ہمیشہ پوچھو

25  جنوری‬‮  2019

ڈاکٹر خورشید احمد امریکا کے مشہور کینسر سرجن ہیں‘ یہ بفیلہ انسٹی ٹیوٹ آف کینسر پیشنٹ کے کے ڈائریکٹر ہیں‘ کینسر سرجری میں پوری دنیا میں مشہور ہیں‘ ڈاکٹر خورشید نے پچھلے دنوں اپنے جونیئرز ڈاکٹرز کو اپنی کامیابی کا ایک شاندار نسخہ بتایا‘ ڈاکٹر خورشید کا کہنا تھا ” میں بھارت کے متنازعہ علاقے کشمیر سے تعلق رکھتا ہوں‘ میرے والد میری والدہ اور میرے بہن بھائیوں کو لے کر دلی شفٹ ہو گئے

لیکن ہم لوگ ہر گرمیوں میں اپنے دادا سے ملنے کشمیر جاتے تھے‘ میرے دادا کا کشمیر میں سیبوں کا باغ تھا‘ وہ ہر سال سیبوں کے درختوں سے پھل اتار کر پیک کرتے تھے اور یہ پیک شدہ سیب دلی کی فروٹ منڈی بھجوا دیتے تھے‘ یہ پھل میرے دادا کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھے‘ میں اور میرے بہن بھائی جب بھی کشمیر جاتے تو ہمارے دادا ہمیں لے کر سیبوں کے باغ می جاے‘ وہ درخت درخت اور ڈال ڈال پھلوں کا جائزہ لیتے اور وہ پھل جنہیں پرندوں نے چونچ مار کر خراب کیا ہوتا وہ اتارتے‘ جیب سے چاقو نکالتے‘ پھل کا وہ حصہ جو پرندوں نے کھایا ہوتا وہ کاٹ کر زمین پر پھینکتے اور درست حصہ ہمیں پکڑا دیتے‘ ہم بچے وہ آدھا سیب کھا جاتے‘ میں جب بھی اپنے دادا کو خراب پھل کاٹتے دیکھتا‘ میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ”ہمارے دادا بہت کنجوس ہیں‘ ہمیں ہمیشہ گندے پھل کھلاتے ہیں اور اچھے منڈی کےلئے رکھ لیتے ہیں“۔ میں اسی گمان کے ساتھ بڑا ہو گیا۔ میں جب کالج کی عمر کو پہنچا تو میں نے ایک دن ہمت کر کے حرف شکایت بلند کر دیا۔ میں نے دادا سے عرض کیا ”دادا جی آپ بہت کنجوس ہیں‘ آپ ہمیں ہمیشہ خراب پھل کھلاتے ہیں“ میرے دادا نے میری بات بڑے اطمینان سے سنی‘ مسکرائے‘ میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے پیار سے جواب دیا ” میرے بچے‘ یہ یاد رکھو باغوں میں پرندے صرف اس پھل کو ٹھونگا مارتے ہیں جو میٹھا اور پکا ہوا ہوتا ہے‘ پرندے کبھی پھیکے اور کچے پھل کو چونچ نہیں مارتے‘ میں تو اس لئے تم لوگوں کو چونچ زدہ پھل کھلاتا ہوں کہ مجھے معلوم ہوتا ہے یہ پھل میٹھے ہوتے ہیں جبکہ میں منڈی میں صرف وہ پھل بھجواتا ہوں جن کے بارے میں‘ میں یہ نہیں جانتا یہ میٹھے ہیں یا پھیکے“۔ میں نے جب دادا کا یہ جواب سنا تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں نے کھڑے کھڑے اپنی زندگی کا سب سے بڑا اصول بنایا‘ یہ اصول میری کامیابی کا واحد گر ہے‘ میں نے اصول بنایا ” کبھی یکطرفہ رائے نہ بناﺅ‘ ہمیشہ پوچھو“۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…