یہ فیصلہ ابھی باقی ہے

20  مارچ‬‮  2015

یہ کہانی 2010ءمیں شروع ہوتی ہے‘ کراچی کے شہری محسن علی سید نے لندن اکیڈمی آف مینجمنٹ سائنسز میں داخلہ لیا‘ کراچی کے ایک بزنس مین معظم علی خان نے محسن کو ویزے کےلئے سپانسر کیا ‘ محسن علی سید 2010ءکے شروع میں لندن چلا گیا‘ کالج کی انتظامیہ اور اساتذہ محسن علی سید کی پراگریس سے مطمئن تھے‘ یہ ستمبر کی 16 تاریخ تک لندن میں رہا پھر یہ اچانک غائب ہو گیا‘ یہ کہاں چلا گیا؟ یہ معمہ بعد ازاں سکاٹ لینڈ یارڈ نے حل کیا‘ سکاٹ لینڈ یارڈ کے ریکارڈ کے مطابق 16 ستمبر 2010ءکو ایم کیو ایم کے بانی کارکن اور لیڈر ڈاکٹر عمران فاروق کو ان کے گھر کے سامنے قتل کر دیا گیا‘ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے دن ساڑھے پانچ بجے شام گھر واپس آ رہے تھے ‘یہ لندن میں مل ہل کے علاقے میں رہتے تھے‘ مل ہل یہودیوں کا علاقہ ہے تاہم کونسل نے اس علاقے میں سیاسی پناہ گزینوں کےلئے بھی ایک کمپاﺅنڈ بنا رکھا ہے‘ اس کمپاﺅنڈ میں چار پانچ بلاک ہیں‘ ہر بلاک میں دو اور تین فلیٹس ہیں‘ ڈاکٹر عمران فاروق اس کمپاﺅنڈ کے پہلے بلاک میں رہتے تھے‘ ان کا گھر بالائی منزل پر تھا‘ یہ مین سڑک سے کمپاﺅنڈ میں آتے تھے‘ بلاک کے پیچھے جاتے تھے اور سیڑھیاں چڑھ کر گھر میں داخل ہو جاتے تھے‘ 16 ستمبر2010ءکو قاتل ڈاکٹر عمران فاروق کے آنے سے پہلے سیڑھیوں کے نیچے چھپ کر بیٹھ گئے‘ ڈاکٹر صاحب جوں ہی سیڑھیوں کے قریب پہنچے‘قاتلوں نے چھریوں اور اینٹوں سے ان پر حملہ کر دیا‘ قاتل دس منٹ میں ڈاکٹر صاحب کو قتل کر کے وہاں سے بھاگ گئے‘ یہ لوگ وہاں سے کسی خفیہ مقام پر پہنچے‘ اپنے خون آلود کپڑے تبدیل کئے‘یہ ہیتھرو ائیر پورٹ آئے اور یہ لندن سے سری لنکا چلے گئے‘ ڈاکٹر عمران فاروق کے کمپاﺅنڈ میں موجود ایک گھر کی کھڑکی سے ایک خاتون قتل کا منظر دیکھ رہی تھی‘ اس نے میٹرو پولیٹن پولیس کو فون کر دیا‘ خاتون نے پولیس کو بتایا قاتل دو تھے‘ خاتون نے قاتلوں کے حلیے بھی بتادیئے‘ پولیس نے ڈاکٹر عمران فاروق کی آمد و رفت کی چھ ماہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوائی‘ فوٹیج کا تجزیہ کیا تو پتہ چلا چھ ماہ میں کئی بار ایک پاکستانی نوجوان ڈاکٹر صاحب کا پیچھا کرتا نظر آیا‘ یہ ڈاکٹرصاحب کے پیچھے ان کے گھر تک آتا تھا‘ اس نوجوان کا حلیہ قاتل کے حلئے سے میچ کر گیا‘ پولیس نے نوجوان کی تصویر ریکارڈ میں موجود تصویروں سے میچ کی تو معلوم ہوا نوجوان کا نام محسن علی سید ہے‘ یہ سٹوڈنٹ ویزے پر لندن آیا اور یہ لندن اکیڈمی آف مینجمنٹ سائنسز کا طالب علم ہے‘ پولیس کالج پہنچ گئی‘ کالج کے ریکارڈ کی پڑتال ہوئی تو پولیس دوسرے قاتل تک بھی پہنچ گئی‘ دوسرے قاتل کا نام کاشف خان کامران یا کامران خان کاشف تھا‘ یہ یکم ستمبر 2010ءکو کالج پہنچا تھا‘ اس کا سپانسر بھی معظم علی خان تھا اور یہ بھی کراچی کا رہنے والاتھا ‘ اس کی عمر 34 سال تھی اوریہ بھی محسن علی سید کے ساتھ غائب ہوا‘ فلائیٹس اور امیگریشن کا ریکارڈ نکالا گیا‘ پتہ چلا یہ دونوں واردات کے بعد سری لنکا روانہ ہو گئے اور ان کی اگلی منزل کراچی ہے‘ برطانوی حکومت نے پاکستانی حکومت کو دونوں کی تصاویر اور کراچی آمد کی اطلاع دے دی۔

