ملک میں صدارتی نظام، اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنا فیصلہ سنا دیا

13  جولائی  2020

اسلام آباد (این این آئی)سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے ملک میں صدارتی نظام لانے کی باتوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے حکومت پر واضح کیا ہے کہ صدارتی نظام کسی صورت قابل قبول نہیں،حکومت اٹھارہویں ترمیم سے چھیڑ چھاڑ سے بھی باز رہے ،اگر اٹھارہویں ترمیم پر نظرثانی کی بات کرنی ہے تو ہم تمام ٹیکس صوبوں کی جمع کرنے کا مطالبہ کریں گے، اس وقت چھ چھ وزیراعظم گھوم رہے ہیں اور یہ چلے ہیں صدارتی نظام لانے ،

پلے نہیں دھیلا کرتی میلہ میلہ جبکہ سینیٹ نے بیرسٹر سیف کی جانب سے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ میں ترمیم سے متعلق بل پیش کرنے کی تحریک کثرت رائے سے مسترد کردی۔ پیر کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیرصدارت ہوا جس میں متعدد پرائیوٹ ممبر بل پیش کیے گئے۔ بیرسٹر محمد علی سیف نے قومی مالیاتی کمیشن میں ترمیم کا بل پیش کرنے کے لیے تحریک پیش کی۔ بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اٹھارہویں ترمیم پر شب خون مارنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس وقت حکومتی بنچوں سے پارلیمنٹ پر حملہ کیا جارہا ہے۔ رضا ربانی نے کہاکہ اشرافیہ صوبوں کے وسائل پر قابض ہونا چاہتی ہے ،این ایف سی ایوارڈ 1973 کے آئین کے تحت آیا اٹھارہویں ترمیم کے تحت نہیں ۔ انہوںنے کہاکہ گیارہ گیارہ سال این ایف سی ایوارڈ نہیں آتا رہا ،ابھی بھی نیا این ایف سی ایوارڈ نہیں آرہا۔ انہوںنے کہاکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو صرف ایک قانون کے طور پر نہ دیکھا جائے ،اٹھارہویں ترمیم کے تحت انتہا پسند نیشنلسٹ فورس مذاکرات کی میز پر آئیں ،کرونا اور ٹڈی دل کے حوالے سے سی سی آئی کو بلانا چاہیے تھا ،اٹھارہویں ترمیم کے باوجود وفاق کا کردار محدود نہیں ہوا ،پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر غیرملکی قرضے لئے گئے،ہم تھری اے پر نظرثانی کے لیے تیار ہیں ،ہم تمام ٹیکس صوبوں کے جمع کرنے کا مطالبہ کریں گے ۔ انہوںنے کہاکہ صوبے تمام

ٹیکس جمع کریں اور وہ بلوں کی تصدیق کے بعد وفاق کو پیسے ادا کریں گے۔ سلیم مانڈوی والا نے کہاکہ بیرسٹر سیف کا بل حساس نوعیت کا ہے، تاثر دیا جا رہا ہے کہ میرا اور آپ کا آفس اس سازش میں ملوث ہیں۔انہوںنے کہاکہ یہ بل ایجنڈا میں شامل نہیں اور ایک منصوبہ بندی کے تحت لایا گیا ہے۔ڈپٹی چیئر مین سینٹ نے بتایاکہ مجھے غلط فہمی ہوئی ، معذرت چاہتا ہوں۔ سینیٹر میر کبیر شاہی کے مطابق جناب چیئرمین آج ہمیں دو پاکستان نظر آرہے ہیں

،ایک پاکستان میں لوگ خوش نظر آرہے اور ایک میں پریشان ،پاکستان کا ایک حصہ ایسا ہے جو معدنیات سے مالامال ہے ،وہاں انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں،ہم نے وفاق کو مظبوط کرنے کیلئے کہا تھا کہ صوبوں کو برابر کا اختیار دیں ،رضا ربانی 18 ویں ترمیم کے خالق ہے ،ہر پانچ سال بعد صدر صاحب ایک خط نکالتے اور اس کے مطابق پیسے دیتے ہے صوبوں کو ۔ انہوںنے کہاکہ اگر اٹھارویں ترمیم کو چھیڑا گیا تو اس کے

