جس کامیابی‘ جس ترقی کے ساتھ

9  جولائی  2016

(زیروپوائنٹ )جاوید چودھری
ہم دونوں کے مسائل مختلف تھے‘ شیخ صاحب ارب پتی تھے‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں سارے چھپڑ پھاڑ کرنوازا تھا‘ ان پر دھن دولت اس طرح برستی تھی جس طرح ساون میں بارش برستی ہے۔ دولت حقیقتاً ان کے ہاتھ کا میل تھی‘ وہ ہاتھ رگڑتے تھے تو دس‘ پندرہ لاکھ روپے جھڑ جاتے تھے۔ مجھے انہوں نے ایک بار بتایا وہ یہ نہیں جانتے ان کی کتنی کمپنیاں ہیں‘ ان کی جائیداد کہاں کہاں ہے اور ان کے ملازمین کی اصل تعداد کتنی ہے‘ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کون کون شخص کس کس جگہ ان کیلئے دولت جمع کر رہا ہے‘ بس وہ اتنا جانتے ہیں گھڑی کی ہر سوئی کے ساتھ ان کے اکاؤنٹس میں دس‘ بیس لاکھ روپے کا اضافہ ہو جاتاہے لیکن اللہ کے اس کرم کے باوجود ان کی کشتی مسائل کے سمندر میں ہچکولے کھا رہی تھی‘ وہ پریشان رہتے تھے چنانچہ وہ بھی میرے ساتھ بیٹھے تھے ۔شیخ صاحب نے عرض کیا ’’ جناب میرا بھی عجیب مسئلہ ہے‘ اللہ نے مجھے بے تحاشا دولت دی لیکن اس دولت نے مجھے سکون اور عزت نہیں دی‘ میرے پاس اربوں روپے ہیں لیکن لوگ میرے منہ پر میرا مذاق اڑاتے ہیں‘ میں کسی جگہ سے گزرتا ہوں تو لوگ میرے پیچھے قہقہے لگاتے ہیں‘ میں بڑے بڑے پروگراموں اور جلسوں میں کروڑوں روپے کی چیرٹی کرتا ہوں لیکن انہی جلسوں اور اجتماعات میں لوگ میرے اوپر قہقہے لگاتے ہیں‘ لوگ مجھے شیخ چلی‘ شیخ احمق اور شیخ فارغ کہتے ہیں‘ لوگ مجھے شیخ جھلا‘ شیخ مسکین اور شیخ غریب بھی کہتے ہیں اور میرے پاس لوگوں کی باتیں سہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا‘‘ شیخ صاحب خاموش ہو گئے۔
وہ ساری بات غور سے سنتے رہے‘ شیخ صاحب جب خاموش ہوئے تو انہوں نے فرمایا ’’شیخ صاحب اس میں لوگوں کا کوئی قصور نہیں‘ آپ اس سلوک کے خود ذمہ دار ہیں‘‘ شیخ صاحب کے چہرے پر حیرت پھیل گئی‘ وہ بولے ’’آپ انسان کی زندگی دیکھئے‘ ہم جسم‘ روح اور دماغ کا مرکب ہیں‘ ہمارا جسم ایک شکل‘ ایک شیپ کا نام ہے‘ ہمارے بال ہیں‘ ہمارا چہرہ ہے‘ ہماری ٹانگیں‘ بازو اور پیٹ ہے اور ہم نے ان تمام اعضاء پر کپڑوں کا غلاف چڑھا رکھا ہے‘ ہماری روح ایمان‘ عبادت ‘ ریاضت‘ فکر‘ رحم‘ محبت اور خدمت کا نام ہے‘ ہم سال میں کتنا صدقہ کرتے ہیں‘ ہم لوگوں کی کتنی مدد اور خدمت کرتے ہیں اور ہم نیکی کی ترویج اور اشاعت میں کتنا حصہ لیتے ہیں‘ یہ سب ہماری روح کے تقاضے ہیں اور ہم میں عقل کتنی ہے‘ ہم دنیا کے حالات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں‘ ہمارا مطالعہ اور مشاہدہ کتنا ہے‘ ہم گفتگو کیسے کرتے ہیں اور ہم دوسرے لوگوں کی باتوں کو کتنی جلدی سمجھ جاتے ہیں‘ اس کا انحصار ہمارے دماغ پر ہے اور ان تینوں چیزوں سے مل کر ہماری شخصیت بنتی ہے ۔