ہڈیاں جوڑنے میں بائیو گلاس کا استعمال ایک اہم دریافت ہے

17  ‬‮نومبر‬‮  2017

اسلام آباد(ویب ڈیسک)انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے طبی سائنس میں مسلسل نئے نئے تجربے ہو رہے ہیں، انھیں تجربات میں سے ایک اہم بائیوگلاس کا امپلانٹ بھی ہے۔ یعنی ہڈیوں کو جوڑنے میں قدرتی گلاس کا استعمال۔ ہڈیوں کو جوڑنے کے لیے کانچ کا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ سننے میں یہ بات تھوڑی عجیب ضرور لگ سکتی ہے

لیکن اس وقت بہت سے ممالک میں ڈاکٹر بائيوگلاس کی مدد سے ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے کا کام کر رہے ہیں۔اس کانچ کا استعمال اس مقصد کے لیے ہورہا ہے وہ کوئی معمولی گلاس نہیں ہے۔ یہ بائیو گلاس بہت ہی خاص ہے۔ یہ نہ صرف ہڈیوں سے زیادہ مضبوط ہے بلکہ لچکدار ہونے کی سبب مڑ بھی سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی انفیکشن بھی نہیں ہوتا ہے۔ لندن کے معروف سرجن ایان تھامسن نے دنیا کا سب سے پہلا گلاس امپلانٹ کیا تھا۔ انھوں نے پہلی بار یہ تجربہ ایک مریض کی آنکھ میں بائیو گلاس کی پلیٹ ڈال کر کیا تھا۔ ایک حادثے میں اس مریض کی آنکھ میں چوٹ لگ گئی تھی اور انھیں دیکھنے میں کافی مشکل ہوتی تھی۔ ڈاکٹروں نے تمام کوششیں کیں، لیکن ہر کوشش ناکام رہی ہے۔ تقریبا 15 سال پہلے ایان تھامسن نے اس مریض کی آنکھ میں بائیوگلاس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ڈال کر ایک نیا تجربہ کیا۔ اس وقت سے وہ مریض نہ صرف صحت مند ہیں بلکہ اپنی آنکھوں سے اچھی طرح دیکھ بھی سکتے ہیں۔ جب یہ تجربہ کامیاب رہا تو ایان تھامسن نے سوچا، کیوں نہ جسم کے دوسرے ٹوٹے پھوٹے اعضا کو درست کرنے کے لیے اس کانچ کیا جائے۔ پروفیسر تھامسن نے بائیوگلاس کے امپلانٹ کی مدد سے ایسے تقریبا 100 مریضوں کا علاج کیا ہے جو حادثے کا شکار ہوئے تھے۔ پروفیسر تھامسن کے مطابق، بائیوگلاس کا امپلانٹ کئی بار مریض کی اپنی ہڈی سے بھی بہتر کام کرتا ہے۔ بائیوگلاس کا امپلانٹ جسم آسانی سے

اپنا لیتا ہے جس کی وجہ سے ہڈیوں اور پٹھوں کے درمیان ایک اچھی مطابقت پیدا ہوتی ہے اور نئی ہڈیوں کے پنپنے کے لیے خلیوں کی پیداوار شروع ہوجاتی ہے۔ سنہ 1969 میں امریکی سائنس دان لیری ہانک نے بائیوگلاس کو درمیافت کیا تھا۔ انھوں نے اس کی تحقیق کا کام امریکہ میں شروع کیا تھا لیکن بعد میں وہ لندن منتقل ہوگئے تھے، جہاں ڈاکٹر اس وقت سب سے زیادہ بائيوگلاس کا استعمال کرتے ہیں۔

اس کا استعمال ہڈیوں کے علاج سے لے کر دانتوں کا علاج کرنے اور نئے دانت بنانے تک میں ہوتا ہے۔ تقریباً دس برسوں تک بائیوگلاس کا استعمال پاؤڈر کی شکل میں ہوتا تھا۔ اس کی پٹی بنا کر فریکچر ٹھیک کیا جاتا تھا۔ سنہ 2010 کے بعد سے سینسوڈائین نامی کمپنی نے ٹوتھ پیسٹ میں بھی اس کا استعمال شروع کر دیا تاکہ ٹوٹے پھوٹے دانتوں کی یہ مرمت کر سکے۔ طبی سائنس کی دنیا میں بائیوگلاس کی ایجاد ایک انقلاب کی طرح ہے۔ بہت سے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی مدد سے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے

لیکن ابھی جس بلندی تک پہنچا جا سکتا ہے وہاں تک رسائی نہیں ہوپائی ہے۔ حالانکہ بائیوگلاس کی مدد سے بہت سے نئی چیزیں بنائی جا رہی ہیں۔ اب بہت ہی لچکدار قسم کے بائيوگلاس بھی بنائے جا رہے ہیں جو پیروں کی چکنا چور ہوچکی ہڈیوں کو بھی درست کرنے کے لیے استعمال میں آسکتے ہیں۔ یہ بائیو گلاس مریض کے جسم کا مکمل بوجھ لینے کے قابل ہوتے ہیں اور مریض بغیر بیساکھی کے استعمال کے بھی چل سکتا ہے۔

اس کے استعمال کے بعد، مریض پر کسی بھی قسم طرح کی پن یا کسی دوسری پلیٹ کو لگانے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی مدد سے ہڈی کے نئے خلیے بننے میں آسانی ہوتی ہے۔ لچکدار بائیوگاس کے سات ساتھ ایسے بائیوگلاس بھی ہیں جو بالکل ربڑ کی طرح نظر آ تے ہیں۔ فی الحال، سرجن ان کا استعمال کولہے اور گھٹنوں کے فریکچر کو ٹھیک کرنے کے لیے کرتے ہیں۔

تاہم بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ ابھی زیادہ کامیاب نہیں ہے۔ اس کا استعمال بعض پہلوانوں پر کیا گیا تھا، لیکن چند سالوں کے بعد ان کی تکلیف پھر سے ابھر آئی۔ لیکن اب اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی بھی کوششیں ہورہی ہیں۔ لندن میں امپیریئل کالج کی ڈاکٹر جولین جانز ایک ایسی تھری ڈی تکنیک کو فروغ دینے پر کام کررہی ہیں جس نرم ہڈیوں کو جوڑنے کا کام بھی آسان ہوسکے۔ اس کا پہلا تجربہ جانوروں پر کیا جاتا ہے اور اگر یہ تجربہ

کامیاب ہوتا ہے تو پھر اسے کلینک میں آزمایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جونز کا کہنا ہے کہ ابھی تک نازک ہڈیوں کو جوڑنے کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے لیکن بائیوگلاس کی دریافت نے اسے آسان بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں اگر تمام قسم کے تجربات کامیاب رہے تو ہوسکتا ہے کہ آنے والے دس برسوں کے اندر ایسا ہو کہ کوئی شخص محض ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے زندگي بھر معذور نہیں رہے گا۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…