نتائج مثبت نہیں آئیں گے،خدا کیلئے اس ریاست اور اس ملک پر رحم کریں ،برابری کی بنیاد پر ایک پاکستان بنائے،وسائل کو برابر سے تقسیم کریں،قرضوں کا جو بوجھ ہے کیا وہ صوبوں نے لیا ہے،جو وفاق کا کام تھا وہ انہوں نے نہیں کیا ایف بی آر سے پیسے کیو جمع نہیں کئی ،وفاق اپنی نالائقیوں کو صوبوں پر نہ ڈالے۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہاکہ پاکستان ایک وفاق ہے یہاں حق حکمرانی عوام کا ہے اسٹیبلشمنٹ کا نہیں ،اٹھارہویں ترمیم پر

سیاسی جماعتوں نے ایک سال محنت کی ،اٹھارہویں ترمیم سے صوبے مالیاتی طورپر متوازن ہوئے ،وفاق میں مختلف ناموں سے وزارتیں دوبارہ بنائی گئی ہیں ،ہمیں کسی بھی حالت میں صدارتی نظام منظور نہیں ،اٹھارہویں ترمیم نے صوبوں کو حقوق دیئے ہیں کسی کی غلامی نہیں مانیں گے۔سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہاکہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصہ سے کٹوتی کی گئی ہے ،بلوچستان پاکستان کا آدھا حصہ ہے لیکن مرکز کی اس پر

توجہ نہیں ،قوم کو الجھا کر حکومت کرنے کے لیے ایشوز چھوڑے جارہے ہیں ،حکمران اپنے اعمال ٹھیک کریں ۔ انہوںنے کہاکہ ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس کروڑ نوکریوں کے وعدے کہاں گئے ،وفاق کو کیا مجبوری ہے ہمیں معلوم ہے ،پارلیمنٹ اور سیاسی قوتیں بیٹھ کر بات کریں اور ہمیں قائل کریں ،حکومت ہوا میں کھڑی ہے اور ملک تباہی کی طرف جارہا ہے۔سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہاکہ اتفاق کرتا ہوں کہ ہر مسئلہ پر بات چیت ہوسکتی ہے لیکن

مروجہ طریقہ سے ،حکومت کو پہلے اپنی بہتر کارکردگی دکھانا پڑتی ہے اور اپوزیشن سے بہتر ورکنگ ریلیشن شپ رکھنا پڑتی ہے،اچانک صدارتی نظام کی بات ہوتی ہے۔انہوںنے کہاکہ صدارتی نظام کس لیے ؟ کیا اس ملک میں بار بار صدارتی نظام نہیں آیا ،اس ملک کے ٹکڑے کردیے صدارتی نظام نے ،لوگ تاریخ نہیں پڑھتے۔ جب ملک دو لخت ہوا تو ملک میں صدارتی نظام تھا۔سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہاکہ قائد ایوان ہمیں درس دے رہے تھے کہ ملک

میں جمہوریت ہے آمریت نہیں ،قائد ایوان شہزاد وسیم مشرف کابینہ میں شامل تھے ۔ شہزاد وسیم نے کہاکہ آپ کی طرف بھی مشرف کابینہ کے لوگ موجود ہیں۔ مشاہد اللہ خان نے کہاکہ ہیں لیکن وہ آپ کی طرح جمہوریت کا درس نہیں دیتے حیران ہوں کہ یہ حکومت چل کیسی چل رہی ہے ،وزراء کو یا حقائق کا علم نہیں یا جھوٹ بول رہے ہیں ،علی زیدی نے کہا کہ پی آئی اے تباہ اس لیے ہوئی کہ میں نے بھائی بھرتی کرا لیے ،حکومت ثابت کردے کہ میرا

