سونے کا پہاڑ

7  جولائی  2015

بیلا ریٹ میلبورن سے زیادہ دور نہیں‘ آپ ڈیڑھ گھنٹے میں وہاں پہنچ جاتے ہیں لیکن آپ جوں ہی قصبے میں داخل ہوتے ہیں‘یہ بستی آپ کو پونے دو سو سال پیچھے لے جاتی ہے‘ یہ قصبہ 1851ءتک تاریخ کے گم نام صفحوں میں گم تھا لیکن پھر ساورن ہل (Soverein Hill) پر ایک واقعہ پیش آیا اور بیلاریٹ پوری دنیا میں مشہور ہو گیا‘ لوگوں کو ساورن ہل سے اترنے والے چشمے سے اچانک سونا ملنے لگا‘ چشمے کی ریت‘ پتھروں اور مٹی میں سونے کے ذرات تھے‘ قصبے کے لوگ چھاننیاں لے کر چشمے پر پل پڑے‘ یہ سارا دن ریت‘ مٹی اور پتھر چھانتے رہتے تھے اور شام کو سونا لے کر گھروں کو لوٹتے تھے‘ یہ خبر جوں ہی قصبے سے باہر نکلی دنیا جہاں کے مہم جو ساورن ہل کی طرف دوڑ پڑے‘ لوگوں کی یہ دوڑ آج بھی آسٹریلین تاریخ میں ”گولڈن رش“ کہلاتی ہے‘ اس گولڈن رش نے دنیا جہاں کے لوگوں کو بیلا ریٹ کا راستہ دکھا دیا‘ دنیا کی شاید ہی کوئی قوم ہو گی جو بیلا ریٹ نہ پہنچی ہو اور اس نے سونا حاصل کرنے کی کوشش نہ کی ہو‘ زمین سے سونا نکالنے‘ کان کنی اور سونا تلاش کرنے کی زیادہ تر ٹیکنالوجی بھی اسی جگہ پیدا ہوئی‘ گولڈن رش نے علاقے میں تہذیب کی بنیاد بھی رکھ دی‘ سونے کے پہاڑ کے گرد شہر آباد ہوا‘ شہر میں سسٹم بنا‘ پولیس کا آغاز ہوا‘ فوج بنی‘ گولڈ کمشنر کا عہدہ تخلیق ہوا‘ ٹیکس لگے‘ سڑکیں اور پل بنے‘ ریستوران‘ ہوٹل اور شاپنگ سنٹر بنے اور آخر میں کفن بنانے والی کمپنیاں‘ لباس سینے والے لوگ اور موسیقار بھی ”بیلا ریٹ“ پہنچ گئے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے علاقے میں ایک مہنگا اور جدید شہر آباد ہو گیا‘ یہ گولڈن رش 1918ءتک جاری رہا‘ ملکہ نے 1918ءمیں آسٹریلیا کے جوانوں کو پہلی جنگ عظیم میں جھونکنے کا حکم جاری کردیا‘ میلبورن سے گورنر جنرل آیا‘ اس نے بیلا ریٹ میں موجود تمام لوگوں کو فوجی وردی پہنائی‘ ہاتھوں میں رائفلیں پکڑائیں‘ جہازوں میں بٹھایا اور زبردستی مصر بھجوا دیا‘ یہ لوگ مصر گئے اور پھر کبھی بیلا ریٹ واپس نہ آئے‘ ان میں سے زیادہ تر لوگ جنگ کا ایندھن بن گئے‘ یہ ایندھن بیلا ریٹ کو اداس کر گیا اور یہ اداسی آج بھی بیلا ریٹ کی فضا میں موجود ہے۔
