یہ پیسے کہاں سے آئے؟

25  اپریل‬‮  2017

۔۔۔ سیدنا عمرؓ کے زمانہ خلافت میں مال غنیمت کے اندر بہت سارا عطر آیا۔ آپ کی اہلیہ صاحبہ نے کہا: جی! میں اس کو تقسیم کرتی ہوں، فرمایا، نہیں، آپ اس کو تقسیم نہیں کر سکتیں۔ پوچھا کہ کیوں؟ میں ٹھیک ٹھیک تقسیم کروں گی۔ حتیٰ کہ ہاتھ پر بھی نہیں لگنے دوں گی۔ فرمایا: جب آپ عطر تقسیم کر رہی ہوں گی تو اس وقت آپ کو خوشبو تو آئے گی، میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ میری بیوی کو اس مال میں سے خوشبو مل جائے۔۔۔۔

سیدنا صدیق اکبرؓ کی اہلیہ محترمہ چاہتی تھیں کہ کوئی سویٹ ڈش بنائیں۔ مگر آپؓ بیت المال سے بہت کم وظیفہ لیتے تھے۔ چنانچہ اس نے ایک مرتبہ سوچا کہ کھانے میں سے تھوڑا تھوڑا بچاتی ہوں، جب اتنے پیسے ہو جائیں گے تو میں کوئی میٹھی چیز (حلوہ وغیرہ) بناؤں گی، چنانچہ وہ تھوڑا تھوڑا بچاتی رہی۔ بالآخر ایک دن اس نے حلوہ بنایا۔ خود بھی کھایا اور کچھ حضرت کے سامنے بھی پیش کیا۔ حضرت نے پوچھا: یہ پیسے کہاں سے آئے؟ بتایا کہ میں نے اس طرح تھوڑے تھوڑے بچائے تھے اور آج میں نے اس سے یہ حلوہ بنایا۔ فرمانے لگے: تجربہ سے ثابت ہوا کہ اتنے پیسے ہماری ضرورت سے زیادہ ہیں۔ لہٰذا اس کے بعد بیت المال سے اتنے پیسے لینے کم کر دیے۔۔۔ یہ صفت انسان کے اندر تب آتی ہے جب اسے ایمانی زندگی نصیب ہوتی ہے۔۔۔۔ ایک مرتبہ سیدنا علیؓ سیدنا عمرؓ سے ملنے آئے۔ اس وقت حضرت عمرؓ اپنا کچھ کام کر رہے تھے۔ جب انہوں نے وہ کام مکمل کر لیا تو حضرت علیؓ سے پوچھا کہ علیؓ! آپ نے کوئی امور خلافت کی بات کرنی ہے یا کوئی ذاتی مشورہ کرنے آئے ہو؟ انہوں نے کہا: جی میں کوئی ذاتی بات کرنے آیا ہوں۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے وہ رجسٹر بھی سمیٹ دیا اور پھونک مار کر چراغ بھی بجھا دیا۔ حضرت علیؓ بڑے حیران ہوئے اور پوچھنے لگے: عمر! مہمان کے آنے پر چراغ جلایا کرتے ہیں، چراغ بجھایا تو نہیں کرتے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا، ’’بھائی علی! آپؓ نے سچ کہا، مہمان کے آنے پر چراغ جلاتے ہیں بجھاتے نہیں، لیکن میں نے اس لیے بجھایا کہ مجھے اور آپ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم ذاتی گفتگو کرتے رہیں اور بیت المال کے پیسے کا تیل جلتا رہے۔‘‘یہ چیز فقط عقل کی وجہ سے انسان کے اندر نہیں آتی بلکہ ایمان کی وجہ سے آتی ہے۔ اس ایمانی زندگی میں انسان دوسروں کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دیتا ہے۔ وہ بندوں سے کچھ نہیں چاہتا،

وہ فقط اللہ سے چاہ رہا ہوتا ہے۔۔۔۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی زندگی دیکھ لیجئے، انہوں نے کیسی تقویٰ بھری زندگی گزاری! حالانکہ ان کا اتنا اختیار تھا کہ وہ چاہتے تو خزانے سے اپنی خواہشات کو پورا کر سکتے تھے۔۔۔۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کی مثال دیکھئے۔ ان کو گناہ کی دعوت مل رہی تھی۔ اگر وہ چاہتے تو اپنی خواہش کو پورا کر سکتے تھے مگر اللہ کے خوف نے ان کو اس چیز سے پیچھے ہٹا دیا۔ یہ ہے ایمانی زندگی، کہ انسان کو دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا، انکار کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا، فقط اللہ کے ڈر کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو گناہوں سے بچا رہا ہوتا ہے۔

 



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…