1965کی جنگ کا عظیم ہیرو آج بھیک مانگنے پر مجبور ۔۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کون ہیں ؟

6  فروری‬‮  2019

1965 کی جنگ میں کشمیر کے محاذ پر داد شجاعت دینے والا میر محمد غازی بھیک مانگنے پر مجبورہو گیا، عیاشیوں میں مصروف حکمرانوں نے محسن ملت کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔تفصیلات کے مطابق جذبہ شہادت سے سرشار 1965کی پاک بھارت جنگ میں جوان سال میر محمد وطن عزیز کے دفاع کا عزم لئے مجاہد فورس میں شامل تھا۔

میر محمد غازی نے اپنے سے کئی گنا بڑی دشمن عسکری قوت کو تتہ پانی سیکٹر میں ناکوں چنے چبوائے۔ دورانِ جنگ میر محمد کی ٹانگ میں گولی آلگی، خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا ، شدید زخمی حالت میں غازی کو طبی امداد کیلئے روانہ کر دیا۔ میر محمد غازی زخمی حالت میں اپنے ٹھیک ہو جانے کا انتظار کرتا رہا تاکہ ٹھیک ہو کر دوبارہ محاذ جنگ میں پر جا سکے۔ اسی دوران جنگ اختتام پذیر ہو گئی اور میر محمد غازی دل میں شہادت کی تڑپ لئے بیٹھا کا بیٹھا رہ گیا۔ حکومتی اداروں اور مجاہد فورس نے بھی اسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ گولی لگنے کے باعث میر محمد غازی عملی زندگی میں ناکارہ ہو کر رہ گیا تھا۔ حالات کی ستم ظریفی نے اسے کئی بار بڑے ایوانوں کی زنجیر ہلانے پر مجبور کیا مگر کہیں شنوائی نہ ہو سکی ۔ 1965 کا جواں سال میر محمد غازی آج اپنے بڑھاپے میں حالات کے مد و جزر نے بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا۔ گلے میں تختی لٹکائے سارا دن خاموشی سے مصروف راستوں پر خاموش بھیک کے انتظار میں بیٹھے میر محمد غازی کی خاموشی شاید پوری قوم سے سوال کر رہی ہے کہ کیا غیور قومیں اپنے محسنوں اور غازیوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہیں۔؟فرد واحد کیا کر سکتا ہے؟ ایک بات پلے باندھ لیںکہ وہی زندگی کے سب سے گہرے لطف کا تجربہ حاصل کرتے ہیں اور انسانیت کی تکمیل تک جاتے ہیں

جو اپنا کام خلوص نیت اور بے لوث ہو کر کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ لوگ کامیاب ترین ہوتے ہیں۔یہ ہم سب کے لیے ممکن ہے کہ ہم بے لوث ہو کر کام کریں۔ کسی دوست کے کام آ کر یا کسی نوجوان کی رہنمائی کر کے، کسی مشکل پراجیکٹ میں اپنے کسی رفیق کار سے تعاون کرکے یا کسی بزرگ کو سیڑھیاں چڑھنے میں مدد دے کر۔ ان تجربات سےہوئے ہم لمحہ بھر کو بہت خوشی اور طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ تب ہمیں اپنی اہمیت کی ہلکی جھلک دکھائی دیتی ہے اور ہمارے اندر وہ تحریک پیدا ہوتی ہے یا ایک مثاثر کن سا احساس ان لوگوں کے بارے میں پیدا ہوتا ہے جنہوں نے خود کو دوسروں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔

آپ کو یہاں دعوت دی جا رہی ہے کہ آپ ہمیشہ کے لیے دوسروں کو ’’دینے والے‘‘، شیئر کرنے والے بن جائیں۔ ایسا کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو بہتر طور پر بسر کرنے کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ یہ لوگ دوسروں کی خوشی کو اپنی سمجھتے ہیں اور بڑی نیکی ان کے لیے فرض کا درجہ رکھتی ہے اور وہ اس کی تشہیر سے بدکتے ہیں۔ کسی بھی قوم کا ضمیر اس وقت جاگتا ہے جب اسے کسی ایک شخص کے بلند حوصلہ مگر سادہ اعمال کے ذریعے سے آواز پڑتی ہے۔آج ہر قومی اور عالمی مسئلہ کسی نہ کسی انسانی رویے کی پیداوار ہے۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اگر ہم مسئلہ ہیں تو ہم حل بھی ہیں۔

