موسادکی جاسوس صحافی : دنیائے جاسوسی کی قلوپطرہ

9  جنوری‬‮  2019

اسرائیل‘ امریکا اور یورپ کے ناجائز تعلقات سے پیدا ہونے والا ناجائزبچہ ہے۔ اس کی پیدائش میں اقوام متحدہ نے مڈ وائف کے فرائض انجام دیے جبکہ روس وہ پہلا ملک تھا جس نے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کیا۔موسادکا پورا نام ’’انسٹی ٹیوٹ فار انٹیلی جنس اینڈ اسپیشل سروسز‘‘ ہے۔موساد کی اعلیٰ کارکردگی یہودیوں کے مذہبی احساسات کی عکاس ہے۔ موسادکے لیے کام کرنے والے مرد ہوں یا خواتین ‘

دوسرے ممالک کے جاسوسی اداروں سے زیادہ تندہی کے ساتھ ہر خطرہ مول لے کر اسرائیل کو مستحکم کرنے کی خدمت بجا لاتے ہیں۔تاہم موساد کی ملکی مفاد کے نام پر کی گئی سازشوں اور دہشت گردی کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔قارئین ’’ملٹی وژن ‘‘ کے لئے موساد کی کھلی شر انگیزیوں کا جائزہ لیا گیا ہے؛ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ جرمن نازیوں نے 40 ء کے عشرے میں 60 لاکھ یہودیوں کا قتل کیا‘تاہم اس ’’حقیقت‘‘ میں کوئی سچائی نہیں۔ اسرائیلی حکومت اوریہودی اپنی نئی نسل کو ہر وقت اس قتل عام کی یاد دلاتے رہتے ہیں کہ کس طرح انہیں جانوروں کی طرح ذبح کیا گیا اور یہی خوف یہودیوں کے بے مثال اتحاد کی وجہ بھی ہے۔یہودیوں میںیہ عزم بھی پایا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔ موساد کی بنیاد رکھتے ہوئے اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے پہلے سربراہ’’ریووین صہیولا‘‘نے 1948ء کو ایک فرمان جاری کیا تھاکہ ہماری ریاست اسرائیل جواپنے وجود کے پہلے روز سے ہی خطرات میں گھری ہوئی ہے۔چونکہ خفیہ ایجنسی ہمارے لیے پہلی دفاعی لائن کا کام کرتی ہے۔ ہمارا محل وقوع مشرق وسطیٰ کے قلب میں ہے۔ اس لیے ہمیں ہر وقت اردگرد کے حالات سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔اسرائیل کی آباد کاری میں چاروں اطراف سے یہودی آکر آباد ہوئے ہیں۔ روس اور یورپ کے یہودی فوجی اہمیت کے حامل ہیں۔

ان لوگوں کا کلچر اور زندگی گزارنے کا طریقہ مختلف ہے۔ ان میں صرف مشترک یہودیت ہے۔ اس کے علاوہ دشمن کا خوف ان کو آپس میں جوڑے ہوئے ہے۔ اسرائیل کا ناپاک وجود امریکی حکومت اور وہاں کی یہودی تنظیموں کا مرہونِ منت ہے جوعالم اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر وقت مستعد اور متحد رہتی ہیں۔ موساد کے کئی ایسے ایجنٹ تھے جوروس سے بھاگ کر اسرائیل میں آباد ہوئے‘ اس لیے یہ لوگ روس اور اس کے خفیہ نظام کے متعلق بہت کچھ جانتے تھے۔ لہٰذا موساد نے امریکا کوروس کے متعلق بہت قیمتی معلومات فراہم کیں۔ صدر ناصر کے دور میں روسیوں کی طرف سے عربوں کو جدید ترین اسلحہ ملا کرتا تھا۔

اس اسلحہ کے متعلق مکمل تکنیکی معلومات اور ان کے خاکے موساد ہی کی وساطت سے امریکی اسلحہ سازوں تک پہنچتے تھے۔روسی ٹینک T۔72کا ماڈل بھی اسرائیلیوں نے امریکیوں تک پہنچایا۔ اس کے عوض امریکیوں نے اپنا ’’سپر الیکٹرانک سسٹم‘‘ اور اس کے متعلق مکمل راہنمائی اسرائیلیوں تک پہنچائی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بیگن‘ جولائی 1977 کو واشنگٹن یاترا کو گیا تو اس نے امریکی صدر جمی کارٹر کو خفیہ معلومات کی ایک فائل پیش کی جو امریکا کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔ 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے امریکا کو روس کے نئے میزائلوں کے کئی نمونے فراہم کیے۔