کوئی بھائی یا کزن اس وقت پی آئی اے میں ہے تو سینیٹ سے استعفیٰ دے دوں گا ۔ انہوںنے کہاکہ پی آئی اے کو موجودہ حکومت نے تباہ اور زمین بوس کردیا ،وزیر نے بغیر تصدیق کے پی آئی اے کے پائیلٹوں کے بارے بیان دیا ،انہوںنے کہاکہ پی آئی اے کی مینجمنٹ کو تین سال کی توسیع چاہیے تھے وہ مل گئی ،جعلی ڈگری والے پائیلٹوں کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیے ،سارے وزیروں کو ایک دم پریس کانفرنس کرنے کا کیڑا ہے ،ایک ریلوے

کے شیخ چلی ہیں ، سب مسخرے اکٹھے لیے ہوئے ہیں ،چلے ہیں صدارتی نظام لانے ، پلے نئی تیلہ کردی میلہ میلہ ،چھ وزیراعظم بنے گھوم رہے ہیں اورآپ صدارتی نظام کی بات کر رہے ہیں ،پہلے اپنا گھر تو سنبھالو ،آپ سلیکٹڈ ہیں ، آپ انگلی پر سوار ہوکر آئے ہیں اور انگلی نکلنے والی ہے ۔قائد ایوان کے اعتراض پر مشاہداللہ نے جواب دیا کہ عمران خان نے خود انگلی کی بات کی تھی ۔انہوںنے کہاکہ ایسی ایسی کرپشن ہو رہی ہے کچھ عرصے بعد پتہ

چلے گا ،بہت سے لوگ جیل میں ہونگے۔سینیٹر مولانا عطاء الرحمن نے بتایاکہ بہت عرصے بعد آج ایوان میں بات کرنے کا موقع ملا ہے ،اس وقت جو موضوع زیر بحث ہے اس پر گفتگو کروں گا ،این ایف سی ایوارڈ کو سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت زیر بحث لایا جارہا ہے ،اس وقت اٹھارویں ترمیم کو زیر بحث لانا یا این ایف سی ایوارڈ کو زیربحث لانا ملک کو کمزور کرنے کی بات ہے ،جمعیت علماء اسلام نے جب یہ باز گشت سنی پہلی بار تو ہم نے

تمام اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان کے سربراہان سے رابطے کیے ،چاروں صوبوں میں ہم نے آل پارٹیز کانفرنسز کی ،بہت جلد ہم قومی سطح پر آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے ،اے پی سی کا موضوع بھی این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم ہے ،یہ تمام افراد صرف مہرے ہے، اصل لوگ سامنے نہیں آرہے ،اٹھارویں ترمیم میں بھی ان کو جو درد ہے وہ این ایف سی ایوارڈ نہیں ہے ،اٹھارویں ترمیم میں انکا اصل درد انکے اپنے اختیارات کی

کمی ہے ،یہ تمام معزز افراد انکے مہرے ہیں ور انکے کہنے پر کام کر رہے ہیں،آج بھی جو افراد پس پردہ حکومت کر رہے ہیں ،انکوں اس قوم سے کچھ نہیں ہے وہ بس باہر کے ممالک کو خوش کر رہے اور اس ملک کو کھا رہے ہیں ،میں ان کو بتادیتا ہو کہ اٹھارویں ترمیم کو اگر چھیڑا تو یہ ملک ہی نہیں رہے گا ۔ انہوںنے کہاکہ آج تک ان لوگوں کے بجٹ کا کوئی حساب نہیں ہے ،آپ لوگوں نے آج تک کونسی جنگ لڑی ہے ،اپنا کام آپ سے ہوتا نہیں ہے

اور ملک کے اندر اس طرح کی بحث چھیڑ کر آپ لوگ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔علی محمد خان نے مولانا عطاء الرحمن کی گفتگو پراعتراض اٹھایا ۔ علی محمد خان نے کاہکہ گزشتہ روز چار جوان شہید ہوئے اور آپ فوج پر تنقید کررہے ہیں۔ مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ آپ بیج میں کون ہوتے ہے بولنے والے ،آپ کو تو میں نے کچھ نہیں بولا، آپ لوگوں کو دیہاڑی پوری ملے گی۔انہوںنے کہاکہ میں کسی اور کے خلاف بات کر رہا ہو انکو کیو تکلیف

