پاکستان کی حیرت انگیز کامیابیاں۔ پڑھ کر آپ بھی فخر کرینگے۔

12  دسمبر‬‮  2014

اکیسویں صدی میں اگر باقی ممالک نے نت نئی ایجادات کی ہیں، حیرت انگیز مظاہر کا کھوج لگایا ہے، تو ہم بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ کیا ہوا جو بھارت نے اپنا ’’منگل یان‘‘ انتہائی کم قیمت میں پہلی ہی دفعہ مریخ پر اتار لیا، یورپ کو بھی زیادہ اترانے کی ضرورت نہیں کہ چند روز پہلے اس کا ’’فیلیا لینڈر‘‘ انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ زمین سے صرف پانچ ارب اور دس کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر رواں دواں دمدار ستارے پر اتر گیا جہاں سے یہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والی تصویریں زمین پر بھیج رہا ہے۔

ہائیڈروجن پر چلنے والی کاریں جو دھویں کے بجائے پانی کے بخارات چھوڑا کریں گی، روبوٹ جو انسانی ذہن کی طرح سوچ سمجھ اور پلان بنا سکتے ہیں، نینو ٹیکنولاجی جس کی مدد سے خوردبین سے نظر آنے والی انتہائی چھوٹی مشینیں تیار کی جائیں گی جو انسانی خلیوں کی مرمت کا کام کرسکیں گی، جینیٹک انجینئرنگ، انسانی کلوننگ، آواز کی رفتار سے بھی تیز چلنے والے جہاز جو چھ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکیں گے: ان ساری ایجادات کو بھی رہنے دیں۔ ہمارے ہاں کی دریافتوں پر ذرا غور فرمائیں اور بتائیں کہ ہم کیا کسی سے کم ہیں۔

پاکستان میں اکیسویں صدی کی چشم کشا دریافت ’’سزاب مُو‘‘ کا سہرا علم دوست حکمران آصف علی زرداری کے سر ہے۔ معلوم نہیں کہ نذر محمد گوندل جو ان کے دور میں ’’کیڈ‘‘ کے وزیر تھے ان کا اس عظیم الشان دریافت میں کتنا حصہ ہے لیکن بہرحال اصل کریڈٹ تو زرداری صاحب کو ہی جاتا ہے ۔ سزاب مُو دراصل پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائینسز کے پہلو میں قائم بیس تیس سالہ قدیم ادارہ تھا جسے ماضی میں قائد اعظم پوسٹ گریجویٹ میڈیکل یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ آصف علی زرداری کے سنہرے علمی دور کی بدولت ماہرین علم و ہنر نے جدید سائینس اور ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے کئی مہینوں کی محنت شاقہ کے بعد اس قدیم ادارے کا کھوج لگایا اور اسے شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کہ جس کا مخفف ’’سزاب مُو‘‘ قرار پایا، کا نام دیا۔ وہ چاہتے تو ہڑپہ اور موئن جو دڑو کی طرح اس ادارے کے قدیم نام کو بھی قائم رکھ سکتے تھے لیکن کہاں قائد اعظم اور کہاں شہید ذوالفقار علی بھٹو، سو آج ہم پاکستان کی اس دریافت کو کہ جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستانی سائینسدانوں کی خوب دھوم مچی، ’’سزاب مُو‘‘ کے نام سے ہی جانتے ہیں۔

زرداری دور میں ہوشربا دریافتوں کا سلسلہ ’’سزاب مُو‘‘ کی دریافت پر نہیں رکا بلکہ اس دور کی ایک اور دریافت ’’بِبیا‘‘ نے بھی اکیسویں صدی کی عظیم دریافتوں میں نمایاں مقام پایا۔ یہ وہ ہوائی اڈہ تھا جسے قدیم زمانے میں اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے نام سے منسوب کیا جاتا تھا، لیکن زرداری دور میں ماہرین آثار قدیمہ نے اس کا کھوج بھی لگا لیا اور 2008 میں اسے ’’بِبیا‘‘ یعنی بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا نام دیا۔ اس عظیم کارنامے کا نتیجہ یوں نکلا کہ کچھ ہی سالوں میں جب دنیا بھر کے بدترین ایئرپورٹس کے بارے میں مسافروں کی آراء لی گئیں تو دنیا بھر کے بدترین ایئرپورٹ ہونے کا اعزاز ’’بِبیا‘‘ کے حصے میں آیا۔ اسی طرح بینظیر بھٹو ہسپتال، بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام جیسی علمی اور عملی فتوحات نے دنیا بھر میں پاکستان کا لوہا منوایا۔

صرف یہی نہیں آصف علی زرداری ہی کے تاریخ ساز دور میں اسلام آباد کے نواح میں انسانی عقل کو خیرہ کر دینے والے ایک نئے ایئرپورٹ کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ اس ایئرپورٹ کی خاصیت یہ ہے کہ اس کا سنگِ بنیاد تو اکیسویں صدی میں رکھا گیا ہے لیکن یہ پورے پونے دو سو سال زیر تعمیر رہنے کے بعد بائیسویں صدی کے آخیر میں مکمل ہو گا اور اس پر اٹھنے والی فی مربع فٹ لاگت بھی ان پونے دو سو سالوں میں پوری دنیا میں تعمیر ہونے والے تمام ایئر پورٹوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہو گی۔

