11 اموات نیب کی تحویل میں نہیں ہوئیں بلکہ ۔۔ معاون خصوصی شہزاد اکبرنے حقیقت بیان کر دی

4  جنوری‬‮  2021

اسلام آباد (این این آئی)ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ایوان کی انسانی حقوق کمیٹی کے سپرد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب کی حراست میں لوگ مر رہے ہیں، نیب کسی کے کنٹرول میں نہیں، اسے لگام دینا ہوگی، کیا نیب افسران کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟ کیا نیب افسران خاص لوگ ہیں، کیا ان کو استثنیٰ حاصل ہے؟

نیب افسران کے اثاثے، ڈگریاں، ڈومیسائل چیک کیے جائیں، نیب افسران کی بھرتیاں کیسے ہوئیں، چیک کیا جائے جبکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیب قانون ہم نے نہیں بنایا ، پہلے موجود ہے ،نیب کے قوانین کو مزید موثر کرنے کی ضرورت ہے ،نیب کی تحویل میں صرف دو اموات ہوئی ہیں،نیب قوانین میں ترمیم بہتری کیلئے تو کر سکتے ہیں، اپنے مقصد کے لیے ختم نہیں کرسکتے،آمدن سے زائد اثاثوں پر پاکستان میں دس سال نااہلی کی سزا ہے،رجنٹینا میں ساری عمر کی نااہلی کا قانون موجود ہے، کچھ ممالک میں عمر قید کی سزا کا قانون ہے۔ پیر کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا جس میں سینیٹر شیری رحمان نے بلوچستان مچھ میں دس افراد کے شہادت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہزارہ کمیونٹی کے خلاف مستقل مظالم ہورہے ہیں ،وزیراعلیٰ بلوچستان مظلوم فیملی کے ہاں جائے، کان کن مظلوم طبقہ وزیراعظم جا ئیں اْن پر مرہم رکھیں۔سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہاکہ بلوچستان مچھ واقعہ کی تحہ تک پہنچیں گے ملزموں کو قرار واقعہ سزا ملے گی ،مچھ کے واقعہ کے پیچھے ہاتھوں کو ڈھنڈنے کی ضرورت ہے ،باغی گروپ دوبارہ اپنے آپ کو ری آرگنائز کررہے ہیں۔سینیٹر کبیر محمد شاہی نے کہاکہ دو ہزار دس کے بعد موجودہ دور میں دوبارہ ہزارہ کمیونٹی کی کلنگ شروع ہو گئی،سنگلاخ پہاڑوں میں دو ہولیس اہلکار تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔ انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم،وزیر اعلیٰ یا کسی وزیر

نے بھی ان سے ہمدردی کرنے نہیں گیا، حکومت کا رویہ بہت افسوسناک ہے۔ سینیٹر میر کبیر نے کہاکہ بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کا دوبارہ قتل عام شروع ہوا ہے ،مچھ واقعہ پر حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگی،نہ وزیراعظم گئے ہیں نہ وزیراعلیٰ گئے ہیں۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہاکہ بلوچستان کے واقعہ نوٹس لینا چاھیے وفاقی دارلحکومت میں طالب علم کو قتل کردیا جاتا ہے ،پولیس سرعام لوگوں کو قتل کررہی ہے اور سرعام ڈکیتیاں ہورہی ہیں ،اسلام آباد میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے۔

بابر اعوان نے کہاکہ اسامہ ستی کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا،جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا گیا،معاشرہ کس جانب چل پڑا ہے، اس معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، خود بھی اسامہ کے لواحقین سے ملاقات ہوئی، پوری فیملی تعلیم یافتہ ہے ،بچے کو بیگناہ مارا گیاانہوںنے کہاکہ مچھ وفاقی وزیر داخلہ کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے، وہ بلوچستان جائیں گے۔وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر بابر اعوان نے کہاکہ طالب علم کے قتل میں پولیس اہلکار گرفتار ہو چکے ہیں ،میں اْسامہ ندیم ستی کے گھر گیا

اور اْن کے والدین سے ملا۔ جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہاکہ ہم حکومت کہاں اْس کی رٹ کہاں ہے اْسامہ ندیم ستی کو قتل کردیا جاتا ہے ،اْسامہ ندیم پر بائیس فائر کیے گئے یہ المناک مسئلہ ہے اس پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ایوان کی