دنیا میں کامیاب انسان کیلئے ضروری ہوتا ہے وہ بیک وقت اپنے جسم ‘ دماغ اورروح تینوں پر توجہ دے‘ وہ جوں جوں ترقی کرے وہ اپنے جسم کی خوبصورتی کا بھی خیال رکھے‘ وہ ورزش کرے‘ وہ موٹاپے‘ گنجے پن اور جسمانی بھدے پن سے بچے‘ وہ جسمانی صفائی‘ خوشبو اور لباس کا خاص خیال رکھے‘ وہ بہترین لباس پہنے اور شاندار جوتے استعمال کرے‘ اس کے اٹھنے‘ بیٹھنے‘ چلنے پھرنے اور ملنے ملانے میں ایک توانائی محسوس ہو اور وہ مسکراتا ہوا‘ ہنستا ہوا دکھائی دے‘ وہ جوں جوں ترقی کرے مطالعہ کی عادت میں بھی اضافہ کرے‘ اخبارات اور دنیا جہاں کے میگزین پڑھے ‘نئی کتابیں خریدے ‘ معیاری فلمیں اوراچھے ٹی وی پروگرام دیکھے ‘ مشہور لوگوں کے لیکچر سنے‘ دنیا بھر کی معلومات جمع کرے اور ہفتے میں کم از کم ایک بار عالم لوگوں کی محفل میں بیٹھے۔ وہ نئی زبانیں سیکھے‘ نئے الفاظ یاد کرے اور اپنی گفتگو کو پالش کرے‘ وہ جوں جوں ترقی کرے عبادت اور ریاضت کو بھی اپنی روٹین کا حصہ بنائے‘ صدقے اور خیرات میں اضافہ کرے‘ لوگوں کے ساتھ شائستگی سے گفتگو کرے‘ بے بس‘ بے کس‘ معذوروں اور یتیموں کی مدد کرے اور اللہ کا ذکر بڑھائے‘‘ وہ دم لینے کیلئے رکے تو شیخ صاحب نے بے صبری سے عرض کیا ’’لیکن جناب میرا مسئلہ کہاں چلا گیا‘‘۔
وہ مسکرائے اور ہم سے مخاطب ہوئے ’’آپ کا مسئلہ پاکستان کے نوے فیصد کامیاب لوگوں کا مسئلہ ہے‘ یہ لوگ دولت توکما لیتے ہیں لیکن یہ اپنے جسم‘ اپنی روح اور اپنے ذہن کو ترقی نہیں دیتے‘ آپ نے کبھی اپنی شکل پرغور کیا‘آپ کے بال الجھے رہتے ہیں‘ آپ کی آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہیں‘ آپ کے گال پرس کی طرح پھولے ہوئے ہیں‘ٹھوڑی تین منزلہ ہو چکی ہے‘ سانسیں پھولی رہتی ہیں اور ان سے بو بھی آتی ہے‘ آپ کے کپڑے نہایت میلے کچیلے ہیں‘ آپ کے جوتے گندے ہیں اور جرابیں پھٹی ہیں‘ آپ کا پیٹ تمام حدوں سے باہر نکل چکا ہے اور آپ کی ٹانگیں آپ کی ٹانگیں دکھائی نہیں دیتیں‘ آپ اپنے ذہن کی طرف آئیں‘ آپ نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی‘ آپ اخبار تک نہیں پڑھتے‘ آپ کو ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے کسی پروگراوم کا پتہ نہیں‘ آپ کبھی کسی دانشور کی محفل میں نہیں بیٹھے‘ آپ دس لفظوں سے زیادہ بول نہیں سکتے اورآپ کی گفتگو کا معیار اتنا پست ہوتا ہے کہ انسان پانچ منٹ میں بور ہو جاتا ہے اور رہ گئی آپ کی روحانی زندگی تو آپ کی ساری روحانی زندگی منافقت سے لبریز ہے‘ آپ کی نمازیں‘ روزے‘ عمرے‘ حج‘ زکوٰۃ‘ خیرات اور ختم سب ریاکاری اور دکھاوا ہیں‘ آپ جلسوں اور اجتماعات میں لمبے لمبے چندوں کا اعلان صرف دکھاوے کیلئے کرتے ہیں‘ ان کا مقصد صرف لوگوں کو متاثر کرنا ہوتا ہے اور لوگ کیونکہ آپ کی نیت سے واقف ہوتے ہیں چنانچہ وہ آپ کا آپ کے سامنے مذاق اڑاتے ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ ہم دونوں ان سے اس رویے اور صاف گوئی کی توقع نہیں کرتے تھے‘ میں ہکا بکا رہ گیا جبکہ شیخ صاحب کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ ہم خاموشی سے ان کی طرف دیکھتے رہے۔
