شمیتابھ: منفرد خیال، ناقص انجام

16  فروری‬‮  2015

ایک جان دو قالب کا محاورہ تو ہر ایک نے سن رکھا ہے مگر ایک آواز دو جان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ بالکل انوکھا خیال ہے نا مگر یہی وہ آئیڈیا ہے جسے بولی وڈ فلم ‘شمیتابھ’ میں پیش کیا گیا ہے اور امیتابھ بچن اور دھنوش نے ایک آواز دو جان بننے کو عملی شکل دی ہے۔ ڈائریکٹر آر بالکی کی تیسری پیشکش درحقیقت امیتابھ بچن کی آواز کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے تخلیق کی گئی اور اس کا نام بھی مرکزی خیال کی طرح منفرد ہے یعنی شمیتابھ، جو کہ درحقیقت فلم کے کردار دانش (دھنوش) کے ش اور امیتابھ سنہا (بگ بی) کے میتابھ کو جوڑ کر بنایا گیا۔ درحقیقت یہ فلموں کے دیوانے ایک ایسے گونگے نوجوان دانش کی کہانی ہے جو اپنے گاﺅں سے نکل کر ممبئی اس توقع کے ساتھ پہنچتا ہے کہ وہ بھی ایک فلم اسٹار بن سکے گا۔ یہاں وہ ایک پرعزم اسسٹنٹ ڈائریکٹر اکشرا (اکشرا حسن) کو دریافت کرتا ہے جو اسے کام دلانے کی کوشش بھی کرتی ہے مگر گونگا پن رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس کا حل فِن لینڈ کی ایک ایسی الیکٹرونک ڈیوائس کی شکل میں ملتا ہے جو گونگے دانش کو ‘مستعار’ لی گئی آواز میں بولنے کے قابل بنا دیتی ہے اور یہ آواز ہوتی ہے ایک ناکام فلمی اداکار امیتابھ سنہا کی جو کہ ایک شرابی ہونے کے ساتھ ایک قبرستان میں مقیم ہوتا ہے۔ وہ اس خیال کی مزاحمت کر ہی نہیں پاتا کہ اس فلمی صنعت، جس نے اسے مسترد کر دیا تھا، کو اپنی آواز کے ذریعے فتح کر لے جو کہ کسی اور فرد کے ہونٹوں سے نکلے، جبکہ مالی مراعات کا لالچ الگ ہوتا ہے اور اس طرح ایک نئے اسٹار شمیتابھ کا جنم ہوتا ہے۔ اور بس یہ کہانی بولی وڈ کی دنیا کے مختلف گوشوں اور مصنوعی پن کو افشاء کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے جس میں شمیتابھ یعنی دانش اور امیتابھ کا لالچ، حسد اور انا بھی نمایاں طور پر دیکھنے والوں کے سامنے آتا ہے۔ کامیابی کے حصول کے بعد اکثر اوقات لوگ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو ایسا ممکن ہی نہیں تھا، اور ان جذبات کا شکار شمیتابھ کے دونوں کردار بھی ہوجاتے ہیں۔ امیتابھ کو لگتا ہے کہ اس کی آواز کے بغیر دانش کے لیے ایک قدم چلنا بھی ممکن نہیں ہوتا اور اس کے مقابلے میں دانش کو لگتا ہے کہ اس کے بغیر امیتابھ کی آواز کسی کام کی نہیں۔ یہی سوچ دونوں کے درمیان تنازعات کا باعث بن جاتی ہے خاص طور پر اس موقع پر جب امیتابھ لندن میں گرفتاری اور پھر رہائی کے بعد کچھ ایسے جملے دانش کی زبان سے ادا کروا دیتا ہے جو اس کے لیے شرمندگی کا باعث بن جاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس فلم کا اولین نصف حصہ بہترین ہے تو غلط نہیں جس میں دنیش کی جدوجہد اور امیتابھ کی آواز سے اس کا ملاپ دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑنے کے لیے کافی ثابت ہوتا ہے مگر آخری حصے میں ایسا لگتا ہے کہ ڈائریکٹر کی گرفت فلم پر ڈھیلی پڑ گئی ہے اور اسے سمجھ نہیں آ رہا کہ جس منفرد خیال پر یہ کردار تشکیل دیے گئے ہیں، اسے کیسے ایک اچھا اختتام دیا جائے۔ در حقیقت فلم میں متعدد ایسی خامیاں ہیں جو دیکھنے والوں کو الجھن میں مبتلا کر دیتی ہیں جیسے دنیش کے گلے سے امیتابھ کی آواز نکلنے کی ٹیکنالوجی تو ایسی سائنس فکشن لگتی ہے جو سمجھ نہیں آتی، کہ اگر ایسا ممکن بھی ہے تو بھی کسی کے لیے آواز کے مطابق اپنے چہرے کے تاثرات لمحہ بہ لمحہ کیسے بدل سکتا ہے؟ خاص طور پر اس موقع پر جب امیتابھ دانش سے الگ ہو کر کسی اور ہیرو کے لیے ڈبنگ کا کام کرتا ہے تو بھی ایک صحافی کے سوا کسی کو شک ہی نہیں ہوتا کہ یہی دانش (شمیتابھ) کی آواز ہے جو کہ کافی غیرمنطقی لگتا ہے۔ آر بالکی کی اولین دو فلمیں ‘چینی کم’ اور ‘پا’ کی اینڈنگ دیکھنے والوں کے لیے مایوس کن ثابت ہوئی تھی اور اگر آپ بھی ان میں شامل تھے تو ایک بار پھر تیار ہوجائیے کیونکہ شمیتابھ کے اختتام پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ڈائریکٹر کو سمجھ نہیں آرہا کہ اس موقع پر کیا نکتہ ثابت کرنا چاہیے یا کیا دکھانا چاہیے اور بس وہ اچانک ہی ختم ہوجاتی ہے اور دیکھنے والا سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ آخر یہ دکھایا کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک بڑی خامی اتنی رحم دل اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا ہونا ہے جو پہلی ہی ملاقات پر دانش کو مارپیٹ سے بچاتی ہے پھر اسے فلموں میں کام دلوانے کی کوشش کرتی ہے اور اپنے باپ کی مدد سے اسے ہندوستان سے فن لینڈ بھی اپنے خرچے پر بھجوا کر نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے فلمی دنیا میں آمد کے لیے تیار کر پاتی ہے حالانکہ بظاہر نہ تو اسے اس سے محبت ہوتی ہے اور نہ ہی اس سب کی کوئی اور وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ فلم کی ایک اور خامی اس کی موسیقی بھی رہی جو ساﺅتھ انڈیا کے معروف موسیقار علیا راجہ نے مرتب کی جس میں امیتابھ بچن کی آواز میں ‘ پڈلی سی باتیں’ ہی سب سے متاثر کن رہا جبکہ دیگر گانے ایسے ہیں جنہیں بھول جانا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ اگر فلم کے اداکاروں کی بات کی جائے تو درحقیقت اس میں سب سے نمایاں امیتابھ بچن ہی ہیں جن کی اداکاری، انداز اور وقار فلم میں ہر جگہ چھایا ہوا ہے یہاں تک کہ جب وہ گرد و غبار میں لیٹے نشے میں دھت لایعنی باتیں بھی کررہے ہوتے ہیں تو ان کا انداز متاثر کن ہوتا ہے۔ امیتابھ نے اپنی اداکاری سے ثابت کیا ہے کہ کیوں فلم کے نام کا بڑا حصہ ان کے نام پر رکھا گیا اور وہی اس فلم کا یادگار حصہ بھی ہیں۔ دھنوش نے بھی اپنے کردار کو اچھے انداز سے نبھایا اور امیتابھ کی آواز پر ان کے چہرے کے تاثرات ڈائیلاگ کے مطابق نظر آئے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ آواز ان کی اصلی ٹون سے زیادہ بھلی لگ رہی تھی۔ بولی وڈ میں ڈیبیو کرنے والی اکشرا حسن کا کردار زیادہ متاثر کن نہیں رہا اور ان کا ناپختہ پن نمایاں طور پر سامنے آتا رہا۔ تاہم فلم میں جتنی بھی خامیاں ہوں مگر اس کا مرکزی خیال بالکل نیا اور دلچسپ ہے جو اسے کم از کم ایک بار دیکھنے کے قابل تو بنا ہی دیتا ہے بالخصوص امیتابھ اور دھنوش کی باہمی کیمسٹری دیکھنے والوں کو اسکرین کے سامنے بٹھائے رکھنے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے خاص طور پر ڈائیلاگز اس کی جان ہیں جو کافی حد تک خامیوں کو چھپا لیتے ہیں اور امیتابھ کی آواز کا اس طرح پہلی بار منفرد قسم کا استعمال بھی ناظرین کے لیے ایک دلچسپ تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ فلم کی ریٹنگ پر اگر بات کی جائے تو شمیتابھ یعنی مرکزی کرداروں کی بہترین اداکاری کو دیکھتے ہوئے ہم اس کو 5 میں سے 3 دینا پسند کریں گے۔



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…