جب ایک فقیر نے شیر شاہ سوری سے قلعہ روہتاس کا سوال کیا۔۔۔!

14  مئی‬‮  2016

ایک فقیر نے شیر شاہ سوری کو یہاں قلعہ تعمیر کرنے کی ہدایت دی۔
کیا آپ نے کبھی قلعہ روہتاس دیکھا ہے۔ میں نے اس کو 3 دفعہ دیکھا ہے ۔ہر دفعہ دیکھنے پر ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہوا۔ایک ایسی خاموشی جوآپ کو 6 صدیاں پیچھےتاریخ میں لے جاتی ہے۔ واقعی ایک لاجواب جگہ ہے۔ جو کہ ایک بہترین بادشاہ (شیر شاہ سوری) کی یادگار ہے۔ ایک ایسا شاہکار جو حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے آج کھنڈرات میں تبدیل ہورہا ہے۔
جانئے اس کی تاریخ کے متعلق کچھ دلچسپ و عجیب
شیر شاہ سوری کا تعمیر کیا گیا قلعہ 948ھ میں مکمل ہوا ۔ جو پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے۔ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ دراصل گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد دیتے تھے، جو شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھا۔ جب یہ قلعہ کسی حد تک مکمل ہوگیا تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج میں نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ اس قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی جرنیلی سڑک گزرتی تھی ، جو اب یہاں سے پانچ کلومیٹر دور جا چکی ہے۔
دوسرے قلعوں سے ہٹ کر قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کے بجائے دیوہیکل پتھروں سے کی گئی ہے۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدروں کے علاوہ بے شمار بزرگانِ دین نے اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں سمیت حصہ لیا۔ ان روایات کو اس امر سے تقویت ملی ہے کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود ہے ، جب کہ قلعے کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر موجود ہے، اس کے علاوہ ایک اور روایات ہے کہ یہاں قلعے کی تعمیر سے پہلے ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ شیر شاہ سوری کا جب یہاں گزر ہوا تو یہاں پر رہنے والے ایک فقیر نے شیر شاہ سوری کو یہاں قلعہ تعمیر کرنے کی ہدایت دی۔
اخراجات
ایک روایت کے مطابق “ٹوڈرمل “نے اس قلعے کی تعمیر شروع ہونے والے دن مزدروں کو فی سلیب (پتھر) ایک سرخ اشرفی بہ طور معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ گو قلعہ کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تاہم ایک روایت کے مطابق اس پر اس زمانے کے34 لاکھ 25 ہزار روپے خرچ ہوئے ۔جس کا تخمینہ آج کے اربوں روپے بنتے ہیں۔ واقعات جہانگیری کے مطابق یہ اخراجات ایک پتھر پر کندہ کیے گئے تھے جو ایک زمانے میں قلعے کی کسی دروازے پر نصب تھا۔ قلعے کی تعمیر میں 3 لاکھ مزدوروں نے بہ یک وقت حصہ لیا اور یہ 4 سال 7 ماہ اور 21 دن میں مکمل ہوا۔
یہ چار سو ایکٹر پر محیط ہے ، جب کہ بعض کتابوں میں اس کا قطر 4 کلومیٹر بیان کیا گیا ہے۔
دروازے
قلعے کے بارہ دروازے ہیں۔ جن کی تعمیر جنگی حکمت علمی کو مد نظر رکھ کر کی گئی ہے۔ یہ دروازے فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں ۔ ان دروازوں میں خواص دروازہ ، موری دروازہ ، شاہ چانن والی دروازہ ، طلاقی دروازہ ، شیشی دروازہ ، لنگر خوانی دروازہ ، بادشاہی دروازہ ، کٹیالی دروازہ ، سوہل دروازہ ، پیپل والا دروازہ ، اور گڈھے والا دروازہ، قلعے کے مختلف حصوں میں اس کے دروازوں کو بے حد اہمیت حاصل تھی۔ اور ہر دروازہ کا اپنا مقصد تھاجبکہ خاص وجہ تسمیہ بھی تھی۔ ہزار خوانی صدر دروازہ تھا۔ طلاقی دروازے سے دور شیر شاہی میں ہاتھی داخل ہوتے تھے۔ طلاقی دروازے کو منحوس دروازہ سمجھا جاتا تھا۔ شیشی دروازے کو شیشوں اور چمکتے ٹائلوں سے تیار کیا گیا تھا۔ لنگر خوانی لنگر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ کابلی دروازے کا رخ چونکہ کابل کی طرف تھا اس لیے اس کو کابلی دروازہ کہا جاتا تھا۔سوہل دروازہ زحل کی وجہ سے سوہل کہلایا۔ جبکہ اس کو سہیل دروازہ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ حضرت سہیل غازی کا مزار یہیں واقع تھا۔گٹیالی دروازے کا رخ چونکہ گٹیال پتن کی طرف تھا اس لیے اس کو یہی نام دیا گیا۔ اس طرح مختلف دروازوں کے مقاصد مختلف تھے۔
فصیل
قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید ، عالی شاہ اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج ، 184 برجیاں ، 6881 کگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اتنے بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعے کی عمارتوں میں سے ایک عمارت کو شاہ مسجد کہا جاتا ہے اور چند باؤلیاں تھیں، بعد ازاں ایک حویلی تعمیر کی گئی ، جسے راجا مان سنگھ نے بنوایا تھا ۔ محلات کے نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ اس قلعے میں آکر خمیوں میں رہا کرتے تھے ۔ یہ قلعہ صرف دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا تھا ، اس لیے شیر شاہ سوری کے بعد بھی برسر اقتدار آنے والوں نے اپنے ٹھہرنے کے لیے یہاں کسی پرتعیش رہائش گاہ کا اہتمام نہیں کیا۔
قلعہ روہتاس دیکھنے والوں کو ایک بے ترتیب سا تعمیری ڈھانچا نظرآتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیر شاہ سوری نے اسے تعمیر کرتے ہوئے نقش نگاری اور خوب صورتی کے تصور کو فراموش نہیں کیا۔ قلعے کے دروازے اور بادشاہی مسجد میں کی جانے والی میناکاری اس کا واضح ثبوت ہے۔ ہندوانہ طرز تعمیر کی پہچان قوسین قلعے میں جابجا دکھائی دیتی ہیں۔ جن کی بہترین مثال سوہل گیٹ ہے۔ اسی طرح بھربھرے پتھر اور سنگ مر مر کی سلوں پر کندہ مختلف مذہبی عبارات والے کتبے خطابی کے نادر نمونوں میں شمار ہوتے ہیں ۔جو خط نسخ میں تحریر کیے گئے ہیں۔ خواص خوانی دروازے کے اندرونی حصے میں دو سلیں نصب ہیں جن میں سے ایک پر کلمہ شریف اور دوسری پر مختلف قرآنی آیات کندہ ہیں۔ شیشی دروازے پر نصب سلیب پر فارسی میں قلعے کی تعمیر کا سال 948ھ کندہ کیا گیا ہے
موجودہ حالت
قلعے کے اندر مکمل شہر آباد ہے اور ایک ہائی اسکول بھی قائم ہے۔ مقامی لوگوں نے قلعے کے پتھر اکھاڑ اکھاڑ کر مکان بنا لیے ہیں۔ قلعے کے اندر کی زمین کی فروخت منع ہے۔ اس وقت سطح زمین سے اوسط تین سو فٹ بلند ہے ۔ اس وقت چند دروازوں ، مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے سسر راجا مان سنگھ کے محل اور بڑے پھانسی گھاٹ کے سوا قلعہ کا بیش تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ نے قلعے کے باہر کی آبادی کو قلعہ کے اندر منتقل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ اس آبادی کی منتقلی کے بعد جو بستی وجود میں آئی اب اسے روہتاس گاؤں کہتے ہیں۔ سلیم شاہ کا خیال تھا کہ آبادی ہونے کے باعث قلعہ موسمی اثرات اور حوادثِ زمانہ سے محفوظ رہے گا ، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور آج اپنے وقت کا یہ مضبوط ترین قلعہ بکھری ہوئی اینٹوں کی صورت اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔
یہ قلعہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل مقامات میں سے ایک ہے



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…