انقلابی

9  جولائی  2016

(زیروپوائنٹ )جاوید چودھریڈاکٹر اخلاق سے میری ملاقات ان کے پانچ سالہ بیٹے نے کرائی تھی‘ یہ دو سال پہلے کی بات تھی‘ میں اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں کھڑا تھا‘ میرے ساتھ میرے ایک دوست تھے‘ ہم وہاں کافی پی رہے تھے‘ ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے اور اپنے گرد موجود رونق دیکھ رہے تھے‘ میرے دوست نے کافی کا آخری سپ لیا اور کاغذی کپ فٹ پاتھ پر پھینک دیا‘ فٹ پاتھ سے گزرتے ایک صاحب نے کپ پر پاؤں رکھا

اور اسے کچل کر گزر گئے ‘ میں نے بھی آخری گھونٹ بھرا اور اپنے دوست کی تقلید میں کپ فٹ پاتھ پر پھینک دیا‘ چند لمحے بعد یہ کپ بھی کچلا گیا‘ ہم دونوں دوبارہ گفتگو میں مصروف ہوگئے ‘ ذرا دیر بعد پانچ سال کا ایک معصوم سا بچہ وہاں آیا‘ اس نے سب سے پہلے ہمارے پھینکے ہوئے کپ اٹھائے اور ہمارے قریب آ کر بولا ’’ انکل آپ نے فٹ پاتھ پر گند ڈال دیا تھا‘‘ ہم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا‘ بچہ بہت معصوم‘ خوبصورت اور با اعتماد تھا‘ وہ ہمیں اپنی طرف متوجہ پا کر بولا ’’ آپ اجازت دیں تو میں آپ کے کپ ڈسٹ بین میں پھینک دوں ‘‘ ہم حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے‘ بچہ چند قدم آگے بڑھا اوراس نے ہمارے کپ ڈسٹ بین میں پھینک دیئے‘ میں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا ’’ آپ کو یہ کس نے بتایا تھا ‘‘ بچہ بڑی معصومیت سے بولا ’’ میرے پاپا نے‘ میرے پاپا کہتے ہیں انسان کو خود گند ڈالنا چاہیے اور نہ دوسروں کو ڈالنے دینا چاہیے‘‘ میرے اور میرے دوست کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی‘ میں نے پوچھا ’’ آپ کے پاپا کون ہیں اور اس وقت کہاں ہیں‘‘ بچے نے فوراً جواب دیا ’’ ان کا نام ڈاکٹر اخلاق ہے اور وہ سامنے والی دکان سے سی ڈیز خرید رہے ہیں‘‘ میں نے بچے سے فرمائش کی ’’ آپ مجھے اپنے پاپا کے پاس لے جائیں‘‘

بچے نے میری انگلی پکڑی اور مجھے سی ڈیز کی دکان میں لے گیا۔ڈاکٹر اخلاق اور ان کی بیگم سی ڈیز دیکھ رہے تھے‘ بچے نے انہیں دیکھتے ہی نعرہ لگایا ’’ پاپا میں ایک اور گندے انکل کو لے آیا ہوں ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے گھبرا کر میری طرف دیکھا اور معذرت خواہانہ لہجے میں مجھ سے بولے ’’ میں معافی چاہتا ہوں میرے بیٹے کی وکیبلری بڑی کمزور ہے اور یہ بعض اوقات ۔۔۔۔۔۔ ‘‘ میں نے فوراً ان کی بات کاٹ دی

’’ بچہ ٹھیک کہہ رہا ہے میں اور میرا دوست واقعی گندے انکل ہیں‘ ہم اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں گند پھیلاتے رہتے ہیں‘‘ ڈاکٹر مسکرائے اور شرمیلے شرمیلے انداز سے بولے ’’ ہم اپنے بچے کو شروع دن سے صفائی کی ٹریننگ دے رہے ہیں چنانچہ اسے اب جہاں کہیں گند نظر آتا ہے یہ صاف کرنا شروع کردیتا ہے‘ یہ دوسروں کو ٹوکتا بھی رہتا ہے‘‘ میں نے ان سے بیک گراؤنڈ پوچھی تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا ’’ جب یہ پیدا ہواتھا تو ہم نے سوچا تھا

ہم اپنے بچے کو کون سی ایسی عادت دے سکتے ہیں جس سے یہ خود بھی اچھی زندگی گزار سکے اور معاشرے میں بھی تبدیلی لے آئے‘ ہم نے بڑے غور وغوض کے بعد اسے صفائی کی ٹریننگ دینے کا فیصلہ کیا‘ ہم نے اس کی پیدائش کے ایک ہفتے بعد اس کی صفائی کا خاص خیال رکھنا شروع کردیا‘ اس کے ہاتھ ‘ منہ یا پاؤں پر پانی کا چھینٹا تک پڑتا تھا تو ہم فوری طور پراسے صاف کرتے تھے‘

