے دور ہوتی جاتی ہے۔ بسا اوقات اس ضمن میں معالجین اور

نفسیاتی ماہرین کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔ اس سے قبل کئی اہم مطالعوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ دوستوں اور عزیزوں کے درمیان بیٹھنے اور خوشگوار ماحول میں بات کرنے کا دماغ پر عین وہی اثر ہوتا ہے جو کسی درد کش دوا کا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرے کا دکھ درد سننے سے انسان کئی امراض سے محفوظ رہتا ہے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…