ہورہی ہے ، آج انکی دیہاڑی اچھی لگ گئی ہے۔بیرسٹر سیف نے مولانا عطاء الرحمن سے الفاظ واپس لینے کا مطالبہ کردیا ۔ محمد علی سیف نے کہاکہ آپ بل پر بات کریں فوج پر نہ کریں۔ سینیٹر مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ آپ کو کیو تکلف ہورہی۔ بیرسٹر محمد علی سیف مولانا عطاء الرحمن پر برہم ہوگئے اور کہاکہ آپ این ایف سی ترمیمی بل پر قانونی دالائل دیں۔سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ اپوزیشن نے پہلے دن سے تعمیری تنقید نہیں کی

،سارے ادارے نقصان میں چھوڑ کر چلے گئے،طرز حکومت یہ تھا سرے محل بناو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بنائے ،انکی ٹی ٹیز اوپر گئیں عوام نیچے گئے،یہ کہتے تھے ملکر لوٹیں گے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں گے ،کسی نے پوچھنا تک نہیں تھا ۔چیئرمین سینٹ نے سینٹر فیصل جاوید کو ایجنڈے پر بات کرنے کی ہدایت کی ۔ فیصل جاوید کی تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان نے شور شرابہ کیا ۔سنیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ پانامہ عالمی انکشاف تھا عمران خان پر

مقدمہ کیا گیا ،عمران خان نے چالیس سالہ حساب دیا ،یہ ایک قطری خط ایک جعلی ٹرسٹ ڈیڈ دے سکے ،اٹھارہویں ترمیم اچھی چیز ہے کریڈٹ پی پی کو جاتاہے لیکن جائزہ تو لیا جا سکتاہے عوام کے کام رکے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ وفاق صوبوں پر ڈال رہا ہے صوبے وفاق پر ،عمران خان بیرون ملک جائیدادیں بنانے نہیں آیا ،عمران خان نے وزیر اعظم ہاوس کے اخراجات کم کیے۔بیرسٹر محمد علی خان سیف نے کہاکہ میں نے پسماندہ صوبوں کو حق دینے کی

بات کی ،الزام دیا گیا میں اٹھارہویں ترمیم این ایف سی کو روک بیک کر رہا ہوں ،بات جمہوریت کی کرتے ہیں پارٹیوں میں جمہوریت کہاں ہے ،داد سے شروع ہو کر پوتے حکمرانی کر رہے ہیں ،کیا یہ اشرافیہ نہیں ہے ؟۔ انہوںنے کہاکہ کہا گیا شیخ مجیب نے کہا اسلام آباد کی سڑکوں پر پٹ سن کی بو آتی ہے ،آج لاڑکانہ کی سڑکوں سے سرائے محل کی بو آ رہی ہے،میرے اوپر فوری الزام تراشی کی گئی ،جب ترمیم دو تہائی اکثریت سے ہونی ہے تو

پھر ڈر سکا ،یہ اگر کہتے ہیں اگر میں فوج کا آدمی ہوں ،میں ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں میں فوج کا آدمی ہوں کیونکہ میری فوج انڈیا یا اسرائیل کی نہیں ،انکے پاس اتنا پیسہ ہے جتنا کارون اور نمرود کے پاس بھی نہیں تھا۔بیرسٹر محمد علی سیف نے کہاکہ میں نے نیشنل فنانس کمیشن کے ایوارڈ میں تبدیلی کے طریقہ کار پر بات کی تھی ،کوئی فوج اور صدارتی نظام کی بات کر دیتاہے ،کسی کو سازش کی بو آجاتی ہے ،اشاروں میں الزام لگانا پرانا

