کانسٹیبل لال محمدکے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے حوالے سے چنددلچسپ حقائق

18  جنوری‬‮  2019

کمبائنڈ ملٹری ہاسپٹل پہنچائے جانے کے بعد لیاقت علی خان کی زندگی بچانے کی کوشش کرنے والے طبی ماہرین میں سے ایک ،ڈاکٹر کرنل میاں نے انکوائری کمیشن کے سامنے شہادت دیتے ہوئے بتایا کہ اگر وزیر اعظم کو عین سینے میں گو لیاں نہ لگتیں تو انہیں بچا لیا جاتا ان کے جسم پر تین زخم موجود تھے ۔ان میں سے دو جسم میں گولیاں داخل ہونے سے ، جبکہ ایک گولی جسم سے پار نکل جانے سے بنا تھا ۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے وزیر اعظم کی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور ان کے دل پر زور زور سے مالش کی لیکن یہ سب بے سود ثابت ہوا ۔پیادہ کانسٹیبل لال محمد بھی انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے گواہوں میں شامل تھے ۔لال محمد کا نسٹیبل پٹھان تھے اور پشتو بخوبی سمجھ اور بول سکتے تھے۔ انکا کہنا تھا میں نے سپر نٹنڈنٹ آ ف پولیس خان نجف خان کو پشتو میں کہتے سنا ’’ داچا ڈازا؟ اووک اولا (گولی کس نے چلائی ؟ اسے شوٹ کر دو ) انہوں نے مزید بتایا کہ ایس پی کی طرف سے قاتل کو شوٹ کرنے کے حکام کے باوجود اس نے ہوائی فائرنگ کی ، کیونکہ وہ دیکھ نہیں پایا تھا کہ پستول سے کس نے گولی چلائی تھی ۔ بعد ازاں اسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس محمد اکرم نے اطلاع دی کہ اس کے ماتحت نے ایس پی نجف خان کے حکم کے تحت ہجوم منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی تھی ۔ جب کہ ایس پی خان نجف نے اپنے بیان میں بتایاکہ جب گولی چلی تو وہ مرحوم وزیر اعظم کے ذرا پیچھے ڈائس کے میں موجود تھا ۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے یہاں اس کے اور انکوائری کمیشن کے کچھ سوال جواب پیش کئے جارہے ہیں : س،کیا و زیر اعظم پر گولی چلائے جانے کے بعد تم نے کسی کو ’’ داچاڈاز ا؟ اووکااولا ‘‘کہاتھا ؟ جی ہو سکتا ہے میں نے یہ الفاظ کہے ہوں س، اس سے آ پ کا مطلب کیا ہے ؟ ج،سب انسپکٹر محمد شاہ نے سید اکبر کو گولی چالا کر مار ڈالا ، لیکن اسے ایسا نہیں کرنا چاہئیے تھا ۔ س ، کیا تم نے محمد شاہ کیخلاف کوئی ایکشن لیا ؟ ج،نہیں س ، تم نے اس کیخلاف ایکشن کیوں نہیں لیا ؟

ج اگر تفتیش سے ظاہر ہوتا کہ وہ غلطی پر ھتا تو میں اس کے خلاف ایکشن ضرور لیتا ۔ س، اگر تمہارا قاتل کو گولی مار کر ہلاک کرنے کا ارادہ ہو تا تو تم کیا اپناگ ریوالور استعمال نہیں کرتے ؟ ج، جی ہاں پہلی دو گو لیاں چلنے کے بعد میں اس سمت میں دوڑا ، جدھر سے آواز سنائی دی تھی۔ لیاقت علی خان کی کابینہ کے وزیرسردار امیر اعظم خان نے انکوائری کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں کہا وہاں باوردی پولیس افسران کی بہت بڑی تعداد موجود تھی ۔ ان میں زیادہ تر ڈائس کے پیچھے موجود تھے ۔

پستول سے پہلے دو فائر ہونے اور وزیر اعظم کے زخمی ہونے کے بعد میں نے مسٹر ہارڈی کو اسٹیج کے اوپر جاتے دیکھا اس نے چلاکر کہا خدا کیلئے کوئی ایک کار کا بند و بست کرو۔پہلی دو گو لیاں چلنے کے چند سیکنڈ بعد میں نے ایک اور گولی چلنے کا دھماکا سنا ۔اس کے بعد اسٹیج کے عقب اور سامنے سے گولیاں چلائی جانے لگیں ۔لال دین ریلوے کا ریٹائرڈ جمعدار تھا‘ اس نے اپنی شہادت میں بتایا کہ وہ سید اکبر کے قریب‘ اس کے عین عقب میں بیٹھا تھا‘ اس نے اچانک دو گولیاں چلنے کی آواز سنی‘ اس نے سامنے دیکھا تو سید اکبر بائیں ہاتھ پستول تھامے نظر آیا‘ لال دین کا اعویٰ ہے کہ وہ پہلا فرد ہے‘

جس نے قاتل کو پکڑا تھا‘ اس نے بتایا‘ ’’گولیاں چلنے کے بعد لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی‘ ایسے میں وہ (قاتل) بھی وہاں فرار ہونے والا تھا‘ لیکن میں تیزی سے اس پر جھپٹا‘ میں نے اس کے ہاتھ سے پستول گرانے کیلئے اس کی گردن کے پیچھے ضرب لگائی‘ لیکن وہ اس کے باجود بائیں ہاتھ میں پستول پکڑے رہا میں اس ے زور آزمائی کر رہا تھا کہ اس نے تیسری گولی چلا دی۔‘‘ لال دین کے مطابق اس نے دیکھا کہ چوہدری مولو داد تذبذب کے عالم میں ایک کرسی پر بیٹھا ہے‘ اس کا کہنا ہے کہ میرے بعد غلام رسول پہلا شخص تھا‘ جس نے قاتل کا بازو پکڑا تھا۔ غلام رسول نے پانی شہادت میں بتایا کہ اس نے گولیاں چلنے کے بعد لال دین کو سید اکبر سے زور آزمائی کرتے دیکھا‘ اس نے دیکھا کہ سید اکبر کے سر پر سیاہ پگڑی تھی‘