یہ ’’فضا سے زمین پر‘‘ اور ’’زمین سے فضا میں‘‘ مار کرنے والے دونوں طرح کے میزائل تھے۔شام اور مصر نے 1973کی جھڑپوں میں روس کا T۔72 ٹینک استعمال کیا تھا۔ موساد نے یہ ٹینک امریکا کو فراہم کیے۔ اس ٹینک میں ایسے خاص الخاص فلٹر لگے ہوئے تھے جو جراثیمی جنگ میں حفاظت کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ امریکی سائنس دانوں کو ان ٹینکوں سے بہت مفید معلومات ملیں۔ امریکا نے یہ معلومات نیا اسلحہ بنانے اور نئی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے استعمال کیں۔ T۔72 ٹینک جنگ کے دوران ’’مال غنیمت‘‘ کے طور پر اسرائیل کے ہاتھ آئے تھے۔

اسرائیلی ایجنسیوں نے ایران کو خفیہ طور پر اسلحہ فراہم کرکے ایک اور مثال قائم کی۔ اسلحہ کا خفیہ کاروبار کرنے والوں نے 1980میں امریکا میں بنے ہوئے جیٹ جنگی طیاروں کے لیے 259 فالتو ٹائر ایران کو فراہم کیے۔ اگلے سال ایران نے اسرائیل کی وساطت سے چھ کروڑ ڈالر کا اسلحہ خریدا۔ یہ راز اس وقت افشا ہوا جب ایک طیارہ قبرص سے ایران کو اسلحہ لے جاتے ہوئے راستہ میں دورانِ پرواز کھو گیا۔ تب پتا چلا کہ یہ ان بارہ طیاروں میں سے ایک تھا جو ایرانی ٹینکوں کو فالتوپرزے فراہم کرنے کے کام پر مامور تھے۔ ایران یہ ٹینک عراق کے خلاف جنگ میں استعمال کررہا تھا۔

اسرائیل نے کئی ایسے ممالک کو اسلحہ فروخت کیا جن کااقوام متحدہ اور امریکا نے اس سلسلے میں بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ مثلاً اقوام متحدہ نے شمالی افریقا کو اسلحہ بیچنے پر پابندی لگائی تو اسرائیل نے اسلحے سے لدے ہوئے 6 جنگی جہاز پیری ٹوریا کی حکومت کو فروخت کیے اور یہ اسلحہ موساد نے ہی خریداروں تک پہنچایا۔ اس اسلحہ میں سنچورین ٹینک‘ مارٹر‘ توپیں اور جبرائیل راکٹ بھی شامل تھے۔ اس سودے سے امریکی ناراض ہوئے لیکن لاڈلے بچے کو کچھ نہیں کہا۔چین کو راضی کرنے کے لیے امریکا نے جب تائیوان کو حملہ کے لیے استعمال ہونے والا اسلحہ دینا بند کر دیا تو اسرائیل نے1978میں اسلحہ بڑی مقدار میں تائیوان کو فروخت کیا۔ اس سودے میں 50 بمبار طیارے بھی تھے۔

یہ کام بھی موساد نے انجام دیا۔ اسی سال امریکی صدر جمی کارٹر نے نگارا گوا میں سیموسا کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا تو اسرائیل نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا اور اسے خود کار اسلحہ اور فوجی ٹرک فراہم کیے اور یوں وہاں کی خانہ جنگی طویل ہو گئی۔ اس طرح کی کارروائیوں میں اسرائیل نے 1950 کے عشرے میں بڑی دولت کمائی اور اسلحہ کی صنعت اس کی سب سے اہم صنعت بن گئی۔ اسرائیل کے جرائم کی یہ فہرست بہت طویل ہے۔ مصر میں کرنل ناصر نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو اس کے بعد امریکا کے وزیرخارجہ جان فاسٹرڈیس کو توقع تھی کہ مشرق وسطیٰ میں سوویت کمیونزم کے خلاف بند باندھنے میں مصر ہمارے ساتھ معاون ہو گا۔