یہ ایسے کام ہیں جو ہم ہر جگہ سے، اپنے دفاتر، بستیوں اور علاقوں سے شروع کر سکتے ہیں۔ ہم اس طرح مثبت اور مخصوص نتائج کی ایک زنجیر بنا سکتے ہیں۔ ہمارے تصورات اور خواب ہر چیز پر اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں اور یہ طاقت آپ کے اندر موجود ہے۔ تو آپ نے کیا سوچا ہے؟ تاریخ عالم میں ایسے لوگ کم کم ملتے ہیں جن کے پاس وہ قوت تھی کہ انہوں نے ہماری زندگی کو بدل ڈالا۔آج ہمیں جو کچھ پہلے کی نسبت بدلا بدلا نظر آ رہا ہے، یہ سب ان لوگوں کے کارناموں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ یہ لوگ بلاشبہ ہیرو تھے۔ آپ نے کن کو ہیرو سمجھ رکھا ہے؟ ہمارے اردگرد کئی ایسے لوگ بستے ہیں جن میں ہیرو بننے کی زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے۔

ان میں دوسروں کے لیے کام کرنے اور جرأت مندانہ اقدام اٹھانے کی ہمت ہوتی ہے اور وہ اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔یہ آپ کے بس میں ہے کہ آپ صحیح قدم اٹھائیں اور زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔جب ایسا لمحہ آئے تو یاد رکھیں کہ آپ ہیرو بن سکتے ہیں اور آپ کی ضرورت ہے کوئی چھوٹی سی دشواری یا وہ آزمائش جس سے آپ کی کردار سازی ہو سکتی ہے۔ دراصل آزمائش ہی آپ کی کردار سازی کرتی ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مدرٹریسا ’’ہیرو‘‘ بننے کے لیے پیدا ہوئی تھیں۔ ایک شام ایک غریب سے علاقے سے گزرتے ہوئے انہوں نے ایک عورت کی چیخ و پکار سنی۔

وہ اس کی مدد کے لیے دوڑیں۔وہ رات مدرٹریسا نے اس عورت کی دیکھ بھال میں گزاری۔ وہ اسے لے کر کئی ہسپتالوں میں گئیں مگر کسی نے بھی اسے داخل نہیں کیا۔ یہ عورت ان کے بازوؤں میں مر گئی تھی۔ اسی لمحے مدرٹریسا کی زندگی بدل گئی۔ انہوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ عمر بھر انسانیت کی خدمت کریں گی اور جو بھی ان کی پہنچ میں ہو گا وہ محبت اور احترام کے بغیر نہیں مرے گا۔ سوچیں کہ کیا ایسا لمحہ آپ کی زندگی میں بھی آیا تھا؟ آپ ہیرو کی کیا تعریف کرتے ہیں؟ ہیرو وہ شخص ہے جو کڑے اور مشکل وقت میں ہمت نہ ہارے اور اپنا کردار ادا کرے۔وہ لوگوں کے کام آئے اور

انہیں مصیبتوں سے بچائے، اس وقت جب باقی بھاگ اٹھیں۔ ہیرو ایسا فرد ہے جو بے لوث اور بے خوف ہو کر کام کرتا ہے اور ہر خطرے سے نفع نقصان کی پروا کیے بغیر ٹکرا جاتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ درست ہے، صحیح راستے پر ہے۔ تاہم یاد رکھیں کہ ہیرو وہ انسان نہیں ہوتا جسے ہم مکمل یا پرفیکٹ کہہ سکیں۔ ایسا اگر ہو تو کوئی ہیرو نہ بن سکے۔ دنیا میں کوئی انسان مکمل نہیں ہوتا۔ ہم سب سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں لیکن یہ ایسی نہیں ہوتیں کہ ہماری باقی کی خوبیوں اور اچھائیوں پر پانی پھیر دیں۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ ہیروازم بے عیب ہونا نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…