ٹی ٹی پی:حکیم اللہ محسود سے ملا فضل اللہ تک۔۔۔

26  اپریل‬‮  2015

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ نے تنظیم کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ملا فضل اللہ کو تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کیا ہے۔ ترجمان طالبان نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر منتخب ہونے کے بعد ملا فضل اللہ نے حکومت سے مذاکرات کو رد کردیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوں گے‘ اس لیے کہ فضل اللہ پہلے ہی سے حکومت سے مذاکرات کے حق میں نہیں۔نئے امیر کا فیصلہ کرنے والی طالبان کی شوریٰ بیس سے پچیس ارکان پر مشتمل ہے اور طالبان کے تمام گروپوں کے نمائندے اس کا حصہ ہیں۔مشاورتی عمل کے دوران پانچ افراد کے ناموں پر غور کیا گیا جن میں ملا فضل اللہ‘ خان سید سجنا‘ شیخ خالد حقانی‘ عمر خالد خراسانی اور حافظ سعید شامل تھے۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ بات چیت ’وقت ضائع کرنا ہے‘۔انہوں نے یہ بھی کہا ’امن مذاکرات پر بات ہی نہیں کرنی چاہیے۔ حکومت کی کوئی اتھارٹی نہیں ہے یہ امریکہ کی خادم حکومت ہے۔اطلاعات کے مطابق فضل اللہ کی تقرری کے بعد میران شاہ میں طالبان نے شدید ہوائی فائرنگ بھی کی۔
ملا فضل اللہ کون ہے؟
ملا فضل اللہ اس وقت افغانستان میں مقیم ہے۔پاکستانی طالبان کے نئے سربراہ ملا فضل اللہ تحریک کے سابق قائدسے زیادہ خطر نا ک اور زیادہ پرتشدد رجحان کامالک بتایا جاتاہے۔سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے اور گزشتہ دنوں دیر بالا میں پاکستانی فوج کے میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کے قتل کی ذمہ داری اس نے ہی قبول کی تھی۔فضل اللہ 1974 ء میں سوات میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق یوسفزئی قبیلے کی بابوکارخیل شاخ سے ہے اور وہ ایک پاؤں سے معمولی معذور بھی ہے۔تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے داماد مولوی فضل اللہ نے جہانزیب کالج سوات سے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی ۔بتایا جاتا ہے کہ اس نے تین درجوں تک دینی تعلیم بھی حاصل کی ہے تاہم وہ زیادہ تر صوفی محمد کی صحبت میں رہا جہاں وہ درس و تدریس کے کاموں میں شرکت کرتا رہا۔اکتوبر 2001ء میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو مولانا صوفی محمد مالاکنڈ ڈویژن سے ہزاروں افرادکو اپنے ساتھ جنگ کے لیے افغانستان لے گئے جن میں ملا فضل اللہ بھی شامل تھا۔ افغانستان سے واپسی پر فضل اللہ گرفتار ہوا‘ اورقریباً 17 ماہ تک جیل میں رہا۔اس نے 2005ء اور 2006ء میں سوات میں غیر قانونی ایف ایم ریڈیو چینل شروع کیا جس کی وجہ سے انہیں بہت کم عرصے میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس ایف ایم چینل پر مغرب خصوصاً امریکہ‘ حفاظتی ٹیکوں اور لڑکیوں کی پڑھائی کے خلاف خطبے دیئے گئے۔