(دواسلام (مزید

1  مئی‬‮  2015

مسلمانوں سے پہلے دنیا میں دو بڑی مذہبی طاقتیں تھیں‘ یہودی اور عیسائی۔ یہ دونوں جاہل بھی تھے‘ ظالم بھی‘ شدت پسند بھی اور نافرمان بھی۔یوروشلم کے ربیوں نے جیوری بنا رکھی تھی‘ یہ جیوری دنیا کی ہر نئی چیز‘ نئی ایجاد اور نئی سوچ کو خلاف مذہب قرار دے دیتی تھی‘ جیوری تورات کی کوئی آیت تلاوت کرتی تھی اور نئے خیال‘ نئی سوچ اور نئی چیز دینے والے کو صلیب پر چڑھا دیا جاتا تھا‘ یہ لوگ انبیاءتک کو نہیں بخشتے تھے‘ یہ انہیں آرے سے چیر دیتے تھے اور یہ انہیں غاروں میں بند کر کے بھوکا پیاسا مار دیتے تھے ‘ یہ اس ظلم کا جواز ہمیشہ تورات سے نکالتے تھے‘ یہ لوگ اس قدر بے لچک‘ سخت اور تنگ نظر تھے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑپر توہین مذہب کا الزام لگایا اور رومی گورنر کو حضرت عیسیٰ ؑ کو صلیب پر چڑھانے پر مجبور کر دیا‘ آپ عیسائیوں کو بھی دیکھئے‘ عیسائیت یہودیوں کے جبر‘ ظلم‘ عدم برداشت اور جہالت کا رد عمل تھی‘ یہ لوگ پھانسیاں چڑھتے‘ صلیبیں اٹھاتے‘ کوڑے کھاتے اور جیلیں برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھے اور آہستہ آہستہ دنیا کی بڑی مذہبی طاقت بن گئے مگر پھر یہ بھی یوروشلم کے ربی بن گئے اور پوپ نے وہ اختیارات حاصل کرلئے جو یوروشلم کی ربی جیوری کو حاصل تھے‘ چرچ انیسویں صدی تک اتنا مضبوط تھا کہ یہ عام لوگوں کے کھانے پینے‘ رہنے سہنے اور لباس تک کا فیصلہ کرتا تھا‘ کافی مسلمانوں کی د ریافت تھی‘ یہ مشروب ایتھوپیا میں دریافت ہوا‘ مکہ پہنچا‘ خانہ کعبہ کے سامنے دنیا کی پہلی کافی شاپ بنی اور کافی صوفی ڈرنک یا مسلم ڈرنک مشہور ہوگئی‘ پوپ نے مسلمانوں کی وجہ سے کافی کو حرام قرار دے دیا‘ کافی سن 1500ءتک عیسائی دنیا میں حرام اور ممنوعہ رہی یہاں تک کہ 1500ءمیں پوپ نے کافی کا پہلا گھونٹ بھرا اور اسے جائز قرار دے دیا‘ ٹائی مسلمانوں کی ایجاد تھی‘ یہ قرطبہ شہر میں زریاب قرطبی نے ایجاد کی‘ خلیفہ کا سٹاف ٹائی باندھتا تھا‘ پادریوں نے ٹائی پر پابندی لگا دی‘ یہ ٹائی کو قرطبہ کی مناسبت سے ”قرطوبی“ کہتے تھے‘ آج بھی فرنچ زبان اور آدھے سپین میں ٹائی کو قرطوبی کہا جاتا ہے‘ چرچ نے ٹائی کو حلال کیسے قرار دیا‘ یہ بھی الگ کہانی ہے‘ عیسائی پادری بھی یہودی ربیوں کی طرح نئی ریسرچ‘ نئی ایجادات اور نئی سوچ کے خلاف تھے‘ یہ بھی انجیل کی آیات کی تلاوت کرتے تھے‘ آیات کی اپنی مرضی کی تاویل بیان کرتے تھے اور سائنس دانوں کو پھانسی چڑھا دیتے تھے‘ آپ اس ضمن میں نکولس کوپر نیکس کی مثال لیجئے‘ کوپرنیکس علم ہئیت اور ریاضی کا ماہر تھا‘ اس نے 1520ءمیں سورج اور زمین کے رشتے پر کتاب لکھی‘ اس نے کتاب میں انکشاف کیا ” زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے“ وہ چرچ کے اختیارات سے واقف تھا چنانچہ اس نے کتاب پر اپنا نام نہیں لکھا‘ پادریوں نے کتاب کو خلاف مذہب قرار دے دیا‘ پادریوں کا کہنا تھا انجیل میں لکھا ہے سورج زمین کے گرد گھومتا ہے چنانچہ یہ نئی تھیوری انجیل سے متصادم ہے‘ مصنف کے خلاف سزائے موت کا حکم آ گیا‘ چرچ کوپر نیکس سے بائیس سال یہ پوچھتا رہا ”یہ کتاب تم نے لکھی“ اور کوپر نیکس انکار کرتا رہا یہاں تک کہ 1543ءمیں جب اس کی موت کا وقت آگیا تو اس نے اپنا جرم بھی مان لیا اور کتاب پر اپنا نام بھی تحریر کر دیا‘ چرچ نے کتاب ”بین“ کر دی‘ فلورنس کے سائنس دان گلیلیو نے 1632ءمیں انکشاف کیا ” صرف زمین نہیں بلکہ باقی سیارے بھی سورج کے گرد گھوم رہے ہیں“ چرچ نے گلیلیو کو بھی کافر قرار دے دیا‘ گلیلیو کی کتاب بھی ضبط ہوئی‘ آٹھ ماہ مقدمہ چلا اور آخر میں گلیلیو کو”موت یا معافی“ کا آپشن دیا گیا۔ گلیلیو اپنی تھیوری سے تائب ہوا اور چرچ سے معافی مانگ لی‘ پادریوں نے اسے اس کے فارم ہاﺅس میں نظر بند کر دیا‘ وہ 1642ءمیں اس فارم ہاﺅس میں فوت ہو گیا مگر اس کا جرم معاف نہ ہوا‘ پادریوں نے اس کے جنازے کی اجازت نہ دی یوں گلیلیو کو جنازے کے بغیر گم نام قبر میں دفن کر دیا گیا‘ اس واقعے کے ساڑھے تین سو سال بعد پوپ جان پال نے 1992ءمیں اعتراف کیا ” گلیلیو کے ساتھ ناانصافی ہوئی“ گلیلیو کے بعد گیارڈانو برونو (Giordano Bruno) نے زمین کی ساخت پر کام شروع کیا ‘ چرچ کے حکم پر لوگوں نے اسے زندہ جلا دیا‘ آپ اگر کبھی آکسفورڈ جائیں تو آپ کو وہاں بشپ نکولس ریڈلی اور بشپ ہیوگ لیمڑ کی یاد گار ملے گی‘ یہ دونوں چرچ کے روایتی طریقہ کار سے اختلاف رکھتے تھے چنانچہ دونوں کو آکسفورڈ کے چوک میں زندہ جلا دیا گیا‘ یہ عیسائیوں کا علم‘ سائنس اور جدت کے بارے میں رویہ تھا‘ یہ چند مثالیں ہیں ‘ تاریخ ایسے سینکڑوں واقعات سے بھری پڑی ہے۔
اسلام یہودیت اور عیسائیت سے بالکل برعکس تھا‘ یہ روشن خیال بھی تھا‘یہ کھلاڈھلا بھی تھا‘ یہ نئے اور جدید خیالات کو قبول بھی کرتا تھا‘ یہ علم دوست بھی تھا‘ یہ عملی بھی تھا اور یہ برداشت بھی رکھتا تھا‘ اسلام کا دل کتنا بڑا تھا؟ آپ اس کا اندازہ یوروشلم کی فتح سے لگا لیجئے‘ حضرت عمر فاروق ؓ یوروشلم کی فتح پر بیت المقدس گئے اور آپؓ نے چرچ میں نماز ادا کرنے سے انکار کر دیا‘ آپؓ کا کہنا تھا‘ میں نے اگر ایک چرچ میں نماز پڑھ لی تو مسلمان تمام کلیساﺅں کو مسجدیں بنا دیں گے‘ مسلمانوں نے سینکڑوں سائنس دان‘ فلسفی اور فقیہہ پیدا کئے‘ محمد ابن موسیٰ الخوارزمی نے 810ءسے 820ءکے درمیان الجبرہ کی بنیاد رکھی‘ ثابت بن قراءنے 880ءمیں شماریات (Statistics) کا علم متعارف کرایا‘ ابن الہیشم نے 1010ءمیں روشنی اور علم بصارت پر کام کیا‘ یونانی فلاسفر اور مذہب یہ کہتا تھا ہماری آنکھ میں روشنی (نور) ہوتی ہے‘ یہ روشنی آنکھ سے نکل کر اشیاءپر پڑتی ہے‘ ابن الہیشم نے یہ فلسفہ مسترد کر دیا‘ اس نے ثابت کیا روشنی باہر سے ہماری آنکھوں میں داخل ہوتی ہے‘ ہماری آنکھ کے پیچھے پردہ ہے جس پر تمام مناظر منعکس ہوتے ہیں‘ ابن الہیشم نے ہزار سال قبل ”کتاب المناظر“ کے نام سے کتاب لکھی‘ ابن الہیشم کے اس فلسفے پر بعد ازاں کیمرہ ایجاد ہوا‘ عینک بنی اور آنکھوں کا علاج شروع ہوا‘ ابو ریحان البیرونی نے 1020ءمیں ریاضی‘ تاریخ اور جغرافیہ پر کام کیا‘ اس نے زاویے کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا اور زمین کا محیط نکالنے کا طریقہ ایجاد کیا‘ ابوالقاسم الظواہری نے 980ءمیں زخم بھرنے اور سرجری کے جدید علم کی بنیاد رکھی‘ اس نے ادویات کا پہلا انسائیکلو پیڈیا بھی مرتب کیا‘ امام غزالیؒ پہلے مسلم مفکر تھے جنہوں نے دنیا کو بجٹ کا تصور دیا ” علم کی دو قسمیں ہوتی ہیں‘ دنیاوی علم اور دینی علم“۔ اس فلسفے کے بانی بھی امام غزالی تھے‘ بو علی سینا نے گیارہویں صدی عیسوی میں طب کی بنیاد رکھی اور کتاب الشفاءکے نام سے طب پر حیرت انگیز کتاب لکھی‘ یہ 18 جلدوں پر مشتمل تھی اور امیر تیمور کے پوتے الغ بیگ نے 1429ءمیں سمر قند میں دنیا کی پہلی جدید ترین رصد گاہ تعمیر کرائی‘ اس نے سورج کے گرد زمین کے چکر کا دورانیہ نکالا‘ یہ سب نئے علوم تھے‘ یہ تمام فلسفے نئی سوچ تھے‘ یہ سائنس کی بنیاد تھے اور یہ مسلمان مفکرین سائنس کے ان علوم کے بانی تھے جن کی چوٹی پر آج یورپ کی ساری ترقی بیٹھی ہے‘ مسلمان فقہ کے علم کے بھی بانی تھے‘ اسلام دنیا کا پہلا مذہب تھا جس نے اجتہاد کی بنیاد رکھی‘ اجتہاد اتنا بڑا علم‘ اتنی بڑی عدالت تھا کہ اس کے ذریعے حضرت عمر فاروقؓ نے مصیبت کے زمانے میں چوری کی وہ سزا تک معطل کر دی جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا تھا‘ یہ سب مسلمانوں کا کمال تھا اور ان کے کمالات کے دوران کسی شخص‘ کسی مسلم ریاست نے بو علی سینا کے خلاف مقدمہ درج کیا‘ امام غزالیؒ کو پتھر مارے اور نہ ہی البیرونی‘ ابن الہیشم‘ ثابت بن قراءاور الخوارزمی کو زندہ جلایا‘ اسلامی معاشرے نے نہ صرف ان تمام سکالرز کو تسلیم کیا بلکہ مسلمان آج تک ان پر فخر بھی کرتے ہیں۔