وہ بولے ’’ہماری زندگی ایک خوبصورت اور دل آویزنغمے کی طرح ہے‘ اگر اس میں سارے ساز ایک خاص ترتیب میں بج رہے ہوں‘ اگر الفاظ‘ آواز اورساز کا سنگم ہو تو یہ نغمے کی شکل اختیار کر لیتی ہے ورنہ یہ ایک بے ہنگم شور بن جاتی ہے‘ انسان کو چاہئے وہ جب آگے بڑھ رہا ہو تو وہ اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں کو لے کر آگے بڑھے ‘ وہ دولت‘ عہدے اور سٹیٹس کے ساتھ ساتھ اپنی جسمانی ساخت‘ ذہنی پرورش اور اپنی روحانی نشوونما کا بھی خیال رکھے۔ میں نے زندگی میں ایسے بے شمار لوگ دیکھے ہیں جن کے پاس بے تحاشا پیسہ تھا لیکن انہیں کھانا کھانے‘ بات کرنے اور اٹھنے بیٹھنے کی تمیز نہیں تھی‘ وہ اس قدر کنجوس اور بخیل تھے کہ ان سے بخل اور کنجوسی کی باقاعدہ بو آتی تھی‘ وہ ارب پتی ہونے کے باوجود بھکاری تھے‘ وہ ہر وقت جوڑ توڑ ‘ منافع خوری اور جمع تفریق میں لگے رہتے تھے لہٰذا ان کی ساری دولت‘ ان کی ساری کامیابی ایک مذاق‘ ایک قہقہے اور ایک طنز کی شکل اختیار کر گئی تھی اور ان کے پاس اس مذاق کو برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا‘ ان کا کیا قصور تھا؟ ان لوگوں کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے ترقی اور خوشحالی کے ساتھ اپنا دل کھلا نہیں کیا ‘ انہوں نے اپنے ہاتھ کو نہیں کھولا‘ انہوں نے اپنا ظرف وسیع نہیں کیا ‘ انہوں نے اپنے دماغ کے کینوس کو وسعت نہیں دی اور انہوں نے اپنا حوصلہ‘ ہمت اور برداشت نہیں بڑھائی تھی چنانچہ یہ لوگ کامیاب ہو کر بھی ہار گئے۔ یہ مار کھا گئے‘‘ وہ خاموش ہو گئے ‘ شیخ صاحب نے پوچھا ’’مجھے کیا کرنا چاہئے تھا‘‘ وہ فوراً بولے’’دولت اور کامیابی اپنے ساتھ ہمیشہ منفی جذبوں کا لشکر لے کر آتی ہے‘ یہ آپ کے پاس ہمیشہ غرور‘ تکبر‘ نفرت‘ جہالت‘ ظلم‘ زیادتی اور کنجوسی لے کرآتی ہے لیکن آپ کا اصل کمال یہ ہونا چاہئے کہ آپ نا صرف اس لشکر کو پسپا کر دیں بلکہ آپ اپنے مثبت جذبوں کی طاقت میں بھی اضافہ کرلیں‘ آپ اپنی برداشت‘ خوش مزاجی‘ عاجزی‘ انکساری‘ ظرف اور حلیمی میں اضافہ کر لیں‘ آپ اپنے مطالعے اور گفتگو کو پالش کر یں اور آپ اپنے ردعمل کو دھیما‘ مزاج کو ٹھنڈا اور طبیعت کو مہربان کر لیں‘ آپ اپنی کامیابی کو اللہ کا کرم تسلیم کر لیں اور اللہ کے بندوں کے ساتھ محبت اور مہربانی سے پیش آئیں اور آپ اپنی دولت کے ساتھ ساتھ اپنی چیرٹی میں بھی اضافہ کر دیں‘ آپ کی عزت‘ شہرت اور اطمینان خود بخود بڑھ جائے گا‘ لوگ آپ کے سامنے اور آپ کی پشت دونوں پر آپ کا احترام کریں گے‘‘ وہ رکے‘ انہوں نے تھوڑی دیر سوچا اور دوبارہ بولے ’’یقین کیجئے جس کامیابی کے ساتھ انکساری نہ ہو‘ جس خوشحالی کے ساتھ ذہانت نہ ہو‘ جس اقتدار کے ساتھ برداشت نہ ہو‘ جس اختیار کے ساتھ صبر نہ ہو‘ جس ترقی کے ساتھ رحم نہ ہواور جس دولت کے ساتھ ظرف نہ ہو وہ دنیا میں بحران ثابت ہوتی ہے‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
میں نے شیخ صاحب کی طرف دیکھا‘ انہوں نے اطمینان سے سر ہلا دیا‘ میں آگے بڑھا اور میں نے عرض کیا ’’جناب میں بھی ایک عجیب مسئلے کا شکار ہوں‘‘ انہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا‘ میں نے عرض کیا ’’لیکن میں اپنا یہ مسئلہ آپ کے سامنے اگلے جمعے کو رکھوں گا‘‘ انہوں نے قہقہہ لگایا اور اٹھ کر اندر چلے گئے۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…