2006ء میں ملا فضل اللہ نے علاقے میں ’شریعت‘ کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات شروع کئے جس میں مقامی تنازعات کے فیصلے کرنا اور گلی کوچوں میں جنگجوؤں کا گشت بھی شامل تھا‘ سرکاری دفاتر بہت حد تک محدود ہو کر رہ گئے کیوں کہ ملا فضل اللہ نے سوات میں اپنی عدالتیں بھی قائم کر دی تھیں۔ بات حد سے بڑھتی گئی اور وادی میں خودکش حملوں‘ سکولوں پر حملے اور اغواء کے واقعات میں اضافہ ہو نے پر مقامی انتظامیہ نے ملافضل اللہ کے خلاف کارروائی کا ارادہ کیا۔ جس کے بعد پولیس اور نیم فوجی دستوں کی مشترکہ کارروائی شروع ہوئی۔نومبر 2007ء میں اس وقت کے وزیراعلیٰ اکرم درانی نے وفاقی حکومت سے سوات میں فوج بھیجنے کی درخواست کی اور فوج ایک محدود مینڈیٹ کے ساتھ سوات آئی۔ملا فضل اللہ کی آخری ویڈیو کچھ عرصہ قبل سامنے آئی جس میں اس نے نہ صرف پاکستانی فوج کے جنرل ثنا اللہ نیازی کو مارنے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اپنا اگلا ہدف بھی قرار دیا۔مئی 2009ء میں پاکستانی فوج نے سوات میں فیصلہ کن کارروائی شروع کی تو ضلع کے بیشتر مقامات سے ملا فضل اللہ کے حامی عسکریت پسندوں کو شکست کے بعد نکال دیا گیا۔اسی دوران ملا فضل اللہ اچانک غائب ہوگیا اور بعد میں اس نے افغانستان چلے جانے کی تصدیق کی۔ فضل اللہ سمیت دیگر شدت پسندوں نے افغانستان کے علاقوں کنڑ اور نورستان میں محفوظ ٹھکانے بنا لیے تھے اور افغانستان میں ان کے قیام کے دوران افغان سرحد سے متصل پاکستانی علاقے دیر میں سکیورٹی فورسز پر سرحد پار سے ہونے والے متعدد حملوں میں ملا فضل اللہ کے گروپ کا نام سامنے آتا رہا ۔افغان اور نیٹو فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں فضل اللہ کی ہلاکت کی خبریں بھی سامنے آتی رہی لیکن سب غلط ثابت ہوئیں۔ مبصرین کے خیال میں فضل اللہ کے امیر مقرر ہونے کے بعد پاکستان میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
فضل اللہ نے وادی سوات میں سخت اسلامی قوانین کے نفاذ کی کوشش بھی کی اس مہم کے دوران نہ صرف ان کے جنگجوؤں نے سکول تباہ کیے بلکہ لوگوں کو عوامی مقامات پر کوڑے مارے اور ان کے سر بھی قلم کیے گئے۔سوات میں فوج کے آپریشن سے قبل حکومت پاکستان نے انہیں پکڑنے میں مدد دینے پر انعام کا اعلان کیا تھا ۔جون 2009ء میں ان کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے سے بڑھا کر پانچ کروڑ روپے کر دی گئی تھی۔ فوج کے آپریشن کے دوران وہ فرار ہو کر افغانستان کے صوبہ نورستان چلے گئے جہاں اب بھی مقیم ہیں۔
حکیم اللہ محسود کون تھا؟
حکیم اللہ محسود پہلی مرتبہ 2007 میں پاکستان فوج کے خلاف حملوں کی وجہ سے ایک بے رحم شدت پسند کے طور پر ابھرا۔اس وقت تک وہ طالبان کے ان کئی کمانڈروں میں سے ایک تھا جنہوں نے ہزاروں پاکستانیوں کو ہلاک کیا ۔2009ء میں امریکی ڈرون حملے میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد حکیم اللہ محسود تحریک طالبان پاکستان کاسربراہ بنا۔امریکہ نے حکیم اللہ محسود کے سر کی قیمت پچاس لاکھ ڈالر مقرر کر رکھی تھی۔ پاکستان نے بھی حکیم اللہ کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی تھی۔حکیم اللہ محسود ‘ذوالفقار محسود کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ تاہم قبائلی صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس کا اصل نام جمشید تھا۔ حکیم اللہ محسود کا تعلق جنوبی وزیرستان کے گاؤں کوٹکی سے بتایا جاتا ہے۔ وہ محسود قبیلے کے ذیلی شاخ آشینگی سے ہیں۔ حکیم اللہ محسود نے باقاعدہ دینی تعلیم حاصل نہیں کی‘ البتہ ضلع ہنگو کے گاؤں شاہو میں ایک مدرسے سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی جہاں وہ بیت اللہ محسود کہ ہمراہ پڑھتا تھا۔ تاہم تعلیم مکمل ہونے سے پہلے ہی دونوں طالبان کمانڈروں نے مدرسہ چھوڑ دیا تھا۔حکومت کے خلاف جب بھی کوئی بڑا حملہ ہوا‘اس کی قیادت حکیم اللہ ہی کرتا رہا۔وہ تحریک طالبان پاکستان میں جنگی کمانڈر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ بیت اللہ محسود میڈیا سے چہرہ چھپاتا تھا لیکن حکیم اللہ میڈیا کو اپنا چہرہ دکھانے سے گریز نہیں کرتا تھا۔ تحریک کے امیر مقرر ہونے سے قبل وہ تین قبائلی ایجنسیوں خیبر‘ اورکزئی اور کرم ایجنسی کا کمانڈرتھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ خیبر ایجنسی میں نیٹو افواج کو سامان لے جانے والی گاڑیوں پر حملے کرتا رہا ہے جب کہ کرم ایجنسی میں شیعہ سنی فسادات میں بھی ملوث رہا ہے ۔ اس نے دو شادیاں کر رکھی تھیں۔

حکیم اللہ محسود شہید نہیں قاتل ہے۔۔۔30 مفتیان اہل سنت کا شرعی اعلامیہ
چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا کے استفسار پر سنی اتحاد کونسل سے وابستہ 30 جید علماء اور مفتیان اہلسنت نے اپنے اجتماعی شرعی اعلامیہ میں قرار دیا ہے کہ 50 ہزار بے گناہ انسانوں کے قتل ناحق کے مجرم حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دینا قرآن و سنت کے منافی ہے۔ امریکی ڈرون حملے بدترین ظلم‘ غیر قانونی‘ غیر اخلاقی اور غیر انسانی مجرمانہ عمل ہے۔ جن علماء اور مفتیوں نے شرعی اعلامیہ جاری کیا ہے ان میں سنی اتحاد کونسل کے علماء بورڈ کے سربراہ شیخ الحدیث علامہ محمد شریف رضوی‘ علامہ محمد اکبر رضوی‘ مفتی محمد سعید رضوی‘ علامہ حامد سرفراز‘ علامہ صاحبزادہ عمار سعید سلیمانی‘علامہ پیر محمد اطہر القادری‘ مفتی محمد یونس رضوی‘ مفتی محمد فاروق القادری‘ علامہ ریاض الدین پیرزادہ‘ مفتی لیاقت علی رضوی‘ مفتی محمد عرفان‘ علامہ شرافت علی‘ مولانا قاری حبیب الرحمن‘ مفتی محمد شعیب منیر‘ مفتی محمد اظہر سعید‘ مفتی محمد رمضان جامی‘ علامہ باغ علی رضوی‘ مفتی محمد عرفان‘ علامہ شرافت علی‘ مولانا قاری حبیب الرحمن‘ مفتی محمد شعیب منیر‘ مفتی محمد رمضان جامی‘ علامہ باغ علی رضوی‘ مفتی محمد عابد ضیاء قادری‘ مفتی فیاض الحسن صابری‘ مفتی غلام مرتضیٰ مہروی‘ مفتی محمد اقبال نقشبندی‘ مفتی شہزاد قادری‘ مفتی غلام نبی فخری‘ پیر مختار احمد صدیقی‘ مفتی غلام محمد چشتی‘ علامہ مظفر حسین شاہ‘ علامہ نثار علی اجاگر‘ علامہ فیصل عزیزی‘ علامہ محمد اشرف گورمانی اور علامہ پروفیسر ایاز قادری شامل ہیں۔ ان علمائے کرام اور مفتیان نے اعلامیہ میں کہا ہے کہ ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والے معصوم اور بے گناہ خواتین‘ بچے اور مرد شہید ہیں ‘البتہ اسلام اور پاکستان کے کھلے دشمن امریکا کے ڈرون حملے میں قتل ہونے کی وجہ سے فساد فی الارض کے مجرم‘ ریاست مخالف عناصر کے امیر حکیم اللہ محسود کے جرائم اور گناہ معاف نہیں ہو سکتے۔ اللہ ظالموں کو ظالموں کے ہاتھوں ہی مرواتا ہے۔حکیم اللہ محسود کے چار سالہ دور امارت کے دوران مساجد‘ مزارات‘ اسپتالوں‘مارکیٹوں‘جنازوں‘ گرجا گھروں‘امام بارگاہوں‘ سرکاری دفاتر‘ تعلیمی اداروں‘ فوجیوں‘ پولیس اہلکاروں‘ معصوم بچیوں‘ دینی و سیاسی رہنماؤں پر سینکڑوں حملے کئے گئے۔ ان حملوں کے ماسٹر مائنڈ حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دینا ملک سے غداری ہے۔ اسلامی ریاست نے جس خطرناک شخص کے سر کی قیمت پانچ کروڑ روپے مقرر کر رکھی تھی‘ اسے شہید قرار دینا شہید کے جلیل القدر مقام کی توہین اور ریاست سے بغاوت ہے۔ کروڑوں روپے کے عالیشان بنگلے میں شاہانہ زندگی گزارنے والا جہاد نہیں جہاد کے نام پر تجارت کر رہا تھا۔ ڈرون حملوں کو پاکستان میں دہشت گردی کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ امریکی مظالم کا بدلہ بے گناہ پاکستانیوں سے لینا جہاد نہیں فساد ہے۔ امریکا کے خلاف جہاد کا اصل میدان پاکستان نہیں افغانستان ہے لیکن پاکستانی طالبان نے مسلسل پاکستان کو نشانہ بنا رکھا ہے اس لئے یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ حکیم اللہ محسود امریکا کے خلاف جہاد کرتا ہوا شہید ہوا۔ اسلام انسانی جان کی حرمت کا سب سے بڑا علمبردار اور قتل ناحق کا سب سے بڑا مخالف ہے جبکہ حکیم اللہ محسود ایک نہیں ہزاروں بے گناہوں کا قاتل ہے۔ اس لئے ایسا شخص شہید نہیں ہو سکتا۔

طالبان کو منظم کرنے میں شیخ خالد حقانی کاکردار
پاکستانی طالبان کی قیادت پہلی بار قبائلی علاقہ جات سے نکل کر ملک کے بندوبستی علاقوں میں منتقل ہوئی ہے اور سوات سے تعلق رکھنے والے تحریک کے نئے سربراہ کے علاوہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے شیخ خالد حقانی کو باضابطہ کالعدم تحریک کا نائب امیر مقرر کیا گیا ہے۔ان کے نام کے ساتھ حقانی کا لاحقہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کرنے کی وجہ سے ہے‘ جب پاکستان میں تحریک طالبان بنی تو خالد حقانی اس کا حصہ بنے۔ اسی تعلیمی پس منظر کی بنا پر انہیں ’شیخ‘ کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔تحریک کی جانب سے جتنے بھی فتوے جاری ہوتے ہیں ان پر تیس سالہ شیخ خالد کے دستخط ہوتے ہیں۔ وہ عصمت اللہ شاہین سے پہلے طالبان شوریٰ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔خالد حقانی کا طالبان کے سابق سربراہان بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود سے انتہائی قریبی تعلق رہا ۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…