اس بات کے شواہد بھی ملتے ہیں کہ کرنل ناصر کو اقتدار دلانے میں سی آئی اے کا ہاتھ ہے۔ حکومت برطانیہ اپنی فوجوں کو مصر سے نکالنے کے لیے جنرل ناصر سے کوئی سمجھوتا کرلینا چاہتی تھی۔ اس سلسلے میں برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے امریکی صدر آئزن ہاور کو اپنے منصوبے سے پوری طرح آگاہ کیا۔ یہ 1954 کے موسم گرما کی بات ہے۔ اس سلسلہ میں امریکا اور برطانیہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بارے میں اسرائیلی جاسوس ادارے نے دو دن میں تمام تفصیلات معلوم کر لیں اور اسرائیل کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ برطانیہ نے سوئز نہر خالی کروانے کے لیے منصوبہ بندی کر لی ہے۔

ان معلومات نے اسرائیلی حکومت کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ اسرائیل نے اس پر اپنا ردِ عمل یوں ظاہر کیا کہ مصر میں مقیم یہودیوں کے ذریعے قاہرہ اور اسکندریہ کے اندر برطانوی اور امریکی سفارت خانوں میں بموں کے دھماکے کروانے کا منصوبہ بنایا۔ اس سلسلے میں مصر میں یہودی تخریب کاروں کا ایک جال بچھایا گیا جس کی راہنمائی کاکام اسرائیل کی سرزمین سے موساد کے افسروں کے سپرد کیا گیا۔ ان تخریب کاروں کا نشانہ امریکی اور برطانوی سفارت خانہ تھا اور یہ کام مصری یہودیوں کے ذریعے انجام پانا تھا۔ اس لیے اندازہ یہ تھا کہ اگر کوئی پکڑا گیا تو کرنل ناصر کی توجہ فوری طور پر الاخوان المسلمین کی جانب مبذول ہو گی

جنہیں ناصر اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتا ہے۔ اس کام میں اسرائیل ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا تھا۔ ایک یہ کہامریکا و برطانیہ اور مصر کے درمیان ابھرنے والے خوشگوار تعلقات کو نقصان پہنچانا اور دوسرے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک الاخوان المسلمین کو ناصر کے ہاتھوں کچلوانا تھا۔ تخریب کاری کے لیے مصر کے کئی پرجوش یہودیوں کو بھرتی کیا گیا۔ ان میں دو کارکن بہت مشہور ہوئے۔ وکٹورین نینو اور دوسرا وکٹر سیوی۔ وکٹورین ایک انتہائی خوبصورت اور پرکشش یہودن‘ دوسرا ایک باہمت انجینئر۔خاتون جاسوس وکٹورین کو جاسوسی دنیا کی قلوپطرہ کہنا بے جانہ ہوگا۔ جولائی 1954ء کو انہیں حکم ملا کہ مصر اور امریکا کے درمیان ہونے والے معاہدے کو روکنے یا ملتوی کرنے کے لیے کچھ بھی ایسا کیاجائے جو مصر و برطانیہ کے سفارتی اور سیاسی تعلقات خراب کرنے کا سبب بن سکے‘

اورنہرسوئزکے علاقے میں تخریب کاری کے امکانات کیا ہیں۔ 14جولائی کو تخریب کار اسکندریہ میں امریکی مرکز اطلاعات کے کتب خانے میں آتش گیر مادہ رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کامیابی کے بعد انہوں نے کرنل ناصر کے انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر قاہرہ کے سینما گھروں اور مرکزی ریلوے اسٹیشن پر بم رکھے جن میں کوئی بھی وقت پر نہ پھٹ سکا۔ ان کی دوسری بدقسمتی یہ تھی کہ ایک 19 سالہ تخریب کار فلپ نتھین سن کی جیب میں رکھا ہوا بم وقت سے پہلے پھٹ پڑا۔ بم اسکندریہ کے سینما گھر میں رکھنا تھا۔ مصری پولیس کی اسپیشل برانچ کے کیپٹن حسن المنادی نے پھرتی اور مہارت سے کام لے کر مذکورہ تخریب کار کو بری طرح جلنے سے بچا لیا۔
چند گھنٹوں کے اندر مصری پولیس نے تخریب کاری کے پورے نیٹ ورک کو لپیٹ کر رکھ دیا۔

اس کارروائی کے چار دن کے بعد مصری سیکورٹی والوں نے فاتحانہ اعلان کیا کہ انہوں نے گیارہ تخریب کاروں کو گرفتار کیا ہے جن میں دس مرد اور ایک خاتون ہے۔ قاہرہ کے اخبارات نے اس کو خونخوار صہیونی ٹولہ کا نام دیا۔ ان تخریب کاروں میں ڈاکٹر مرمر ذوق اور سموئل آذر کو قاہرہ میں جنوری 1955 ء کو پھانسی دی گئی۔ خوبصورت یہودن کو 15 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس نے 2 مرتبہ خود کشی کی کوشش کی لیکن بچ گئی ۔ 1968 میں جنگی قیدیوں کے تبادلے میں وہ رہا ہو کر اسرائیل آئی۔ اسرائیل میں اس کا استقبال ایک قومی ہیروئین کے طور پر کیا گیا۔ 1971میں اس نے کرنل ایلی بوگرکے ساتھ شادی رچا لی۔ اس شادی میں اسرائیلی وزیر اعظم مسنرگولڈ امئیر اور اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے شرکت کی۔

