’’لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں ، جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے‘‘غلطیوں کو سنبھالنا وزیر اعظم کا کام ہے اگر کہیں گے اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے تو پھر ۔۔۔ حکومت سے بڑا مطالبہ

19  جون‬‮  2020

اسلام آباد(آن لائن)سابق وزیراعظم ورہنما پیپلز پارٹی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ   کورونا وائرس سے لڑنے کے لئے حکومت کی کوئی تیاری نہیں، جو بجٹ پیش کیا گیا وہ بہت نقصان دہ بجٹ ہے ،ہمارے ملک کے ہزاروں لوگ بیرون ملک ہیں جو پھنسے ہوئے ہیں کیا ہم اس قابل نہیں کہ ہم ان کو واپس لا سکیں،میرا مطالبہ ہے کہ حکومت بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو اپنے خرچے پر واپس لایا جائے،

ایسے حالات میں بس لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے ۔ ٹڈی دل سے کئی اضلاع متاثر ہوئے ہیں لیکن اس کی روک تھام میں حکومت ناکام رہی ہے، ۔ لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں ہیں ۔ 1947ء میں اگر ان کو حکومت دی ہوتی تو انہو ںنے کہنا تھا کہ انگریزوں نے اس ملک کا بیڑہ غرق کیا ،وزیر اعظم پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں لیکن وہ کراچی جاتے ہیں اور وزیر اعلی سے نہیں ملتے ۔ اس رویئے سے پاکستان کا نقصان ہو رہا ہے ۔غلطیوں کو سنبھالنا وزیر اعظم کا کام ہے اگر کہیں گے اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے تو پھر کیسے اتفاق رائے پیدا ہو گا ۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں آئندہ  مالی سال کے بجٹ  پر بحث میں  حصہ لیتے ہوئے   راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ملک میں غیر معمولی حالات میں کورونا وائرس کی وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ جب ہم حالت جنگ میں ہیں اور ہماری زندگیاں خطرے میں ہیں اس حوالے سے ہم نے جو ماحول بنانا تھا کیا وہ ہم نے پیدا کیا ہے ۔اپوزیشن کی ذمہ داری ہے لیکن سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت وقت کی ہے ۔ ان حالات میں عوام کو حوصلہ دینے اور یکجا کرنے کی ضرورت تھی جس میں ہم کامیاب نہیں ہو سکے ۔ بہت دکھ کی بات ہے کہ ان حالات میں بھی ہم ایک نہیں ہو سکے اور غیر یقینی کی صورت حال پیدا کی گئی اور کورونا وائرس کے  حوالے سے بروقت فیصلہ نہیں کر سکے ۔ بجٹ کو میں دیکھا ہے کہ یہ ا یک ڈنگ پٹائو پروگرام کیا گیا ہے ۔  ڈبلیو ایچ او نے جو ڈائریکشن دی ہے حکومت کی اس حوالے سے کیا پالیسی اپنائی گئی ہے ۔

سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ کورونا وائرس کے حوالے سے حکومت کو جواب دہ بنایا ہے ۔ ایران بارڈر اور پی آئی اے کے  حوالے سے  بھی ہم نے حکومت کو پابند بنایا تھا ۔ راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ آزاد کشمیر کے چودھری یاسین اس مرض کا شکار ہوئے ان کے لئے ساری رات اسلام آباد اور راولپنڈی کے ہسپتالوں میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ملی ۔ ان کو  وینٹیلیٹر کی ضرورت ہے سب کی

جان اہم ہے رات 11 بجے جا کر بڑی مشکل سے ایک بیڈ ملا اور اور آج چودھری یاسین زندگی اور موت کی کشمکش  میں ہیں ۔ کشمیر کے لیڈر آف اپوزیشن کیلئے ایک بیڈ اور وینٹیلیٹر ملنا بہت مشکل تھا اس کا مطلب ہے کہ حکومت کے پاس کوئی بندوبست نہیں ہے ۔وزیر اعظم  ہمارے رول ماڈل ہیں جن کو دیکھ کر لوگ اندازہ لگاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں تین چار وزیر ایک ہی

صوفے پر بیٹھے تھے اور انہوں نے ماسک بھی نہیں پہنے تھے ۔ انسان کی زندگی بچانے کے لئے ہمیں ہر حد تک جانا ہے اگہر خود احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کریں گے تو لوگ کیسے آپ کی بات مانیں گے ۔پہلے خود خطرے کو سمجھیں اور پھر دوسروں کو اس کے بارے میں بتائیں ۔ہیلتھ کے لئے 17 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ 80 ارب روپے ڈیم کیلئے رکھے گئے ہین کہیں ارسطو نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ حکومت نے

