٥٧ برس کی عمر میں موت کے قریب پہنچ کر وہ 97 برس کیسے زندہ رہا؟

15  جنوری‬‮  2019

جان ڈی راک فیلر سینئر 33 سال کی عمر میں لکھ پتی بن چکا تھا اور 43 سال کی عمر میں اس نے دنیا میں تیل کی سب سے بڑی کمپنی’’ سٹینڈرڈ آئل کمپنی‘‘قائم کرلی تھی۔ لیکن 53 سال کی عمر میں پریشانیاں اس پر غالب آچکی تھیں۔ تفکرات اور اعصاب زدگی کی زندگی اس کی صحت کا پہلے ہی دیوالیہ نکال چکی تھی۔ اس کے سوانح نگار جان کے ونکر کے الفاظ میں’’53 سال کی عمر میں وہ ایک حنوظ شدہ نعش کی مانند نظر آتا تھا‘‘

۔ 53 سال کی عمر میں ہاضمے اور معدے کی عجیب و غریب اور پراسرار بیماریوں نے راک فیلر پر حملہ کیا اور پلکوں سمیت اس کے سارے بال گرادیئے۔ صرف اس کی بھنوؤں کی ہلکی سی لکیر باقی رہ گئی۔ ونکر لکھتا ہے’’اس کی حالت اس قدر خطرناک ہوچکی تھی کہ وہ صرف دودھ پر گزارہ کرنے پر مجبور ہوگیا۔‘‘ عالم شباب میں راک فیلر کی جسمانی بناوٹ آہنی تھی۔ اس نے ایک زراعتی فارم پر پرورش پائی تھی اور اس زمانے میں اس کے بازو تنومند‘ اس کی کاٹھی مضبوط اور سیدھی‘ اس کی ٹانگیں لکڑی کی طرح سخت اور چال میں چستی چالاکی اور بندر کی سی پھرتی تھی لیکن صرف53 سال کی عمر میں جب اکثر لوگ بھرپور صحت مند زندگی گزار رہے ہوتے ہیں‘ اس کے کندھے خمیدہ ہوگئے اور اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہوگئی۔ اس کا ایک دوسرا سوانح نگار جان۔ ٹی۔ فلین کہتا ہے’’جب اس نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی تو اسے ایک بوڑھا آدمی نظر آیا۔ مسلسل کام‘ پیہم پریشانیاں‘ بے خواب راتیں‘ گالیوں کی بوچھاڑ‘ ورزش اور آرام کی عدم موجودگی اپنا رنگ دکھانے لگے۔‘‘ انہوں نے اس کے جسم کا رس نکال لیا اور اسے گھٹنوں پر جھکا دیا۔ وہ اب دنیا کا امیر ترین شخص تھا۔ پھر بھی اسے ایسی خوراک پر گزر بسر کرنی پڑتی جسے ایک بھکاری بھی ٹھکرا دے۔ اس کی ہفتہ وار آمدنی 10 لاکھ ڈالر تھی لیکن جو کچھ وہ کھاتا تھا‘ اس پر ایک ہفتے میں غالباً دو ڈالر سے زیادہ خرچ نہیں آتا تھا اور وہ کھاتا کیا تھا؟ دودھ اور چند بسکٹ۔ ڈاکٹروں نے اسے صرف یہی کھانے کی اجازت دی تھی۔

اس کی جلد کا رنگ اڑ چکا تھا۔ اسے سوائے معجزاتی علاج کے دنیا کی ایسی کوئی چیز نہ بچا سکتی تھی‘ جسے پیسوں سے خریدا جا سکتا ہو۔ یہ سب کیسے ہوا؟ پریشانیاں‘ تفکرات‘ صدمات‘ دباؤ اور کشمکش کی زندگی اور اعصابی تناؤ اس چیز کے ذمہ دار تھے۔ سچ پوچھئے تو وہ موت کی آغوش میں پہنچ چکا تھا۔ 23 سال کی عمر میں بھی راک فیلر اتنے آہنی عزم کے ساتھ اپنے نصب العین کے پیچھے لگا ہوا تھا کہ اس کے جاننے والوں کے الفاظ میں ’’اچھے سودے کی خبر کے سوا کوئی چیز اس کے چہرے کو گداز نہ کرسکتی۔‘‘ جب اسے کہیں سے معقول منافع ہوتا تو وہ ایک عجیب و غریب قسم کا جنگی رقص کرتا۔

