’’ڈیڈ بس پانچ منٹ اور‘‘

7  جولائی  2016

تحریر:جاوید چوہدری‎’’ فہد بیٹا جلدی کرو‘ میں لیٹ ہو رہا ہوں‘‘ بوڑھے نے آواز لگائی اور اپنے پوتے کی طرف دیکھنا شروع کردیا‘ بچہ جھولے پر جھول رہا تھا‘ اس نے جھولتے جھولتے جواب دیا ’’ڈیڈ بس پانچ منٹ اور ‘‘ بوڑھا ہنسا اور قطعی لہجے میں بولا ’’ یہ آخری پانچ منٹ ہوں گے‘ کم آن‘ ہری اپ‘ آئی ایم گیٹنگ لیٹ‘‘ بچہ جواب دیئے بغیر جھولے پر جھولتا رہا‘ میں یہ کھیل پچھلے آدھ گھنٹے سے دیکھ رہا تھا‘ یہ اسلام آباد کا ایک پارک تھا‘

پارک میں بچوں کے جھولے لگے تھے اور درجنوں بچے ان جھولوں پر جھول رہے تھے‘ میں اپنے بچوں کے ساتھ پارک گیا تھا‘ میرے بچے جھولوں کی طرف بھاگ گئے تھے اور میں بینچ پر بیٹھ گیاتھا‘ مجھے ابھی بیٹھے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی‘ یہ بزرگ بے شمار غبارے‘ رنگ برنگے سٹف ٹوائے اور کھانے کی ڈھیر ساری اشیاء کے ساتھ وہاں آئے اور ایکسکیوزمی کہہ کر میرے ساتھ بیٹھ گئے‘ ان کا پوتا بھی اچھلتا کودتا ان کے پاس آگیا‘ بابا جی نے یہ ساری چیزیں اس کے حوالے کردیں‘ پوتے نے ان کے گال چومے اور غبارے ہوا میں چھوڑنا شروع کردیئے‘ جوں ہی کوئی غبارہ ہوا میں اڑتا دونوں خوشی سے قہقہے لگاتے اور تالیاں پیٹتے‘ غبارے اڑانے کے بعد بچے نے ایک ایک کرکے تمام پیکٹ کھولے‘ ان میں سے تھوڑی تھوڑی چیزیں نکالیں‘ چکھیں اور سارے لفافے بینچ پر الٹ دیئے‘ باباجی کو یہ حرکت بری لگی اور وہ اسے ڈانٹ کر بولے ’’ بری بات فہد یہ بدتمیزی ہوتی ہے ‘‘بچے نے قہقہے لگانا شروع کردیئے‘ باباجی چند لمحے منہ پھلا کر بیٹھے رہے لیکن پھر وہ بھی ہنس پڑے‘ بچہ تمام پیکٹوں سے فارغ ہو کر دوبارہ جھولے پر چڑھ گیا اور اس کے بعد پانچ منٹ کا ڈائیلاگ شروع ہوگیا‘ پانچ منٹ بعد باباجی گھڑی کی طرف دیکھتے‘ سر اٹھاتے اور ’’ فہدبیٹا جلدی کرو‘ میں لیٹ ہو رہا ہوں‘‘ کی آواز لگاتے اور اس کے جواب میں بچہ جھولے پر جھولتے جھولتے ’’ ڈیڈ بس پانچ منٹ اور ‘‘ کی صدا لگاتا

اور دوبارہ جھولنے میں مصروف ہو جاتا ‘ بابا جی پانچ منٹ بعد اسے دوبارہ یاد کراتے لیکن وہ ’’ ڈیڈ بس پانچ منٹ اور‘‘ کا نعرہ لگا کر اس طرح جھولتا رہتا۔میں بڑے غور سے یہ منظر دیکھتا رہا‘ مجھے باباجی اور وہ بچہ عام سے لوگ محسوس ہو رہے تھے‘ پاکستان کے اکثر بزرگ اپنے پوتوں اور نواسوں کو اسی طرح پارکس میں لے کر جاتے ہیں‘ بچے ان کے ساتھ اسی طرح لاڈ کرتے ہیں اور بزرگ آخر میں انہیں اسی طرح دھمکا کر واپس لے جاتے ہیں

‘ مجھے وہ بزرگ بھی معمول کے باباجی محسوس ہو ئے‘ بس ان میں ایک چیز دوسروں سے مختلف تھی‘ باباجی انتہائی کلچرڈ اور پڑھے لکھے تھے‘ انہوں نے شاندار سوٹ پہن رکھا تھا‘ ان کے بوٹ پالش سے چمک رہے تھے اور ان کے کپڑوں سے بڑی اچھی خوشبو آرہی تھی‘ جبکہ بچہ ان سے ذرا مختلف تھا‘ اس میں اکھڑ پن اور ناشائستگی تھی‘ وہ ذرا سا باغی اور غیر مہذب بھی تھا‘

