برداشت

12  جولائی  2016

یہ بہت ہی معمولی بات تھی‘ اشارے پر ٹریفک رکی‘ گاڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑی ہو گئیں‘ پیچھے سے ایک موٹر سائیکل آئی‘ موٹر سائیکل پر دو نوجوان سوار تھے‘ ان دونوں نے موٹر سائیکل کو آگے لے جانے کی کوشش کی‘ موٹر سائیکل گاڑیوں سے الجھنے لگی‘ کسی گاڑی کا شیشہ دہرا ہو گیا‘ کسی کی باڈی پر لکیر پڑ گئی اور کسی کے دروازے کے ساتھ موٹر سائیکل کا پائیدان لگ گیا‘

گاڑیوں میں سوارتمام لوگوں نے نا پسندیدگی سے موٹر سائیکل سواروں کی طرف دیکھا لیکن نوجوان کسی کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھتے چلے گئے۔ آخری گاڑی میں چار نوجوان سوار تھے‘ موٹر سائیکل والے نوجوانوں نے اس گاڑی کو کراس کرنے کی کوشش کی لیکن جگہ بالکل نہیں تھی لہٰذا موٹر سائیکل کا پائیدان گاڑی کے ساتھ لگ گیا۔ گاڑی میں سوار نوجوان نے شیشہ نیچے کیا اور موٹر سائیکل پر سوار نوجوانوں سے الجھ پڑے‘ موٹر سائیکل والے نوجوانوں نے جواب میں بدتمیزی کی اور یوں دونوں پارٹیوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔ گاڑی والے نیچے اترے اور انہوں نے موٹر سائیکل والوں کو مارنا شروع کر دیا اور موٹر سائیکل والے ہیلمٹ پہن کر انہیں ٹکریں مارنے لگے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے سڑک میدان جنگ بن گئی۔ میں یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا‘ میں نیچے اترا اور انہیں چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ باز نہیں آئے۔ اتنے میں اشارہ کھل گیا اور گاڑیوں کے ہارن بجنا شروع ہو گئے۔ ہارنزکی وجہ سے ماحول مزید خراب ہو گیا‘ پولیس آئی اور اس نے دونوں پارٹیوں کو گرفتار کر لیا۔ میں گاڑی میں بیٹھا اور آگے نکل گیا لیکن یہ واقعہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے میری یادداشت کا حصہ بن گیا۔ میں اس دن سے سوچ رہا ہوں یہ واقعہ کیوں پیش آیا؟مجھے ہر بار جواب ملتا ہے برداشت کی کمی کے باعث۔ ہم نے گزشتہ 62 برسوں کے دوران بے شمار چیزیں کھو دی ہیں لیکن ہمارا سب سے بڑا نقصان برداشت کی کمی ہے۔

ہم سب میں برداشت‘ دوسرے کی بات کو تسلیم کرنا‘ اختلاف رائے کو سہہ جانا اور غصے کو پی لینا جیسے جذبے ہی ختم ہو گئے ہیں‘ ہم سب لوگ آگ کا گولہ بن گئے ہیں اورجونہی کوئی ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے تو ہم اس کو جلا کر راکھ کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں چنانچہ پورا ملک بھٹی بن کر رہ گیا ہے‘ برداشت ہوتی کیا ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سبجیکٹ ہے اور ہم اسے چند مثالوں ہی سے ثابت کر سکتے ہیں۔ صدر ایوب خان پاکستان کے پہلے ملٹری ڈکٹیٹر تھے‘

وہ روزانہ سگریٹ کے دو بڑے پیکٹ پیتے تھے‘ روز صبح ان کا بٹلر سگریٹ کے دو پیکٹ ٹرے میں رکھ کر ان کے بیڈ روم میں آجاتاتھا اورصدر ایوب سگریٹ سلگا کر اپنی صبح کا آغاز کرتے تھے‘ وہ ایک دن مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے‘ وہاں ان کا بنگالی بٹلرانہیں سگریٹ دینا بھول گیا‘ جنرل ایوب خان کو شدید غصہ آیا اورانہوں نے بٹلر کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ جب ایوب خان گالیاں دے دے کر تھک گئے تو بٹلر نے انہیں مخاطب کر کے کہا ’’جس کمانڈر میں اتنی برداشت نہ ہو وہ فوج کو کیا چلائے گا‘

مجھے پاکستانی فوج اور اس ملک کا مستقبل خراب دکھائی دے رہا ہے‘‘۔ بٹلر کی بات ایوب خان کے دل پر لگی ‘ انہوں نے اسی وقت سگریٹ ترک کر دیا اور پھر باقی زندگی سگریٹ کو ہاتھ نہ لگایا۔آپ نے رستم زمان گاما پہلوان کا نام سنا ہو گا۔ہندوستان نے آج تک اس جیسا دوسرا پہلوان پیدا نہیں کیا‘ ایک بار ایک کمزور سے دکاندار نے گاما پہلوان کے سر میں وزن کرنے والاباٹ مار دیا۔ گامے کے سر سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے‘ گامے نے سرپر مفلر لپیٹا اور چپ چاپ گھر لوٹ گیا۔ لوگوں نے کہا

