چھ وکٹوں کی قیمت پر

27  جون‬‮  2016

تحریر(جاوید چوہدری) زیروپوائنٹ/اس کے چہرے پر کسی قسم کی ندامت‘ کوئی پریشانی نہیں تھی‘ میں اس کا اطمینان دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ وہ بچے کا رزلٹ کارڈ دیکھ رہا تھا‘ مسکرا رہا تھا اور ٹیچر کو یقین دلا رہا تھا ’’ہم اگلی ٹرم میں امپروو کر لیں گے‘‘ جبکہ میں کبھی اپنے بچے کا رزلٹ دیکھتا تھا‘ اپنے بیٹے کی طرف دیکھتا تھا‘ اس کی طرف دیکھتا تھا‘ اس کے بیٹے کی طرف دیکھتا تھا اور پھر دائیں بائیں دیکھتا تھا۔

ہم بچوں کی کارکردگی دیکھنے سکول آئے تھے‘ میرے بچے کے نمبر بہت کم تھے‘ میں اس پر نادم بھی تھا اور پریشان بھی۔ میرے ساتھ ایک صاحب بیٹھے تھے‘ ان کا بیٹا ساتوں مضامین میں فیل تھا لیکن ان کے چہرے پر کسی قسم کی پریشانی نہیں تھی‘ ان کا بیٹا بھی مطمئن تھا۔ میں دنیا کے اس عجیب و غریب باپ بیٹے کے رسپانس پر حیران تھا۔ہم سب اپنے بچوں کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں‘ ہم انہیں ہمیشہ ٹاپ کرتا دیکھنا چاہتے ہیں‘ ہم انہیں دس‘ بارہ سال کی عمر میں افلاطون بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور دنیا کے ذہین ترین بچے بھی۔ ہم میں سے شائد ہی کوئی والد یا والدہ ہو گی جو اپنے بچوں کیلئے میڈل‘ ایوارڈ یا پرائز کی خواہش نہ رکھتی ہو‘ جو اپنے بچوں کیلئے تالیاں نہ سننا چاہتی ہو لیکن جب ہمارے بچے فیل ہو جاتے ہیں یا ان کے نمبر زکم آتے ہیں یا یہ آخری درجوں میں پاس ہوتے ہیں تو ہماری خواہشوں کو دھچکا لگتا ہے اور ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ میں بچوں کی وجہ سے چودہ‘ پندرہ سالوں سے سکولوں کے چکر لگا رہا ہوں‘ میں نے ان چودہ‘ پندرہ برسوں میں بڑے بڑے مشہور‘ نامور اور طرم خان قسم کے لوگوں کو ٹیچرز‘ ٹیوٹرز اور پرنسپلز کے سامنے روتا دیکھا‘ میں نے دیکھا وہ لوگ جو پورے زمانے کو آگے لگا کر پھرتے ہیں وہ اپنے بچوں کی وجہ سے سکول میں ناک سے لکیریں نکال رہے ہیں

اور بچے اطمینان سے انہیں لکیریں نکالتے دیکھ رہے ہیں۔ اولاد والدین کی باپ ہوتی ہے‘ یہ آپ کی نفسیات‘ آپ کی کمزوریوں اور آپ کی خامیوں سے واقف ہوتی ہے چنانچہ یہ آپ کو تگنی کا ناچ نچا دیتی ہے اور میں نے سکولوں میں والدین کو یہ ناچ ناچتے دیکھا۔ میں بھی بہت جلد پریشان ہونے والا باپ ہوں‘ میں بھی دوسرے والدین کی طرح بہت جلد ’’پینک‘‘ کر جاتا ہوں لیکن وہ مجھ سے اور میرے جیسے والدین سے بالکل مختلف والد تھا‘

وہ بیٹے کی ناکامی پر مسکرا رہا تھا‘ رزلٹ دیکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ بیٹے کو سمجھا رہا تھا ’’ہمیں پڑھائی پر بھی توجہ دینا پڑے گی‘‘ میں نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا‘ اس نے پیار سے میرا ہاتھ تھاما اور یوں ہم دونوں دوست بن گئے۔میں نے اس سے پوچھا ’’آپ بچے کے رزلٹ پر دکھی کیوں نہیں ہیں‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بیٹے سے پوچھا ’’بیٹا آپ کے نمبر کم کیوں آئے ہیں‘‘ اس کے بچے نے بڑے آرام سے جواب دیا