سب کچھ کورونا وائرس پر ڈال دیا ہے ۔ کورونا وائرس سے پہلے حکومت نے کیا کہا ہے ۔ افراط زر سے عام آدمی کی زندگی مشکل کر دیتی ہے ۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں ۔ پنشنرز کی پنشن میں بھی اضافہ نہیں کیا گیا ۔ ایک غریب کو زیادہ غریب کر کے دوسرے غریب کی مدد کی جا رہی ہے ۔ کورونا وائرس سے لڑنے کے لئے حکومت کی کوئی تیاری نہیں ہے اور جو بجٹ پیش کیا گیا وہ بہت نقصان دہ بجٹ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے ہزاروں لوگ بیرون ملک ہیں جو پھنسے ہوئے ہیں کیا ہم اس قابل نہیں کہ ہم ان کو واپس لا سکیں ۔ سعودیہ ، دبئی ، شارجہ ، امریکہ ، برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی کیا پوزیشن ہے ۔ ایسے حالات میں بس لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے ۔ ٹڈی دل سے کئی اضلاع متاثر ہوئے ہیں لیکن اس کی روک تھام میں حکومت ناکام رہی ہے ۔میرا مطالبہ ہے کہ حکومت بیرون ملک پھنسے

پاکستانیوں کو اپنے خرچے پر واپس لایا جائے ۔ لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں ہیں ۔ 1947ء میں اگر ان کو حکومت دی ہوتی تو انہو ںنے کہنا تھا کہ انگریزوں نے اس ملک کا بیڑہ غرق کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں لیکن وہ کراچی جاتے ہیں اور وزیر اعلی سے نہیں ملتے ۔ اس رویئے سے پاکستان کا نقصان ہو رہا ہے ۔غلطیوں کو سنبھالنا وزیر اعظم کا کام ہے اگر کہیں گے

اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے تو پھر کیسے اتفاق رائے پیدا ہو گا ۔ وزیر اعظم کو ماننا چاہئے کہ ان کے رویے کا مسئلہ ہے آپ سیاستدان بنیں ۔ ملک ایسے نہیں چلتے ۔ پہلا بجٹ ہے جس میں پنک بک ہی نہیں ہے یہ ایک نئی روایت ڈال دی گئی ہے اس بک کے بغیر کیسے کٹ موشن آئیں گے ۔ دو سال سے لوکل باڈیز نہیں ہیں اس کو اس لئے ختم کیا گیا کیونکہ آپ کی اکثریت نہیں تھی ۔پنجاب اور خیبرپختونخوا میں

وزیر اعظم کے اپنے وزیر اعلی ہے جہاں جا کر آپ نے کہا کہ کورونا وائرس ایک بخار ہے ایک فلو ہے اور آج اتنی اموات ہو رہی ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے ۔ آئی ایم ایف نے بھی کورونا وائرس کے لئے سہولیات دی ہیں ۔ بی آئی ایس پی کا نام بدل کر کہاکہ آپ نے عوام کی خدمت کر لی ہے ۔ حکومت ہر جگہ پر فیل ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر مل کر کام کیا جائے تو شاہد مسائل کا حل نکل آئے ۔ ایسی صورت حال میں

متنازعہ معاملات کو چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے ۔آپ فرشتے نہیں اور آپ پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں ۔ حکومت صوبوں کے فنڈز نہیں روک سکتے اس کی کیا وجہ ہے ؟ ایسی لکیریں کھینچ رہے ہیں جن کو مٹانا مشکل ہو گا ۔ ایک کروڑ 50 لاکھ گھروں کا وعدہ کدھر گیا ۔پلے نہیں دھیلا اور کردی پھر رہیہے میلہ میلہ ۔میانوالی میں دو نواب گزرے ہیں ایک ہیں نواب آف کالا باغ ا یک نواب ہیں سبز باغ پر سوشل میڈیا پر

چل رہ اہے میرے حلقے میں پاکستان پٹرولیم کا کنواں ہے جہاں سے کافی عرصے سے تیل اور گیس نکل رہے ہیں وہاں سے ایک خاندان سے زمین لے لی گئی اور جو وعدہ کیا ان کو دیا نہیں گیا ۔بچے کو نوکری دینے کا وعدہ کیا لیکن اس خاندان کو کوئی نوکری نہیں دی گئی ۔ یونیورسٹی کیلئے 100 ایکڑز زمین لی گئی تھی اس کو 15، 20 سال ہو گئے ہیں ۔ گوجر خان میں جی ٹی روڈ کے اوپر اس  جگہ پر یونیورسٹی بنائی جائے ۔ حکومت کو سب سے پہلے کورونا وائرس کے خاتمے کے لئے کوشش کرنی چاہئے ۔

موضوعات:



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…