ایک جوان کی داستان جس نے اپنی جان دیکر ملک کا قیمتی اثاثہ بچا لیا

31  جنوری‬‮  2019

اسلام آباد(سپیشل رپورٹ:فیصل ظہیر)سپیشل سروسز گروپ جسے حرفِ عام میں سیل گروپ بھی کہا جاتا ہے، ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں ہمیشہ سخت اور کٹھن کام سونپے جاتے ہیں جو عام سپاہ کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ چونکہ ان کاموں کی نوعیت انتہائی حساس ہوتی ہے اور ان میں کسی قسم کی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی لہٰذا سپیشل سروسز گروپ والوں کو تربیت کے نہایت کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ یہ افسر و جوان ہمہ وقت اپنی جان ہتھیلی پر لئے خطرات سے کھیلنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ہزارہ ڈویژن کے شہر ہری پور کے ایک معزز اورقابل قدر گھرانے میں آنکھ کھولنے والا امجد رزاق اور اس کے والدین اس حقیقت سے قطعی لاعلم تھے کہ ان کا بیٹا اس عظیم مقام کے لئے چن لیا گیا ہے جس تک پہنچنا ایک ایسا اعزاز ہے جو قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ وہ بچپن ہی سے جذبہ حب الوطنی او ر افواج پاکستان کی جانب لگا رکھتا تھا، تعلیمی منازل طے کرنے کے بعد1995میں امجد کا فوجی شوق پورا ہوا جب وہ پاک بحریہ میں شامل ہوگیا۔ اپنی جسمانی مضبوطی اور جوش و جذبے کے باعث و ہ اپنے بالا افسران کی نظر میں آگیا۔ چنانچہ تین سال کے مختصر عرصہ میں سپیشل سروسز گروپ کے لئے چن لیا گیا۔ وہاں کی کٹھن تربیت اور چیلنجوں نے امجد کے جوش و جذبے کو اور زیادہ ابھارا۔ یہی وجہ تھی کہ آرمی پیرا شوٹ ٹریننگ سکول سے اعزازی درجے کے ساتھ پیرا شوٹ اور سکائی ڈائی ونگ کی تربیت مکمل کرنے پر اسے مزید اعلیٰ تربیت کے لئے امریکہ بھیج دیا گیا۔ امجد کے اندر ایک بہت منفرد عادت تھی۔ وہ ہمیشہ بظاہر مشکل نظر آنے والی ڈیوٹی کوآگے بڑھ کر قبول کرتا تھا۔ شاید یہی عادت اسے اپنے قبیل میں منفرد بناتی تھی۔22مئی2011کی رات وہ کٹھن لمحہ آن پہنچا جس کا امجد بہت عرصہ سے منتظر تھا۔

یہ وہ دن تھا جب ملک دشمن عناصر، جنہیں عرف عام میں دہشت گردوں کے نام سے جاناجاتا ہے‘ نے پاکستان نیوی کی ایوی ایشن بیس پی این ایس مہران پر حملہ کر کے دفاع پاکستان کے ضامن اثاثوں کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ مگر وہ دہشت گر د اپنی منصوبہ بندی کرتے ہوئے غالباً یہ بھول گئے تھے کہ ان کا پالا کن سر فروشوں سے پڑرہا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ناموس پاکستان کے دفاع کی قسم کھائے ہوئے تھے۔دہشت گردوں کا حملہ ہوتے ہی ایس ایس جی (این) کو مہران بیس کا علاقہ کلیئر کرنے اور وہاں موجود دہشت گردوں کو ختم کرنے کا حکم ملا۔ ایس ایس جی (این) کے جوانوں کو بخوبی معلوم تھا کہ نہ تو یہ کوئی عام کارروائی ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی غلطی یا کوتاہی کی کوئی گنجائش موجودہے۔

