آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر طویل کشکول

23  جون‬‮  2016

تحریر(جاوید چوہدری) زیروپوائنٹ

یہ کالم 25-06-2009کو شائع ہوا


ہالینڈ یورپ کا چھوٹا سا ملک ہے‘ یہ سطح سمندر سے ڈیڑھ میٹرنیچے ہے اور آپ گاڑی پر کسی سمت نکل جائیں ہالینڈ دوگھنٹے میں ختم ہو جائے گا۔ ہالینڈ کے پاس پچاس سال پہلے زمین تھی اور نہ ہی رزق لیکن پھر ہالینڈ کے لوگوں نے اپنے مقدر سے لڑنے کا فیصلہ کیا‘ انہوں نے سمندر کو زمین میں ڈھالنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ڈیم سکوائر ایمسٹرڈیم شہر کے مرکز میں ایک خوبصورت مقام ہے‘ اس سکوائر کی ایک جانب ایمسٹر ڈیم کا قدیم چرچ ہے‘ اس کے ساتھ پرانا شاہی محل ہے اور اس کے ساتھ قدیم طرز کے شاپنگ سنٹرز ہیں۔ یہ سیاحوں کا محبوب ترین مقام ہے‘ یہ سکوائر آج ایمسٹر ڈیم کا مرکزی حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ماضی میں شہر کا مرکز نہیں تھا۔ اٹھارہویں صدی تک ڈیم سکوائر شہر کی آخری حد تھی‘ آج جس جگہ شاپنگ سنٹرز ہیں وہاں تک سمندر ہوتا تھامگر پھر ہالینڈ کے لوگوں نے بیلجیئم اور فرانس سے مٹی اور ریت درآمد کرنا شروع کر دی‘ یہ ریت اور مٹی سمندر میں ڈالنے لگے جس کے بعد سمندر زمین کی شکل اختیار کرنے لگا۔ ہالینڈ کے لوگ آج اس زمین پر دس ‘ دس منزل کی عمارتیں‘ سڑکیں اور پارکس بنا رہے ہیں‘ زی برگ اور آئی برگ ایمسٹرڈیم کے جدید ترین علاقے ہیں‘ ان علاقوں میں بے شمار آفس ٹاورز‘ ہاؤسنگ سکیمیں‘ امپارٹمنٹس کی عمارتیں‘ شاپنگ سنٹرز‘ سڑکیں اور پارکس ہیں۔ یہ دونوں علاقے پچھلے تیس برسوں میں سمندر پر مٹی بچھا کر بنائے گئے ہیں اور انہیں دیکھ کر کوئی شخص یقین نہیں کرتاکہ کبھی اس جگہ سمندر ہوتا تھا۔ ہالینڈ کی حکومت اترش شہر سے بیلجیئم تک نئی سڑک بنا رہی ہے‘ اسے سڑک کی تعمیر کیلئے ریت درکار تھی اور ہالینڈ کے پاس ریت نہیں ۔ حکومت نے اس کا بڑا دلچسپ حل نکالا‘ حکومت نے بیلجیئم سے اترش تک پائپ لائن بچھائی اور پائپ کے ذریعے بیلجیئم سے ریت منگوانا شروع کر دی‘ اس تکنیک کی بدولت مہینوں کا کام دنوں میں انجام پانے لگا۔ ہالینڈ میں پانچ سال پہلے تک ہاؤس بوٹس ہوتی تھیں‘ یہ کشتیوں میں بنے ہوئے ایک اور دو کمروں کے ایسے گھر ہوتے تھے جن میں ضرورت کی تمام اشیاء ہوتی تھیں اور مکین انہیں کسی نہر‘ دریا یا سمندر میں کھڑا کر کے آرام سے زندگی گزار دیتے تھے لیکن پھرآبادی کا دباؤ بڑھنے کی وجہ سے یہ ہاؤس بوٹ ناکافی ہو گئیں چنانچہ حکومت نے ہاؤس بوٹ کی طرز پر ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف کرا دی۔ یہ فلوٹنگ ہاؤسز ٹیکنالوجی ہے‘ حکومت نے سمندر پر ہاؤسنگ کمپلیکسز بنانا شروع کر دئیے ہیں‘ ان ہاؤسنگ کمپلیکسز میں گھر بھی ہیں‘ فلیٹس بھی‘ شاپنگ سنٹرز بھی‘ چھوٹے چھوٹے پارکس بھی‘ مارکیٹس بھی اور سکول بھی اور یہ کمپلیکسز سڑکوں کے ذریعے شہر کے دوسرے حصوں سے بھی منسلک ہیں لیکن یہ کمپلیکس سمندر پر آباد ہیں‘ ان سے دو فٹ نیچے سمندر بہہ رہا ہے۔ ہالینڈ نے ان کمپلیکسز کیلئے ایسی ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے جس کی وجہ سے ان گھروں کے مکینوں کو جھٹکے محسوس ہوتے ہیں اور نہ ہی پیدل چلنے والوں کویہ احساس ہوتا ہے کہ وہ پانی پر چل رہے ہیں۔ یہ فلوٹنگ ہاؤسز آباد کاری کی دنیا میں ایک بڑا انقلاب ہیں کیونکہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے اب جھیلوں‘ دریاؤں اور سمندروں پر بھی بڑے بڑے شہر آباد کئے جاسکیں گے۔