انسانی حقوق کمیٹی کے سپرد کرنے کا مطالبہ کردیا۔انہوںنے کہاکہ پہلی مرتبہ نیب کا معاملہ سینیٹ ایجنڈا پر آیا ہے، نیب نے سینیٹرز کو پریشان کر رکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ نیب کو خط لکھا تھا کہ کسی سینیٹر کو گرفتار کرنے سے قبل یا انہیں بلانے سے قبل سینیٹ کو اطلاع دی جائے، چیئرمین نیب نے کہا تھا کہ اس حوالے سے سینیٹ کو اطلاع دیا کریں گے اور اس پر عمل جاری بھی تھا، لیکن روبینہ خالد دو سال سے

احتساب عدالت میں در بدر ہو رہی ہیں اور نہ ان کا کیس چلتا ہے، محسن عزیز روس میں تھے جب انہیں فون آیا کہ نیب نے مالم جبہ کیس میں آپ کے خلاف انکوائری شروع کر دی ہے۔انہوںنے کہاکہ شیری رحمن کے سابقہ شوہر سے جبراً 164 کا بیان لکھوایا گیا، وہ انتہائی شریف آدمی ہیں، میرے پاس اب تک ان افراد کی 100 درخواستیں آچکی ہیں جو جیل میں ہیں یا نیب عدالتوں میں رْل رہے ہیں، ان کے ساتھ نیب کی جانب سے زیادتی ہو رہی ہے۔سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ مجھے کہا گیا کہ ہم آپ کے چیئرمین سینیٹ کو

بھی دیکھ لیں گے، کس ادارے میں اتنی جرات ہے کہ وہ کہے کہ چیئرمین سینیٹ کو دیکھ لیں گے۔انہوں نے کہا کہ کیس چلانے سے پہلے میڈیا میں عزت کو اچھالا جاتا ہے، میں نے کہا کہ مجھ سے ہونے والی تحقیقات کو میڈیا میں چلائیں، نوٹس کو تو بہت میڈیا پر چلاتے ہیں، مجھ سے پوچھا گیا کہ اپ منگلا کور کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں، کہا گیا کہ آپ بے نامی ٹرانزیکشنز کرتے ہیں، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے منگلا کور کے ساتھ بے نامی ٹرانزیکشن کی؟ پورا ملک اس پر ہنس رہا ہے، اس ایوان کے ذریعے مطالبہ کیا جائے

کہ کسی کی میڈیا میں پگڑی نہیں اچھالی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے ایک وفاقی وزیر کا فون آیا کہ آپ ہمارے دل کی آواز ہیں، ہم نیب کے ساتھ کام نہیں کر سکتے، یہ کام کیوں نہیں کر پارہے؟ کیا حکومت کو یہ علم نہیں ہے۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ کوئی ایوان میں سے کہے کہ سلیم مانڈوی والا نے کرپشن کی ہے، نیب کی حراست میں لوگ مر رہے ہیں، خرم ہمایوں کے ساتھ 10 سال سے کام کر رہا تھا اس نے خودکشی کر لی، نیب کسی کے کنٹرول میں نہیں، اسے لگام دینا ہوگی، نیب کی انسانی حقوق کی

خلاف ورزیوں کو انسانی حقوق کمیٹی کے سپرد کریں۔انہوں نے کہا کہ کیا نیب افسران کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟ کیا نیب افسران خاص لوگ ہیں، کیا انہیں استثنیٰ حاصل ہے؟ نیب افسران کے اثاثے، ڈگریاں، ڈومیسائل چیک کیے جائیں، نیب افسران کی بھرتیاں کیسے ہوئیں، چیک کیا جائے۔اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ سلیم مانڈوی والا نے بہت اہم مسئلہ اٹھایا ہے، میں، ڈپٹی چیئرمین اور ڈاکٹر شہزاد وسیم بیٹھ کر دیکھتے ہیں کہ ہم اس حوالے سے کیا کر سکتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے قومی ادارے میں بہتری آئے۔

انہوںنے کہاکہ جو لوگ نیب حراست میں ہلاک ہوئے ان میں اسلم مسعود ،اعجاز میمن مظفر اقبال اسد منیر، راجہ آصف اور خرم ہمایوں سمیت درجنوں لوگ شامل ہیں،دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا جس طرح کا احتساب پاکستان میں ہو رہا ہے۔سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہاکہ نیب حراست میں لوگوں کی خود کشیاں ہو رہی ہے ،پنجاب کا بڑا ڈاکو کس کی گود میں بیٹھاہوا ہے ،نیب اس ڈاکو بارے بھی تحقیقات کرے