ہم دن میں کئی بار اس کی چادر‘ اس کے کپڑے اور اس کے سرہانے بدلتے رہتے تھے چنانچہ جب یہ چھ مہینے کا ہوا تو اسے صفائی کی عادت پڑ گئی اور یہ ذرا سا بھی گندا ہوتا تھا تو یہ اونچی آواز میں رونا شروع کردیتا ‘ ہم نے اس کے کمرے میں دو خوبصورت ڈسٹ بین بھی رکھوا دی تھیں‘ ہم اس کے سامنے اس کے کمرے کی خراب اور گندی چیزیں اٹھا کر اس ڈسٹ بین میں ڈالتے رہتے تھے لہٰذا جب اس نے کرالنگ شروع کی یا یہ چلنے لگا

تو یہ خود ہی اپنے کمرے کے مسلے کچلے ٹشو پیپر ‘ فالتو چیزیں اور لفافے اٹھا کر ڈسٹ بین میں ڈالنے لگا بعد ازاں جب دو سال کی عمر میں یہ ہمارے ساتھ باہر آنے لگا تو اسے راستے میں جہاں گند نظر آتا تھا یہ اسے اٹھا کر فوراً ڈسٹ بین تلاش کرتاتھا‘جب اس نے بولنا شروع کیا تو یہ آپ جیسے لوگوں کو ٹوکنے بھی لگا‘ مجھے معلوم ہے دوسروں کو ٹوکنا اچھی بات نہیں ہوتی اور بعض اوقات لوگ اس حرکت پر ناراض بھی ہو جاتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں

میرے بیٹے کی یہ عادت اچھی ہے اور اس کا معاشرے کو تھوڑا ہی سہی مگر فائدہ ضرورہے ‘‘میری ڈاکٹر اخلاق سے دوستی ہوگئی اور میں انہیں کبھی کبھار ملنے لگا‘ ان ملاقاتوں کے دوران معلوم ہوا‘ یہ دونوں باپ بیٹے اتوار کے دن بڑے بڑے شاپنگ بیگ لے کر گھر سے نکلتے ہیں‘ ہاتھوں پر دستانے چڑھاتے ہیں اور اسلام آباد کی کسی بڑی مارکیٹ سے لفافے‘ٹشو پیپر ‘ ریپر‘ کاغذ کی پلیٹیں اور ڈسپوزبل کپ چنتے رہتے ہیں‘

یہ دونوں بعد ازاں یہ شاپنگ بیگ کچرے کی ٹوکریوں میں ڈال دیتے ہیں‘ میں نے ایک بار ڈاکٹر صاحب سے پوچھا ’’ ہم من حیث القوم بڑے گندے لوگ ہیں ‘ آپ اس ملک کا کتنا گند چن لیں گے ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر جواب دیا ’’ ہمارے ملک میں تین قسم کے لوگ ہیں ‘ گند ڈالنے والے‘ گند نہ ڈالنے والے اور دوسرے کا پھیلایا گند چننے والے‘ ہم دونوں کیلئے اتنا کافی ہے ہم پہلی قسم کے لوگوں میں شمار نہیں ہوتے‘ ہم دوسری اور تیسری قسم کے لوگ ہیں‘‘

میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ کی اس کوشش کا اب تک کیا نتیجہ نکلا‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’ میرے بیٹے کو دیکھ کر اب میرے بھتیجے ‘ بھتیجیاں اور بھانجے بھانجیاں بھی گند نہیں ڈالتے‘ میرے بیٹے نے سکول میں اپنا ایک گروپ بھی بنا لیا ہے‘ اس گروپ کے بچے بھی گند ڈالتے ہیں اور نہ کسی کو ڈالنے دیتے ہیں‘ یہ مجھے بتاتا رہتا ہے اب اس کا فلاں کلاس فیلو بھی شہر میں کسی کو گند ڈالتے دیکھتا تو وہ بھی انکل کا ہاتھ پکڑ کر انہیں سمجھانے بجھانے لگتا ہے

لہٰذا میں دیکھ رہا ہوں آج سے پانچ برس پہلے میں نے جس ایک بچے کو ٹرینڈ کیا تھا وہ بچہ اب آہستہ آہستہ دوسرے بچوں کو بھی تبدیل کر رہا ہے‘اب فرض کریں اگر میرا بیٹا اگلے پانچ سات برسوں میں بیس پچیس بچوں کو صفائی کی عادت ڈال دیتا ہے اور یہ بیس پچیس بچے دس دس بچوں کو متاثر کر لیتے ہیں اور یہ سارے بچے آپ جیسے پڑھے لگے لوگوں کو متوجہ کر لیتے ہیں تو آپ غور کیجئے ہم کتنا بڑا انقلاب لے آئیں گے‘‘