میں ڈاکٹر شہباز چودھری کے ساتھ پچھلی جمعرات کو بیلا ریٹ پہنچا‘ ڈاکٹر شہباز میرے کزن ہیں‘ یہ ڈاکٹر ہیں‘ متحرک انسان ہیں‘ پاکستانی کمیونٹی کےلئے دن رات کام کرتے ہیں‘ یہ مسقط میں تھے‘ دس سال پہلے آسٹریلیا شفٹ ہوئے‘ میلبورن کو اپنا ٹھکانہ لیکن گھر کو منی پاکستان بنا لیا‘ ڈاکٹر صاحب کے گھر میں پنجابی چار پائی جسے ہم منجی کہتے ہیں وہ تک موجود ہے‘ یہ سرہانے اور رنگالے پائیوں والی کرسیاں بھی استعمال کرتے ہیں‘ کھانا آج بھی دیسی کھاتے ہیں‘ گھر میں چوبیس گھنٹے پاکستانی چینلز چلتے رہتے ہیں اور میاں بیوی اور بچیاں اردو اور پنجابی بولتی ہیں‘ یہ ایک مکمل گجر گھرانہ ہے‘ میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بیلا ریٹ پہنچ گیا‘ ہم ساورن ہل پہنچے‘ ساورن ہل آج کل تفریحی مقام ہے‘ یہاں ہر سال ساڑھے پانچ لاکھ لوگ آتے ہیں‘ آپ کو سونے کی پہاڑی پر پہنچنے کےلئے ٹکٹ لینا پڑتا ہے‘ آپ جوں ہی ٹکٹ گاہ سے باہر نکلتے ہیں‘ آپ فوراً 1851ءکے زمانے میں چلے جاتے ہیں‘ آپ کے سامنے خیموں کا ایک وسیع شہر آ جاتا ہے‘ آپ کو تاحد نظر لکڑی کے گھر‘ خیمے اور پرانے کنوئیں دکھائی دیتے ہیں‘ یہ سونے کی تلاش میں یہاں آنے والے لوگوں‘ ان کے غلاموں اور ان کے ملازمین کے خیمے تھے‘ ایک خیمے کے سامنے گولڈ کمشنر کا بورڈ بھی لگا تھا‘ یہ یقینا کسی ایسے سرکاری اہلکار کا خیمہ ہو گا جو سونا نکالنے والوں پر نظر رکھتا ہو گا‘ وہاں خیموں میں بنی دکانیں بھی تھیں‘ گراسری شاپ بھی‘ عبادت گاہ بھی اور مرغیوں اور بھیڑوں کے چھوٹے چھوٹے فارم ہاﺅسز بھی۔ خیمہ گاہ کی گلیاں کچی‘ سڑکیں ناہموار اور رہائش گاہیں نامناسب تھیں‘ یہ لکڑی اور کپڑے کی خیمہ نما رہائش گاہیں تھیں جنہیں آسانی سے منتقل کیا جا سکتا تھا‘ خیمہ گاہ میں وہ چشمہ بھی موجود تھا جس سے شروع میں سونا نکلا تھا‘ چشمے کے اوپر سونا چھاننے کا قدیم نظام آج بھی موجود ہے‘ پانی لکڑی کے تین چار طویل چینلز سے ہوتا ہوا زمین پر آتا ہے‘ زمین پر لکڑی کی پھرکیاں لگی ہیں‘ یہ پھرکیاں پانی کو بار بار بلوتی ہیں‘ یہ پانی بعد ازاں آگے بڑھتا ہے‘ لوگ وہاں چھاننیاں لے کر بیٹھے ہوتے ہیں‘ یہ اس پانی‘ اس پانی کی ریت اور ساورن ہل سے ٹوٹنے والے کنکروں کو چھاننیوں سے گزارتے ہیں اور بے تاب ہو کر چھاننیوں کے اندر سونا تلاش کرتے ہیں‘ یہ پریکٹس آج تک جاری ہے‘ ہم نے وہاں سو سے زائد لوگوں کو پانی چھانتے اور سونا تلاش کرتے دیکھا‘ سکول کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس کام میں مصروف تھے۔ ”کیا ان لوگوں کو سونا مل جاتا ہے؟“ ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا ”ہاں چشمے کے پانی میں آج بھی سونا موجود ہے‘ لوگوں کو کبھی کبھار یہ دولت ہاتھ آ جاتی ہے“ ساورن ہل میں سونے کی دو بڑی کانیں ہیں‘ پہلی کان پرانی اور روایتی ہے‘ آپ کو اس کان میں اترنے کےلئے زمین میں 53 زینے اترنے پڑتے ہیں‘ یہ کان 1860ءمیں بنی‘ یہ ہاتھ سے کھودی گئی تھی‘ کان کی دیواروں پر لکڑی کے تختے جڑے ہیں‘ چھت کو بھی شہتیر اور تختے جوڑ کر گرنے سے بچایا گیا ہے‘ کان میں اندھیرا تھا‘ آپ دیواروں کو ٹٹول ٹٹول کر آگے بڑھتے ہیں‘ اس کان سے سونے کا 67 کلو گرام ٹکڑا نکلا تھا‘ آپ جب کان کے آخری سرے تک پہنچتے ہیں تو آپ کو وہاں وہ چٹان نظر آتی ہے جس سے 67 کلو گرام کا ٹکڑا نکلا‘ سیاحوں کو سونے کا یہ ٹکڑا نکلنے کا پورا عمل سمجھایا جاتا ہے‘ چٹان پر ”ملٹی میڈیا“ کے ذریعے چٹان توڑنے کی فلم دکھائی جاتی ہے‘ یہ تھری ڈی فلم ہے‘ آپ خود کو اس فلم کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں‘ چٹان کا وہ حصہ آج بھی موجود ہے جہاں سے سونے کا اتنا بڑا ٹکڑا نکلا‘ آپ یہ فلم دیکھ کر آگے بڑھتے ہیں تو آپ کے سامنے ایک تجوری سی کھل جاتی ہے‘ آپ تجوری میں سونے کا 67 کلو گرام کا وہ ٹکڑا دیکھتے ہیں جو اس کان سے دریافت ہوا‘ کیا یہ ٹکڑا اصل ہے؟ نہیں یہ اصل جیسا ہے! اصلی ٹکڑا لندن لے جایا گیا اور وہ شاہی خاندان نے آپس میں تقسیم کر لیا‘ دوسری کان گہری بھی ہے اور ماڈرن بھی۔ آپ کو اس مائن میں داخل ہونے کےلئے نیا ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے‘ آپ کو ٹرین کے ڈبے میں بٹھایا جاتا ہے اور آپ اندھیرے میں سفر کرتے ہوئے تین سو میٹر زیر زمین چلے جاتے ہیں‘ کان کے اندر بھول بھلیاں ہیں‘ یہاں سے آج بھی سونا نکالا جاتا ہے‘ یہ کان پانی کی سطح سے بہت نیچے ہے‘ کان کو پانی سے بچانے کےلئے سو سال قبل بھاپ کا ایک سسٹم بنایا گیا‘ یہ نظام آج تک چل رہا ہے‘ یہ سسٹم ”سٹیم انجن“ سے ملتا جلتا ہے‘ کان کے اوپر سٹیمر ہے‘ سٹیمر میں لکڑیاں جلائی جاتی ہیں‘ لکڑیاں بھاپ پیدا کرتی ہیں‘ بھاپ لوہے کے ایک وسیع پہیے کو حرکت دیتی ہے‘ پہیہ لوہے کے سینکڑوں ٹن وزنی شہتیر کو گھماتا ہے‘ شہتیر کے ساتھ لوہے کا راڈ لگا ہے‘ یہ راڈ زمین میں اترتا اور باہر نکلتا ہے‘ راڈ کے سرے پر ربڑ کی ایک بڑی ”بوکی“ لگی ہے‘ یہ بوکی نلکے کی طرح پانی کو باہر کھینچ لیتی ہے اور یوں کان خشک رہتی ہے‘ یہ سسٹم چوبیس گھنٹے چلتا رہتا ہے‘ یہ اگر چند لمحوں کےلئے بھی بند ہو جائے تو کان میں پانی بھر جائے اور سونے کے ساتھ ساتھ کان میں کام کرنے والے ورکرز بھی ڈوب جائیں۔ ہم کان میں اترے تو ہمیں یہ سسٹم دکھایا گیا‘ یہ سسٹم جوں جوں پانی کھینچ رہا تھا ہمیں توں توں احساس ہو رہا تھا ہم موت کے کتنے قریب ہیں‘ یہ سسٹم اگر چند سیکنڈ کےلئے بند ہو جائے تو پوری کان میں پانی بھر جائے اور ہم چند سیکنڈ میں ڈوب کر اوپر پرواز کر جائیں‘ کان کے درمیان میں ایک ایسا مقام آتا ہے جس کی دیواروں پر چین کے دوبھائیوں کی کہانی لکھی ہے‘ یہ کہانی ” تھری ڈی فلم“ کی شکل میں دکھائی جاتی ہے‘ یہ دونوں بھائی سونے کی تلاش میں ”گانزو“ سے بیلا ریٹ آئے‘ دن رات کان کنی کی اور ایک رات سونے کی ٹنوں وزنی چٹان تلاش کر لی‘ یہ دونوں خوش ہو گئے لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی کیونکہ سونا پانے کے چند لمحے بعد اوپر سے چٹانیں گریں اور یہ چٹانیں سونے کی چٹان اور ان دونوں بھائیوں کو نگل گئیں‘ یہ مقام اس دن سے خواہشوں کا قبرستان ہے‘ یہ فلم ختم ہوئی تو وہاں موجود تمام لوگ اداس ہو گئے‘ زمین کی سطح سے تین سو میٹر نیچے سونے کی چٹانوں کے درمیان کھڑا ہونا بھی ایک تجربہ تھا‘ دیواروں پر جگہ جگہ سونے کے ذرات موجود تھے‘ یہ ذرات روشنی میں چمکتے تھے اور گزرنے والوں کی نظروں کو للچا دیتے تھے۔
بیلا ریٹ کبھی چینیوں کی بڑی بستی ہوتی تھی‘ گولڈن رش کے دور میں یہاں نو ہزار چینی کان کن آباد تھے‘ یہ لوگ سونے کی تلاش میں یہاں آئے تھے‘ یہ زمین ان میں سے اکثر لوگوں کا قبرستان ثابت ہوئی‘ بیلا ریٹ میں آج بھی ان لوگوں کی روحیں بھٹک رہی ہیں‘ یہ وہ ناآسودہ روحیں ہیں جو آسودگی کی تلاش میں یہاں آئیں اور سونا تلاش کرتے کرتے وقت کی گرد میں کھو گئیں‘ یہ لوگ چلے گئے لیکن ان کی خواہشیں پیچھے رہ گئیں‘ ساورن ہل میں آج بھی ان مرحوم چینیوں کے خیمے‘ کافی شاپس‘ عبادت گاہیں اور قبرستان موجود ہیں‘ ہم نے ایک خیمے کے سامنے جلتی ہوئی موم بتی بھی دیکھی‘ یہ موم بتی یقینا اس کے خاندان کے کسی فرد نے جلائی ہو گی اور یہ فرد بھی یقینا ہمارے ساتھ خواہشوں کے اس سنہرے قبرستان کی سیاحت کےلئے یہاں آیا ہو گا‘ یہ ہمارے ساتھ موجودکسی سیاح کے بزرگ کا خیمہ ہو گا‘ ایک ایسے بزرگ کا خیمہ جو سو ڈیڑھ سو سال پہلے سونے کی تلاش میں اس سنہری قبرستان میں آیا اور سونا تلاش کرتے کرتے اس بے مہر زمین کا رزق بن گیا‘ میں نے بیلا ریٹ میں پھرتے ہوئے محسوس کیا انسان کا سب سے بڑا دشمن‘ انسان کا سب سے بڑا مرض لالچ ہے‘ آپ جب بھی