غیر مسلم سائنسدانوں نے حضورﷺ کی جسمانی معراج شریف کو تسلیم کر لیا نبی کریمؐ نے کیسے جنت اور جہنم کو دیکھا اور رب تعالیٰ تک پہنچے؟معروف سائنسدان سٹیفن ہاکنگ قرآن کی سورۃ نجم پر تحقیق کر کے کس نتیجے پر پہنچ گیا تھا؟ایمان افروز واقعہ

3  مئی‬‮  2018

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سائنسدانوں نے قرآن پاک کی سورۃ نجم کے مطابق حضورﷺ کی جسمانی معراج شریف کو تسلیم کر لیا۔ اسلامی عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو معراج دی اور آسمانوں کی سیر کرائی جہاں آپ کو جنت اور جہنم کا نظارہ کرایا گیا ، جبرائیل امینؑ جو اللہ کے برگزیدہ فرشتوں میں سے ایک ہیں اور فرشتوں کے سردار ہیں آپ کو لیکر معراج پر گئے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو گھر سے بیت المقدس تک براق کے ذریعے سفر کرایا جس کی رفتار انتہائی تیز تھی ۔ مسجد اقصیٰ میں نبی کریمﷺ نے دنیا میں بھیجے گئے تمام انبیا اور رسولوں کی امامت کروائی اس کے بعد ایک نور کی سیڑھی کے ذریعے آپ کو آسمان تک لایا گیا جہاں سے آپ سدرۃ المنتہا جو کہ کسی بھی مخلوق کیلئے آخری حد مقرر ہے تک آپ کو لایا گیا ۔ اس جگہ ایک درخت ہے جہاں جبرائیل امینؑ قیام فرماتے ہیں ۔ فرشتوں کے سردار ہونے کے باوجود اس سے آگے آپ کو جانے کی اجازت نہیں۔ یہاں جبرائیل امین ؑ نے رسول کریمﷺ سے فرمایا کہ اس سے آگے میں نہیں جا سکتا،یہاں سے آگے اگر میں گیا تو میرے پر جل جائیں گے۔ یہاں سے آگے ایک تخت رف رف پر آپ ؐ کو آگے لایا گیا اور جبرائیل امین وہیں رک گئے۔ جتنا فاصلہ آپ نے گھرسے یہاں تک طے کیا تھا اتنا ہی فاصلہ اس سے آگے آپ نے رف رف کے ذریعے طے کیا اس کے بعد آپ ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کے مطابق آپ نے قلم چلنے کی آواز سنی اس کے بعد آپ ؐ نے آواز سنی جو آپ کو آگے بلا رہی تھی آپ نے پہلا قدم اٹھایا تو پھر حکم ہوا کہ حبیب ؐ اور آگے آئیے، آپ نے پھر قدم اٹھایا، پھر آواز آئی کہ حبیبؐ آگے تشریف لائیں۔ علمائے کرام کے مطابق رسول کریم ؐ نے ہر قدم میں اتنا فاصلہ طے کیا جتنا آپ پیچھے طے کر آئے تھے۔ نبی کریمﷺ کی حدیث کے مطابق ایک مقام ایسا آیا کہ رب تعالیٰ

اور آپؐ کے درمیان دو قوسین کا فاصلہ رہ گیا۔ نبی کریمﷺ کو معراج کے موقع پر ہی نماز اور روزے عطا کئے گئے جو آپؐ کی امت کیلئے فرض کر دئیے گئے۔ سفر معراج سے واپسی پر جب آپؐ نے معراج شریف کا اعلان کیا تو مشرکین نے طرح طرح کے اعتراضات اٹھائے اور آپ ؐ کا مذاق اڑایا ۔ حضورؐ کے سفر معراج کی سب سے پہلے تصدیق حضرت ابو بکر صدیقؓ نے کی ۔ آپؓ کے پاس

ایک آدمی آیا اور کہا کہ ابوبکرؓ کیا تم نے کچھ سنا ، محمدؐ نےدعویٰ کیا ہے کہ اس نے سفر معراج کیا اور رب تعالیٰ سے ملاقات کی، تم اس بارے میں کیا کہتے ہو جس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ ’اگر تو نبی کریمؐ نے یہ بات کہی ہے تو بلاشبہ آپؐ نے سچ فرمایا ‘۔ خیال رہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ اس وقت تک نبی کریمﷺ سے نہیں ملے تھے مگر آپ ؓ کو نبی کریمﷺ کی صداقت پر یقین تھا ،