میں نے ان سے پوچھا ’’ مگر مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی‘ آپ لوگ ہمیشہ ڈسپوزبل کپ‘ پلیٹیں ‘ریپر ‘ ٹشو پیپرز اور لفافے ہی کیوں اٹھاتے ہیں اور ہمیشہ بڑی مارکیٹوں ہی میں یہ کارنامہ کیوں سرانجام دیتے ہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے قہقہہ لگایا ’’ مجھے یقین تھا آپ مجھ سے یہ ضرور پوچھیں گے ‘ آپ بھی دوسرے لوگوں کی طرح یہ سوچ رہے ہوں گے ہمارا یہ کام دکھاوا ہے ‘‘ میں خاموش رہا ‘

ڈاکٹر صاحب بولے ’’ آپ بتائے ڈسپوزبل کپ اور ٹشو پیپرز کون لوگ استعمال کرتے ہیں؟‘‘ وہ رکے اور دوبارہ گویا ہوئے ’’یقیناً یہ چیزیں پڑھے لکھے‘ مڈل اور اپر کلاس کے لوگ استعمال کرتے ہیں اور دوسرا بڑی مارکیٹوں میں ہمیشہ ایلیٹ کلاس کے لوگ آتے ہیں اور ہمارا ٹارگٹ پڑھے لکھے اور مڈل اور اپر کلاس کے لوگ ہیں‘ ہم یہ سمجھتے ہیں اگر پاکستان کا پڑھا لکھا اور بالائی طبقہ سدھر جائے‘ اگر وہ صفائی کو اپنی عادت بنالے تو پورا ملک ٹھیک ہو سکتا ہے

کیونکہ یہ لوگ با اثر بھی ہوتے ہیں اور با رسوخ بھی اور لوئر طبقے ہمیشہ ان کی روایات‘ عادتوں اور رویوں کی تقلید کرتے ہیں چنانچہ ہم دونوں باپ بیٹا آپ جیسے لوگوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں ‘‘ میں نے پوچھا ’’ آپ کو اس کام میں کوئی خاص کامیابی حاصل ہوئی ‘‘ وہ مسکرائے ’’ ہاں میرے بیٹے نے اپنا پورا سکول صاف ستھرا کردیا ہے‘ یہ اپنے دوستوں اور اپنی ٹیچرز کے ساتھ گروپ کی شکل میں ہوتے ہیں‘

سکول سے نکلتے ہیں اور مارکیٹوں میں جا کر لوگوں کو صفائی کا سبق دیتے ہیں‘ یہ دکانداروں سے ڈسٹ بین رکھنے کی درخواست بھی کرتے ہیں اور انہیں راستے میں کوئی ٹوٹا اور بھراہوا کچرا گھر نظر آجائے تو یہ سی ڈی اے کے دفتر میں فون بھی کردیتے ہیں اور جب تک سی ڈی اے کا عملہ نہ آجائے یہ فون کرتے رہتے ہیں چنانچہ میں یہ سمجھتا ہوں ہم خاموشی سے ایک ایسا انقلاب لا رہے ہیں جو ہمارے لوگوں کی حالت بدل دے گا‘‘

ڈاکٹر اخلاق کا کہنا تھا ’’ ہم لوگوں کو سیاست‘ قانون اور آئین کے ساتھ ساتھ ایسے بنیادی ایشوز پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ جب تک کوئی قوم یا معاشرہ صفائی کی عادت نہیں ڈالتا اس وقت تک اس میں حس جمال پیدا نہیں ہوتی اور جب تک کسی ملک میں جمالیاتی حسیں جنم نہیں لیتیں اس وقت تک اس ملک کے سسٹم ٹھیک نہیں ہوتے ‘‘ میں ڈاکٹر صاحب سے اتفاق نہیں کرتا لیکن میں جب بھی کوئی ٹشو پیپر یا کوئی ڈسپوزبل کپ سڑک پر پھینکنے لگتا ہوں

تو بے اختیار میرا ہاتھ رک جاتا ہے اور مجھے محسوس ہوتا ہے ابھی ڈاکٹر اخلاق کا بیٹا آئے گا اور مجھ سے کہے گا ’’ انکل یہ گندی بات ہے ‘‘ میں کپ ڈسٹ بین میں پھینکتا ہوں اور سوچتا ہوں ’’ اگر انقلاب سوچ اور عمل کا نام ہے تو ڈاکٹر اخلاق اور ان کا بیٹا اس حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…