اس مرض‘ اس دشمن کے شکنجے میں آتے ہیں آپ اپنی ہڈیاں تک گنوا بیٹھتے ہیں‘ شاید یہی وجہ ہے دنیا کے تمام مذاہب نے قناعت کو کرہ ارض کی سب سے بڑی دولت قرار دیا‘ آپ اگر قناعت کی دولت سے مالا مال ہیں تو آپ دنیا کے امیر ترین شخص ہیں خواہ آپ کی جیبوں میں کنکروں کے سوا کچھ نہ ہو اور آپ کے پاس اگر قناعت نہیں تو آپ خواہ ساورن ہل کے مالک ہو جائیں‘ دنیا میں آپ سے بڑا کنگال کوئی نہیں ہوگا‘ یہ ساورن ہل کا پہلا سبق تھا‘ دوسرا سبق اس کی مارکیٹ تھی‘ ساورن ہل میں آج بھی ڈیڑھ سو سال پرانی مارکیٹ موجود ہے‘ یہ ایک سڑک ہے جس کے دونوں اطراف لکڑی کے تختوں سے بنی دکانیں ہیں‘ یہ دکانیں اسی نام سے قائم ہیں جس نام سے یہ ڈیڑھ سو سال پہلے بنی تھیں‘ یہ دکانیں ماضی میں بھی چل رہی تھیں اور یہ آج بھی آباد ہیں جبکہ سونا تلاش کرنے والوں کے خیمے بے آباد ہو چکے ہیں‘ میں جب ان دکانوں کے سامنے سے گزرا اور میں نے ان کے قیام کی تاریخیں پڑھیں تو مجھے معلوم ہوا دنیا میں کام اور ہنر سے بڑا کوئی سونا نہیں ہوتا‘ آپ کو اگر کوئی ہنر آتا ہے یا آپ کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ ”ساورن ہل“ پر اپنا ٹھکانہ بنا لیں‘ لوگ سونا تلاش کریں گے اور یہ سونا آپ کو آپ کے ہنر کے بدلے پیش کر دیں گے یوں سونا تلاش کرنے والوں کی محنت آپ کی جیب میں آ جائے گی‘ محنت دوسرے کریں گے لیکن محنت کا پھل آپ کھائیں گے‘ یہ سوچ کر میری ہنسی نکل گئی۔
ساورن ہل کی اس پونے دو سو سال پرانی گلی کے آخری سرے پر تابوت بنانے والی ایک ورکشاپ بھی تھی‘ یہ کمپنی ڈیڑھ سو سال قبل بنی‘ یہ ساورن ہل میں مرنے والوں کےلئے لکڑی کے تابوت فراہم کرتی تھی‘ میں ورکشاپ کے اندر چلا گیا‘ شو روم میں لکڑی کے منقش تابوت پڑے تھے‘ میں نے ورکشاپ میں گھوم کر دیکھا اور پھر اپنے آپ سے سوال کیا ” کیا سونا تلاش کرنے والوں کو یہ ورکشاپ اور اس ورکشاپ میں پڑے تابوت نظر نہیں آتے تھے؟“۔ میرے اندر سے آواز آئی ”نہیں“ پوچھا ”کیوں؟“ جواب آیا ” انسان کی آنکھ جب تک کھلی رہتی ہے اسے اس وقت تک سونے کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا لیکن جب آنکھ بند ہوتی ہے تو زندگی کی اصل حقیقتیں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے‘ اس وقت تک تابوت کے ڈھکن کے سوا کچھ نہیں بچا ہوتا“ اور پوری ساورن ہل زندگی کی اس تلخ حقیقت کی تفسیر تھی۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…