اس نے سید اکبر کے سامنے کچھ بچوں کو زمین پر بیٹھے بھی دیکھا‘ اب ہم استغاچہ کی ان شہادتوں اور ثبوتوں کا خلاصہ پیش کرتے ہیں‘ جن کی بنیاد پر کمیشن نے سید اکبر کو وزیراعظم لیاقت علی خان کا قاتل قرار دیا تھا‘ استغاثہ کی طرف سے سات موقع کے یا چشم دیدار گواہ پیش کئے گئے تھے‘ جن میں سے صرف دو نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے سید اکبر کو وزیراعطم پو پستول سے گولی چلاتے دیکھا‘ جسے اس نے دائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا‘ استغاثہ کے پانچ گواہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے صرف پہلی دو گولیوں کے دھماکے سنے بعد ازاں وزیراعطم کیلئے جان لیوا ثابت ہوئے‘ یہاں یہ بات قابل توجہ اور اہم ہے کہ ان سات گواہون میں سے تین کا تعلق محکمہ پولیس سے ہے‘

اسی طرح استغاثہ کا پہلا گواہ لال دین بھی دعویدار ہے کہ وہ سب سے پہلے قاتل سید اکبر پر جھپٹا تھا‘ اس نے بتایا تھا‘ جب میں نے لگاتا دو گولیاں چلنے کے دھماکے سنے تو میں اپنے دائیں طرف مڑا‘ میں نے ایک پٹھان کو اپنے گھٹنوں کے بل کھڑے دیکھا‘ اس کے دائیں ہاتھ میں ایک پستول تھا اور کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا‘ میں فوراً اس سے لپٹ گیا اور اسے بازووں میں مضبوطی سے جگڑ لیا‘ اس شخص نے تیسری گولی چلائی لیکن زور آزمائی کے باعث گولی کا نچانہ خطا ہو گیا‘‘۔ دوسرے گواہ چوہدری مولاداد کا کہنا ہے کہ وہ ڈائس کے بائیں طرف کوسیوں کی پہلی صف میں بیٹھا ‘

اس کا کہنا ہے کہ اسے دو یا تین افراد کے بعد بیٹھے شخص کا برتاؤ کچھ مشکوک محسوس ہوا‘ وزیراعظم کی زبان سے ابتدائی کلمات ادا ہوتے ہی اس نے مشکوک نظر اانے والے شخص کو پستول نکالتے اور اسے وزیراعطم کی طرف تانتے دیکھا‘ اس اس شخص نے دو گولیاں چلائیں اور گواہ نے وزیراعظم کو گرتے دیکھا‘ گواہ اس شخص کی طرف تیزی سے بڑھا‘ لیکن اس ے پہلے کہ وہ اس تک پہنچتا‘ لال دین اسے جکڑ چکا تھا‘ گواہ نے مزید بتایا کہ وہ کچھ دیر کی جدید کے بعد مجرم کو غیر مسلح کرنے میں کامیاب ہو گیا اور دو منٹ کے اندر اس نے پستول اپنی تحویل میں لے لیا تھا‘ جبکہ ہیڈ کانسٹیبل لال محمد کے مطابق وہ بھی سید اکبر سے پستول چھیننے کی جدوجہد میں شامل تھا اور اسی دوران چلنے والی تیسری گولی اس کے بازو میں لگی تھی‘

تاہم اس حوالے سے سب سے اہم بیان سب انسپکٹر محمد شاہ کا تھا‘ جس نے اعتراف کیا کہ اس نے مجرم کی موت یقینی بنانے کے لئے لگاتار پانچ گولیاں چلائیں اور اس دوران اس نے تمام گولیاں براہ راست‘ سیدھے قاتل پر چلائی تھیں اور ان دونون کے درمیان کوئی ایسی رکاوٹ نہیں تھی جو گولیوں کی راہ میں حائل ہو سکتی۔ائج انتہائی توجہ طلب اور دلچسپ‘ بلکہ فیصلہ کن بیان قاتل سید اکبر کے 11 سالہ بیٹے دلاور خان نے انکوائری کمیشن کے سامنے دیا‘ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے باپ کے سامنے زمین پر بیٹھا تھا اور ڈائس ان کی بالکل سامنے اور قریب تھا‘

دلاور خان نے بتایا کہ وزیراعظم تقریر کیلئے کھڑے ہوئے تو اس نے اپنے باپ کو پستول نکالتے اور گولی چلاتے دیکھا‘ اس کا کہنا ہے کہ وہ پہلے پہل یہ سمجھا کہ اس کے باپ نے خوشی کے اظہار کے لئے گولیاں چلائی ہیں‘ کیونکہ اس نے ایبٹ آباد میں لوگوں کو شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر یا معزز مہمانوں کے استقبال کے موقع پر اکثر ہوئی فائرنغ کرتے دیکھا تھا۔ لیکن جب اس نے ڈائس کی طرف دیکھا تو اسے وزیراعطم وہاں نظر نہیں آئے‘ پھر اس نے دیکھا کہ سبزوردی میں ملبوس کچھ افراد نے اس کے باپ کو پکڑ لیا ہے‘ جنہوں نے اس کے جسم میں سنگینیں گھونپ دیں۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…