الخوارزمی کیا سوچ رہا تھا

30  مارچ‬‮  2015

خیوا کے گرد طویل فصیل ہے‘ یہ فصیل ہزاروں سال تک ٹوٹتی رہی‘ بنتی رہی اور پھر ٹوٹتی اور بنتی رہی لیکن قائم رہی‘ فصیل کی لمبائی دو ہزار دو میٹر‘ اونچائی دس میٹر اور چوڑائی آٹھ میٹر ہے‘ فصیل پر تین گھوڑے بیک وقت دوڑ سکتے ہیں‘ فصیل پر باہر کی جانب چھوٹے چھوٹے کوارٹرز بنے ہیں‘ یہ کوارٹرز کوارٹرز نہیں ہیں‘ یہ دراصل قبریں ہیں ‘ماضی میں امراء شہر میں رہتے تھے تھے اور غرباء شہر کے باہر۔ بادشاہ شہر کے باہر آباد غریبوں میں سے اہم ترین لوگوں کو فصیل پر دفن ہونے کی اجازت دے دیتے تھے‘ فصیل تین تہوں میں بنی ہے‘ یہ تین تہیں دور سے تین سیڑھیاں دکھائی دیتی ہیں‘ پہلی اور دوسری سیڑھی پر قبریں بنی ہیں‘ ازبکستان اور پاکستان کی قبروں میں مماثلت ہے‘ ازبک بھی قبر پر تعویز بناتے ہیں اور ہم بھی لیکن ازبک قبروں کے تعویز ہم سے بلند اور خوبصورت ہوتے ہیں‘ یہ مردے کی تدفین کے بعد قبروں کے گرد چار سے آٹھ فٹ اونچی دیواریں کھینچتے ہیں‘ دیواروں پر تکونی چھت ڈالتے ہیں اور چھت اور دیواروں کو چاروں اطراف سے بند کر دیتے ہیں یوں قبر دور سے کمرہ دکھائی دیتی ہے‘ ازبکوں نے یہ فن ترکوں سے سیکھا اور ترکوں نے شاید یہ طرز گور استنبول کے عیسائیوں سے حاصل کیا‘ خیوا کی فصیل پر قبریں تھیں‘ یہ کون لوگ تھے؟ تاریخ خاموش ہے‘ اللہ تعالیٰ کا نظام بھی عجیب ہے‘ یہ ہر قبر کو شناخت نہیں بخشتا‘ دنیا کے امراء‘ وزراء اور بادشاہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہنا چاہتے ہیں‘ یہ کثیر سرمائے سے اپنے مقبرے بنواتے ہیں‘ ان پر قیمتی پتھر لگاتے ہیں‘ پتھروں پر اپنے نام لکھواتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقبروں سے یہ قیمتی پتھر چوری ہو جاتے ہیں یا پھر ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں اور یوں ایک دو نسلوں کے بعد نامور قبر محض قبر بن کر رہ جاتی ہے‘ وقت صاحبان مزار کا نام تک چاٹ جاتا ہے‘ خیوا کی فصیل پر بنی قبریں بھی صرف قبریں تھیں‘ بے نام اور عبرت کا نشان۔ قلعے کے چار دروازے تھے‘ چاروں دروازے آج بھی قائم ہیں‘ طالب دروازہ داخلے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا‘ یہ آج بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے‘ گیٹ اونچا‘ طویل اور عریض ہے‘ گیٹ کے اندر دوسری فصیل ہے‘ دوسری فصیل کے نیچے گارڈز کے کوارٹرز ہیں‘ طالب گیٹ کے اندر خان آف خیوا کا سرکاری محل تھا‘ خان چنگیز خان کے حملے سے قبل خوارزم شاہ کہلاتے تھے لیکن یہ منگولوں کی آمد کے بعد خان بن گئے‘ یہ سلسلہ روس