یہ کیس بعد ازاں سکاٹ لینڈ یارڈ کو ہینڈ اوور کر دیا گیا‘ سکاٹ لینڈ یارڈ نے دونوں قاتلوں کے موبائل فونز کا ڈیٹا نکالا تو یہ دونوں ایک تیسرے پاکستانی شہری افتخار حسین سے رابطے میں پائے گئے‘ قتل سے پہلے اور قتل کے بعد تینوں کی لوکیشن بھی ایک آ رہی تھی‘ پولیس نے افتخار حسین کے خلاف تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا یہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے رشتے دار ہیں۔ پولیس نے تفتیش کے دوران افتخار حسین کے گھر کی تلاشی لی‘ گھر سے غیر قانونی رقم نکل آئی‘ افتخار حسین اس رقم کے بارے میں پولیس کو مطمئن نہیں کر سکے یوں ان کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا‘ لندن میں منی لانڈرنگ کا کیس سکاٹ لینڈ یارڈ کا کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ ہینڈل کرتا ہے‘ رقم کی برآمدگی کے بعدیہ ڈیپارٹمنٹ متحرک ہوگیا‘ ڈیپارٹمنٹ نے6 دسمبر 2012ءکوایم کیوایم کے دفتر اور 18 جون 2013ءکو الطاف حسین کی رہائش گاہ کی تلاشی لی‘دفتر اور گھر دونوں جگہوں سے لاکھوں پاﺅنڈ نکل آئے‘ ہم اگر الطاف حسین کے گھر‘ دفتر اور افتخار حسین کے گھر سے نکلنے والی دولت جمع کریں تو یہ پونے سات لاکھ پاﺅنڈ بنتے ہیں‘ برطانوی قانون کے مطابق یہ رقم غیر قانونی تھی‘ پولیس نے الطاف حسین کے خلاف تفتیش شروع کر دی‘ لندن میں موجود ایم کیو ایم کے کارکنوں اور دفتر میں کام کرنے والے کارندوں کے انٹرویو شروع ہوگئے‘ اس سے قبل محسن علی سید اور کاشف خان کامران کراچی ائیر پورٹ سے گرفتار ہو چکے تھے‘ پاکستان کے خفیہ اداروں نے کراچی ائیر پورٹ کے احاطے سے خالدشمیم نام کا ایک ٹارگٹ کلر بھی گرفتار کیا تھا۔ اس شخص نے انکشاف کیا ”میں نے محسن علی سید اور کاشف خان کامران کو ائیر پورٹ سے نکلنے کے بعد قتل کرنا تھا“۔ یہ پاکستان پیپلزپارٹی کا دور تھا‘ رحمن ملک وزیر داخلہ تھے‘ یہ تینوں لوگ وزارت داخلہ کے ماتحت اداروں کی حراست میں تھے‘ سکاٹ لینڈ یارڈ اڑھائی برس تک دونوں ملزمان کی حوالگی کا مطالبہ کرتی رہی لیکن رحمن ملک انہیں ٹالتے رہے‘ مئی 2013ءمیں میاں نواز شریف کی حکومت بنی تو یہ دونوں ممکنہ قاتل نئے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو ”ہینڈ اوور“ ہو گئے ۔یہ ملزم پاکستان کے خفیہ اداروں کی حراست میں تھے لیکن قانوناً ان کی حوالگی کا فیصلہ وزارت داخلہ نے کرنا تھا‘ ایم کیوایم کے ہیڈ کوارٹر اور الطاف حسین کی رہائش گاہ پر ریڈ کے بعد سکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف سے ملزمان کی حوالگی کی باربار درخواست آ نے لگی‘ مارچ2014ءمیں برطانیہ میں موجود ایک ذریعے نے میرے سامنے اعتراف کیا ” چودھری نثار علی نے سکاٹ لینڈ یارڈ کو ان لوگوں تک رسائی دے دی ‘ برطانیہ سے چند اعلیٰ تفتیشی عہدیدار پاکستان آئے اور ان دونوں ملزموں کا انٹرویو لے کر واپس چلے گئے“ میں نے ان سے پوچھا ”پاکستانی حکومت ان دونوں کو برطانیہ کے حوالے کیوںنہیں کرتی“ ان کا جواب تھا ” پاکستانی حکومت کو ابھی تک یقین نہیں یہ ملزمان الطاف حسین کی سزا کا ذریعہ بن جائیں گے‘ حکومت کو خدشہ ہے‘ کہیں ایسا نہ ہو یہ دونوں بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں اور عمران فاروق کے قاتل بھی بچ جائیں چنانچہ حکومت اس دن تک ان لوگوں کو اپنی دسترس میں رکھے گی جب تک اسے الطاف حسین کی گرفتاری اور سزا کا یقین نہیں ہو جاتا“۔