اسرائیل تخریب کار پکڑے تو گئے لیکن وہ اپنے مقصد میں اتنے کامیاب ہو گئے کہ کرنل ناصر کی حکومت کو امریکا کے بجائے سوویت یونین سے جدید ترین اسلحہ کی زبردست کھیپ اور جیٹ لڑاکا طیارے ملنے شروع ہو گئے۔ برطانیہ ‘ فرانس اور اسرائیل نے مصر پر حملہ کرنے کی دھمکی دے دی۔ امریکی صدر آئزن ہاور کی سیاسی بصیرت کی داد دیں کہ اس کی ایک دھمکی نے ان خونخوار بھیڑیوں کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا لیکن کرنل ناصر سوویت یونین کا ہو کر رہ گیا اور اندرون ملک اس نے اخوان المسلمین پر مظالم ڈھائے۔

موساد یہودی عورتوں سے بھی کام لینا خوب جانتی ہے خصوصاً صحافی خواتین سے۔کہا جاتاہے کہ خواتین صحافی عموماً اپنے کام کے لیےجاسوسی کا کام کرتی ہیں۔ نشریاتی اداروں میں کام کرنے والی اکثر خواتین سے جاسوسی کا کام لیا جاتا ہے۔ ایسی خواتین اپنے اداروں کے انٹرویو ریکارڈ کرنے کے بہانے بڑی بڑی بااقتدار شخصیتوں سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ موساد کے لیے کام کرنے والی سلویا رافیل نامی ایک عورت کو ہم بطور مثال پیش کرسکتے ہیں۔ وہ اردن میں ایک فرانسیسی صحافی کے بھیس میں کام کرتی تھی تاکہ وہاں پر فلسطینیوں کی کارگزاریوں سے مکمل طور پر آگاہی حاصل کرے۔

دنیائے جاسوسی کی قلوپطرہ‘وکٹورین نینو
’’تخریب کاری کے لیے مصر کے کئی پرجوش یہودیوں کو موساد میں بھرتی کیا گیا‘ ان میں وکٹورین نینو بہت مشہور ہوئی ‘وکٹورین انتہائی خوبصورت اور پرکشش جاسوس تھی‘ اسے دنیائے جاسوسی کی قلوپطرہ بھی کہا جاتا ہے‘ مصری پولیس نے تخریب کاری کی کارروائی کے چار دن کے بعددس مرد اور ایک خاتون ایجنٹ کو گرفتار کر لیا‘ اخبارات نے انہیں خونخوار صہیونی ٹولہ کا نام دیا‘ تخریب کاروں میں ڈاکٹر مرمر ذوق اور سموئیل آذر کو جنوری 1955 ء میں پھانسی دیدی گئی۔ خوبصورت یہودن‘وکٹورین نینو کو 15 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس نے دوبار خود کشی کی کوشش کی لیکن بچ گئی ۔ 1968ء میں جنگی قیدیوں کے تبادلے میں وہ رہا ہو کر اسرائیل آئی‘جہاں اس کا استقبال قومی ہیروئین کے طور پر کیا گیا۔ 1971میں اس نے کرنل ایلی بوگرکے ساتھ شادی رچا لی۔ شادی میں اسرائیلی وزیر اعظم مسنرگولڈ امئیر اور اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے بھی شرکت کی۔

پروفیسر یحییٰ کابہیمانہ قتل: عراق کا ایٹمی پروگرام 2 برس پیچھے چلا گیا
ء1980 کے موسمِ گرما میں فرانسیسی پولیس کو پروفیسر یحییٰ المشہد کی لاش ملی۔ انہیں ہوٹل میریڈین میں خنجر کے وار سے نہایت بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ اڑتالیس سالہ عراقی نیوکلیئر سائنسدان امریکا اور ماسکو کا تعلیم یافتہ تھا اور ایک معاہدہ کے تحت عراقی حکومت کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کے منصوبہ پر کام کر رہا تھا۔ وہ فرانسیسی ایٹمی ایجنسی کی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے فرانس آیا ہوا تھا۔ اس کی موت پر اسرائیلی ریڈیو کا تبصرہ تھا کہ ’’ پروفیسر یحییٰ ان چند عرب سائنسدانوں میں سے تھے جو نیوکلیئر سائنس میں اچھی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ اس کی موت کے نتیجے میں عراق کا ایٹمی پروگرام 2 سال پیچھے چلا گیا ‘‘ فرانس میں ایسے بھی سائنسدان اور فنی ماہرین موجود تھے

