کسی بھی وقت عدالتی حکم میں رد و بدل کیا جاسکتا ہے اور حکم واپس بھی لیاجا سکتا ہے، سپریم کورٹ

25  مئی‬‮  2022

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کو احتجاج کیلئے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 9 اور جی 9 کے درمیان جگہ فراہم کرنے اور گرفتار وکلا کو رہا کرنے کا حکم دیدیا۔بدھ کو جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا تین رکنی بینچ پی ٹی آئی لانگ مارچ کے شرکا کو ہراساں کرنے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت کی،

بینچ کے دیگر دو ججوں میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی شامل تھے۔پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے پر امن ریلی نکالنے کی یقین دہانی کے بعد عدالت نے ضلعی انتظامیہ کو جلسہ گاہ کی جگہ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وہاں پر 10 ہزار سے زیادہ لوگ نہیں آسکتے، وہاں پر اتوار بازار بھی ہے اور سرینگر ہائی وے بھی۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایسا پلان دیں کہ مظاہرین پرامن طریقے سے آئیں اور احتجاج کے بعد گھروں کو لوٹ جائیں، یہ نہ ہو جلسے کے بعد فیض آباد یا موٹروے بند کر دی جائے۔عدالت نے حکم دیا کہ 3 گھنٹے میں پی ٹی آئی کے جلسے کیلئے ایچ نائن جلسہ گاہ میں سیکیورٹی کے انتظامات مکمل کیے جائیں، حکومتی کمیٹی اور پی ٹی آئی کی کمیٹی کا اجلاس چیف کمشنر آفس میں رات 10 بجے کیا جائے۔عدالت نے کہا کہ کسی بھی وقت عدالتی حکم میں رد و بدل کیا جاسکتا ہے اور حکم واپس بھی لیاجا سکتا ہے، کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت کو گرفتار نہیں کیا جائے گا ،گرفتار کی گئی سیاسی قیادت اور ورکرز کو فوری رہا کیا جائے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت میں جے یو آئی جلسے کے لیے کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے، معاہدے میں نئی شق باہمی مشاورت سے شامل کی جائے اور عدالت کو بھی آگاہ کیا جائے۔عدالت نے کہا کہ وزارت داخلہ طاقت کے غیر ضروری استعال سے گریز کرے،

سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور آئی جی پنجاب ، ڈی سی اسلام آباد حکومت اور پی ٹی آئی کے اجلاس کو یقینی بنائیں۔وفاقی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل نے رکاوٹیں دور کرنے کی یقین دہانی کروادی۔ کیس کی سماعت (آج) جمعرات کی صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔قبل ازیں دورانِ سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، اسکولز اور ٹرانسپورٹ بند ہے،

معاشی لحاظ سے ملک نازک دوراہے اور دیوالیہ ہونے کے در پر ہے۔اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ معیشت کے حوالے سے عدالت کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے، معیشت کے حوالے سے ریمارکس میڈیا کو چلانے سے روکا جائے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو معیشت سے متعلق ریمارکس سے گریز کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ جو ریمارکس آپ یہاں دیتے ہیں وہ اہم مالیاتی اداروں تک بھی پہنچتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے تفصیلات کا علم

نہیں، ملکی صورتحال کی معلومات لینے کا وقت دیا جائے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال تو ہر انسان کو معلوم ہے۔انہوں نے کہا کہ کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کردیا جائے گا؟ تمام امتحانات ملتوی، سڑکیں اور کاروبار بند کر دیے گئے ہیں۔جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، کیا آپ کو ملکی حالات کا علم نہیں؟ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا۔اٹارنی جنرل نے

کہا کہ اسکولز کی بندش کے حوالے سے شاید آپ میڈیا رپورٹس کا حوالہ دے رہے ہیں، میڈیا کی ہر رپورٹ درست نہیں ہوتی۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اسکولز کی بندش اور امتحانات ملتوی ہونے کے سرکاری نوٹی فکیشن جاری ہوئے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ خونی مارچ کی دھمکی دی گئی ہے، بنیادی طور پر راستوں کی بندش کے خلاف ہوں تاہم

عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں، راستوں کی بندش کو سیاق و سباق کے مطابق دیکھا جائے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ماضی میں بھی احتجاج کے لیے جگہ مختص کی گئی تھی، میڈیا کے مطابق تحریک انصاف نے احتجاج کی اجازت کے لیے درخواست دی تھی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتظامیہ سے معلوم کرتا ہوں کہ درخواست پر کیا فیصلہ ہوا۔درخواست گزار صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن

شعیب شاہین نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ پولیس، وکلا کو بھی گھروں میں گھس کر گرفتار کر رہی ہے، سابق جج ناصرہ جاوید کے گھر بھی رات گئے پولیس نے چھاپہ مارا، مظاہرین اور حکومت دونوں ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی کو نہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسلح افراد کو احتجاج کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا

کہ ابھی تو احتجاج شروع ہی نہیں ہوا تو مسلح افراد کہاں سے آگئے؟انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن دو مرتبہ سرینگر ہائی وے پر دھرنا دے چکے ہیں، بلاول بھٹو بھی اسلام آباد میں لانگ مارچ کر چکے ہیں، اب بھی مظاہرین کے لیے جگہ مختص کی جاسکتی ہے۔شعیب شاہین نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے علاوہ سارے ملک کی شاہراہوں کو بند کردیا گیا ہے، وکلا سمیت عام لوگوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ راتوں کو لوگوں کے گھروں

میں گھسا جارہا ہے، احتجاج کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایات موجود ہیں، حکومتی اقدامات غیر آئینی ہیں، ہائی کورٹ بار صرف شہریوں کے حقوق کے لیے عدالت آئی ہے۔عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس حوالے سے زیر التوا کیسز میں جاری احکامات بھی طلب کر لیے اور سماعت میں وقفہ کردیا۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہونے پر عدالت کے طلب کرنے پر سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد، چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ

جنرلز کے علاوہ اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) اور ڈپٹی کمشنر اور ایڈووکیٹ جنرل عدالت پہنچے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جی اٹارنی جنرل صاحب، بتائیں کیا ہدایات لی ہیں۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحریک انصاف نے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی اجازت مانگی تھی تاہم سیکیورٹی صورتحال کے باعث سری نگر ہائی وے پر اکٹھا ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان

کی جان کو خطرہ ہے، حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان پر خودکش حملے کا خدشہ ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ اصل ایشو سے دور جارہے ہیں، کیا پولیس چھاپے مار کر لیڈرز اور کارکنوں کو حفاظتی تحویل میں لے رہی ہے؟ راتوں کو گھروں میں چھاپے مارنے میں کیا مزا آتا ہے؟ حکومت کو سرینگر ہائی وے کا مسئلہ ہے تو لاہور سرگودھا اور باقی ملک کیوں بند ہے؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا

سیاسی قیادت کو خطرہ صرف سری نگر ہائی وے پر ہی ہے؟جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ سیکریٹری داخلہ صاحب، جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری لیتے ہیں؟جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنا صوبوں کا کام ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا وزارت داخلہ صرف ڈاکخانے کا کام کرتی ہے؟جسٹس استفسار کیا کہ کیا وزارت داخلہ نے کوئی پالیسی ہدایات جاری کی ہیں؟ لوگوں کے گھروں میں

چھاپے مارنا خلاف قانون ہے۔سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے صوبوں کو کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا، حساس اداروں کی رپورٹس پر ہی کارروائی ہو رہی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر احتجاج اور باہمی احترام کا میثاق کرنا ہوگا۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ حکومتی عہدیداران کے بیانات دیکھیں، بطور حکمران آپ کا کام ہے کہ پہل کریں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈاکٹرز کیلئے ہسپتال جانا مشکل ہو چکا

ہے، کاروبار نہیں چلے گا تو لوگوں کے بچے کھائیں گے کہاں سے؟صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ ایک سڑک بند ہونے سے بچانے کے لیے پورا ملک بند کر دیا گیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انتظامیہ مکمل پلان پیش کرے کہ احتجاج بھی ہو اور راستے بھی بند نہ ہوں۔سپریم کورٹ نے چیف کمشنر اسلام آباد کو پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے لیے متبادل انتظامات کرنے کی ہدایت کردی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف

کمشنر اسلام آباد سے مکالمہ کرتے ہوئے ہدایت کی کہ لانگ مارچ کے لیے مناسب جگہ فراہم کریں، لانگ مارچ کی جگہ پر مظاہرین کو رسائی دینے کے لیے ٹریفک پلان بنایا جائے، یہ اپنا احتجاج کریں اور گھروں کو جائیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پی ٹی آئی سے یقین دہانی بھی لیں گے کہ احتجاج پرامن ہوگا، املاک کو نقصان نہ پہنچے اور تشدد اور سڑکیں بلاک نہ ہوں۔انہوں نے ہدایت کی کہ سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر، آئی جی اور

اٹارنی جنرل معاملے کا حل نکالیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ہدایت کی کہ پی ٹی آئی کے وکیل ہدایات لے کر انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھیں، ساتھ ہی پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کو ہدایات لینے کے لیے ڈھائی بجے تک کا وقت دیدیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کو گرفتاری کا خدشہ تو لسٹ دے دیں، جنہیں گرفتاریوں کا خدشہ ہے انہیں تحفظ دیں گے۔ انہوںنے کہاکہ سیاسی جماعتوں کے بھی مفاد ہیں لیکن عوام اور