لندن میں اس دوران ایک تیسری کارروائی بھی شروع ہوئی‘مئی 2013 ءمیں الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں نے تین تلوار پر دھاندلی کے خلاف دھرنا دیا‘ الطاف حسین نے اس دن اپنے کارکنوں سے خطاب کیا ‘ وہ تقریر قابل اعتراض تھی‘ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اس تقریر کے خلاف سکاٹ لینڈ یارڈ میں درخواست دائر کر دی‘ سکاٹ لینڈ یارڈ کے ہیڈ کوارٹر میں نفرت انگیز تقریروں کے خلاف پانچ ہزار شکایات درج ہوئیں اور ان پر بھی کارروائی شروع ہو گئی یوں سکاٹ لینڈ یارڈ نے تین جون 2014ءکی صبح الطاف حسین کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا‘ یہ علیل تھے‘ پولیس نے انہیں ہسپتال میں داخل کرا دیا تاہم یہ پولیس کی حراست میں رہے‘ الطاف حسین کی گرفتاری نے کراچی اور حیدر آباد کی سماجی اور سیاسی زندگی میں بھونچال پیدا کر دیا۔لندن میں الطاف حسین کے وکلاءمضبوط تھے چنانچہ 6 جون 2014ءکو الطاف حسین کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا‘ یہ آج تک ضمانت پر ہیں لیکن یہ اپریل میں دوبارہ عدالت کے سامنے پیش ہوں گے‘ پاکستان میں نومبر اور دسمبر 2014ءبہت اہم تھا‘ملک میں جون 2014ءمیں دہشتگردی کے خلاف ضرب عضب شروع ہوئی‘ پشاور میں 16 دسمبر 2014ءکو آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے ہوا‘اکیسویں ترمیم پاس ہوئی‘ 21 ویں ترمیم کے دوران ایم کیو ایم نے حکومت سے دو شرائط منوائیں‘ صولت مرزا کو ممکنہ طور پر جنوری 2015ءکو پھانسی ہونی تھی‘ حکومت نے یہ سزا معطل کر دی اور دوسرا سیاسی مجرموں کو ملٹری عدالتوں سے استثنیٰ دے دیا گیا‘ ایم کیو ایم جس وقت یہ شرائط منوا رہی تھی ملک کی مقتدر طاقتوں نے اسی وقت صولت مرزا کو پھانسی دینے اور ایم کیو ایم کے مقدمے ملٹری عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ کر لیا۔
ہم آج تازہ ترین صورتحال کی طرف آتے ہیں‘ برطانیہ نے پاکستان بالخصوص آرمی چیف کو الطاف حسین کو سزا دینے کی یقین دہانی کرا دی ہے‘ حکومت نے اس یقین دہانی کے بعد محسن علی سید اور کاشف علی کامران کو برطانیہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ ان دونوں کے اعترافی بیان کی ٹیپ بھی تیار ہے اور یہ ٹیپ بھی عنقریب باہر آ جائے گی‘ صولت مرزا کا بیان بھی خوفناک ہے لہٰذا صولت مرزا کے اعترافات اور محسن علی سید اور کاشف علی کامران کی حوالگی کراچی کی پوری سیاست بدل دے گی‘ فیصلہ ہو چکا ہے لیکن یہ فیصلہ جو رنگ دکھائے گا اس کے نتائج کون بھگتے گا‘ یہ فیصلہ ابھی باقی ہے۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…