’’پاپا میں نے پڑھائی نہیں کی تھی‘‘ اس نے پوچھا ’’کیوں‘‘ بچے نے جواب دیا ’’میں وڈیوگیمز کھیلتا رہا اور فلمیں دیکھتا رہا‘‘ اس نے بیٹے سے پوچھا ’’آپ اب کیا کرو گے‘‘ بیٹے نے جواب دیا ’’میں چھ مہینے فلمیں نہیں دیکھوں گا‘ وڈیو گیم بھی نہیں کھیلوں گا اور پڑھائی پر توجہ دوں گا‘‘ اس نے بچے سے پوچھا ’’کیا آپ ٹاپ کر جائیں گے‘‘ بیٹے نے انکار میں سر ہلایا اور بولا ’’نہیں بہت مشکل ہے‘

میں دس سے پندرہ کے درمیان کوئی پوزیشن لے لوں گا‘‘ باپ نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ بیٹے نے جواب دیا ’’پاپا میرے کانسپٹ کلیئر نہیں ہیں‘ مجھے فزکس‘ کیمسٹری اور میتھ کی سمجھ نہیں آتی‘ رٹا لگانے سے آپ نے منع کر رکھا ہے چنانچہ میں پہلی پوزیشن حاصل نہیں کر سکوں گا‘‘ اس نے مکالمہ ادھورا چھوڑا اور میری طرف دیکھنے لگااور میں باپ اور بیٹے کی اس عجیب وغریب گفتگو کو حیرت سے دیکھ رہا تھا

وہ بولا ’’تعلیم اور تربیت میں جسم اور روح کا تعلق ہوتا ہے‘ تعلیم جسم ہوتی ہے اور تربیت روح‘ دنیا میں جس طرح روح کے بغیر جسم زندہ نہیں رہ سکتے بالکل اسی طرح تربیت کے بغیر تعلیم بھی بے معنی ہے‘ ہم اپنے بچوں کو مہنگی تعلیم دلاتے ہیں‘ ہم انہیں مہنگے سکول‘ مہنگے ٹیوٹر اور مہنگی کتابیں فراہم کرتے ہیں‘ ہم انہیں مہنگے لباس‘ گاڑیاں اور خوراک بھی دیتے ہیں لیکن ہم ان کی تربیت کا بندوبست نہیں کرتے‘ ہم انہیں سچ بولنے‘

اپنی ناکامی کو تسلیم کرنے‘ اپنی خامیوں کو سمجھنے‘ ارادہ کرنے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کی تربیت نہیں دیتے‘ ہم انہیں آہستہ بولنے‘ دوسروں کی رائے کا احترام کرنے‘ برداشت کرنے‘ فٹ پاتھ پر چلنے‘ دوسروں کو راستہ دینے‘ سرخ اشارے پر رکنے‘ سلام میں پہل کرنے‘ سچ بولنے اور تمام لوگوں کو اپنے برابر سمجھنے کی ٹریننگ نہیں دیتے‘ ‘ وہ رکا اور دوبارہ بولا ’’ لیکن میں نے اپنے بچوں کو یہ ٹریننگ دے رکھی ہے‘

ان کے نمبر کم آ جاتے ہیں‘ یہ فیل بھی ہو جاتے ہیں لیکن یہ کسی کے ساتھ بدتمیزی نہیں کرتے‘ یہ کسی کا حق نہیں مارتے‘ یہ کسی مجبور‘ کسی معذور کا مذاق نہیں اڑاتے‘ یہ ہارن نہیں بجاتے‘ یہ فٹ پاتھ پر نہیں تھوکتے‘ یہ منہ کھول کر جمائی نہیں لیتے‘ یہ چوری نہیں کرتے اور یہ جھوٹ نہیں بولتے‘‘ وہ رکااور بولا ’’ میرے بچے نمبر کسی بھی وقت لے لیں گے‘ یہ کسی بھی وقت پڑھنا شروع کر دیں گے

لیکن اگر ان کی تربیت کا وقت گزر گیا تو یہ زندگی میں کبھی اچھے انسان نہیں بن سکیں گے‘یہ حوصلہ مند نہیں ہو سکیں گے۔ آپ خود سوچیے اگر امتحان میں ٹاپ کرنے والا بچہ بدتمیز ہو‘ وہ ظالم ہو‘ وہ انسان کو انسان نہ سمجھتا ہو‘ وہ دھوکے باز اور جھوٹا ہو توآپ اسے کتنی دیر برداشت کریں گے‘ آپ اس کا کتنی دیر احترام کریں گے‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولا ’’ ہم دوسروں کو کامیابیوں‘ سرٹیفکیٹ‘ ایوارڈز اور تمغوں کی وجہ سے پسند نہیں کرتے‘

