اصل طاقت

8  جولائی  2016

تحریر:جاوید چوہدری‎
چار سال کی عمر میں وہ سڑک پر گرا اور اس کے بائیں بازو کی نشوونما رک گئی‘ اس کا بایاں بازو موٹائی‘ چوڑائی اور لمبائی میں دائیں سے چھوٹا رہ گیا‘ وہ بائیں ہاتھ سے چیزیں پکڑ لیتا تھا‘ وہ اس ہاتھ کی انگلیوں سے چھوٹی موٹی چیز اٹھا اور کھول بھی سکتا تھا لیکن جہاں وزن زیادہ ہو جاتا تھایا پھر زیادہ زور لگانا پڑتا وہاں اس کا بایاں بازو بے بس ہو جاتا تھا اور وہ بیچارگی سے اس بازو کی طرف دیکھ کر رہ جاتا تھا۔ دس سال کی عمر میں اس نے جوڈو سیکھنے کا فیصلہ کیا‘ وہ جوڈو کے ایک کلب میں گیا‘ استاد نے اس کا بازو دیکھااور فوراً انکار میں سر ہلا دیا‘ وہ دوسرے کلب چلا گیا لیکن وہاں سے بھی اسے جواب مل گیا۔ وہ مایوس ہوگیا لیکن اس نے جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا‘ وہ دوسرے کے بعد تیسرے اور تیسرے کے بعد دسویں کلب کی سیڑھیاں چڑھتا اور اترتا چلا گیا لیکن کامیابی نہ ہوئی لیکن پھر ایک شام اسے استاد مل گیا‘ استاد کا نام ’’سن سی‘‘ تھا‘ سن سی نے اس کا سوکھا ہوا بازو دیکھا‘ ذرا دیرسوچا اور مسکرا کر بولا ’’تم جوڈو سیکھ سکتے ہو لیکن تمہیں ذرا سی زیادہ محنت کرنا پڑے گی‘‘۔ وہ استاد کے سامنے جھکا ‘ اس نے ’’زیادہ محنت‘‘ کا حلف اٹھایا اور یوں جوڈو اور استاد سن سی کے ساتھ اس کا نہ ختم ہونے والا تعلق پیدا ہو گیا۔ یہ جاپان کے ایک جوڈو چیمپئن کی کہانی ہے‘ اس چیمپئن نے ’’اوساکا‘‘ شہر میں آنکھ کھولی تھی اور میں پچھلی سطروں میں بتا چکا ہوں‘ یہ شخص بچپن سے ایک بازو سے ذرا سا معذور تھا اور وہ اس معذوری کے ساتھ جوڈو نہیں سیکھ سکتا تھا لیکن پھر اسے ’’سن سی‘‘ جیسا استاد مل گیااورسن سی نے اس کی تربیت شروع کی اور وہ سن سی کے دئیے اسباق سیکھتا چلاگیا‘ وہ جب برائون بیلٹ تک پہنچا تو ایک دن اسے معلوم ہوا اس کے استاد نے اب تک صرف ایک ’’موو‘‘ سیکھائی ہے ‘وہ اپنے حریف کو صرف دائیں جانب سے پکڑنے اور اٹھا کر پھینکنے کا ماہر تھا‘وہ دل گرفتہ ہوا‘اس نے استاد سے وجہ پوچھی ‘ اس کا کہنا تھا ’’میرے ساتھی دونوں بازوئوں سے ’’مووز‘‘ کر سکتے ہیں لیکن آپ نے مجھے صرف دائیں بازو کی مووز سکھائیں‘ میں بائیں بازو سے بھی موو کرنا چاہتا ہوں‘‘ استاد نے قہقہہ لگایا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جواب دیا ’’بے وقوف بچے اللہ تعالیٰ نے تمہیں بائیں بازو کی کمزوری کی شکل میں بہت بڑی نعمت سے نوازا ہے‘ تم صرف ایک مووسے چیمپئن بن سکتے ہو‘ تم اپنی پریکٹس جاری رکھو دنیا تمہارے معذور بازو کی پرستش کرے گی‘‘ اس کیلئے استاد کی بات عجیب تھی‘ وہ دل سے اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں تھا لیکن مارشل آرٹ میں استاد کا کہا حرف آخر ہوتا ہے چنانچہ وہ خاموش ہوگیا‘ اس نے ادب سے سر جھکایا اور اپنی واحد ’’موو‘‘ کو بہترسے بہتربنانے میں مصروف ہوگیا۔ سترہ سال کی عمر میں وہ پہلی بار ’’رِنگ‘‘ میں اترا‘ یہ آل جاپان جوڈو چیمپئن شپ کا مقابلہ تھا‘ وہ ’’رِنگ‘‘ میں آیا اور اس نے چند ہی لمحوں میں اپنے حریف کو چاروں شانے چت کر دیا‘ دوسرا مقابلہ ذرا سا سخت تھا لیکن وہ یہ مقابلہ بھی جیت گیا‘ تیسرا مرحلہ آیا تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے اس مرحلے سے بھی گزر گیا‘ اس دوران جاپان کے سارے میڈیا پر اس کی خبریں اور رپورٹیں چلنے لگیں‘ وہ یہ خبریںاور رپورٹیں دیکھتا تو اس کا سیروں خون بڑھ جاتا۔ وہ اوساکا سے نکلا اور ٹوکیو پہنچ گیا‘ ٹوکیو میں اس کا سیمی فائنل تھا‘ سیمی فائنل شروع ہوا اور وہ یہ میچ بھی جیت گیا‘ یوںوہ جاپان کا پہلا جوڈو پلیئر بن گیا جو صرف ایک ’’موو‘‘ کے ذریعے کامیاب ہوتا چلا جا رہا تھا‘ یہ جوڈو کی تاریخ کی بہت بڑی کامیابی تھی لیکن ابھی آخری مرحلہ باقی تھا‘ ابھی چیمپئن کا فائنل میچ ہونا تھا اور اگر وہ ایک بار یہ میچ بھی جیت جاتا تو جوڈو کی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہو جاتی۔ اس کا فائنل جوں جوں نزدیک آتا جا رہا تھا وہ نروس ہوتا جا رہا تھا‘ وہ جب بھی اپنے استاد سے اس نروس نس کے بارے میں بات کرتا تو ’’سن سی‘‘ مسکرا کر اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتاتھا جس سے اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوجاتا لیکن اس کے پاس فائنل میچ کھیلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسی گھبراہٹ اور نروس نس میں فائنل کا وقت ہو گیا‘ وہ جب رِنگ میں اترنے لگا تو ’’سن سی‘‘ اس کے قریب آیا‘ اس کا ماتھا چوما اور اس کے کان پر جھک کر بولا ’’اگر تم آج ہار گئے تو ثابت ہو جائے گا دنیا کا کوئی معذور شخص جوڈو نہیں سیکھ سکتا‘ آج دنیا کے تمام معذور بچے تمہاری جیت کا انتظار کررہے ہیں‘‘ اس نے پریشانی کے عالم میں استاد کی طرف دیکھا اور رِنگ میں کود گیا‘ یہ میچ بہت مشکل تھا‘ اس کا مقابلہ ایک ایسے شخص کے ساتھ تھا جو عمر‘ تجربے اور طاقت میں اس سے کئی گنا بھاری اور بڑا تھا اور یہ شخص پچھلے تین برسوں سے چیمپئن بھی چلا آرہا تھا‘ میچ کے ابتدائی رائونڈ میںیوں محسوس ہوتا تھا وہ یہ میچ ہار جائے گا لیکن تیسرے رائونڈ میں اس کے حریف نے ایک سنگین غلطی کی اور اس نے اسے اٹھا کر نیچے پٹخ دیا‘ حریف نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ اٹھ سکا اور یوں جاپان کی تاریخ میں پہلا معذور کھلاڑی جوڈوچیمپئن بن گیا‘ وہ جوڈو کی نئی تاریخ کا بانی تھا۔
وہ ’’سن سی‘‘ کے ساتھ سٹیڈیم سے نکلا اور راستے میں اس نے استاد سے پوچھا ’’استاد میں چیمپئن کیسے بن گیا‘‘ سن سی نے قہقہہ لگایا اور اپنے لمبے گھنگھریالے بالوں پر ہاتھ پھیر کر بولا ’’صرف اور صرف اپنی معذوری کے ذریعے‘‘ وہ غور سے اپنے استاد کی طرف دیکھتا رہا‘ استاد بولا ’’تم بائیں بازو سے معذور تھے لہٰذا تم جانتے تھے تمہارے پاس صرف دایاں بازو ہے اور تم نے صرف اور صرف اس بازو کی مدد سے زندگی کی بازی جیتنی ہے چنانچہ مقابلے کے دوران تم اپنی ساری قوت دائیں بازو میں منتقل کر دیتے تھے جبکہ تمہارے حریف کی قوت دو بازوئوں میں تقسیم ہوتی تھی۔ نمبر دو‘ تمہارے حریف جانتے تھے تمہارا بایاں بازو کمزورہے لہٰذا وہ ہمیشہ تمہارے بائیں طرف اٹیک کرتے تھے اور وہ حملے کے دوران یہ فراموش کر بیٹھتے تھے تم دائیں بازو کی ’’موو‘‘ کے ماہر ہو چنانچہ وہ جوں ہی تمہاری بائیں جانب اٹیک کرتے تھے تم انہیں اپنے دائیں بازو میں الجھاتے تھے اور اٹھا کر نیچے پھینک دیتے تھے‘‘ استادرکا اور مسکرا کر بولا ’’میرے بچے تمہاری کمزوری ہی بنیادی طور پرتمہاری سب سے بڑی طاقت تھی اور یاد رکھو قدرت جب کسی انسان کو کسی جانب سے معذور بناتی ہے تو وہ اسے دوسری جانب سے ’’کمپیٹنٹ‘‘ کر دیتی ہے‘ وہ اس کے کسی دوسرے عضو کو زیادہ طاقتور اور مضبوط بنا دیتی ہے اور تمہارے دائیں بازو میں تمہارے بائیں بازو کی قوت بھی موجودتھی لہٰذا تم جیت گئے‘‘ اس نے غور سے استاد کو دیکھا ‘ وہ جھکا اوردائیںہاتھ سے اپنے استاد کے پائوں چھوئے اور یہ ہاتھ اپنے بائیں بازو پر رگڑنا شروع کر دیا‘ اسے اس دن اپنے بائیں بازو کی معذوری پر بڑا پیار آ رہا تھا۔
میں نے یہ کہانی بچپن میں پڑھی تھی‘ مجھے ابھی تک یاد ہے میں یہ کہانی پڑھ کر اپنے والد کے پاس جا کر بیٹھ گیا تھا‘ میرے والد ایک نیم پڑھے لکھے شخص ہیں‘ ان کا تعلیمی سلسلہ دوسری جماعت میں پہنچ کر رک گیا تھا‘ وہ بمشکل دستخط کر سکتے ہیں یا چھوٹی موٹی رقمیں جمع تفریق کر سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہوںنے کاروبار کیا اور زندگی میں لاکھوں‘ کروڑوں روپے کمائے‘ وہ ہر مہینے دس‘ بیس اور پچاس لاکھ روپے تک کا لین دین کرتے تھے‘ پانچ چھ بینکوں میں ان کے اکائونٹس تھے لیکن وہ یہ حساب کتاب کسی جگہ نہیں لکھتے تھے ‘ یہ سب فگر‘ یہ سارے اکائونٹس ان کے دماغ میں رہتے تھے ‘ میں نے اس دن ان سے پوچھا تھا ‘وہ یہ سب کچھ کیسے ’’مینج‘‘ کرلیتے ہیں‘ انہوں نے پنسل سے کاغذ پر لکیر کھینچی تھی اور فرمایاتھا ’’میں جانتا ہوں میں ان پڑھ ہوں اور میں لین دین کا حساب کتاب نہیں رکھ سکتا چنانچہ میں کاغذ اور پنسل کا کام اپنے دماغ سے لیتا ہوں‘ میں چھوٹی سی چھوٹی رقم کو اپنی یادداشت کا حصہ بنا لیتا ہوں‘ میری یہ یادداشت میری طاقت ہے‘ اگر میں پڑھا لکھا ہوتا تو میں کتابوں اور کھاتوں کا محتاج ہوتا اور شائد اتنا کامیاب نہ ہو سکتا‘‘ مجھے اس وقت اندازا ہوا ہم لوگ جس چیز کو اپنی خامی‘ اپنی کمزوری اور اپنی معذوری سمجھتے ہیں وہ بنیادی طو رپر ہماری طاقت‘ ہماری خصوصیت ہوتی ہے‘ بس ہم نے اس معذوری اور اس خامی کا کوئی متبادل تلاش کرنا ہوتا ہے۔ دنیا میں جو لوگ اپنی خامیوں اور اپنی معذوریوں کا متبادل تلاش کر لیتے ہیں ‘ جو لوگ اپنے جسم کی کسی اضافی خوبی یا طاقت تک پہنچ جاتے ہیں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور جو لوگ اپنی اضافی خوبی ڈسکور نہیں کرپاتے‘ جو اللہ کی نعمت اور خصوصیت تک نہیں پہنچ پاتے‘ وہ زندگی بھر اپنی خامیوں اور معذوریوں پر آنسو بہاتے رہتے ہیں اور یوں زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
کل شام ایک نوجوان میرے پاس آیا اور مجھ سے کہنے لگا ’’میں بہت غریب ہوں‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے عرض کیا ’’تم غریب نہیں ہو‘ تم بے وقوف ہو‘‘ اس نے غصے سے میری طرف دیکھا ’’میں نے عرض کیا بے وقوف شخص دنیا کا ہر کامیاب انسان کبھی غریب تھا‘ غربت وہ طاقت ہوتی ہے جو انسانوں کو کامیابی تک لے جاتی ہے اور تم اپنی اصل طاقت کو معذوری سمجھ رہے ہو‘‘۔وہ چپ چاپ چلا گیا‘ وہ شائد میرے ساتھ خفا تھا۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…