جنہوں نے ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کے سلسلہ میں اسرائیل سے تعاون کیا تھا۔ اس وقت فرانس‘ اسرائیل کا زبردست حامی اور معاون تھالیکن بعد میں صدر ڈیگال نے اپنی اسرائیلی حمایت واپس لے لی۔ چونکہ موساد کی تکنیکی ٹیم فرانسیسی سائنسدانوں کے ساتھ مل کر کام کر چکی تھی اس لیے عراق کے ایٹمی پروگرام کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرنا ان جاسوسوں کے لیے کچھ مشکل کام نہ تھا۔ ایٹمی منصوبہ پر کام شروع ہوتے ہی موساد کے ان ایجنٹوں تک جو بغداد میں متعین اور موجود تھے ‘ تمام معلومات پہنچ گئیں۔ 1975 کے موسم بہار میں فرانسیسی کمپنی CNIM ( فرانسیسی نام کا مخفف ) نے عراق کے لیے ری ایکٹر مکمل طور پر تیار کر لیے۔

تمام سامان کریٹوں میں بند کرکے ورکشاپ میں رکھ دیے گئے اور ان کی سخت حفاظت کی جانے لگی لیکن سخت حفاظتی انتظامات موساد کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خود فیکٹری میں کام کرنے والے کچھ ماہرین سے موساد کے روابط تھے جن کے ذریعے ان ری ایکٹروں کے متعلق ساری معلومات اس تک پہنچ چکی تھیں۔موساد کے کارندوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ

آٹھ اپریل 1979 ء کو رات کے وقت یہ سامان ٹرکوں کے ذریعے فرانس کی بندرگاہ مارسیلز تک پہنچایا جائے گا اور پھر وہاں سے بحری جہازوں کے ذریعے عراق پہنچ جائے گا۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے موساد کے ایجنٹ دو دن پہلے ہی فیکٹری کے اندر گھسنے میں کامیاب ہو گئے اور اس ٹیم نے آتش گیر مادہ سے نیو کلیئر سامان کے اہم حصوں کو اڑا کر رکھ دیا۔ پولیس کی تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ فیکٹری میں داخل ہو کر کارروائی کرنے والوں کے پاس شیڈ کی دہری چابیاں تھیں۔ موساد کے ایجنٹ امریکا اور یورپی ممالک کے نمائندوں کے بھیس میں موجود ہوتے ہیں۔

وہ اپنے ملک (اسرائیل) کے مفادات کی نگرانی کے ساتھ سیاسی معلومات بھی اسرائیل کو پہنچاتے ہیں۔ موساد نے کئی سابقہ نازی افسروں کو قتل کیا ہے۔ سعودی حکمران شاہ فیصل شہید اور کئی اہم شخصیات کے قتل میں اسرائیلی موساد کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ دنیا کا بہترین جاسوسی ادارہ‘ سی آئی اے بہت زیادہ تکنیکی وسائل سے مالا مال ہے‘موساد کے متعلق امریکی سی آئی اے کی ایک رپورٹ کے یہ الفاظ ریکارڈ پر ہیں’’ روسی خفیہ ادارہ’’ کے جی بی‘‘ موساد سے بڑا اور منظم ادارہ ہے لیکن دشمن ممالک کسی اور جاسوسی ادارے سے اِتنے خائف نہیں ہوتے جتنے موساد سے‘‘۔

11 ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کی تنظیم موساد کا کردار ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس حوالے سے کافی باتیں سامنے آرہی ہیں۔قتل ‘ اغواء‘ تشدد اور اسی طرح کی دوسری ظالمانہ کارروائیاں موساد کی نظر میں غیر اخلاقی‘ غیر قانونی اور ظالمانہ کارروائیاں نہیں ہیں۔ موساد کے لوگ اخلاق‘ قانون اور انصاف کے تصورسے عاری ہیں۔ مسلمانوں خصوصاً عرب ممالک کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ان کا فرض اولین ہے۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…