’’ فوج نے بھٹو کو وزیراعظم کی کرسی سمیت اٹھا کر باہر پھینک دیا ‘‘ بھٹو نے کرسی کے بازو پر مکا مار کر کہا ”میں کم زور ہو سکتا ہوں لیکن یہ کرسی کم زور نہیں‘‘نواب زادہ نصراللہ نے اس وقت بھٹو کا قوم سے خطاب دیکھ کر کیا پیش گوئی کی تھی جو سچ ثابت ہوئی تھی ، تہلکہ خیز انکشاف

3  جولائی  2020

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’کرسی کسی کی وفادار نہیں ہوتی جناب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 12 مارچ 1977ءکو قوم سے خطاب کیا تھا‘ الیکشن 7 مارچ کو ہوئے تھے‘ اپوزیشن کی نو جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد کے نام سے متحدہ اپوزیشن بنائی اور بھٹو صاحب کے خلاف الیکشن میں کود پڑے‘ قومی اسمبلی کی کل 200 سیٹیں تھیں‘

بھٹو صاحب نے 155 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ پی این اے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے باوجود بمشکل صرف 36 سیٹیں لے سکی۔اپوزیشن نے دھاندلی کا الزام لگا کر الیکشن کے نتائج مسترد کر دیے‘ ملک میں تحریک شروع ہو گئی اور شہرشہر احتجاج ہونے لگا‘ ذوالفقار علی بھٹو اندر سے وڈیرے تھے‘ احتجاج ان کی طبع نازک پر گراں گزرا چناں چہ وہ 12 مارچ کو قوم کے سامنے بیٹھ گئے‘ پاکستان ٹیلی ویژن کے ذریعے عوامسے خطاب کیااور خطاب کے دوران جذباتی ہو گئے‘بھٹو نے کرسی کے بازو پر مکا مار کر کہا ”میں کم زور ہو سکتا ہوں لیکن یہ کرسی کم زور نہیں‘ میں جس کرسی پر بیٹھا ہوں یہ بہت مضبوط ہے“ وہ جب یہ کہہ رہے تھے تو ان کے لہجے میں غرور اور چہرے پر تکبر تھا‘ نواب زادہ نصر اللہ اس وقت قومی اتحاد میں شامل تھے‘ نواب صاحب کو اللہ تعالیٰ نے لہجے کی شائستگی اور زبان کی شستگی سے نواز رکھا تھا‘ وہ یہ تقریر سن رہے تھے‘ وہ کرسی کے بازو پر بھٹو کا بازو دیکھ کر مسکرائے اور ساتھیوں سے کہا ”مبارک ہو‘ بھٹو اب جا رہا ہے“ ساتھیوں نے حیرت سے پوچھا ”آپ کیا فرما رہے ہیں“ ۔نواب زادہ صاحب بولے ”تاریخ گواہ ہے جب بادشاہ اپنے بجائے اپنے تخت کی قسمیں کھانے لگیں تو ان کے جانے کا وقت آ چکا ہوتا ہے‘ بھٹو صاحب اب اپنی ذات کی بجائے کرسی پر اعتماد کر رہے ہیں اور کرسیاں کبھی کسی کی وفادار نہیں ہوتیں“ نواب زادہ نصراللہ کی یہ پیش گوئی وقت نے سچ ثابت کر دی‘ مارچ کے بعد مہینے‘ ہفتے اور دن بدلتے رہے اور بھٹو اور ان کی کرسی کم زور ہوتی رہی یہاں تک کہ 5 جولائی 1977ءآ گیا اور فوج نے بھٹو صاحب کو ان کی مضبوط کرسی سمیت اٹھا کر باہر پھینک دیاتاہم یہ درست ہے فوج بھٹو کو تاریخ اور سیاست سے نہ نکال سکی‘ یہ آج بھی ہر جیالے کے دل میں زندہ ہیں مگر یہ بھی سچ ہے بھٹو صاحب کو اپنی مضبوط کرسی دوبارہ نصیب نہ ہو سکی‘ وہ ایک افسوس ناک موت کا شکار ہو گئے۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…