یہی وہ بات تھی جس پر آپؓ کو صدیق کا لقب دیا گیا۔ نبی کریمﷺ کے سفر معراج پر آج بھی کفار کی جانب سے طرح طرح کے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں تاہم اب سائنسدانوں نے قرآن پاک کی ہی سورۃ نجم پر سائنسی انداز میں تحقیق سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نبی کریمﷺ کا سفر معراج جسمانی طور پر ممکن اور حقیقت پر مبنی تھا۔ ایسی ہی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی ہے

جس میں سورۃ نجم اور جدید آسٹروفزکس کے ماہرین اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے سفر معراج کے حوالے سے جو نشانیاں بیان فرمائیں وہ بالکل درست ہیں اور قرآن 1400سال قبل آج کی سائنس سے بہت آگے تھا اور اس نے جدید خلائی تحقیق کے دروازے 1400سال قبل ہی وا کر دئیے تھے۔ سائنسدانوں کی تحقیق پر مبنی رپورٹ میں کہا گیا ہے

کہ خلا میں موجود بلیک ہولز دراصل دوسری کائنات کے دروازے ہیں ۔ قرآن نے 1400سال قبل ان کی نشاندہی فرما دی تھی۔ یہ بالکل ایک بیری کے درخت کے مشابہ خلا میں قائم ہیں جس کی ابتدائی انتہائی باریک یعنی درخت کے تنے کے مشابہ ہوتی ہے اور درخت کے سر کی طرح اس کا سر بنا ہوتا ہے۔ یہ خلا کا سب سے تاریخ حصہ ہوتا ہے اور قرآن نے اس سے متعلق بتا دیا تھا کہ اس کو

عام آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ معروف سائنسدان سٹیفن ہاکنگ نے بھی بلیک ہول کو دوسری کائنات کا دروازہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ بلیک ہول میں داخل ہو گئے ہیں تو گھبرائیے نہیں ، آپ دوسری کائنات میں داخل ہونے کیلئے تیار ہو جائیں تاہم آپ کیلئے یہ ناممکن ہو گا کہ آپ واپس اس کائنات میں آجائیں کیونکہ بلیک ہول میں کھینچنے کی اس قدر طاقت ہوتی ہے کہ وہ پورے

پورے ستارے نگل جاتا ہے اور 2016سے لیکر اب تک سائنسدانوں نے اس طرح کے 3واقعات کو ریکارڈ کیا ہے۔ سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق رسول کریم ﷺ کے سفر معراج سے متعلق اگر سورۃ نجم کی آیات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بلاشبہ اس کے باوجود حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت کوئی ایسا ذریعہ یا سپیس شپ نہیں تھا جو آپؐ کے ایسے سفر میں معاون کردار ادا کرتا ۔

نبی کریمﷺ نے سفر معراج کے حوالے سے جس جگہ کا ذکر کیا اس کی نشانیوں کو سامنے رکھا جائے تو وہ بلیک ہول کی تمام تعریفوں کو پورا کرتے ہوئے اس کی جانب اشارہ کرتی ہے۔جب ہم بلیک ہول سے متعلق پڑھتے ہیںتوہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی سورہ نجم کی آیت 16میں بلیک ہول کی نشانی بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ خلا کا نہایت ہی سیاہ حصہ ہوتا ہے یعنی یہاں بہت اندھیرا ہوتا ہے،

اندھیرا اندھیرے پر چھایا ہوتا ہے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ خلا اندھیری جگہ ہے اور یہاں بہت اندھیرا ہوتا ہے اور اس کے کچھ حصے دوسروں سے زیادہ اندھیرے ہوتے ہیں مگر بلیک ہول سے زیادہ اندھیرا کہیں اور نہیں ہوتا ۔بلیک ہول کشش ثقل کا وہ منبع ہوتا ہے کہ جو روشنی تک کو نہیں چھوڑتا اورشدید اور بے پناہ کشش ثقل کے باعث روشنی تک جو کہ سیدھا سفر کرتی ہے منعکس ہو کر