اپنی ٹوپی اتار کر فرش پر پھینک دیتا اور ناچنے لگتا لیکن اگر اسے خسارہ ہوتا تو وہ بیمار پڑجاتا۔ اس نے ایک دفعہ گریٹ لیکس کے راستے 40 ہزار ڈالر کا اناج ایک دخانی جہاز پر باہر بھیجا۔ اس کا بیمہ نہیں کرایا گیا تھا کیونکہ رقم ’’بہت زیادہ‘‘ تھی۔ کتنی؟ ایک سو پچاس ڈالر۔ اس رات جھیل ایری میں خوفناک طوفان آیا۔ راک فیلر جہاز کے تباہ ہونے کے متعلق اس قدر متردد اور پریشان تھا کہ جب اس کا شریک کار جاج گارڈنر صبح کے وقت دفتر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ راک فیلر نہایت بے قراری سے فرش پر ٹہل رہا ہے۔ ’’جلدی کرو‘‘ اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا’’اگر دیر نہ ہوگئی ہو تو جلد از جلد جہاز کا بیمہ کرا لو۔‘‘ گارڈنر شہر کی طرف بھاگا اور بیمہ کرا آیا لیکن وہ واپس دفتر پہنچا تو اس نے راک فیلر کو پہلے سے بھی بدترین حالت میں دیکھا۔

گارڈنر کی عدم موجودگی میں ایک تار آیا تھا کہ جہاز لنگر انداز ہوچکا ہے اور طوفان سے بالکل صحیح سلامت نکل آیا ہے۔ اس کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی کیونکہ اس نے ڈیڑھ سو ڈالر خوامخواہ ضائع کردیئے تھے۔ اسے اس ’’نقصان عظیم‘‘ کا اس قدر صدمہ پہنچا کہ وہ شدید بخار میں مبتلا ہوگیا اور اسے گھر جاکر آرام کرنا پڑا۔
جب ڈاکٹروں نے راک فیلر کی زندگی بچانے کی ذمہ داری قبول کی تو انہوں نے اسے تین اصول بتائے‘ جن پر وہ آخری دم تک حرف بہ حرف عمل کرتا رہا اور وہ اصول مندرجہ ذیل ہیں:

ایک۔ فکر و تردد سے گریز کریں۔ کسی حالت میں بھی کسی چیز کے متعلق پریشان نہ ہوں۔

دو۔ اپنے جسم کو آرام پہنچائیے اور کھلی ہوا میں کافی دیر تک ہلکی ورزش کریں۔

تین۔ اپنی خوراک کا خاص خیال رکھیں۔ جب ابھی تھوڑی سی بھوک باقی ہو‘ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیں۔

جان ڈی راک فیلر ان اصولوں پر عمل کرنے لگا اور غالباً انہی نے اس کی جان بچائی‘ وہ کام سے سبکدوش ہوگیا۔ اس نے گولف کھیلنا سیکھا۔ وہ باغبانی میں دلچسپی لینے لگا اور اپنے پڑوسیوں سے ہنسی مذاق کرنے لگا۔ وہ مختلف قسم کے کھیل کھیلنے اور گیت گنگنانے لگا۔ لیکن اس نے اس کے علاوہ بھی کچھ کیا۔ ونکلر لکھتا ہے’’اذیت کے ایام اور بے خوابی کی راتوں کے دوران میں جان کو سوچنے کا موقع ملا۔ وہ دوسرے لوگوں کے متعلق سوچنے لگا۔ اس نے فوراً سوچنا چھوڑ دیا کہ وہ کس قدر روپیہ کما سکتا ہے‘ اس کے بجائے وہ سوچنے لگا کہ وہ روپے کے عوض کس طرح انسانی مسرت خرید سکتا ہے۔‘‘