ایمسٹر ڈیم سمندر کی سطح سے نیچے ہے چنانچہ شہر کے مقیم ہر وقت ڈوبنے کے خطرے کا شکار رہتے ہیں‘ ہالینڈ کے لوگوں نے اس کا بھی دلچسپ حل نکال لیا‘ انہوں نے شہر میں نہروں کا جال بچھا دیا‘ یہ نہریں میلوں دور بڑے بڑے ڈیموں کے ساتھ منسلک ہیں اور یہ ڈیم بعدازاں سمندر کے دوسرے کناروں پر کھلتے ہیں لہٰذا جب بھی سمندر میں طوفان آتا ہے تو اس طوفان کا پانی شہر کومتاثر کرنے کے بجائے نہروں میں پہنچتا ہے‘ نہروں سے ہوتا ہوا ڈیموں میں آتا ہے اور اگر یہ پانی ڈیموں کی کیپسٹی سے زیادہ ہو جائے تو ڈیم اسے سمندر کے پر امن کناروں کی طرف شفٹ کر دیتے ہیں یوں شہر کے لوگ سمندر کے بڑے سے بڑے طوفان میں بھی محفوظ رہتے ہیں۔ ہالینڈ میں دنیا میں سڑکوں کے نظام پر سب سے زیادہ ریسرچ ہوتی ہے‘ ہالینڈ نے ایک ایسی سڑک بنا لی ہے جس پر سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ گاڑی نہیں چلائی جا سکتی۔ اس سڑک پر گاڑی کی رفتار جوں ہی سو کلومیٹر سے زیادہ ہوتی ہے توگاڑی جھٹکے کھانے لگتی ہے چنانچہ ڈرائیور سپیڈ کم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہالینڈ نے گاڑیوں کیلئے ایک پروگرام بھی تیار کرا لیا ہے جو سڑک کی کنڈیشن اور ڈاؤن ٹاؤن میں ٹریفک کے بہاؤ کا اندازہ کر کے گاڑی کی رفتار خود بخود کم یا زیادہ کر دیتا ہے۔ یہ ایک بلیک باکس قسم کا آلہ ہے جو گاڑیوں میں لگا دیا جائے گا اور یہ گاڑیاں جونہی موٹروے سے ڈاؤن ٹاؤن میں داخل ہوں گی ان کی رفتار خود بخود ایک سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ سے پچاس کلومیٹر ہو جائے گی جبکہ گاڑیوں کی رفتار سکولوں اور ہسپتالوں کے قریب پہنچ کر تیس کلومیٹر ہو جائے گی اور ڈرائیور لاکھ کوشش کر لے وہ گاڑی کی رفتار نہیں بڑھا سکے گا۔ ہالینڈ کی حکومت کا خیال ہے وہ اس ٹیکنالوجی سے اربوں ڈالر کمائے گی۔ ہالینڈ نے پھولوں اور سبزیوں کو بھی دنیا کی بہت بڑی تجارت بنا دیا ہے۔ ایمسٹرڈیم کے نواح میں کوکن ہاف کا قصبہ ہے‘ اس قصبے میں مارچ سے مئی تک دنیا میں پھولوں کی سب سے بڑی نمائش لگتی ہے‘ اس نمائش میں پھولوں اور سبزیوں کی کروڑوں قسمیں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ نمائش میلوں لمبی ہوتی ہے اور لاکھوں لوگ بگھیوں اور گالف کاروں میں بیٹھ کر اس کی سیر کرتے ہیں۔ ہالینڈ میں پھولوں کی سات منڈیاں بھی ہیں‘ پھولوں کی سب سے بڑی منڈی ایمسٹرڈیم کے قریب السمیر میں ہے۔ اس منڈی میں روزانہ 16ملین ڈالرز کے پھول بکتے ہیں‘ منڈی ایک بہت بڑا کمپلیکس ہے جس میں سات آٹھ آکشن ہالز ہیں‘ روزانہ ہالینڈ کے طول و عرض سے کروڑوں کی تعداد میں پھول السمیر لائے جاتے ہیں‘ ساڑھے چار ہزار ملازم ان پھولوں کو صاف کرتے ہیں‘ ان کو پیک کرتے ہیں‘ انہیں گلدستوں کی شکل دیتے ہیں اور انہیں بعدازاں ویئر ہاؤس میں رکھ دیتے ہیں‘ یہ وئیر ہاؤس کلوز سرکٹ کیمروں کے ذریعے آکشن ہاؤسز کے ساتھ لنک ہیں‘ تاجر آکشن ہاؤس میں بولی دیتے ہیں اور بعدازاں یہ پھول بڑے بڑے ٹرالرز‘ بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ اس منڈی میں پھولوں کے دو ہزار کنٹینر روزانہ فروخت ہوتے ہیں اور پھولوں کی قریباً اڑھائی سو فلائٹس ایمسٹرڈیم سے روزانہ چلتی ہیں۔ ہالینڈ میں السمیر کے علاوہ اس قسم کی چھ منڈیاں ہیں اور ان میں بھی روزانہ کاروبار ہوتا ہے‘ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے ہالینڈ میں اتنے پھول آتے کہاں سے ہیں؟ یہ پھول ہالینڈ میں اگائے جاتے ہیں‘ ہالینڈ کے طول و عرض پر لاکھوں کی تعداد میں گلاس ہاؤسز ہیں‘ یہ گلاس ہاؤسز کئی کئی ایکڑ پر محیط ہیں‘ ان ہاؤسز کو پلاسٹک کی شیٹس سے کور کیا جاتا ہے اور ان کے اندر درجہ حرارت‘ آب پاشی‘ کیڑے مار ادویات اور کھاد کا کمپیوٹرائزڈ نظام نصب ہے۔ ایک خود کار نظام کے تحت وقت مقررہ پر پودوں پر پانی‘ ادویات اور کھاد کا چھڑکاؤ کر دیا جاتا ہے جبکہ بیرونی درجہ حرارت کے مطابق اندر کا ٹمپریچر بھی تبدیل ہوتا رہتاہے۔ ان گلاس ہاؤسز میں اربوں کی تعداد میں نایاب اور مہنگے پھول‘ غیر موسمی سبزیاں اور پھل اگائے جاتے ہیں۔ پھول چننے والے کارکن مشینوں کے ذریعے روزانہ پھول چنتے ہیں اور یہ پھول رات کے دوسرے پہر منڈی میں پہنچ جاتے ہیں۔
ہالینڈ ہم جیسی غریب قوموں کیلئے ریسرچ سنٹر کی حیثیت رکھتا ہے‘ یہ ملک ہم جیسے ملکوں کو سمجھاتا ہے دنیا میں اگر وسائل سے محروم کوئی ملک بھی ترقی کرنا چاہے تو اس کے بے شمار راستے موجود ہیں۔ انسان کو بس وژن اور محنت درکا رہے۔ آپ تصور کیجئے ہالینڈ جیسا ملک جس کا رقبہ محض 5ہزار 4سو 88 مربع کلومیٹر ہے اور جو سطح سمندر سے ڈیڑھ میٹر نیچے ہے اور جسے اللہ تعالیٰ نے مٹی اور ریت تک نصیب نہیں کی وہ ملک اگرپھول بیچ کر پاکستان کے کل بجٹ کے برابر رقم کما سکتا ہے ‘ وہ سمند رکو خشکی میں بدل سکتا ہے اور اس خشکی پرلوگوں کو آباد کر سکتا ہے تو پاکستان جیسا ملک جو دنیا کے ان دس ملکوں میں شمار ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کا موسم اور ہر قسم کی زمین دے رکھی ہے ہم اسے کیوں نہیں چلا سکتے‘ ہم لوگوں نے اس ملک کو8لاکھ 3ہزار 9سو 40 مربع کلومیٹر کا وسیع کشکول کیوں بنا دیا ہے ‘ ہم لوگ اپنے لئے گندم تک پیدا کیوں نہیں کر پا رہے اور ہمارے صدر صاحب پاکستانی عوام کیلئے در در بھیک کیوں مانگ رہے ہیں‘ ہمیں شرم سے ڈوب مرنا چاہئے۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…