دہشت گردوں نے یہ کارروائی کر کے گویا ان کی غیرت کو للکارا تھا۔ سو اب یہ کیسے ممکن تھا کہ یہ جانباز ان دہشت گردوں کو زندہ نکل جانے دیتے۔ بالکل یہی جذبات امجد رزاق اور ایس ایس جی (این) کے دیگر جوانوں کے تھے۔ بہر حال امجد اور اس کے ساتھیوں نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر کارروائی کا آغاز کردیا اور رات کے اندھیرے میں دہشت گردوں کی تلاش شروع کر دی۔ امجد کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کب اسے موقع ملے اور کب وہ ان کے بوجھ سے زمین کو آزادکروائے۔دہشت گرد، ایس ایس جی (این) کے اس اچانک اور زوردار حملے سے یکایک چکرا گئے اور پسپا ہو کراس جانب بڑھنے لگے جہاں ہوائی جہازوں کو رکھا جاتا تھا۔ دہشت گرد یہ جانتے تھے کہ ہوائی جہازوں کے آس پاس پناہ لینے سے ا ن کی بچت ہو سکتی ہے کیونکہ سپاہ براہ راست ان جہازوں کو نشانہ نہیں بنائے گی۔

امجد رزاق نے آڑ لے کر آگے بڑھنا شروع کیا۔اس دوران اسے ایک دہشت گرد نظر آیا جو مشین گن سے مسلح تھا اور اپنے دیگرساتھی دہشت گردوں کی حرکت کو کور کر رہا تھا۔ امجد کی حاضر دماغی کے باعث اسے سمجھ میں آگیا کہ اگر اس دہشت گرد کا صفایا نہ کیا گیا تو یہ پیش قدمی کرنے والی سپاہ کے لئے رکاوٹ بنا رہے گا اور انہیں نقصان پہنچاتا رہے گا۔ یہی وجہ تھی کہ امجد رزاق نے ایک جست لگا کر اس کو دبوچ لیا اور سنگین کے وار سے اس کا کام تمام کردیا۔ ایک دہشت گرد کو جہنم واصل کر کے امجددوبارہ آگے بڑھنے لگا۔

ان جانبازوں نے بہت سے دہشت گردوں کو چن چن کر نشانہ بنایا۔ اسی دوران راکٹ لانچر سے لیس ایک دہشت گرد نے امجداور اس کے ساتھیوں کی جانب ایک راکٹ داغ دیا جو ان جانبازوں کے بالکل قریب آکر پھٹا۔ اسی راکٹ کے کچھ ٹکڑے امجد کے ایک ساتھی کو لگے جن کے باعث وہ زخمی ہو کر گر پڑا۔ امجد نے فوراً اپنے اس ساتھی کو بچانے کے لئے دوڑ لگا دی۔ جیسے ہی امجد اپنے ساتھی کے قریب پہنچا، چھپے ہوئے دہشت گردوں نے اس پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ متعدد گولیاں ا س عظیم جانباز کے سینے کو چھلنی کرتی ہوئی گزر گئیں۔

امجد رزاق کے گرم و غیرت مند لہو کی دھار مٹی میں جذب ہو کر اسے مجاہد سے شہید کے رتبے پر فائز کر گئی۔دہشت گردوں کو کیفر کردار پہنچانے اور مہران بیس کو محفوظ کرنے کے بعد جب امجد رزاق کے ساتھی اس کے جسد خاکی کو اٹھانے کے لئے آئے تو اس شہید کے چہرے پر پھیلا اطمینان اور سکون دیکھ کر بخوبی یہ اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ چکا ہے۔جرات و بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کرنے پر پاک بحریہ کی اعلیٰ قیادت نے امجد رزاق کو ستارہ بسالت بعد از شہادت کے اعلیٰ اعزاز سے نوازا۔ ملک و قوم نے جو ذمہ داری اس کو سونپی تھی اس نے اسے پورا کر دیا۔ امجد رزاق کی قربانی تاحیات مشعل راہ ہے۔
بلند عزم، جری بدن، نظر میں خون
عظیم پیشہ بحر ہے میرا جنون
مانگے ہے پناہ مجھ سے ہر دم
غاصب و سفاک ہو یا دشمنِ ملعون



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…