کے قبضے تک جاری رہا‘ خان کا محل قلعے کی مقدس ترین جگہ تھا‘ یہ بنیادی طور پر دربار تھا‘ خان اس عمارت میں عمائدین‘ وزراء‘ سفیروں اور خیوا کے عام لوگوں سے ملاقات کرتا تھا‘ آپ محل میں داخل ہوں‘ گیٹ عبور کریں تو سامنے طویل صحن آتا ہے‘ صحن میں خان کے گارڈز کھڑے رہتے تھے‘ صحن کے بعد ایک اور صحن آتا ہے‘ یہ صحن خان کے دربار کا حصہ تھا‘ آپ جوں ہی اس صحن میں داخل ہوتے ہیں آپ کو بائیں جانب طویل برآمدہ نظر آتا ہے‘ برآمدے کی چھت اونچی اور طویل لکڑی کے ستونوں پر استوار ہے‘ یہ برآمدہ انتظار گاہ تھی‘ انتظار گاہ کے اندر خان کا دربار لگتا تھا‘ دربار کے لئے تین دروازے تھے‘ بادشاہ بڑے دروازے سے اندر داخل ہوتا تھا‘ دوسرا دروازہ سفیروں‘ وزراء عمائدین کے لئے تھا جبکہ تیسرا دروازہ چھوٹا بھی تھا اور تنگ بھی‘ یہ عام لوگوں کیلئے تھا‘ برآمدے کے سامنے‘ شاہی صحن کے ایک کونے سے سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں‘ سیڑھیاں اونچی بھی ہیں اور سیدھی بھی‘ یہ سیڑھیاں چھت پر لے جاتی تھیں‘ چھت پر جھروکا تھا‘ جھروکے سے پورا شہر دکھائی دیتا تھا‘ میں ہانپتا‘ کانپتا جھروکے تک پہنچ گیا‘ سامنے پورا خیوا شہر بکھرا ہوا تھا‘ خیوا ماضی میں میناروں‘ درس گاہوں اور بازاروں کا شہر تھا‘ مینار آج بھی قائم ہیں‘ یہ مینار آپ کو جھروکے سے صاف نظر آتے ہیں‘ ماضی میں خیوا میں80 مدارس تھے یہ مدارس اس وقت کی یونیورسٹیاں تھے‘ پوری دنیا سے طالب علم علمی پیاس بجھانے کیلئے خیوا آتے تھے‘ یہ مدارس بورڈنگ سکول تھے‘ طالب علم مدرسے ہی میں رہتے تھے اور یہیں پڑھتے تھے‘ ماضی میں پورا ازبکستان یونیورسٹی تھا‘ آپ بخارہ چلے جائیں‘ آپ سمر قند کو دیکھ لیجئے اور آپ خیوا کی تاریخ کھنگال لیجئے آپ کو ازبکستان میں سینکڑوں ہزاروں درس گاہیں ملیں گی اور ہر درس گاہ میں امام بخاری‘ امام ترمذی اور الخوارزمی اور البیرونی جیسے استاد بھی ملیں گے‘ خیوا البیرونی اور الخوازمی جیسے دانشوروں اور مورخین کا شہر تھا‘ شہر میں آج بھی 27 مدارس موجود ہیں‘ یہ شہر میٹھے کنوؤں کاروان سراؤں‘ بازاروں اور حماموں کا شہر بھی تھا‘ گیٹ کے سامنے میدان تھا‘ تاجر میدان میں اونٹ اور گھوڑے باندھ کر شہر میں آ جاتے تھے‘ حمام میں جاتے تھے‘ بازاروں کا چکر لگاتے تھے‘ قہوہ خانوں اور ریستورانوں میں بیٹھتے تھے‘ سامان تجارت بیچتے تھے اور آگے روانہ ہو جاتے تھے‘ بازاروں کے آثار آج بھی موجود ہیں‘ ماضی کے مکانات بھی ہیں اور ان میں ساڑھے تین ہزار لوگ بھی رہتے ہیں‘ یہ لوگ ‘ یہ مکان‘ شام کا وقت اور قلعے کی گلیوں سے گزرتی یخ ہوا انسان کو ماضی میں لے جاتی ہے‘ وہ ماضی جس میں آپ الخوارزمی کو گلی کی نکڑ میں بیٹھ کر الجبرہ کی بنیاد ڈالتے دیکھتے ہیں‘ آپ بو علی سینا کو نبض پر ہاتھ رکھ کر دل کی رگیں ٹٹولتے دیکھتے ہیں اور آپ البیرونی کو مور کے پر سے تاریخ الہند کے نئے باب تحریر کرتے دیکھتے ہیں‘ آپ وہاں حلیم کے ذائقے اور سمالک کی مٹھاس بھی محسوس ہوتی ہے۔ دنیا میں ہزاروں مساجد ہیں لیکن دنیا میں خیوا کی جامع مسجد جیسی کوئی دوسری مثال نہیں ہو گی‘ ہم مسلمان مسجد قرطبہ کے فین ہیں لیکن تعمیراتی عقیدت کے لحاظ سے جامع مسجد خیوا قرطبہ کی مسجد سے کہیں بہتر اور شاندار ہے‘ یہ مسجد ہزار سال قبل بنی‘ بنانے والوں نے213 بلند اور مضبوط درخت کاٹنے‘ درختوں کی لکڑی خشک کی‘ دنیا بھر سے 213 ماہر نقاش جمع کئے‘ درخت ان نقش گروں کے حوالے کر دیے گئے‘ ہر نقاش کے پاس ایک درخت اور پانچ سال تھے‘ نقاش پانچ سال اپنے اپنے درخت تراشتے رہے‘ اس پر پھول بوٹے بناتے رہے‘ یہ تنے پانچ سال بعد 213 ستون بن گئے‘ ستونوں کو فرش میں گاڑھا گیا اور ان پر لکڑی کی چھت ڈال دی گئی‘ جامع مسجد تیار ہو گئی‘ آپ مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو ستونوں کا طویل جنگل آپ کی توجہ کھینچ لیتا ہے‘ ہر ستون دوسرے ستون سے مختلف ہے اور ہر مختلف ستون ایک مکمل فن پارہ ہے‘ آپ امام گاہ میں کھڑے ہوں تو آپ کو مسجد کے تمام ستون دکھائی دیتے ہیں‘ آپ مسجد کے کسی ستون کے قریب چلے جائیں ‘آپ کو وہاں سے امام گاہ اور امام کی جائے نماز دونوں دکھائی دیں گی‘ امام گاہ میں بازگشت کا قدیم نظام بھی تھا‘ آپ امام کی جگہ کھڑے ہو کر سرگوشی بھی کریں تو آپ کی آواز پوری مسجد میں گونجے گی‘ مسجد کی چھت میں تین جگہوں پر تین چکور سوراخ ہیں‘ یہ سوراخ روشنی کیلئے بنائے گئے تھے‘ یہ روشنی پوری مسجد کو روشن رکھتی تھی‘ مسجد اب مسجد نہیں رہی‘ یہ میوزیم بن چکی ہے چنانچہ لوگ جوتوں سمیت عمارت میں داخل ہو جاتے ہیں‘ میری گائیڈ بھی سکرٹ کے ساتھ جوتوں میں اندر چلی گئی‘ میں کیونکہ کمزور دل مسلمان ہوں چنانچہ میں نے اپنے جوتے دہلیز پر اتار دیئے اور ننگے پاؤں اندر داخل ہو گیا‘ فرش خوفناک حد تک ٹھنڈا تھا‘ میں خیوا کی جامع مسجد کے اندر چلتے پھرتے بار بار سوچتا تھا‘ یہ مسجد تعمیراتی لحاظ سے قرطبہ سے کہیں بہتر ہے لیکن اسے وہ مقبولیت نہیں مل سکی جو مسجد قرطبہ کو نصیب ہوئی‘ کیوں؟ شاید اس کی وجہ یورپ اور سقوط قرطبہ تھا‘ اندلس کا زخم آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں تازہ ہے اور مسجد قرطبہ اور غرناطہ کے محلات اس زخم کی آخری نشانیاں ہیں‘ قرطبہ یورپ میں عیسائیوں کے عین درمیان بھی موجود ہے اور ہم یورپ کی وجہ سے بھی اس کی قدر کرتے ہیں جبکہ خیوا کی جامع مسجد مسلمان ملک میں واقع ہے اور یہ آزاد بھی ہے اور مسلمان اپنے ممالک میں موجود یادگاروں کی اتنی عزت نہیں کرتے جتنی عزت یہ غیروں کے آثار قدیمہ کو دیتے ہیں‘ یہ مسجد دیکھنے والوں کے دل میں گھس جاتی ہے‘ میں نے گوروں کو مسجد کے صحن میں داخل ہوتے اور اپنی انگلیاں دانتوں تلے دباتے دیکھا‘ یہ مسجد حقیقتاً تعمیراتی معجزہ ہے اور میں اپنے آرکیٹکٹ دوست اعجاز قادری کو مشورہ دوں گا وہ ایک بار خیوا ضرور جائیں اور خیوا کی جامع مسجد دیکھیں‘ یہ بھی حیران رہ جائیں گے۔ خان آف خیوا کا حرم سرا بھی قابل دید تھا‘ یہ ایک بڑا کمپلیکس تھا‘ کمپلیکس میں 163 کمرے ہیں‘ آپ مختلف برآمدوں‘ دلانوں اور ڈیوڑھیوں سے ہوتے ہوئے آخر میں بادشاہ کے حرم میں پہنچ جاتے ہیں‘ یہ ایک چکور کمپلیکس ہے‘ آپ جوں ہی آخری ڈیوڑھی سے گزر کر کمپلیکس میں داخل ہوتے ہیں تو آپ ایک وسیع صحن میں پہنچ جاتے ہیں‘ صحن کے چاروں اطراف کمرے ہیں‘ دائیں جانب کمروں کے پانچ سیٹ ہیں‘ آخری سیٹ بادشاہ کی خواب گاہ تھا‘ یہ سونے کے کمرے اور ڈرائنگ روم پر مشتمل تھا‘ خواب گاہ کے سامنے اونچی چھت کا برآمدہ ہے‘ آپ خواب گاہ میں داخل ہوں تو آپ کو بادشاہ کا بیڈ نظر آئے گا‘ چھت اندر سے بھی خوبصورت ہے‘ بادشاہ کے چیمبر کے ساتھ قطار میں چار مزید چیمبرز ہیں‘ یہ بادشاہ کی چار ملکاؤں کے کمرے تھے‘ ملکاؤں کے چیمبرز کے بعد کچن تھا اور کچن کے ساتھ کمروں کی لمبی قطار ہے‘ یہ کنیزوں کے کمرے تھے‘ ان کمروں میں ملکاؤں اور بادشاہوں کی کنیزیں رہتی تھیں‘ میں نے خاتون گائیڈ سے پوچھا ’’ کیا بادشاہ کو واش روم کی ضرورت نہیں پڑتی تھی‘‘ خاتون شرما گئی‘ اس نے منہ پر ہاتھ رکھا اور انگلی سے صحن کی طرف اشارہ کیا‘ وہاں فوارے کے آثار تھے‘ گائیڈ نے بتایا ’’بادشاہ فوارے پر نہاتا تھا جبکہ باقی ضروریات کیلئے غلام اور کنیزیں تھیں‘ وہ سونے اور چاندی کی بالٹیاں لے کر آتی تھیں اور لے کر واپس چلی جاتی تھیں‘‘ میری ہنسی نکل گئی‘ خاتون گائیڈ نے وجہ پوچھی‘ میں نے مسکرا کر عرض کیا‘ انگریزوں نے شاید اسی صورتحال کیلئے ’’ ہولی شٹ‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو دنیا میں ایک اور پاکستان بھی ہے‘ یہ پاکستان ازبکستان میں ہے اور یہ ہمارے پاکستان سے پہلے وجود میں آیا تھا‘ قراقل پاکستان ازبکستان کا رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے‘ یہ صوبہ تقریباً آزادی حاصل کر چکا ہے‘ یہ نیم خود مختار علاقہ ہے‘ یہ لوگ ازبک کرنسی استعمال کرتے ہیں‘ یہ ازبکستان کے الیکشنوں میں بھی شریک ہوتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجوداپنی الگ پارلیمنٹ بھی رکھتے ہیں اور اپنا آئین بھی۔ قراقل پاکستان کی سرحدیں خوارزم صوبے کے ساتھ ملتی ہیں‘ خشک سمندر ارل سی اسی علاقے میں واقع ہے‘ یہ 1975ء تک دنیا کی چوتھی بڑی جھیل تھا لیکن روس نے آمو اور سردریا کا رخ موڑ کر سمندر جیسی یہ جھیل خشک کر دی‘ قراقل معدنیات سے بھرپور مگر غیر ترقی یافتہ علاقہ ہے‘ ہمیں پڑھایا جاتا ہے‘ بانیان پاکستان نے پاکستان میں شامل صوبوں کے ابتدائی لفظ جوڑ کر لفظ پاکستان بنایا‘ یہ بات اگر درست ہے تو پھر ہم سے پہلے قراقل پاکستان کیوں تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں بانیان پاکستان نے پاکستان کا لفظ قراقل پاکستان سے لیا ہو؟ آپ اگر تحقیق کرنا چاہیں تو آپ قراقلی ٹوپی پر تحقیق کر لیں‘ یہ ٹوپی بھی قراقل پاکستان سے ہمارے خطے میں آئی تھی اور یہ قراقل کی وجہ سے قراقلی کہلاتی ہے۔ اور پھر خیوا کے قلعے کے سامنے شام اتر رہی تھی‘ میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا الخوارزمی کے مجسمے تک پہنچ گیا‘ الخوارزمی نیم ایستادہ حالت میں بیٹھا تھا اور اس کے چہرے پر فکر کی درجنوں لکیریں بکھری تھیں۔ ’’الخوارزمی کیا سوچ رہا ہے؟‘‘ میں نے اپنے آپ سے پوچھا‘ میرے اندر سے آواز آئی‘ یہ سوچ رہا ہے ’’مسلمان بھی کیا قوم ہیں‘ میں نے انہیں الجبرہ جیسا علم دیا‘ میرے علم سے پوری دنیا نے فائدہ اٹھایا‘ یہ چاند تک پہنچ گئی لیکن مسلمان آج بھی نقل لگائے بغیر الجبرہ کے امتحان میں پاس نہیں ہو سکتے‘ یہ کیا قوم ہیں‘ یہ نکاح ہو‘ علم ہو یا جنگ ہر میدان میں ناکام ہو جاتے ہیں‘‘۔ (نوٹ: میرے پچھلے کالم کے چند حقائق پر احباب نے اعتراض کیا‘ یہ اعتراضات درست ہیں‘ یہ درست ہے سلطان صلاح الدین ایوبی جلال الدین مینگو باردی کی پیدائش سے پہلے انتقال کر گئے لیکن ایوبی ریاست ان کے انتقال کے بعد بھی موجود رہی‘ یہ لوگ ایوبی کہلاتے تھے‘ ایوبیوں نے سلجوقوں کے ساتھ مل کر مینگو باردی کے خلاف اتحاد بنایا اور جلال الدین کو شکست دی‘ سلطان صلاح الدین کے ایک صاحبزادے نے جلال الدین کے قتل کے بعد خوارزمی فوج کو اپنے لشکر میں شامل کر لیا‘ یہ خوارزمی فوجی یوروشلم گئے اور ایک ایوبی آقا کے حکم پر سلطان صلاح الدین کے فتح شدہ بیت المقدس کا قبضہ دوسرے ایوبی بھائی سے لے لیا‘ میں یہ تفصیل کالم میں نہیں لکھ سکا جس پر معذرت خواہ ہوں‘ میں رہنمائی کرنے والے احباب کا بھی مشکور ہوں۔)



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…