اس کے اوپر یا نیچے سے گزر جاتی ہے۔ کیونکہ یہ بہت زیادہ سیاہ اور اندھیرے کے حامل ہوتے ہیں اس لئے یہ عام آنکھ یا عام سائنسی مشاہدے سے اوجھل رہتے ہیں۔ سائنسدانوں نے اس حوالے سے خصوصی آلات بنا رکھے ہیں اور وہ یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ستاروں کا رویہ بلیک ہولز کے پاس کیوں مختلف ہوتا ہے نسبت دوسرے ستاروں کے ۔ کیونکہ بلیک ہولز کشش ثقل کا منبع ہوتے ہیں اور ہر چیز کو کھینچ لیتے ہیں

اور یہی کشش ثقل ان کی موجودگی کا باعث بنتی ہے۔ قرآن کریمﷺ میں خلا کے اس حصے یعنی بلیک ہول سے متعلق کہا گیا ہے کہ جب ایک عام آدمی اس کو دیکھنا چاہے تو وہ اس کےاندر نہیں دیکھ سکتا سوائے اس کے پار کی چیزیں نظر آئیں یا اس کے اوپر اور نیچے کی۔ یہ خلا کا حصہ بالکل ایک عدسے کی طرح ہے اور سائنس اس کو کشش ثقل کا عدسہ یا گریویٹی لینس کا نام دیتی ہے

اور یہ بلیک ہول کی کشش ثقل کی بے پناہ طاقت ہی ہے جو نظر کو بھی منعکس کر دیتی ہے یا اس کے رخ کو تبدیل کر دیتی ہے۔ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ روشنی سیدھا سفر کرتی ہے مگر جب یہ بلیک ہول تک پہنچتی ہے تو اس کے اوپر اور نیچے سے گزر جاتی ہے ۔ سائنسدان اس بات کو تحقیق کے بعد تسلیم کرتے ہیں کہ بلیک ہول روشنی کیلئے ایک کاسمک میگنی فائینگ گلاس(عدسے)کی طرح ہوتے ہیں

جو روشنی کو اوپر یا اپنے نیچے کی جانب گزرنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور اسی وجہ سے سائنسدان بلیک ہول کے عقب میں موجود کہکشائوں کا نظارہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور اسی کو کشش ثقل کا عدسہ یا گریویٹیشنل لینس کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم اس دلچسپ معاملے سے متعلق ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کراتا ہے ۔ قرآن کریم کی سورہ نجم کی آیت 17اور 18میں رب تعالیٰ فرماتے ہیں

کہ’’آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی‘‘’’بیشک آپ نے اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘۔سائنسدان ان آیات سے متعلق اس نتیجے پر پہنچے کہ رسول کریمﷺ نے دراصل بلیک ہول میں سفر کیا اور اس کو براہ راست دیکھا ہے۔ قرآن کریم بلیک ہول کی ساخت سے متعلق بیان کرتا ہے کہ اس کا دروازی ایک ٹیوب کی مانند اور سر پھیلا ہوا جو کہ ایک فیونل شیپ ہے۔

سورۃ نجم کی آیت 12سے 16میں رب تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑتے ہو، اور انہوں نے تووہ جلوہ دو بار دیکھا ، سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ، اس کے پاس جنت الماویٰ ہے، جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا‘‘۔سائنسدان اس کو بیری کے درخت سے تعبیر کرتے ہیںیعنی بلیک ہول ایک بیری کے درخت کی شکل میں ہوتے ہیں۔بلیک ہول خلا میں گہرے ڈنٹ یعنی خیمے کی مانند ہوتے ہیں

اور یہی وجہ ہے کہ جب یہ ظاہر ہوتے ہیں تو بے پناہ چمکدار نظر آتے ہیں۔ اگر بلیک ہول کے مادے پر اثرات اور اس کے کھینچنے کی بے پناہ طاقت کی وضاحت کی جائے تو سائنسدانوں کے مطابق بلیک ہول کے خلائی وقت کا خیمہ اس کے واقعہ افق کے پیچھے پوشیدہ رہتا ہےاور یہ ہمیشہ ایسے علاقے کی طرف سے سرفہرست ہوتا ہے جو روشنی سے بچنے کی اجازت نہیں دیتا ہے