’’ پہلوان صاحب آپ سے اتنی کمزوری کی توقع نہیں تھی‘ آپ دکاندار کو ایک تھپڑ مار دیتے تو اس کی جان نکل جاتی‘‘۔ گامے نے جواب دیا ’’مجھے میری طاقت نے پہلوان نہیں بنایا‘ میری برداشت نے پہلوان بنایا ہے اور میں اس وقت تک رستم زمان رہوں گا جب تک میری قوت برداشت میرا ساتھ دے گی‘‘۔ قوت برداشت میں چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ اپنے دور کے تمام لیڈرز سے آگے تھے‘ وہ 75سال کی عمر میں سردیوں کی رات میں دریائے شنگھائی میں سوئمنگ کرتے تھے اوراس وقت پانی کا درجہ حرارت منفی دس ہوتا تھا۔

ماؤ انگریزی زبان کے ماہر تھے لیکن انہوں نے پوری زندگی انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولا ۔آپ ان کی قوت برداشت کا اندازا لگائیے کہ انہیں انگریزی میں لطیفہ سنایا جاتا تھا‘ وہ لطیفہ سمجھ جاتے تھے لیکن خاموش رہتے تھے لیکن بعدازاں جب مترجم اس لطیفے کا ترجمہ کرتا تھا تو وہ دل کھول کر ہنستے تھے ۔ قوت برداشت کا ایک واقعہ ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر بھی سنایا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے انہوں نے زندگی میں صرف ڈھائی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کی پہلی کامیابی ایک اژدھے کے ساتھ لڑائی تھی‘

ایک جنگل میں بیس فٹ کے ایک اژدھے نے انہیں جکڑ لیا اور بابر کو اپنی جان بچانے کیلئے اس کے ساتھ بارہ گھنٹے اکیلے لڑنا پڑا۔ ان کی دوسری کامیابی خارش تھی۔ انہیں ایک بارخارش کا مرض لاحق ہو گیا‘خارش اس قدر شدید تھی کہ وہ جسم پر کوئی کپڑا نہیں پہن سکتے تھے۔ بابر کی اس بیماری کی خبر پھیلی تو ان کا دشمن شبانی خان ان کی عیادت کیلئے آ گیا۔ یہ بابر کیلئے ڈوب مرنے کا مقام تھا کہ وہ بیماری کے حالت میں اپنے دشمن کے سامنے جائے۔ بابر نے فوراً پورا شاہی لباس پہنا اور بن ٹھن کر شبانی خان کے سامنے بیٹھ گیا‘ وہ آدھا دن شبانی خان کے سامنے بیٹھے رہے‘ پورے جسم پر شدید خارش ہوئی لیکن بابر نے خارش نہیں کی۔ بابران دونوں واقعات کو اپنی دو بڑی کامیابیاں قرار دیتا تھا اورآدھی دنیا کی فتح کو اپنی آدھی کامیابی کہتا تھا۔

دنیا میں لیڈرز ہوں‘ سیاستدان ہوں‘ حکمران ہوں‘ چیف ایگزیکٹو ہوں یا عام انسان ہو‘ان کا اصل حسن ان کی قوت برداشت ہوتی ہے۔ دنیا میں کوئی شارٹ ٹمپرڈ‘ کوئی غصیلہ اور کوئی جلد باز شخص ترقی نہیں کر سکتا۔ دنیا میں معاشرے‘ قومیں اور ملک بھی صرف وہی آگے بڑھتے ہیں جن میں قوت برداشت ہوتی ہے۔ جن میں دوسرے انسان کی رائے‘ خیال اور اختلاف کو برداشت کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک‘ ہمارے معاشرے میں قوت برداشت میں کمی آتی جا رہی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ہروقت کسی نہ کسی شخص سے لڑنے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ شائد قوت برداشت کی یہ کمی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دنیا میں سب سے زیادہ قتل اور سب سے زیادہ حادثے ہوتے ہیں لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہم اپنے اندر برداشت پیدا کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہاں ہے اور اس کا حل رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہے۔ ایک بار ایک صحابیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا ’’یارسول اللہ ﷺآپ مجھے زندگی کو پر سکون اور خوبصورت بنانے کاکوئی ایک فارمولہ بتا دیجئے‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’غصہ نہ کیا کرو‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اول وہ لوگ جو جلدی غصے میں آجاتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں۔ دوم وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں اور سوم وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور دیر سے اصل حالت میں لوٹتے ہیں‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’ ان میں سے بہترین دوسری قسم کے لوگ ہیں جبکہ بدترین تیسری قسم کے انسان‘‘۔ غصہ دنیا کے90فیصد مسائل کی ماں ہے اور اگر انسان صرف غصے پر قابو پا لے تواس کی زندگی کے 90فیصد مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔ برداشت دنیا کی سب سے بڑی اینٹی بائیوٹک اور دنیا کا سب سے بڑا ملٹی وٹامن ہے۔ آپ اپنے اندر صرف برداشت کی قوت پیدا کر لیں تو آپ کو ایمان کے سوا کسی دوسری طاقت کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ انسان اکثر اوقات ایک گالی برداشت کر کے سینکڑوں ہزاروں گالیوں سے بچ سکتا ہے اور ایک بری نظر کو اگنور کر کے دنیا بھر کی غلیظ نظروں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ آج کے بعد آپ کو جب بھی غصہ آئے تو فوراً اپنے ذہن میں اللہ کے رسول ﷺ کے یہ الفاظ لے آئیے۔ آپﷺ نے فرمایا تھا ’’غصہ نہ کیا کرو‘‘ مجھے یقین ہے اللہ کے رسولﷺ کے یہ الفاظ آپ کی قوت برداشت میں اضافہ فرما دیں گے۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…