میں نے سوچا جس طرح امیر لوگوں کے بچے زیادہ لاڈ پیار سے خراب ہو جاتے ہیں اسی طرح یہ بھی ایک ’’سپائلڈ چائلڈ ‘‘ ہے‘ دولت ہمیشہ انسان کی اخلاقیات بدل دیتی ہے‘ شاید یہی وجہ ہے دنیا کے اکثر دولت مند خاندانوں کے بچے کسی نہ کسی حد تک غیر مہذب اور بدتمیز ہوتے ہیں‘ اس بچے میں بھی یہ چیز موجودتھی‘ وہ بگڑے ہوئے رئیسوں کی اولاد نظر آرہا تھا اور اس نے اپنے دادا کی کوئی عادت نہیں اپنائی تھی‘

دادا ایک صاف ستھرا اور شائستہ شخص تھا جبکہ بچے کے بوٹ دھول سے اٹے ہوئے تھے‘ کپڑوں پر کھانے پینے کی اشیاء کے داغ لگے تھے‘ اس کی کہنیوں اور گھٹنوں پر میل تھی‘ اس کے دانت بھی صاف نہیں تھے اور وہ بار بار ٹشو کو ناک سے رگڑتا تھا اور بعد ازاں اس ٹشو کو نہایت بے پروائی سے نیچے پھینک دیتا تھا‘ مجھے دادا اور پوتے کے اس تہذیبی فرق کی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی۔

شام کے چھ بج چکے تھے‘ بچے نے جھولتے جھولتے ٹائم پوچھا ‘ باباجی نے وقت بتایا ‘ بچے کو کرنٹ سا لگا‘ اس نے جھولے سے چھلانگ لگائی ‘ بھاگ کر باباجی کے پاس آیا اور اپنی سانس سنبھالتے بولا ’’ انکل میری امی میرا انتظار کر رہی ہو گی‘ آپ مجھے میرے پیسے دیں‘ میں کل پھر آ جائوں گا‘‘ میں اس کی بات پر حیران رہ گیا وہ بچہ ایک منٹ پہلے باباجی کو ڈیڈ کہہ رہا تھا لیکن چندہی سیکنڈ میں باباجی انکل ہوگئے ‘

باباجی نے بڑی شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور لجاجت سے بولے ’’ بیٹا پلیز تم مزید پانچ منٹ جھولا لے لو‘‘ بچے نے فوراً انکار میں سر ہلایا اور ٹھوس لہجے میں بولا ’’ میں لیٹ ہو گیا ہوں‘ میری امی مجھے ڈانٹے گی‘ آپ میرے پیسے دیں‘ میں نے گھر جانا ہے‘‘ باباجی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ تھرتھراتی آواز میں بولے ’’ پلیز بیٹا بس آخری پانچ منٹ‘‘ لیکن بچے نے زور زور سے انکار میں سر ہلانا شروع کردیا‘

یہ اصرار ذرا دیر تک جاری رہا جب بچہ ٹس سے مس نہ ہوا تو باباجی نے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا‘ سو روپے کا نوٹ نکالا اور بچے کے ہاتھ میں تھما دیا‘ بچے نے نوٹ پکڑا اور بائے انکل کا نعرہ لگا کر پارک کے گیٹ کی طرف دوڑ لگا دی‘ بابا جی ذرا دیربچے کو دیکھتے رہے‘ اس دوران باباجی کی آنکھوں سے پانی کی لکیریں نکل نکل کر ٹھوڑی پر جمع ہوتی رہیں‘ انہوں نے کوٹ کی جیب سے رومال نکالا‘ منہ پر پھیرا

اور اپنے آنسو پورے چہرے پر مل دیئے‘ میں نے پانی کی بوتل چپکے سے ان کی طرف بڑھا دی‘ انہوں نے چونک کر میری طرف دیکھا‘ بوتل پکڑی اور بڑے مہذب لہجے میں میرا شکریہ ادا کیا‘ وہ گھونٹ گھونٹ پانی پیتے رہے اور پارک میں اچھلتے کودتے بچوں کو دیکھتے رہے‘ انہوں نے مجھے بوتل واپس کی اور مسکرا بولے ’’ آپ کیا کرتے ہیں ‘‘ میں نے جواب میں اپنا پیشہ اور اپنی بیک گرائونڈ بتا دی‘