زرداری دورِ حکومت تو اختتام پذیر ہوگیا لیکن ایجادات اور دریافتوں کے جس عظیم سلسلے کی بنیاد اس دور حکومت میں پڑی تھی، وہ نواز شریف کے دورِ حکومت میں بھی جاری ہے۔ پچاس ارب روپے کی لاگت سے اسلام آباد میں ایک ایسا عجوبہ تیار کیا جا رہا ہے جس پر پوری ساٹھ میٹرو بسیں چلا کر پاکستان پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دے گا۔ ایک معروف تجزیہ نگار فرخ سلیم نے جو اعدادوشمار پیش کیے، ان کے مطابق جس میٹرو پروجیکٹ کو احمد آباد (بھارت) نے تیس لاکھ ڈالر فی کلومیٹر، دالیان (چین) نے پنتالیس لاکھ ڈالر فی کلومیٹر، استنبول (ترکی) نے ایک کروڑ ڈالر فی کلومیٹر، لاہور (پاکستان) نے ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر فی کلومیٹر خرچ کر کے تعمیر کیا: نواز شریف حکومت نے اسی میٹرو پروجیکٹ کو دو کروڑ ڈالر فی کلومیٹر میں تعمیر کرنے کا اعزاز اپنے نام لکھوالیا۔ سو اکیسویں صدی میں سب سے بلند قیمت میٹرو پروجیکٹ تعمیر کرنے کا سہرا بھی چند مہینے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والا ہے۔ اگرمنصوبے کے مطابق ملتان، فیصل آباد اور پشاور میں بھی میٹرو پراجیکٹ چند سالوں میں مکمل ہو گئے تو یقیناً بعد میں مکمل ہونے والا ہر پراجیکٹ پہلے والے کا ریکارڈ توڑتا جائے گا اور ہم چند ہی سالوں میں دنیا بھر کے اوپر نیچے ایک سے بڑھ کر ایک مہنگے میٹرو پراجیکٹ بنانے کا تمغہ بھی اپنے سر سجا لیں گے۔

’’سزاب مُو‘‘ کے اثرات اس عہد کے باقی قائدین اور سیاسی جماعتوں تک بھی پھیلتے جا رہے ہیں۔ جیسے جیسے ہم بقول عمران خان ایک قوم بنتے جارہے ہیں ہمارے ہاں ہر شعبہ ہائے زندگی میں نئی سے نئی منزلیں طے ہو رہی ہیں۔ چند روز قبل ہی عمران خان نے دنیا کے طویل ترین اور رنگین ترین کنٹینر دھرنے کے سو دن پورے ہونے کا کیک کاٹا ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے کہ بہت جلد اس کا نام ایک دفعہ پھر تبدیل کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جنرل ظہیر الاسلام کا نواز شریف کو بتانا کہ دوران حج انہوں نے وزیراعظم کی کامیابی کے لیے بہت دعائیں کی تھیں، بھی کسی ’’سزاب مُو‘‘ سے کم نہیں۔

ہوسکتا ہے کہ جنرل پاشا بھی زرداری، گیلانی اور حقانی صاحب کے لیے کسی عرب ملک میں دعائیں کر رہے ہوں۔ ’’آپریشن دھرناجات ۔ ۱لف‘‘ کے دوران جتنی تعداد میں ’’محب وطن ‘‘ صحافی سامنے آئے، ایک چونکا دینے والا ’’سزاب مُو‘‘ تھا لیکن اس سے بھی بڑا ’’سزاب مُو‘‘ وہ ’’غدار‘‘ صحافی اور نیم صحافی تھے جو سوشل میڈیا پر اتنی بڑی تعداد میں جانے کہاں سے سامنے آ گئے اور کسی حد تک ’’آپریشن دھرنا جات ۔۱لف‘‘ کی بظاہر ناکامی کا سبب بنے۔ ’’آپریشن دھرنا جات – ب‘‘ کا شور اٹھ رہا ہے دیکھیں اس دوران کیسے کیسے ’’سزاب مُو‘‘ رونما ہوتے ہیں۔

سید منور حسن نے انتخابی سیاست کے ساتھ ساتھ قتال فی سبیل اللہ کو بھی مسائل کا حل بتایا ہے۔ علم سیاسیات اور امورِ بین الاقوامی تعلقات کے لیے سید صاحب کی اس تھیوری کے اتنے ہی گہرے اثرات مرتب ہوں گے جتنے نیوٹن کی کششِ ثقل کی تھیوری اور آئین سٹائین کی ریلیٹوٹی کی تھیوری کے فزکس کے میدان میں مرتب ہوئے تھے۔ اسی لیے ان کی اس تھیوری پرپوری دنیا میں پاکستان کے لیے واہ واہ اور زندہ باد کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔

تھر اور سرگودھا میں اتنی بڑی تعداد میں نومولود بچے اپنے والدین کے گناہ بخشوانے اور انہیں اپنے ساتھ جنت لے جانے کی غرض سے خالق حقیقی سے جا جاکر مل رہے ہیں کہ پوری دنیا کے والدین کو پاکستا ن پر رشک آ رہا ہے ۔

سو ’’سزاب مُو‘‘ کی دریافت کے ساتھ جس بھرپور تخلیقی اور سائینسی دور کا آغاز ہوا تھا وہ ابھی تک جاری ہے۔ اگر یہ سفر اسی طرح جاری رہا تو بہت جلد پاکستان پوری دنیا میں ایجاد اور دریافت کے میدان میں انسانیت کی معراج ثابت ہو گا۔

Courtesy: Dawn News



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…