اس نے ’’راک فلر فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ راک فیلر جانتا تھا کہ دنیا میں بے شمار اچھی تحریکیں ہیں‘ جنہیں با شعور اور دانشمند انسان چلا رہے ہیں‘ مختلف علوم و فنون میں تحقیقات کی جاتی ہیں‘ کالج قائم کیے جاتے ہیں۔ کسی بیماری کا تدارک کرنے کے لیے ڈاکٹر جدوجہد کرتے ہیں۔ لیکن اکثر اوقات یہ اعلیٰ پائے کا کام محض روپے کی کمی کی وجہ سے ادھورا اور نامکمل رہ جاتا ہے۔ اس نے انسانیت کے ان ہمدردوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں ’’اپنے قبضے میں کرنے‘‘ کا نہیں بلکہ انہیں مالی مدد دینے کا تاکہ وہ اپنی مدد آپ کرسکیں۔ آج آپ اور میں راک فیلر کے شکر گزار ہیں کہ اس نے پنسلین اور درجنوں معجزاتی دریافتوں سے دنیا کو مستفید ہونے کے مواقع بہم پہنچائے۔ اس کی دولت نے انہیں معرض وجود میں لانے اور پھلنے پھولنے میں مدد دی۔

اور پھر راک فیلر کا کیا بنا؟ جب وہ اپنی دولت تقسیم کرنے لگا تو کیا اسے ذہنی سکون مل گیا؟ ہاں آخر کار وہ بالکل مطمئن ہوگیا۔ ایلن نیونز کا کہنا ہے’’اگر 1900ء کے بعد بھی لوگ سمجھیں کہ وہ سٹینڈرڈ آئل کمپنی کی مخالفت کے متعلق سوچ رہا تھا تو وہ سخت غلطی پر ہیں۔‘‘ راک فیلر خوش تھا‘ اس میں مکمل تبدیلی آچکی تھی۔ وہ اب بالکل پریشان نہیں ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ جب اسے اپنی زندگی کے سب سے بڑے نقصان کو قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا تو یہ حقیقت ہے کہ اس نے ایک رات کی نیند بھی گنوانے سے انکار کردیا۔

اس کا اسے اس وقت سامنے کرنا پڑا جب اس کی قائم کردہ عظیم الشان کارپوریشن‘ سٹینڈرڈ آئل کو’’تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ‘‘ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ حکومت امریکا کے دعوے کے مطابق سٹینڈرڈ آئل ایک اجارہ دار کمپنی تھی جو انٹی ٹرسٹ قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی تھی۔ یہ عدالتی جنگ پانچ سال تک جاری رہی۔ ملک کے بہترین قانونی دماغوں نے اس مقدمے میں حصہ لیا‘ جسے اس وقت تاریخ کا سب سے بڑا عدالتی مقدمہ کہا جاتا تھا لیکن سٹینڈرڈ آئل کو شکست ہوئی۔ جب جسٹس کینے ٹاؤماؤنٹین لینڈس نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا‘ راک فیلر کے وکیلوں کو اندیشہ ہوا کہ وہ اسے برداشت نہیں کرسکے گا لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ راک فیلر میں کتنی بڑی تبدیلی آچکی ہے۔

اس شام کو ایک وکیل نے اسے فون کیا اور جس قدر ممکن تھا‘ نرم ترین لہجے میں اس کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت کی اور پھر متفکر ہوکر کہا۔’’مجھے امید ہے کہ آپ کو یہ فیصلہ بے چین نہیں کرے گا‘ مسٹر راک فیلر! مجھے امید ہے کہ آپ رات کو اچھی طرح سو سکیں گے۔‘‘ اس نے فوراً سے ٹیلی فون پر جواب دیا۔’’مسٹر جانسن فکر نہ کیجئے۔ میں رات کو سونا چاہتا ہوں اور آپ کو بھی پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اچھا شب بخیر۔‘‘
یہ اس شخص کے الفاظ ہیں جو ایک دفعہ محض اس لیے بیمار ہوگیا تھا کہ اسے ڈیڑھ سو ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ ہاں جان راک فیلر کو اپنے تفکرات‘ اپنی پریشانیوں اور اپنی الجھنوں پر غالب آنے میں کافی وقت لگا۔ وہ 53 سال کی عمر میں موت کی آغوش میں جارہا تھا لیکن وہ 97سال تک زندہ رہا۔

 



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…