پاکستان میں عیدالاضحی پر کورونا وائرس کے کیسز میں بے تحاشا اضافے کا خدشہ،دوسری لہر انتہائی خطرناک ہو گی، ماہرین کا انتباہ

8  جولائی  2020

کراچی(این این آئی)پاکستان میں جولائی کے پہلے ہفتے سے کرونا وائرس کے کیسز میں کمی ہونا شروع ہوگئی ہے اور سوائے کراچی کے پورے ملک میں کورونا وائرس کے کیس کم ہو رہے ہیں، دوسری جانب پاکستانی عوام میں کرونا کا ٹیسٹ کرانے کے رجحان میں بھی شدید کمی دیکھنے میں آئی ہے، عیدالاضحی پر کرونا وائرس کے کیسز میں بے تحاشہ اضافے کا خدشہ ہے، اگر احتیاط نہ کی گئی تو پاکستان میں کرونا وائرس کی

دوسری لہر نہایت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، پاکستان میں کرونا وائرس مریضوں کو کس طرح متاثر کر رہا ہے یہ جاننے کے لیے قومی سطح پر سروے کا آغاز کردیا گیا ہے، قومی سروے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما), قومی ادارہ برائے صحت اسلام آباد اور ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ نے مشترکہ طور پر شروع کیا ہے جس کا مقصد پاکستانی مریضوں میں کرونا وائرس کے مرض کی شدت، شرح اموات، نفسیاتی اثرات اور مختلف بیماریوں میں مبتلا مریضوں میں مرض کی علامات اور شدت جاننا ہے۔ان خیالات کا اظہار پیما، قومی ادارہ برائے صحت اسلام آباد اور ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ کے ذمہ داران نے کراچی میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔پریس کانفرنس سے ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبد الباسط، پیما کے مرکزی ڈاکٹر افضل میاں، ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر ذکی الدین احمد، قومی ادارہ برائے صحت اسلام آباد کے سائینٹفک افسر ڈاکٹر ممتاز علی خان، پیما شعبہ خواتین کی ڈاکٹر نوید بٹ اور ڈاکٹر امتل زرین نے بھی خطاب کیا۔پروفیسر ڈاکٹر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں ہونے والی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کرونا وائرس بلڈ پریشر میں مبتلا افراد کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے، اس کے بعد دوسرے نمبر پر ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا افراد اس مرض سے متاثر ہوتے ہیں، دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد کرونا وائرس سے متاثر

ہونے والے افراد میں تیسرے نمبر پر ہیں جبکہ سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد بہت ہی کم تعداد میں اس وائرس سے متاثر ہورہے ہیں, ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں مقامی ڈیٹا موجود نہیں ہے اس لیے ماہرین کو مغربی اور چینی ماہرین کی تحقیق پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے، اب ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ نے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور قومی ادارہ برائے صحت کے تعاون سے اس مرض میں مبتلا لوگوں پر تحقیق

شروع کردی ہے اور جیسے ہی یہ سروے مکمل ہوگا اس کا ڈیٹا، اعداد و شمار اور سفارشات وفاقی حکومت کو پیش کی جائیگی تاکہ اس کی بنیاد پر بہتر فیصلے کیے جاسکیں۔پروفیسر عبد الباسط نے بتایا کہ سروے کے نتیجے میں نہ صرف کرونا وائرس سے متاثرہ افراد میں علامات اور بیماری کی شدت کو سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ اس کے نتیجے میں بہتر علاج مہیا کرنے میں بھی مدد ملے گی جس کے نتیجے میں مزید انسانی جانیں بچائی جاسکیں گی۔

قومی ادارہ برائے صحت کے سائینٹفک افسر ڈاکٹر ممتاز علی خان نے بتایا کہ پاکستان میں جولائی کے پہلے ہفتے سے کرونا وائرس کے مثبت کیسز میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام میں ٹیسٹ کروانے کے رجحان میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے جو کہ ایک تشویش ناک عمل ہے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عید الاضحی کے دنوں میں کرونا وائرس کے کیسز میں بے تحاشا اضافے کا

امکان ہے، اور اگر احتیاط نہ برتی گئی تو اس مرض کی دوسری لہر کافی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر ذکی الدین احمد نے بتایا کہ اس سروے کے دوران کرونا وائرس کا ٹیسٹ کرانے والے دو ہزار دو سو افراد کے انٹرویوز کیے جائیں گے اور ان سے سے مرض کی علامات، مرض کی شدت، کرونا وائرس کے علاوہ دیگر بیماریوں کی تفصیل اور نفسیاتی اثرات سے متعلق سوالات کیے جائیں گے، ان

کا کہنا تھا کہ یہ سروے پاکستانی حکام کو اس مرض کی نوعیت اور شدت کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد دے گا، انہوں نے اس موقع پر کورونا وائرس کی وبا کے دوران ٹیکنالوجی کے استعمال کے فروغ کو بھی خوش آئند قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ہزاروں مریضوں کو طبی سہولیات مہیا کی ہیں جب کہ آنے والے دنوں میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے ایک اور سہولت بھی شروع کی جارہی ہے۔پیما کے مرکزی صدر ڈاکٹر افضل میاں کا کہنا تھا کہ

یہ سروے موجودہ حالات میں وقت کی اہم ترین ضرورت تھا کیونکہ اس کے ذریعے پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کو صحیح طریقے سے جانچنے میں مدد ملے گی۔انہوں نے اس موقع پر ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کی قربانیوں کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان میں درجنوں ڈاکٹر اور طبی عملے کے افراد کورونا وائرس میں مبتلا ہو کر جاں بحق ہو چکے ہیں، لوگوں سے درخواست ہے کہ طبی عملے کا احترام کریں اور ان کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اس بیماری سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو محفوظ رکھیں۔پیما شعبہ خواتین کی ذمہ داران ڈاکٹر نوید بٹ اور ڈاکٹر امتل زرین نے کرونا وائرس کے مرض میں مبتلا خواتین خاص طور پر حاملہ خواتین کے مسائل کی نشاندہی کی۔

موضوعات:



کالم



اللہ کے حوالے


سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…