اور اسی وجہ سے براہ راست مشاہدے میں نہیں آتا۔ قرآن کریم کی سورہ نجم کی آیت 14میں جس بیری کے درخت یعنی بلیک ہول کا ذکر ہے سائنسدانوں کے مطابق یہ اسی طرح لا محدود کثافت کے حامل ہیں ۔اگر اس دعوے کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بلیک ہول حالیہ سائنسی تحقیق کے مطابق بے پناہ کشش ثقل کے حامل ہوتے ہیں ، ان کے اندر اتنی سیدھی گہرائی ہے

جو اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ یہ کچھ بھی نہیں، روشنی بھی کبھی فرار نہیں ہوسکتی۔اور بلیک ہول کا سفر دراصل یک طرفہ سفر ہے کیونکہ ایک بار جب آپ جگہ افقون سے تجاوز کرتے ہیں- جس نقطہ پر روشنی نہیں بچ سکتی ہے – کوئی چیز واپس نہیں آتی ہے۔تحقیق دان جارج پولین، روڈولفو گمبینی اور گیریڈ ہوفٹ اپنی حالیہ تحقیق میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ توانائی بلیک ہولز سے واپس نہیں آسکتی

اور بلیک ہول مکمل محدود ہیں یعنی ان سے واپسی ممکن نہیں۔ ان تحقیق دانوں کی تحقیق کو اگر مد نظر رکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی یہ لامحدود کثافت کے حامل نہیں مگر دوسری کائنات تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔ برطانوی سائنسدان سٹیفن ہاکنگ نے تحقیق دان جارج پولین، روڈولفو گمبینی اور گیریڈ ہوفٹ کے اس دعوے کو سپورٹ کیا ہے اور بعدازاں اس حوالے سے اپنا خیال پیش کرتے ہوئے

کہا کہ ہو سکتا ہے کہ بلیک ہول سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہو۔ ان کا مشہورزمانہ قول ہے کہ ’’اگر آپ یہ محسوس کریں کہ آپ بلیک ہول میں داخل ہو گئے ہیں تو گھبرائیں نہیں اور نہ ہی ہمت ہاریں کیونکہ اس سے باہر نکلنے کا راستہ موجود ہے،ممکنہ طور پر دوسری کائنات میں پہنچے کا راستہ موجود ہے، مگر آپ ہماری کائنات میں پھر واپس نہیں آسکتے، اور اگر میں سپیس فلائٹ میں ہوا

تو میں ایساکرنے کی ہر گز کوشش نہیں کروں گا‘‘۔اگرہم نتیجہ کی جانب آئیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم ستاروں کے ٹوٹنے کی قسم کھاتا نظر آتا ہے، رسول کریم ﷺ خلا میں سفر کرتے ہیں اور ایک ایسے حصے میں پہنچتے ہیں جس سے متعلق قرآن کریم میں رب تعالیٰ اسے اپنی عظیم نشانیوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ ’’ایک ایسا خلا کا حصہ جو خلا کے دیگر حصے کی نسبت زیادہ سیاہ اور اندھیرا ہے۔

یہ اندھیرا اس بلیک ہول جو کہ بیری کے درخت کی مانند ہے کو اپنے نیچےچھپائے ہوئے ہے، اور کوئی بھی اسے براہ راست نہیں دیکھ سکتا اپنی عام نگاہ سے اور نہ کوئی اس کی حد کو چھو سکتا ہے اور نہ ہی اس سے گزر سکتا ہے‘‘۔ اس ساری بحث کے نتیجے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ حصہ لا محدود کثافت کا حامل نہیں اور دوسری کائنات تک پہنچنے کا راستہ ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے

کہ آسٹرو فیزیسٹس اور قرآن اس نکتے پر متفق ہیں۔ قرآن خلا کے جس پراسرار حصے کی وضاحت کرتا ہے اس کو ہم بلیک ہول کہتے ہیں ۔قرآن ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے (جو کہ بلاشبہ سچ ہے) زور دیتا نظر آتا ہے کہ یہ جنت تک کا راستہ ہے جس سے گزر کر نبی کریمﷺ رب تعالیٰ تک پہنچے اور سائنس شاید اس حد تک آگے نہیں بڑھ پائی کہ اس کو فی الوقت ثابت کر سکے، مگر اگر گزشتہ واقعات اور حالات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ صرف وقت کی بات ہے سائنس پہلے ہی قرآن میں دئیے گئے معجزات کی سائنسی تحقیق کے بعد ان کی تصدیق کر چکی ہے۔

موضوعات:



کالم



اللہ کے حوالے


سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…