وطیرہ بن چکا ہے ،میں این ایف سی ایوارڈ اور 18ویں ترمیم کو رول بیک نہیں کر رہا ،رضا ربانی بتائیں کہ اشرافیہ ہے کون ؟ ،چند سال قبل کون حکومتوں میں رہا ہے ،مجھے فوج اور اسٹیبلیشمنٹ کا ایجنٹ کہا جاتا ہے ،اتنی دولت فرعون کے پاس نہیں تھی جتنی آپ کے پاس ہے ،ڈکٹیٹر شپ کی باتیں کرنیولے پہلے اپنی پارٹی دیکھ لے ، مجھے لاڑکانہ کی سڑکوں سے اس دولت کی بو آرہی ہے جو سرے محل اور ایون فیلڈ کی جائیداوں سے بنائی ۔

محمدعلی سیف نے شیری رحمن پرطنز کیا کہ بیٹھ جائیں محترمہ اگلے سینیٹ الیکشن میں آپکا ووٹ پکا ہے ،18ویں ترمیم کو صحیفہ نہیں ہے اس پر ضرور بات ہوگی ،اپوزیشن کس بات سے ڈر رہی ہے ، سینیٹ میں اکثریت ان کی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ اپنی مرغی کو کنٹرول کرو کہ وہ اپنے پڑوسی کے گھر جا کر انڈہ کیوں دے ،سرخ انقلاب کے نعرے لگانے والے ذاتی حملہ نہیں کرنے چاہئے ،مولانا اس قابل نہیں کہ فوج کو تنقید کرنے والے مولانا پر کوئی

بات کی جائے ۔ انہوںنے کہاکہ آئو کشمیر میں گھسو اور آزاد کروائوں، پاکستان کی فوج آپ کے پیچھے ہوگی ،میں پاکستان کی فوج کا حامی ہوں یہ اسرائیل یا انڈیا کی فوج نہیں ہے ،سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بیھٹے لوگوں کی دولت کا پہلے پتہ کروالیں ،الزام لگانے والے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔ اجلاس کے دور ان بیرسٹر سیف کی جانب سے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ میں ترمیم سے متعلق بل پر ووٹنگ ہوئی ،سینیٹ نے کثرت رائے سے بل پیش

کرنے کی تحریک مسترد کر دی،بل کے حق میں 17اور مخالفت میں 25 ووٹ آئے،اپوزیشن کے اعتراض پر چیئرمین سینیٹ نے بل پر رائے شماری کروائی۔ اجلاس کے دور ان کورونا لاک ڈائون سے متاثرہ افراد کی مدد اور بحالی کیلئے فنڈز مختص کرنے کی قرار داد پیش کی ،قرار داد سینیٹر جاوید عباسی نے پیش کی ،ایوان نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی ۔ اجلاس کے دور ان خلیجی ممالک میں پھنسے صوبہ کے پی کے مسائل واپسی پر

قرنطینہ سینٹرز میں نامناسب سہولیات پر ایوان میںقرارداد پیش کی گئی ،قرار داد سینیٹر مشتاق نے پیش کی ایوان نے قرار داد منظور کر لی ،قدرتی آفات میں تباہ شدہ فصلوں کی انشورنس کی قرار داد سنیٹر محسن عزیز نے پیش کی ایوان نے قرار داد منظور کر لی۔ سینیٹر مرزا آفریدی نے سابقہ فاٹا سے متعلق تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ ہمیں تو این ایف سی کے پئسے نہیں مل رہے، فاٹا کے عوام کو حقوق نہیں دیئے جا رہے، فاٹا میں نہ تعلیم کی

سہولت ہے نہ ہی صحت کی، فاٹا کو ضم کرنے سے مسئلے حل نہیں ہو پا رہے تو ہمیں اپنا صوبہ دیں۔مرزا آفریدی نے کہاکہ فاٹا میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر نہیں، سابقہ فاٹا کے ساتھ یہ ظلم بند کیا جائے، فاٹا مسئلے پر وزیراعظم سے ملاقات کروائی جائے، وزیراعظم سے ملاقات کر کے تمام حقائق سے آگاھ کرنا چاہتے ہیں، فاٹا کی صورتحال پر انتہائی افسوس ہوتا ہے۔اجلا س کے دور ان شیری رحمن نے ٹڈی دل سے ملکی معیشت کو 6سو ارب