آپ کسی دن ٹھنڈے دماغ سے یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام کی فکری‘ سائنسی اور نظریاتی تاریخ کا مطالعہ کریں‘ آپ اسلام کو دنیا کا جدید ترین‘ وسیع القلب اور سائنسی مذہب پائیں گے‘ ایک ایسا مذہب جو فتح مکہ کے بعد ابوسفیان اور ہندہ تک کو معاف کر دیتا ہے‘ جو جھوٹے نبی مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کو بھی قتل نہیں کرتا اور جو یونان کے فلسفیوں اور شام کے عیسائیوں سے معاشرت کا سبق سیکھتے ہوئے نہیں ہچکچاتا‘ آپ مذہبی اور معاشرتی تاریخ کا تھوڑا سا مطالعہ کریں گے‘ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے ہم جہاں سن 1000میں تھے‘ یہودی اور عیسائی آج وہاں ہیں‘ یہ آج البیرونی‘ ابن الہیشم‘ بوعلی سینا اور غزالی ؒ کے گھٹنوں کو چھو رہے ہیں اور جہاں یہودی اور عیسائی صلیب کے واقعے سے سن 1600 تک تھے ہم آج وہاں کھڑے ہیں‘ یہودی اور عیسائی آج ثابت بن قراءکو علم کا محسن قرار دے رہے ہیں جبکہ ہم مسلمان اسلامی معاشرے میں نئی بات کرنے والوں‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی اور علم کی بات کرنے والوں اور برداشت اور تحقیق کی بات کرنے والوں کے ساتھ وہ سلوک کررہے ہیں جو کبھی پادریوں نے گلیلیو‘ کوپرنیکس اور برونو کے ساتھ کیا تھا‘ آپ تاریخ کا المیہ دیکھئے آج 2015ءمیں یہودی اور عیسائی علم‘ ٹیکنالوجی اور معیشت میں مسلمان ہو چکے ہیں جبکہ ہم مسلمان سفر طے کرتے کرتے معیشت‘ٹیکنالوجی اور علم میں وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں پانچ سو‘ ہزار اور دو ہزار سال پہلے عیسائی اور یہودی تھے‘ یہ آگے دوڑ رہے ہیں اور ہم نے پیچھے کی طرف دوڑ لگا رکھی ہے۔
میں سمجھتا ہوں اسلام دو ہیں‘ ایک وہ اسلام جو خلفائے راشدین کا اسلام تھا‘ جو الخوارزمی‘ابن سینا‘ البیرونی‘ امام غزالیؒ‘ ابن الہیشم‘ ابن خلدون‘ ابن کثیر‘ ابن تیمیہ اور ثابت بن قراءکا اسلام تھا اور دوسراوہ اسلام جو داعش کا اسلام ہے‘ ایسا اسلام جو اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو بھی مسلمان نہیں سمجھتا‘ جس میں شیعہ سنیوں کو کافر سمجھتے ہیں اور سنی شیعوں کو اور جس میں وہابی کی جنت اور ہے اور بریلوی کی بہشت دوسری اور میں درمیان میں کنفیوژ کھڑا ہوں‘ میں لوگوں سے پوچھ رہا ہوں ” میں کس اسلام کی طرف جاﺅں‘ میں کسے اپنا مذہب مانوں“۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…