ملک کے سامنے سیاسی مفادات کی کوئی حیثیت نہیں۔انہوںنے کہاکہ سب بہاریں پاکستان کے ساتھ ہیں ملک کی بہاروں کو آپس کی لڑائیوں میں خزاں میں تبدیل نہ کریں، سیاست میں آج ایک اور کل دوسرا ہوگا۔دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد ناصر اکبر خان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی صاحب، اپنے آپ کو کنٹرول کریں، اپنے اختیارات احتیاط سے استعمال کریں، پہلے ہی آپ کا بہت بوجھ ہے ،جو آپ اٹھائے پھر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ23 مئی کو جلسے کی اجازت مانگی گئی تھی لہٰذا عدالت حکومت کو احکامات جاری کرے کہ سڑکیں فوری طور پر کھول دی جائیں۔بابراعوان نے کہا کہ ہمارے گرفتار لوگوں کو رہا کیا جائے، وکلا کو ہراساں نہ کیا جائے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ جو حکم دے گی اس پر عمل ہوگا۔جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے اٹارنی جنرل اوشتر اوصاف کو 5

نکات دیے اور کہا کہ وہ وزیر عظم سے ہدایات لیں۔جسٹس اعجازلا حسن نے کہا کہ کیا لاٹھی چارج کرنا، آگ لگانا، گاڑیوں کے شیشے توڑنا پولیس کا کام ہے اور اس کے بعد جسٹس اعجازالاحسن نے سماعت میں وقفہ لیتے ہوئے کہا کہ ہم ایک گھنٹہ کے بعد پھر اکھٹے ہوں گے۔سپریم کورٹ میں سماعت میں ایک گھنٹے کے وقفے بعد ایک مرتبہ پھر سماعت شروع ہوئی اور جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ فیض آباد یا موٹروے بند کرنے سے کام نہیں ہوگا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت جو فیصلہ کرے گی اس پر عمل کرائیں گے اور بیان حلفی لیں گے۔بینچ کے سربراہ نے کہا کہ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کچھ عرصہ قبل احتجاج سے متعلق جووعدہ عدالت سے کیا تھا وہ پورا کیا جس پر بابراعوان نے کہا کہ ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کوئی فوڈ چین نہیں ٹوٹے گی، حکومت اور پی ٹی آئی میں روابط اور اعتماد کا فقدان ہے تاہم ان شااللہ عدم توازن ختم ہوجائے گا۔بابراعوان نے

کہا کہ عمران خان نے انتظامیہ سے مذاکرات کیلئے چار رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے، کمیٹی میں میرے علاوہ فیصل چوہدری، عامر کیانی اور علی اعوان شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی اجازت دینے کی استدعا کی تھی جہاں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے دو مرتبہ دھرنا دیا اور ہم بھی وہیں احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔بابر اعوان نے پرامن دھرنے اور امور زندگی متاثر نہ ہونے کی یقین دہانی کروا

دی اور عدالت سے فوری طور پر شیلنگ رکوانے کی استدعاکی۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عدالت اس معاملے میں ثالثی کا کردار ادا کررہی ہے، پاکستان تحریک انصاف دھرنے کا دورانیہ بتائے تو بابراعوان نے عدالت کو دھرنے کا دورانیہ بتانے سے معذرت کر لی۔دھرنے کے دورانیے سے متعلق بابراعوان نے کہا کہ یہ سیاسی فیصلہ ہے اس کو سیاسی فورم پر ہی ہونے دیں، ہمارا مطالبہ نئے انتخابات کا ہے، اس پر اٹارنی جنرل سے بات نہیں کروں

گا۔بابراعوان نے کہا کہ عمران خان اور پارٹی کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ احتجاج روکنے کے لیے چھاپے اور گرفتاریاں غیر قانونی عمل ہے، پی ٹی آئی کو موٹروے یا فیض آباد بند نہیں کرنے دیں گے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ تحریک انصاف کے مطالبات واضح ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام نے جہاں دھرنا دیا وہاں اجازت دی جائے، توقع ہے ایک گھنٹے میں فریقین کا اتفاق رائے ہو جائے گا۔اٹارنی جنرل

نے کہا کہ وزیراعظم کچھ دیر میں مذاکرات کے لیے وزرا کی ٹیم نامزد کریں گے، وزیراعظم چاہتے ہیں کہ سیاسی معاملہ عدالت سے باہر حل ہوں۔انہوں نے کہا کہ شیلنگ اور لاٹھی چارج کے حوالے سے باضابطہ حکم جاری کریں گے۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ایم پی او کے تحت ہونے والی ایف آئی آرز نہیں چلیں گی، ایم پی او کے حوالے سے بھی حکم نامہ جاری کریں گے۔سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب پولیس کے اقدامات پر اظہار برہمی کیا

اور جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا پولیس کا کام گاڑیاں توڑنا اور آگ لگانا ہے۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ لاہور میں ایک گھر سے اسلحہ برآمد ہوا ہے، جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اسلحہ تو آج کل ہر گھر میں ہوتا ہے، صبح سے کیا اسلحے والی کہانی سنائی جا رہی ہے، اسلحہ کہانی اب بند کر دیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لاہور کو میدان جنگ بنایا ہوا ہے، پنجاب میں جو ہو رہا ہے وہ بدقسمتی ہے۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…