ہم انہیں ان کے ’’بی ہیوئرز‘‘ کی وجہ سے پسند یا نا پسند کرتے ہیں مگر پاکستان کا کوئی سکول بچوں کے ’’بی ہیوئرز‘‘ پر توجہ نہیں دیتا‘ ہم بچوں کو آرٹس سے لے کر سائنس اور میوزک سے لے کر بزنس تک تمام مضامین پڑھا دیتے ہیں لیکن ہمارے بچے اچھے شہری کیسے بن سکتے ہیں اور انہیں سوسائٹی میں ’’بی ہیو‘‘ کیسے کرنا چاہئے پاکستان کا کوئی سکول انہیں یہ ٹریننگ نہیں دیتا‘ پاکستان کے کسی سکول میں ’’بی ہیوئرز‘‘ کا مضمون نہیں پڑھایا جاتا‘

سچ کیوں اور کیسے بولنا چاہئے‘ دوسروں کی رائے کا احترام کیسے کرنا چاہئے‘ ہم شک سے کیسے بچ سکتے ہیں‘ ہم غصہ کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں‘ ہم خود کو حسد سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں‘ ہم زندگی میں آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں‘ ہم اپنے ملازمین‘ اپنے ساتھیوں کا خیال کیسے رکھ سکتے ہیں اور ہم ماحول کو صاف کیسے رکھ سکتے ہیں پاکستان کا کوئی سکول بچوں کو اس کی ٹریننگ نہیں دیتا

لیکن میں نے اپنے بچوں کو اس کی ٹریننگ دے رکھی ہے‘‘ میں نے تربیت کو تعلیم پر فوقیت دی ہے‘‘۔میں نے اس سے پوچھا ’’آپ کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا آپ کا بیٹا ٹاپ کرے‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’میرے دل میں بھی یہ خواہش پید اہوتی ہے لیکن پھر مجھے ارفع کریم رندھاوا یاد آ جاتی ہے‘ یہ پاکستان کی ذہین ترین بچی تھی‘ ارفع نے 2004ء میں نو سال کی عمر میں مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل (ایم سی پی ایس) کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘

یہ دنیا کی کم عمر ترین سافٹ وئیر انجینئر تھی‘ بل گیٹس نے اس کی ذہانت سے متاثر ہو کر اسے امریکا بلوایا‘ دنیا کے تمام بڑے چینلز اور اخبارات نے اس بچی کو کوریج دی‘ ارفع نے نو‘ دس سال کی عمر میں پاکستان کے تمام بڑے ایوارڈ بھی حاصل کئے‘ اس نے دوبئی میں دنیا کے بڑے آئی ٹی پروفیشنلز میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی‘ یہ مائیکرو سافٹ کی بارسلونا کانفرنس میں بھی شریک ہوئی اور اس نے دس سال کی عمر میں جہاز بھی اڑالیالیکن پھر کیا ہوا

ارفع کو 22دسمبر 2011ء کو سولہ سال کی عمر میں مرگی کا دورہ پڑا‘ یہ قومے میں چلی گئی اور یہ پچھلے 25دنوں سے ہسپتال میں موت وحیات کی کش مکش میں مبتلا ہے‘ بل گیٹس نے اس کیلئے امریکی ڈاکٹروں کی ٹیم کا بندوبست کیا مگر بچی آنکھ نہیں کھول رہی‘ اللہ تعالیٰ اس بچی کو زندگی بھی دے اور صحت بھی ۔ یہ پاکستان کی پہچان بھی ہے اور کروڑوں بچوں کیلئے مشعل راہ بھی لیکن اس کے باوجود میرا سوال اپنی جگہ پر قائم ہے‘

ارفع کی اس ساری ذہانت‘ سارے ایوارڈز اور ساری کامیابیوں کا کیا فائدہ ہوا؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہم جن چیزوں کو اپنا کمال‘ اپنی کامیابی اور اپنی اچیومنٹ سمجھ لیتے ہیں وہ ایک ٹھوکر‘ ایک معمولی سے ایکسیڈنٹ‘ ایک چھوٹے سے ہارٹ اٹیک اور چند لمحوں کی برین ہیمبرج کی مار ہوتی ہیں اور ہم چند لمحوں میں عالمی مسکین بن جاتے ہیں‘ ہماری کامیابی‘ ہماری اچیومنٹ ترس بن جاتی ہے

لہٰذا ہمیں ٹاپ پر پہنچنے کی بجائے صحت مند نارمل زندگی کی خواہش کرنی چاہئے لیکن ہائی ویلیوز کے ساتھ ہمیں چھکا ضرور مارنا چاہئے لیکن زندگی کی چھ وکٹوں کی قیمت پر نہیں کیونکہ آپ کامیاب ہو کر عبرت ناک انجام کا شکار ہو گئے یا آپ ٹاپ کرنے کے بعد بدتمیز ہو گئے تو اس کامیابی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ یہ بے معنی ہوگی‘‘۔

 

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…