کے نقصان کی تحریک ایوان میں پیش کر دی اور کہاکہ ساٹھ فیصد پاکستانیوں کو غذائی قلت کا سامناہے،اسپرے کیلئے جہاز چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا ،ملک بھر سے جو کسان ویڈیو بھیج رہے ہیں دیکھ کر خوف آتاہے ،کئی علاقوں میں گاڑیوں کے سامنے ٹڈی آ رہے ہیں۔شیری رحمن نے کہاکہ آٹے اور چینی کے معاملے پر انکوائری کی گئی ،بڑا شور مچایا گیا آج سب باہر بیٹھے ہیں۔ وفاقی وزیر سید فخر امام نے کہاکہ ٹڈی دل پرانے زمانے سے بہت

تباہ کن ثابت ہوتا رھا،ٹڈی دل کا افزائش افریقہ میں زیادہ ہوتی رہی ہے،ایک دن میں ڈیڑھ سو کلومیٹر سفر کرتا ہے،ایک ٹڈی دل سے تین سو گیارہ ٹڈیاں جنم لیتی ہیں،حکومت پاکستان ٹڈی دل کے تدارک کے لئے بھرپور اقدامات کر رہی ہے،گزشتہ سال مارچ میں پاکستان میں ٹڈی دل دوبارہ داخل ہوا،ٹڈی دل کے گزشتہ سال کے حملے کو فوڈ سیکیورٹی کا ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن دیکھ رھا تھا۔ انہوںنے کہاکہ ٹڈی دل بہت بڑے گروہ کی صورت میں

حملہ کرتا ہے،ٹڈی دل سبز پتوں کو کھاتا ہے،اس سال افغانستان اور ایران کے راستے ٹڈی دل پاکستان آیا،ٹڈی دل کی بریڈنگ چولستان اور تھرپارکر میں ہوئی،پہلی مرتبہ ٹڈی دل واپس افریقہ نہیں گیا،بلوچستان میں بارشوں کی وجہ سے موسم سرد ہوگیا،بلوچستان میں یہ بریڈ کر رھا تھا اور وہاں کئی جگہ پر موجود ہے،کے پی اور پنجاب میں اس وقت ٹڈی دل زیادہ نہیں رھا،ہم عالمی ادارہ خوراک و زراعت ایف اے او کے ساتھ رابطے میں ہیں،ہمارے پاس تین چھوٹے جہاز اور پانچ ہیلی کاپٹر ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے۔ انہوںنے کہاکہ ہم چھ ایئرکرافٹ خرید جبکہ پانچ رینٹ پر لے رہے ہیں،ہم ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے سپرے لے رہے ہیں،

سپرے صرف برطانیوی کمپنی بناتی ہے،ہمیں جاپان برطانیہ نے لمڈا سپرے دئے ہیں،ھم باھر سے سپرے کرنے والے مشینیں لے رہے ہیں،ہمیں ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے وہیکلز اور ٹیکنیکل افراد کی بہت ضرورت ہے، ٹڈی دل سے پاکستان میں کم سے کم نقصان ہوا ہے،جہاں جہاں ٹڈی دل نے نقصان ہوا وہاں ہمیں معاوضہ دینا چاہئے،ہماری صوبوں کو تجویز ہے کہ وہ کسانوں کو معاوضے دیں،حکومت نے 26ارب50کروڑ کا نیشنل ایکشن پلان بنایا،جہاز، مشینیں، وہیکلز خریدے جائیں گے،حم سمجھتے ہیں وفاقی حکومت 14ارب اور صوبے 12ارب دیں،صوبوں سے ھماری گفتگو جاری ہے، صوبے کہتے ہیں 3 ارب سے زیادہ نہیں دے سکتے،پاکستان میں 45ھزار مواضعات ہیں، یہ نیشنل کاز اور بہت بڑا چیلنج ہے،صومالیہ سے ٹڈی دل کے ایک اور حملے کا خطرہ ہے۔ بعد ازاں سینٹ اجلاس بدھ شام چار بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔
٭٭٭

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…