اور وزیراعظم سے پوچھے ،نیب انتقامی کارووائی کا ادارہ بن گیا ۔ سینیٹ میں سینیٹر ولید اقبال نے کہاکہ کسی عدالت نے انسانی حقوق ایکٹ 1999 کو کالعدم قرار نہیں دیا ،احتساب بیورو پر بہت زیادہ تنقید کی گئی، ماضی میں سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا ہوتا رہا سب کو یاد اس دور میںآیا ،کیا انتقامی کارروائی نہیں ہورہی تھی،نیب کو یکطرفہ طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،نیب نے جو ریکوری کی وہ سب کے

سامنے ہے اس کا اعتراف ٹرنسپرسی کے اداروں نے بھی کی۔ نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر طاہر بزنجو نے کہاکہ چیئرمین سینیٹ اور وزیراعظم اثاثوں کی تفصیلات بتاتے ہیں ،چیئرمین نیب اور ججز اور جرنیل کو اثاثے بھی ظاہر کرنا چاہئیں ،آٹا چینی چوروں اور پیزا والوں کو بھی جیل میں جانا چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ نیب والے کہتے ہیں ڈاکٹر مالک کی دوسری بیوی کے بچوں کے اثاثے اْن کی شادی ایک دوسری بیوی کہاں سے آئی،۔ سینیٹ میں سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ وزیراعظم نے جب پہلی تقریر کی تو اپوزیشن نے

نہیں سنی اور این آر او مانگا ،جب کشمیر کا مسئلہ زوروں پر تھا تو کنٹینر لے کراسلام آباد آگئے ،اپوزیشن کے لوگوں پر کیسز ہیں وہ کہتے ہیں کیسز ختم کیے جائیں ،منی لانڈرنگ پر نیب نہ پکڑے ذاتی چوری کے چھٹکارا مل سکے ،اگر وزیراعظم عمران اپوزیشن کے کیسز ختم کردیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا ،اپوزیشن کا پروگرام ٹھس ہو گیا ہے مارچ شوق سے کریں ۔ انہوںنے کہاکہ عمران خان پر کیسز ہوئے ان کا جواب دیا باہر نہیں بھاگے عمران نے پائی پائی کا حساب دیا ۔ انہوںنے کہاکہ مریم نواز شریف نے ایک ثبوت

عدالت میں پیش نہیں کیا ،سیاست اور سیاسی انتقام اور چیز ہے قانون سازی کے لیے تیار ہیں ،اپوزیشن بند گلی میں پھنس چکی ہے عمران نے اپوزیشن کے خلاف ایک بھی کیسز نہیں بنا۔انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے لانگ مارچ پہلے بھی کیا، کنٹینر پر سیلفیاں لے کر چلے گئے، مریم نواز کہتی تھیں لندن تو کیا پاکستان میں جائیداد نہیں ہے، مگر پانامہ پیپر میں ان کی تمام چیزیں نکل آئیں۔ سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ

عمران خان نے 40 سال پرانا حساب دیا، مریم نواز لندن کے فلیٹ کی مالکن نکل آئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں کی کرپشن نکلی تو انہوں نے جواب دیا، اداروں پر حملہ نہیں کیا۔سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اپوزیشن بند گلی میں پھنس چکی ہے، یہ تمام کیسز عمران خان نے نہیں بنائے، ان کے دور کے بنے ہوئے ہیں۔سینیٹر رحمان ملک نے کہاکہ پارلیمنٹ ایسی لگتی ہے جیسے ہم عدالت میں بیٹھے ہیں فرق صرف یہ ہم گون نہیں پہنا ،ملک کو قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہے اس پر کوئی قانون سازی نہیں ہوئی

،ریاست مدینہ کی بات کرنے والوں اور میرے سمیت ایمانداری کی ضرورت ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی تاریخ میں پی پی پی نے این آر او کبھی نہیں لیا رحمان ملک ،پی پی پی کے حوالے سے کوئی این آر آو ثابت کردے تو اْس کے گھر نوکری کروں گا ۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی تاریخ میں پی پی پی نے این آر او کبھی نہیں لیا ،پی پی پی کے حوالے سے کوئی این آر آو ثابت کردے تو اْس کے گھر نوکری کروں گا سینیٹر سسی پلیجو کا نیب کے حوالے سے تحریک پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ وزیر داخلہ شیخ رشید ک