وہ سیدھے ہو کر بیٹھے اور ذرا سے تیز لہجے میں بولے ’’ میں پھر آپ کو اپنی کہانی ضرور سنائوں گا لیکن اس وعدے کے ساتھ کہ آپ اسے ہزاروں لاکھوںوالدین تک پہنچائیں گے‘‘ میں نے حامی بھر لی‘ باباجی بولے ’’ یہ میرا کرائے کا بیٹا تھا‘ اس کا نام علی ہے لیکن میں اسے روزانہ ایک گھنٹہ کیلئے فہد بنا دیتا ہوں‘ میرا اس کے ساتھ ایگریمنٹ ہے‘ میں اسے ایک گھنٹے کے سو روپے دوں گا اور اس کے بدلے میں یہ میرے غبارے اڑائے گا‘

میری دی ہوئی چیزوں کے پیکٹ کھول کر انہیں بکھیر دے گا اور میں اسے فہد بیٹا جلدی کرومیں لیٹ ہو رہا ہوں ‘ کہوں گا اور یہ اس کے جواب میں ڈیڈ بس پانچ منٹ اور کہے گا اور ٹھیک چھ بجے مجھ سے سو روپے لے کر گھر چلا جائے گا‘‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ’’ فہد میرے اکلوتے بیٹے کا نام تھا‘ وہ چھوٹا تھا تو میں بزنس کی مصروفیت میں پھنس گیا‘ میں روزانہ چودہ چودہ گھنٹے کام کرتا تھا

اور ہفتے کے چار دن دوسرے شہروں میں رہتا تھا‘ فہد پورا بچپن میرا راستہ دیکھتا رہا‘ اس کی شدید خواہش تھی‘ میں اسے پارک میں لے کر جائوں اور وہ میرے ساتھ خوب کھیلے‘ میں ہر بار اس کے ساتھ پروگرام بناتا تھا لیکن عین وقت پر کوئی نہ کوئی مصروفیت نکل آتی تھی لہٰذا انہیں وعدوں کے درمیان فہد بڑا ہوگیا اور میں نے اسے پڑھنے کیلئے امریکہ بھجوا دیا‘ وہ چار سال باہر رہا لیکن جس دن اس نے واپس آنا تھا

اس دن نیویارک میں اس کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ مجھے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر چلا گیا‘ اس کی موت کے چند دن بعد اس کی ماں بھی اس کے پاس چلی گئی اور میں دنیا میں اکیلا رہ گیا‘ مجھے اس وقت اندازہ ہوا میں نے معیشت کی دوڑ دھوپ میں خود کو زندگی کی کتنی بڑی نعمت اور خوشی سے محروم رکھا‘ ہمارے بچوں کو پیسے‘ گاڑی اور چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی‘ انہیں ہمارا ساتھ‘ ہمارا ہاتھ اور ہمارا وقت چاہیے ہوتا ہے

‘ وہ ہمیں اپنے ساتھ بھاگتا دوڑتا اور ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم انہیں چیزوں‘ گاڑیوں‘ گھروں اور پیسوں سے بہلاتے رہتے ہیں چنانچہ وہ ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی اپنا پورا بچپن یتیمی میں گزار دیتے ہیں‘ مجھے فہد کے بعد معلوم ہوا ہماری زندگی کا شاندار وقت وہ ہوتا ہے جو ہم اپنے بچوں کے ساتھ گزارتے ہیں لیکن ہم یہ وقت اپنے دفتروں‘ اپنی نوکریوں اور اپنی معاشی جدوجہد میں ضائع کر بیٹھتے ہیں یہاں تک کہ ہمارے بچے بڑے ہو جاتے ہیں‘

وہ ہم سے دور چلے جاتے ہیں یا پھر فہد کی طرح ہمیں چھوڑ جاتے ہیں اور اس وقت ہمیں معلوم ہوتا ہے ہماری اصل زندگی تو پارک کا یہ بینچ اور یہ جھولا تھا‘‘ وہ رکے ‘ انہوں نے آنسو پونچھے اور بولے ’’ اور آج میں روزانہ یہاں آتا ہوں‘ اپنے کرائے کے بیٹے کے منہ سے ڈیڈ بس پانچ منٹ اور سنتا ہوں اور رات کو کمرے میں بند ہو کر روتا رہتا ہوں لیکن وقت واپس نہیں آتا‘ میرا بیٹا‘ اس کا بچپن اور اس کی ضدیں واپس نہیں آتیں‘‘

وہ رکے اور میری طرف دیکھ کر بولے ’’ تم بتائو کیا آج میری یہ ساری دولت مجھے میرا بیٹا اور اس کا بچپن واپس کر سکتی ہے ‘‘ وہ رکے چند لمحے سوچا اور دوبارہ بولے ’’ دنیا کی ساری دولت مل کر بھی ایک لمس‘اس کی ایک ضد اوراس کا ایک قہقہہ نہیں دے سکتی‘ میں دنیا کا کتنا بدنصیب شخص ہوں‘ انہوں نے آنسو پونچھے اور میری طرف دیکھے بغیر پارک کے اندھیرے میں گم ہوگئے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…