و ایوان میں بلایا جائے اْن کی خواہش پر اْنہیں وزارت داخلہ دی گئی ہے ،وزارت داخلہ اور وزیراعظم ایک پیج پر نہیں ہیں ،اسامہ ندیم ستی کے معاملہ پر وزیرداخلہ کو ایوان میں بتانا چاہیے تھا ۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے قائدین کے خلاف جھوٹے کیسز بنائے گئے ہیں ،اپوزیشن احتساب سے نہیں بھاگ رہے احتساب کے نام انتقامی کارراوئی ہو رہی ہے ،اداروں کے ساتھ تصادم کسی صورت نہیں چاہیے۔وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہاکہ احتساب کا طریقہ کار صرف پاکستان میں نہیں دیگر ممالک میں

احتساب کا ادارہ ہے ،نیب کے قانون کے مطابق کسی بھی شخص کی گرفتاری کی منظوری چیئرمین نیب دیتا ہے ،نیب کے قانون میں کسی بھی کیس کے حوالے سے نیب کو ثابت کرنا پڑتا ہے ،احتساب کا قانون یا ادارہ ہونا بین الاقوامی ضرورت بھی ہے ،نیب کے قوانین کو مزید موثر کرنے کی ضرورت ہے ،احتساب کا ادارہ اور قانون ہم نے نہیں بنایا قانون پہلے سے موجود ہے ۔ انہوںنے کہاکہ احتساب کا ادارہ 1996 سے ہے احتساب کے اختیار کے حوالے ماضی کی دونوں حکومتوں نے قانون سازی بھی کی

نیب قانون کو سب سے پہلے اسفند یار ولی خان کیس میں پرکھا گیا ،شہزاد اکبر نے سینیٹ میں نیب سے متعلق قوانین پڑھ کر سنائے ۔ انہوںنے کہاکہ نیب نے دو سالوں اربوں روپے کی ریکارڈ ریکوری کی ہے ،ستائیس ماہ میں دوسو ستائیس ارب روپے کی ریکوری کی ہے ۔ انہوںنے کہا کہ بااثر لوگوں کی آواز ہر جگہ سنی جاتی ہے وہ اپنی بات عدالتوں میں سنائیں ،یہاں پر نیب کی تحویل میں تیرہ اموات کا حوالہ دیا تیرہ میں گیارہ جوڈیشل تحویل میں ہوئی ہیں اسد منیر کو نیب نے اپنی تحویل میں نہیں لیا ،نیب کی تحویل میں

صرف دو اموات ہوئی ہیں، آغا سجاد اور ظفر اقبال محل پر کوئی تشددنہیں ہوا ۔ انہوںنے کہاکہ پانامہ پر تو فیصلہ ہو چکا ہے سابق وزیر داخلہ نے کیس بنا کر بھیجے ،تحریک انصاف ان کیسوں کو روکا نہیں چلنا دیا مجھے کہا گیا میڈیا پر نہ بتائیں ،پاکستان میں رہتے ہوئے وزیر ہیں بائیس لاکھ روپے تنخواہ کیسے لیتے رہے ،نیب قوانین میں ترمیم بہتری کے لیے تو کر سکتے ہیں لیکن اپنے مقصد کے لیے ختم نہیں کرسکتے۔ انہوںنے کہا کہ احتساب کا عمل صرف پاکستان کا تجربہ نہیں ہے، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی

احتساب کا عمل چل رہا ہے۔مشیر داخلہ نے کہا کہ ارجنٹینا میں ساری عمر کی نااہلی کا قانون موجود ہے، کچھ ممالک میں عمر قید کی سزا کا قانون ہے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ ایسے ادارے دیگر ممالک میں کام کر رہے ہیں اور ایسی ہی قانون سازی ہے۔سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر راجہ ظفرالحق نے کہا کہ پورے ملک میں ایک تاثر بن گیا ہے احتساب اپوزیشن کا ہی ہورہا ہے ،شہزاد اکبر غلط زبان استعمال کرتے ہیں لوگوں نے اْنہیں سننا ہی بند کردیا ہے ،وزرا بیٹھ کر پرپیگنڈا کرتے ہیں چینی آٹے اور درختوں کے سیکنڈل پر بھی کارروائی ہو ،مسلسل جھوٹ بولا جائے تو وہ سچ نظر آنے لگتا ہے ،غلط جو کیے ہیں اْن کو ٹھیک ہونا چاہیے بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس منگل کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…